اے رسول امیں، خاتم المرسلیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
ہے عقیدہ اپنا بصدق و یقیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
اے براہیمی و ہاشمی خوش لقب، اے تو عالی نسب، اے تو والا حسب
دودمانِ قریشی کے دُرِثمین، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
دست قدرت نے ایسا بنایا تجھے، جملہ اوصاف سے خود سجایا تجھے
اے ازل کے حسیں، اے ابد کے حسیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
بزم کونین پہلے سجائی گئی، پھر تری ذات منظر پر لائی گئی
سید االاولیں، سید الآخریں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
تیرا سکہ رواں کل جہاں میں ہوا، اِس زمیں میں ہوا، آسماں میں ہوا
کیا عرب کیا عجم، سب ہیں زیرِ نگیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
تیرے انداز میں وسعتیں فرش کی، تیری پرواز میں رفعتیں عرش کی
تیرے انفاس میں خلد کی یاسمیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
"سدرۃ ُالمنتہیٰ" رہگزر میں تری ، "قابَ قوسین" گردِ سفر میں تری
تو ہے حق کے قریں، حق ہے تیرے قریں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
کہکشاں ضو ترے سرمدی تاج کی، زلف ِتاباں حسیں رات معراج کی
"لیلۃُ القدر "تیری منور جبیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
مصطفےٰ مجتبےٰ، تیری مدح وثنا، میرے بس میں ، دسترس میں نہیں
دل کو ہمت نہیں ، لب کو یارا نہیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
کوئی بتلائے کیسے سراپا لکھوں، کوئی ہے ! وہ کہ میں جس کو تجھ سا کہوں
توبہ توبہ! نہیں کوئی تجھ سا نہیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
چار یاروں کی شان جلی ہے بھلی، ہیں یہ صدیق، فاروق، عثمان ، علی
شاہدِ عدل ہیں یہ ترے جانشیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
اے سراپا نفیس انفسِ دوجہاں، سرورِ دلبراں دلبرِ عاشقاں
ڈھونڈتی ہے تجھے میری جانِ حزیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
سید نفیس الحسینی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں