آئینہِ قرآن میں مقامِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم
(منقول)
قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے بہت سے مقامات پر اپنے حبیب اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر و منزلت انتہائی خوبصورت انداز میں واضح فرمائی ہے۔ جس سے ہمارے آقا نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و رفعت اور بارگاہِ الہیہ میں کمال شانِ محبوبیت آشکار ہوتی ہے۔
قرآن حکیم میں اللہ تعالی نے کم و بیش 89 مقامات پر یا ایھا الذین آمنو ۔۔ اے ایمان والو! فرما کر براہ راست مومنین سے خطاب فرما کر جتنا بھی قرآن اتار ا ان میں کثرت سے مقام، شان، ادب و تعظیم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سکھائی ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پرایمان و عقیدہ قائم کرنے کا وقت آئے تو پھر ہمیں ذاتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ پہلو دیکھنا ہوگا جو اللہ رب العزت ہمیں قرآن حکیم میں دکھاتا ہے۔ مثال کے طور پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہ الہی میں اپنے مقام بندگی پر کھڑے ہوکر اتنی طویل عبادت کرتےہیں کہ قدمین شریفین متورم ہوجاتے ہیں۔ یہ بندگی کی انتہا ہے۔ ہمیں بطور امتی جب بارگاہ الہی میں آداب بندگی بجا لانا ہو تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی اسوہ کامل کی پیروی کرنا ہے۔ لیکن جب مقام اور شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعین کرنا ہو اور عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو قلب و روح میں جانگزیں کرنے کا مرحلہ ہو تو پھر ہمیں دیکھنا ہوگا کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدمین شریفین متورم ہونے پر بارگاہ الہیہ سے کیا جواب اور رد عمل آتا ہے ۔
قرآن مجید کو بنظر غور دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اور مقام شان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہ الہی میں اپنے مقام بندگی پر کھڑے ہوکر اتنی طویل عبادت کرتےہیں کہ قدمین شریفین متورم ہوجاتے ہیں۔ اس پر بارگاہ الہیہ سے حضرت جبریل علیہ السلام کو اتارا جاتا ہے۔ قرآن بنایا جاتا ہے کہ ۔۔
مَا اَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَىO “القرآن ۔ ۲۰:۲”
“اے محبوبِ مکرّم!” ہم نے آپ پر قرآن “اس لئے” نازل نہیں فرمایا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیںo
معرفت حاصل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس نظر سے دیکھو ۔ جس سے اللہ تعالی اپنے محبوب کو ہمیں دکھانا چاہتا ہے۔ جس جس شان سے اللہ رب العزت اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعارف ہمیں کرواتا ہے ۔
کبھی شہرِ ولادتِ مصطفیٰ (مکہ) کی قسم کھا کر،
(لا اقسم بھذالبلد۔۔ القرآن)
کبھی حضور اکرم کی عمر مبارک کی قسم کھا کر
(لعمرک۔۔ القرآن)
بلکہ اللہ رب العزت تو اپنی قسم بھی خود کو ربِ مصطفیٰ کہہ کر کھاتا ہے
(فلا وربک لا یومنون حتیٰ یحکموک ۔۔۔ القرآن)
کبھی مقام قاب قوسین او ادنیٰ پر بٹھا کر
(ثم دنی فتدلی فکان قاب قوسین او ادنیٰ۔۔ القرآن)
تو کبھی ذکرِ محبوب کو انتہائی بلندی دے کر
(ورفعنالک ذکرک۔۔ القرآن)
کبھی کائناتِ ارض و سما کی ہر کثرت عطا کرکے
(انا اعطینٰک الکوثر۔۔ القرآن)
کبھی حضور اکرم کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دے کر
(یداللہ فوق ایدیھم ۔۔ القرآن)
کبھی حضور اکرم پر سبقت لےجانے کو خود پر سبقت لےجانا قرار دے کر
( لا تقدمو بین یدی اللہ ورسولہ ۔۔ القرآن)
کبھی حضور اکرم کی اطاعت کو اپنی (اللہ کی) اطاعت قرار دے کر ،
(ومن یطع الرسول فقد اطاع اللہ ۔۔ القرآن)
کبھی حضور اکرم کی رضا کو اپنی (اللہ کی) رضا قرار دے کر ،
(واللہ ورسولہ احق ان یرضوہ۔۔ القرآن)
کبھی حضور اکرم کو دھوکہ دینے کو خود (اللہ کو) دھوکہ دینا قرار دے کر
(یخدعون اللہ والذین امنو۔۔القرآن)
کبھی حضور اکرم کو اذیت دینے کو خود اللہ کو اذیت دینا قرار دے کر
(ومن یشاقق اللہ ورسولہ ۔۔۔۔ وفی المقام الآخر ۔۔۔ والذین یوذون اللہ ورسولہ ۔۔ القرآن)
کہیں حضور اکرم کو عطاکردہ دائمی علم الہی کے فیض کا ذکر فرمایا
(سنقرئک فلا تنسیٰ ۔۔ القرآن)
کہیں حضور اکرم کو عطائے الہی کے فیض سے علم غیب کی وسعتوں کا ذکر فرمایا
(وما ھو علی الغیب بضنین ۔۔ القرآن)
کبھی حضور اکرم کو روز قیامت ، بعد از خدا سب سے اعلی مقام و منصب " مقام محمود " کا وعدہ دینا
(عسیٰ ان یبعثک ربک مقام محمودا ۔۔ القرآن)
بلکہ اللہ رب العزت تو حضور اکرم کو ہر وقت نگاہِ الہی میں رکھنے کی بات بھی قرآن میں فرماتا ہے۔
اللہ پاک نے فرمایا ۔۔ وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا ۔۔۔۔ (الطُّوْر ، 52 : 48)
اور (اے حبیبِ مکرّم! اِن کی باتوں سے غم زدہ نہ ہوں) آپ اپنے رب کے حکم کی خاطر صبر جاری رکھئے بیشک آپ (ہر وقت) ہماری آنکھوں کے سامنے (رہتے) ہیں
گویا اللہ رب العزت فرما رہے ہیں کہ محبوب اگر ان ظالموں نے نگاہیں پھیر لی ہیں تو کیا ہوا، ہم تو آپ کی طرف سے نگاہیں ہٹاتے ہی نہیں ہیں اور ہم ہر وقت آپ کو ہی تکتے رہتے ہیں۔
اور پھر اللہ تعالی نے اپنے محبوب کو مقامِ رفعت کی اس انتہا پر پہنچا دیا کہ جس پر اور کوئی نبی ، کوئی پیغمبر، کوئی رسول نہ پہنچا ، نہ پہنچ پائے گا۔ وہ مقام ہے ۔ رضائے مصطفیٰ بذریعہ عطائے الہی
اللہ رب العزت نے اپنے محبوب کریم سے خطاب فرماتے ہوئے وعدہ فرمایا
ولسوف یعطیک ربک فترضی ٰ (القرآن ۔۔ سورۃ الضحیٰ )
اے محبوب ! عنقریب یقیناً آپکا رب آپکو اتنا عطا کرے گا حتیٰ کہ آپ راضی ہوجائیں گے۔
اور پھر علامہ اقبال رحمۃ اللہ تعالی نے بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے سمندرِ معرفت کو کوزے میں سمیٹا تھا
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا ، لوح و قلم تیرے ہیں
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں