عمل اور ردِعمل
تحریر:شمیم مرتضیٰ
-----------------------------
زندگی کا ایک سادہ سا اصول ہے کہ ہر عمل کا ردِّ عمل ہوتا ہے۔ اسی اصول کے
مصداق جب ہم کوئی نیکی کرتے ہیں تو اِس نیکی کا بھی ایک ردِّ عمل ہوتا
ہے۔ مگر دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ ردِّ عمل کسی میکانیکی عمل کی طرح نہیں
ہوتا جیسا کہ نیوٹن بیان کرتا ہے بلکہ اس کےپیچھے ایک بہت بڑی defining
force کام کر رہی ہوتی ہے اور وہ ہے ہماری "نیت"۔ یہی قوت فیصلہ کرتی ہے
کہ نیکی کا صلہ بڑھ کر ملنا ہے کہ گھٹ کر یاکہ بالکل ہی نہیں ملنا۔
بعض اوقات ہم اپنے تئیں ایک بہت چھوٹی سی نیکی کرتے ہیں مگر ہمیں خبر نہیں
ہوتی کہ اپنے اخلاص کی وجہ سے اس نیکی کا ایک upward spiral effect قائم
ہوتا ہے اور ایک چھوٹی سی نیکی اپنے اجر میں دوسری نیکیوں سے بڑھ جاتی ہے۔
ممکن ہے کہ جس نیکی کو ہم ایک نہایت چھوٹی سی نیکی سمجھ کر کررہے ہوں اس کا شجرہ ایک بہت بڑی نیکی سے ملتا ہو۔راستہ سے ایک چھوٹا سا پتھر ہٹانا ہو، اپنےکسی مسلمان بھائی کو مسکراکر دیکھنا ہو، ایک چھوٹا سا پودا لگانا ہو یا کسی کے کام آجانا ہو۔ بظاہر بہت معمولی سے کام ہیں۔
مگر ان میں بڑی کشش ہوتی ہے۔ ہر ایک معمولی نیکی دوسری نیکی کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔ اس طرح دونیکیاں مل کر اگلی کسی نیکی کو اپنے ساتھ ملا لیتی ہیں اور یوں ایک chain reaction شروع ہوجاتا ہے۔ مگر اس کے لیے شرط ہے کہ ہم اپنے ارادے سے پورے اخلاص کے ساتھ ایک نیکی کی طرف قدم بڑھائیں۔ ایک دِیے سے دوسرا دِیا روشن ہوتا ہے اور ایک ترتیب چراغوں کی نظر آتی ہے۔دور تک نظر میں ایک روشنی کا سلسلہ قائم ہوجاتا ہے۔
یہی حال گناہوں کا بھی ہے۔ جس طرح بوم رنگ پلٹ کر اپنی طرف آتا ہے اسی طرح ہر کردہ گناہ پلٹ کر اپنے کرنے والے کی طرف آتا ہے۔ ایک گناہ دوسرے گناہ کو اپنی جانب کھینچتا ہے اور یوں گناہوں کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جب تک اس سلسلہ کو توبہ اور مغفرت کے ذریعہ منقطع نہ کردیا جائے۔کوئی چھوٹا گناہ یہ سمجھ کر نہ کر لیا جائے کہ یہ تومحض ایک چھوٹی سی بات ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی گناہ کی طرف بڑھنے والا ایک قدم اسفل ا لسافلین کی طرف جانے والے راستے کی دہلیز کو عبور کررہا ہو۔
نیکی اور گناہ زیادہ تر صحبت کے ردعمل کے طور پہ عمل میں آتے ہیں جیسا کہ اگر ہم تقویٰ اختیار کرنا چاہتے ہیں تو صالحین، توابین اور صادقین کی صحبت میں بیٹھنے سے نیکی کی طرف راغب ہونا آسان ہو جاتا ہے جب کہ سافلین کی صحبت کا ردعمل گناہ اور برائی کی طرف رغبت کی صورت میں ملتا ہے۔
ذرا سوچئے جہاں پرہیزگار اور نمازی لوگوں کی نشست ہو وہاں اذان کے بعد نماز کے لیے اٹھنا کتنا آسان ہو جاتا ہے جب کہ اس کے برعکس شرابیوں کی محفل سے نماز کے لیے اٹھنا مشکل اور شراب پینا کتنا آسان ہو گا۔
غور فرمائیے
----------------
• اپنے روزمرہ کے چھوٹے چھوٹے کاموں کا جائزہ لیجئے اور غور کیجئے کہ آیا ہم کوئی چھوٹے سے چھوٹا کام بھی ایسا تو نہیں کر رہے جس کا ردعمل کسی برائی ، گناہ یا کبیرہ گناہ کی صورت میں ملے گا۔
• اپنے رویہ کا جائزہ لیجئے کہ کہیں آپ کا رویہ کسی کے دل میں کسی کے لیے کدورت، شک، بدگمانی یا نفرت تو پیدا نہیں کر رہا۔
• اگر ان میں سے کسی ایک کا جواب بھی ہاں ہے تو اپنے تزکیہ کی طرف توجہ دیجیئے۔ بلاشبہ سب سے اچھا تزکیہ وہی ہے جو قرآن و سنت کی روشنی میں کیا جائے۔
ممکن ہے کہ جس نیکی کو ہم ایک نہایت چھوٹی سی نیکی سمجھ کر کررہے ہوں اس کا شجرہ ایک بہت بڑی نیکی سے ملتا ہو۔راستہ سے ایک چھوٹا سا پتھر ہٹانا ہو، اپنےکسی مسلمان بھائی کو مسکراکر دیکھنا ہو، ایک چھوٹا سا پودا لگانا ہو یا کسی کے کام آجانا ہو۔ بظاہر بہت معمولی سے کام ہیں۔
مگر ان میں بڑی کشش ہوتی ہے۔ ہر ایک معمولی نیکی دوسری نیکی کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔ اس طرح دونیکیاں مل کر اگلی کسی نیکی کو اپنے ساتھ ملا لیتی ہیں اور یوں ایک chain reaction شروع ہوجاتا ہے۔ مگر اس کے لیے شرط ہے کہ ہم اپنے ارادے سے پورے اخلاص کے ساتھ ایک نیکی کی طرف قدم بڑھائیں۔ ایک دِیے سے دوسرا دِیا روشن ہوتا ہے اور ایک ترتیب چراغوں کی نظر آتی ہے۔دور تک نظر میں ایک روشنی کا سلسلہ قائم ہوجاتا ہے۔
یہی حال گناہوں کا بھی ہے۔ جس طرح بوم رنگ پلٹ کر اپنی طرف آتا ہے اسی طرح ہر کردہ گناہ پلٹ کر اپنے کرنے والے کی طرف آتا ہے۔ ایک گناہ دوسرے گناہ کو اپنی جانب کھینچتا ہے اور یوں گناہوں کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جب تک اس سلسلہ کو توبہ اور مغفرت کے ذریعہ منقطع نہ کردیا جائے۔کوئی چھوٹا گناہ یہ سمجھ کر نہ کر لیا جائے کہ یہ تومحض ایک چھوٹی سی بات ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی گناہ کی طرف بڑھنے والا ایک قدم اسفل ا لسافلین کی طرف جانے والے راستے کی دہلیز کو عبور کررہا ہو۔
نیکی اور گناہ زیادہ تر صحبت کے ردعمل کے طور پہ عمل میں آتے ہیں جیسا کہ اگر ہم تقویٰ اختیار کرنا چاہتے ہیں تو صالحین، توابین اور صادقین کی صحبت میں بیٹھنے سے نیکی کی طرف راغب ہونا آسان ہو جاتا ہے جب کہ سافلین کی صحبت کا ردعمل گناہ اور برائی کی طرف رغبت کی صورت میں ملتا ہے۔
ذرا سوچئے جہاں پرہیزگار اور نمازی لوگوں کی نشست ہو وہاں اذان کے بعد نماز کے لیے اٹھنا کتنا آسان ہو جاتا ہے جب کہ اس کے برعکس شرابیوں کی محفل سے نماز کے لیے اٹھنا مشکل اور شراب پینا کتنا آسان ہو گا۔
غور فرمائیے
----------------
• اپنے روزمرہ کے چھوٹے چھوٹے کاموں کا جائزہ لیجئے اور غور کیجئے کہ آیا ہم کوئی چھوٹے سے چھوٹا کام بھی ایسا تو نہیں کر رہے جس کا ردعمل کسی برائی ، گناہ یا کبیرہ گناہ کی صورت میں ملے گا۔
• اپنے رویہ کا جائزہ لیجئے کہ کہیں آپ کا رویہ کسی کے دل میں کسی کے لیے کدورت، شک، بدگمانی یا نفرت تو پیدا نہیں کر رہا۔
• اگر ان میں سے کسی ایک کا جواب بھی ہاں ہے تو اپنے تزکیہ کی طرف توجہ دیجیئے۔ بلاشبہ سب سے اچھا تزکیہ وہی ہے جو قرآن و سنت کی روشنی میں کیا جائے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں