انتخابِ کلام مسدس حالی



انتخاب کلام مسدس حالی بزبان جنید جمشید

منتخب اقتباس

عَرَب جس کا چرچا ہے یہ کچھ وہ کیا تھا
جہاں سے الگ اِک جزیرہ نما تھا
زمانہ سے پیوند جس کا جدا تھا
نہ کشورستاں تھا، نہ کشور کشا تھا 

تمدّن کا اُس پر پڑا تھا نہ سایا
ترّقی کا تھا واں قدم تک نہ آیا 

نہ آب و ہوا ایسی تھی روح پرور
کہ قابل ہی پیدا ہوں خود جس سے جوہر
نہ کچھ ایسے سامان تھے واں میسر
کنول جس سے کِھل جائیں دل کے سراسر 

نہ سبزہ تھا صحرا میں پیدا نہ پانی
فقط آبِ باراں پہ تھی زندگانی 

زمیں سنگلاخ اور ہوا آتش افشاں
لوؤں کی لپٹ، بادِ صر صر کے طوفاں
پہاڑ اور ٹیلے سراب اور بیاباں
کھجوروں کے جھنڈ اور خارِ مغیلاں 

نہ کھیتوں میں غلّہ نہ جنگل میں کھیتی
عرب اور کل کائنات اس کی یہ تھی 

نہ واں مصر کی روشنی جلوہ گر تھی
نہ یونان کے علم و فن کی خبر تھی
وہی اپنی فطرت پہ طبعِ بشر تھی
خدا کی زمیں بن جُتی سر بسر تھی 

پہاڑ اور صحرا میں ڈیرا تھا سب کا
تلے آسماں کے بسیرا تھا سب کا 


کہیں آگ پُجتی تھی واں بے محابا
کہیں تھا کواکب پرستی کا چرچا
بہت سے تھے تثلیث پر دل سے شیدا
بتوں کا عمل سُو بہ سُو جا بجا تھا 

کرشموں کا راہب کے تھا صید کوئی 
طلسموں میں کاہن کے تھا قید کوئی 

وہ دنیا میں گھر سب سے پہلا خدا کا
خلیل ایک معمار تھا جس بنا کا
ازل میں مشیّت نے تھا جس کو تاکا 
کہ اس گھر سے اُبلے گا چشمہ ہدیٰ کا 

وہ تیرتھ تھا اِک بُت پرستوں کا گویا
جہاں نامِ حق کا نہ تھا کوئی جویا 

قبیلے قبیلے کا بُت اِک جدا تھا
کسی کا ہُبَل تھا، کسی کا صفا تھا
یہ عزّا پہ، وہ نائلہ پر فدا تھا
اسی طرح گھر گھر نیا اِک خدا تھا 

نہاں ابرِ ظلمت میں تھا مہرِ انور
اندھیرا تھا فاران کی چوٹیوں پر 

چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ
ہر اِک لُوٹ اور مار میں تھا یگانہ
فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ
نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ 

وہ تھے قتل و غارت میں چالاک ایسے
درندے ہوں جنگل میں بے باک جیسے 

نہ ٹلتے تھے ہر گز جو اڑ بیٹھتے تھے
سلجھتے نہ تھے جب جھگڑ بیٹھتے تھے
جو دو شخص آپس میں لڑ بیٹھتے تھے
تو صد ہا قبیلے بگڑ بیٹھتے تھے 

بلند ایک ہوتا تھا گر واں شرارا
تو اس سے بھڑک اٹھتا تھا ملک سارا 

وہ بکر اور تغلب کی باہم لڑائی 
صدی جس میں آدھی انہوں نے گنوائی
قبیلوں کی کر دی تھی جس نے صفائی
تھی اک آگ ہر سُو عرب میں لگائی 

نہ جھگڑا کوئی ملک و دولت کا تھا وہ
کرشمہ اک ان کی جہالت کا تھا وہ 

کہیں تھا مویشی چَرانے پہ جھگڑا
کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا
لبِ جُو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا 

یونہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں
یونہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں 

جو ہوتی تھی پیدا کسی گھر میں دختر
تو خوفِ شماتت سے بے رحم مادر
پھرے دیکھتی جب تھے شوہر کے تیور
کہیں زندہ گاڑ آتی تھی اس کو جا کر 

وہ گود ایسی نفرت سے کرتی تھی خالی
جنے سانپ جیسے کوئی جننے والی 


جوا انکی دن رات کی دل لگی تھی
شراب انکی گھٹی میں گویا پڑی تھی
تعیّش تھا، غفلت تھی، دیوانگی تھی
غرَض ہر طرح ان کی حالت بُری تھی 

بہت اس طرح ان کو گزری تھیں صدیاں
کہ چھائی ہوئی نیکیوں پر تھیں بدیاں

یکایک ہوئی غیرتِ حق کو حرکت
بڑھا جانبِ بو قبیس ابرِ رحمت
ادا خاکِ بطحا نے کی وہ ودیعت
چلے آتے تھے جس کی دیتے شہادت

ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا
دعائے خلیل اور نویدِ مسیحا

ہوئے محو عالم سے آثارِ ظلمت
کہ طالع ہوا ماہِ بُرجِ سعادت
نہ چھٹکی مگر چاندنی ایک مدّت
کہ تھا ابر میں ماہتابِ رسالت

یہ چالیسویں سال لُطفِ خدا سے
کیا چاند نے کھیت غارِ حرا سے

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا

فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ

خطا کار سے در گزر کرنے والا
بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا
مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا
قبائل کو شیر و شکر کرنے والا

اُتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا

مسِ خام کو جس نے کُندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا

رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا
اِدھر سے اُدھر پھر گیا رُخ ہوا کا

پڑی کان میں دھات تھی اک نکمّی
نہ کچھ قدر تھی اور نہ قیمت تھی جسکی
طبیعت میں جو اس کے جوہر تھے اصلی
ہوئے سب تھے مٹّی میں مل کر وہ مٹّی

پہ تھا ثبت علمِ قضا و قدر میں
کہ بن جائے گی وہ طلا اک نظر میں

وہ فخرِ عرب زیبِ محراب و منبر
تمام اہلِ مکّہ کو ہمراہ لے کر
گیا ایک دن حسبِ فرمانِ داور
سوئے دشت اور چڑھ کے کوہِ صفا پر

یہ فرمایا سب سے کہ اے آلِ غالب
سمجھتے ہو تم مجھ کو صادق کہ کاذب

کہا سب نے قول آج تک کوئی تیرا
کبھی ہم نے جھوٹا سنا اور نہ دیکھا
کہا گر سمجھتے ہو تم مجھ کو ایسا
تو باور کرو گے اگر میں کہوں گا

کہ فوجِ گراں پشتِ کوہِ صفا پر
پڑی ہے کہ لُوٹے تمھیں گھات پا کر

کہا تیری ہر بات کا یاں یقیں ہے
کہ بچپن سے صادق ہے تُو اور امیں ہے
کہا گر مری بات یہ دل نشیں ہے
تو سن لو خلاف اس میں اصلاً نہیں ہے
کہ سب قافلہ یاں سے ہے جانے والا
ڈرو اس سے جو وقت ہے آنے والا

وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلا دی
نئی اک لگن دل میں سب کے لگا دی
اک آواز میں سوتی بستی جگا دی

پڑا ہر طرف غُل یہ پیغامِ حق سے
کہ گونج اٹھے دشت و جبل نامِ حق سے

سبق پھر شریعت کا ان کو پڑھایا
حقیقت کا گُر ان کو ایک اک بتایا
زمانہ کے بگڑے ہوؤں کو بنایا
بہت دن کے سوتے ہوؤں کو جگایا

کُھلے تھے نہ جو راز اب تک جہاں پر
وہ دکھلا دیئے ایک پردہ اٹھا کر

کسی کو ازل کا نہ تھا یاد پیماں
بھلائے تھے بندوں نے مالک کے فرماں
زمانہ میں تھا دورِ صہبائے بطلاں
مئے حق سے محرم نہ تھی بزمِ دوراں

اچھوتا تھا توحید کا جام اب تک
خمِ معرفت کا تھا منہ خام اب تک

نہ واقف تھے انساں قضا اور جزا سے
نہ آگاہ تھے مبدا و منتہا سے
لگائی تھی ایک اِک نے لو ماسوا سے
پڑے تھے بہت دور بندے خدا سے

یہ سنتے ہی تھرّا گیا گلّہ سارا
یہ راعی نے للکار کر جب پکارا

کہ ہے ذاتِ واحد عبادت کے لائق
زبان اور دل کی شہادت کے لائق
اسی کے ہیں فرماں اطاعت کے لائق
اسی کی ہے سرکار خدمت کے لائق

لگاؤ تو لو اس سے اپنی لگاؤ
جھکاؤ تو سر اس کے آگے جھکاؤ

اسی پر ہمیشہ بھروسا کرو تم
اسی کے سدا عشق کا دم بھرو تم
اسی کے غضب سے ڈرو گر ڈرو تم
اسی کی طلب میں مرو گر مرو تم

مبرّا ہے شرکت سے اس کی خدائی
نہیں اس کے آگے کسی کو بڑائی

خِرَد اور ادراک رنجور ہیں واں
مہ و مہر ادنیٰ سے مزدور ہیں واں
جہاندار مغلوب و مقہور ہیں واں
نبی اور صدّیق مجبور ہیں واں

نہ پرسش ہے رہبان و احبار کی واں
نہ پروا ہے ابرار و احرار کی واں

تم اوروں کی مانند دھوکا نہ کھانا
کسی کو خدا کا نہ بیٹا بنانا
مری حد سے رتبہ نہ میرا بڑھانا
بڑھا کر بہت تم نہ مجھ کو گھٹانا

سب انساں ہیں واں جس طرح سرفگندہ
اسی طرح ہوں میں بھی اِک اس کا بندہ

بنانا نہ تربت کو میری صنم تم
نہ کرنا مری قبر پر سر کو خم تم
نہیں بندہ ہونے میں کچھ مجھ سے کم تم
کہ بیچارگی میں برابر ہیں ہم تم

مجھے دی ہے حق نے بس اتنی بزرگی
کہ بندہ بھی ہوں اس کا اور ایلچی بھی

اسی طرح دل ان کا ایک اِک سے توڑا
ہر اک قبلۂ کج سے منہ ان کا موڑا
کہیں ماسوا کا علاقہ نہ چھوڑا
خداوند سے رشتہ بندوں کا جوڑا

کبھی کے جو پھرتے تھے مالک سے بھاگے
دیئے سر جھکا ان کے مالک کے آگے

پتا اصل مقصود کا پا گیا جب
نشاں گنجِ دولت کا ہاتھ آ گیا جب
محبّت سے دل ان کا گرما گیا جب
سماں ان پہ توحید کا چھا گیا جب

سکھائے معیشت کے آداب ان کو
پڑھائے تمدّن کے سب باب ان کو

جتائی انہیں وقت کی قدر و قیمت
دلائی انہیں کام کی حرص و رغبت
کہا چھوڑ دیں گے سب آخر رفاقت
ہو فرزند و زن اس میں یا مال و دولت

نہ چھوڑے گا پر ساتھ ہر گز تمھارا
بھلائی میں جو وقت تم نے گزارا

غنیمت ہے صحّت علالت سے پہلے
فراغت، مشاغل کی کثرت سے پہلے
جوانی، بڑھاپے کی زحمت سے پہلے
اقامت، مسافر کی رحلت سے پہلے

فقیری سے پہلے غنیمت ہے دولت
جو کرنا ہے کر لو کہ تھوڑی ہے مہلت

یہ کہہ کر کیا علم پر ان کو شیدا
کہ ہیں دور رحمت سے سب اہلِ دنیا
مگر دھیان ہے جن کو ہر دم خدا کا
ہے تعلیم کا یا سدا جن میں جرچا

انہی کے لیے یان ہے نعمت خدا کی
انہی پر ہے واں جاکے رحمت خدا کی"

سکھائی انہیں نوعِ انساں پہ شفقت
کہا " ہے یہ اسلامیوں کی علامت
کہ ہمسایہ سے رکھتے ہیں وہ محبت
شب و روز پہنچاتے ہیں اس کو راحت

وہ برحق سے اپنے لیے چاہتے ہیں
وہی ہر بشر کے لیے چاہتے ہیں

خدا رحم کرتا نہیں اس بشر پر
نہ ہو درد کی چوٹ جس کے جگر پر
کسی کے گر آفت گزر جائے سر پر
پڑے غم کا سایہ نہ اس بے اثر پر

کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر۔

ڈرایا تعصب سے ان کو یہ کہہ کر
کہ زندہ رہا اور مرا جو اسی پر
ہوا وہ ہماری جماعت سے باہر
وہ ساتھی ہمارا نہ ہم اس کے یاور

نہیں حق سے کچھ اس محبت کو بہرہ
کہ جو تم کو اندھا کرے اور بہرہ

بچایا برائی سے ان کو یہ کہہ کر
کہ طاعت سے ترکِ معاصی ہے بہتر
تو رع کا ہے ذات میں جن کی جوہر
نہ ہوں گے کبھی عابد ان کے برابر

کرو ذکر اہلِ ورع کا جہاں تم
نہ لو عابدوں کا کبھی نام واں تم

غریبوں کو محنت کی رغبت دلائی
کہ بازو سے اپنے کرو تم کمائی
خبر تاکہ لو اس سے اپنی پرائی
نہ کرنی پڑے تم کو در در گدائی

طلب سے ہے دنیا کی گریاں یہ نیت
تو چمکو گے واں ماہِ کامل کی صورت

امیروں کو تنبیہ کی اس طرح پر
کہ ہیں تم میں جو اغنیا اور تو نگر
اگر اپنے طبقہ میں ہوں سب سے بہتر
بنی نوع کے ہوں مددگار و یاور

نہ کرتے ہوں بے مشورت کام ہر گز
اٹھاتے نہ ہوں بے دھڑک گام ہر گز

تو مردوں سے آسودہ تر ہے وہ طبقہ
زمانہ مبارک ملے جس کو ایسا
پہ جب اہلِ دولت ہوں اشرارِ دنیا
نہ ہو عیش میں جن کو اوروں کی پروا

نہیں اس زمانہ میں کچھ خیرو برکت
اقامت سے بہتر ہے اس وقت رحلت

دیے پھیر دل ان کے مکرو ریا سے
بھرا ان کے سینہ کو صدق و صفا سے
بچایا انہیں کذب سے، افترا سے
کیا سرخرو خلق سے اور خدا سے

رہا قول حق میں نہ کچھ باک ان کو
بس اک شوب میں کردیا پاک ان کو

کہیں حفظِ صحت کے آئیں سکھائے
سفر کے کہیں شوق ان کو دلائے
مفاد ان کو سوداگری کے سجھائے
اصول ان کو فرماں دہی کے بتائے

نشاں راہِ منزل کا ایک اک دکھایا
بنی نوع کا ان کو رہبر بنایا

ہوئی ایسی عادت پہ تعلیم غالب
کہ باطل کے شیدا ہوئے حق کے طالب
مناقب سے بدلے گئے سب مثالب
ہوئے روح سے بہرہ وران کے قالب

جسے راج رد کر چکے تھے، وہ پتھر
ہوا جاکے آخر کو قایم سرے پر

جب امت کو سب مل چکی حق کی نعمت
ادا کر چکی فرض اپنا رسالت
رہی حق پہ باقی نہ بندوں کی حجت
نبی نے کیا خلق سے قصدِ رحلت

تو اسلام کی وارث اک قوم چھوڑی
کہ دنیا میں جس کی مثالیں ہیں تھوڑی

سب اسلام کے حکم بردار بندے
سب اسلامیوں کے مددگار بندے
خدا اور بنی کے وفادار بندے
یتیموں کے رانڈوں کے غمخوار بندے

رہِ کفر و باطر سے بیزار سارے
نشہ میں مئے حق کے سرشار سارے

جہالت کی رشمیں مٹا دینے والے
کہانیت کی بنیاد ڈھا دینے والے
سر احکام دیں پر جھکا دینے والے
خدا کے لیے گھر لٹا دینے والے

ہر آفت میں سینہ سپر کرنے والے
فقط ایک اللہ سے ڈرنے والے

اگر اختلاف ان میں باہم دگر تھا
تو بالکل مدار اس کا اخلاص پر تھا
جھگڑتے تھے لیکن نہ جھگڑوں میں شرتھا
خلاف آشتی سے خوش آیندہ تر تھا

یہ تھی موج پہلی اس آزادگی کی
ہرا جس سے ہونے کو تھا باغ گیتی


انتخاب مسدس حالی از الطاف حسین حالی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں