حیات و کائنات پر کتاب لکھ رہے تھے ہم
جہاں جہاں ثواب تھا عذاب لکھ رہے تھے ہم
ہماری تشنگی کا غم رقم تھا موج موج پر
سمندروں کے جسم پر سراب لکھ رہے تھے ہم
سوال تھا کہ جستجو عظیم ہے کہ آرزو
سو یوں ہوا کہ عمر بھر جواب لکھ رہے تھے ہم
سلگتے دشت ، ریت اور ببول تھے ہر ایک سو
نگر نگر ، گلی گلی گلاب لکھ رہے تھے ہم
زمین رک کے چل پڑی ، چراغ بجھ کے جل گئے
کہ جب ادھورے خوابوں کا حساب لکھ رہے تھے ہم
مجھے بتانا زندگی وہ کون سی گھڑی تھی جب
خود اپنے اپنے واسطے عذاب لکھ رہے تھے ہم
چمک اٹھا ہر ایک پل ، مہک اٹھے قلم دوات
کسی کے نام دل کا انتساب لکھ رہے تھے ہم
عزیز نبیل
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں