" زندگی کے رنگ امنگوں کے سنگ" ۔۔ خطبہ جمہ مسجد نبوی

خطبہ جمعہ مسجد نبوی
ترجمہ: شفقت الرحمان مغل

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ نے مسجد نبوی میں 28-صفر- 1439 کا خطبہ جمعہ " زندگی کے رنگ امنگوں کے سنگ" کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ انسانی زندگی نہ ختم ہونے والی امنگوں سے بھری ہوئی ہے ، ان میں سے جو تمنا نیکی کیلیے ہو تو وہ اچھی ہے اور جو تقدیری فیصلوں سے متصادم ہو تو وہ مذموم ہے، بلند لوگوں کے ارمان بھی انہی کی طرح بلند ہوتے ہیں ، صرف دنیا تک ہی محدود نہیں ہوتے بلکہ آخرت بھی ان میں شامل ہوتی ہے۔

خطبے سے منتخب اقتباس پیش ہے:

میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ}
 اے ایمان والو! اللہ تعالی سے کما حقُّہ ڈرو اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں۔[آل عمران: 102]

اللہ تعالی نے اس وسیع کائنات کو مسخر فرمایا اور اس دنیا کو انسان کی نہ ختم ہونے والی امنگوں کا میدان قرار دیا، تو کچھ لوگوں کی زیادہ تو کچھ کی کم امنگیں ہوتی ہیں؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (ابن آدم کھجوروں کی ایک وادی کا مالک ہو تو وہ اس جیسی ایک اور وادی کا ارمان کرنے لگے پھر دوسری کا یہاں تک کہ کئی وادیوں کی خواہش کرنے لگے گا اور ابن آدم کے پیٹ کو مٹی ہی بھرے گی) اس روایت کو ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔

امنگ نیکی کے لیے ہو تو قابل ستائش ہے، اور جو تمنا تقدیری فیصلوں پر اعتراض اور ناممکن الحصول کے لیے ہوں تو وہ قابل مذمت ہیں، انسان کے ارمان انسان کے ارادوں کے ترجمان ہوتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (انسانی نفس تمنا اور چاہت رکھتا ہے)انہی ارمانوں کی وجہ سے کچھ تو شان و شوکت کی بلندیوں پر پہنچ جاتے ہیں اور کچھ ذلت کے گڑھوں میں جا گرتے ہیں۔

اچھی خواہشات اور تمنائیں بھی عظیم ثواب حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں، ابو کبشہ انماری رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے چار قسم کے لوگوں کا ذکر فرمایا: (ایک شخص کو اللہ نے مال اور علم عطا فرمایا تو وہ اپنے علم کے مطابق دولت کو راہِ حق میں خرچ کرتا ہے اور ایک شخص کو اللہ تعالی نے علم دیا لیکن اسے مال نہیں دیا اور وہ یہ خواہش رکھتا ہے کہ اگر اسے بھی دولت مل جائے تو وہ بھی اسی طرح خرچ کرے گا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: یہ دونوں اجر میں برابر ہیں۔ اور ایک شخص کو اللہ تعالی نے مال دیا لیکن اسے کے پاس علم نہیں ہے اور وہ مال کو ناحق راستوں میں خرچ کرتا ہے ، اور ایک شخص کو اللہ تعالی نے نہ مال دیا اور نہ ہی دولت سے نوازا تو وہ بھی یہ کہتا ہے کہ اگر مجھے اس کی طرح مال مل جائے تو میں بھی اسی طرح اسے ناحق خرچ کروں گا جیسے یہ کرتا ہے کہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دونوں گناہ میں برابر ہیں) ابن ماجہ

نیک نیتی کے ساتھ عملی کاوش اور جہدِ مسلسل نہ ہو تو خالی ارمانوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے ، اللہ تعالی کا [عملی کاوش کی ترغیب کے لیے ]حکم ہے:
 {وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ}
 اور اپنے رب کی مغفرت کی جانب دوڑ پڑو۔[آل عمران: 133]

بلکہ تمنائیں اور ارمان بھی دعا کی اقسام میں سے ایک ہیں، یہ بھی قبولیت کی بنا پر شرمندہ تعبیر ہو جاتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جب تم میں سے کوئی اللہ سے تمنا کرے تو خوب کھل کر مانگے؛ کیونکہ وہ اپنے پروردگار سے مانگ رہا ہے) اس روایت کو ہیثمی نے روایت کیا ہے اور البانی کے مطابق اس روایت کے راوی صحیح [بخاری] کے ہیں۔

مسلمان کو اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ ارمان پورے ہونے کا تعلق اللہ تعالی کے حکم سے ہے، اس لیے اگر اس کے ارمان ادھورے رہ جائیں تو جھلملاتا نہیں ہے اور نہ ہی افسردہ ہوتا ہے؛ کیونکہ خیر اسی چیز میں جو اللہ تعالی نے اس کے لیے اختیار فرمائی ہے، چنانچہ بندہ ہر حالت میں اپنے پروردگار کا شکر ہی بجا لاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ}
 اور یہ عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناگوار سمجھو اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی چیز کو تم پسند کرو اور وہ تمہارے حق میں بری ہو۔ اور اللہ ہی خوب جانتا ہے، تم نہیں جانتے [البقرة: 216]

اگر انسان کے ارمان دنیاوی امور تک ہی رہیں آخرت کے لیے ان میں کوئی جگہ نہ ہو تو وہ راہِ راست سے دور اور گمراہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَنْ نُرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَدْحُورًا (18) وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُورًا}
 جو شخص دنیا چاہتا ہے تو ہم جس شخص کو اور جتنا چاہیں دنیا میں ہی دے دیتے ہیں پھر ہم نے جہنم اس کے مقدر کر دی ہے جس میں وہ بدحال اور دھتکارا ہوا بن کر داخل ہو گا [19] اور جو شخص آخرت کا ارادہ کرے اور اس کے لئے اپنی مقدور بھر کوشش بھی کرے اور مومن بھی ہو تو ایسے لوگوں کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔ [الإسراء: 18، 19]

اپنے ارمانوں کو پورا کرنے کے لیے جو شخص جادو گروں اور شعبدہ بازوں سے تعاون لے تو وہ اپنے آپ پر بہت زیادہ ظلم ڈھاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص کسی کاہن یا جادو گر کے پاس آئے اور اس کی بات کی تصدیق کر دے تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم - پر نازل شدہ شریعت سے کفر کرتا ہے) اس روایت کو طبرانی نے نقل کیا ہے اور ابن حجر نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔

امنگوں کے اس سفر میں اعلی ترین صورت حال اس وقت پیدا ہو گی جب اہل جنت اپنے ارمانوں کے مطابق جنت کی نعمتیں پا لیں گے، پروردگار بھی ان پر فیاضی فرمائے گا اور انہیں اپنے کرم سے عطا فرمائے گا (جنت میں سب سے آخر میں داخل ہونے والا جب جنت میں جائے گا تو جنت اس کے لیے وسیع اور خوبصورت بن چکی ہو گی، تو پروردگار فرمائے گا: تم اپنی خواہشیں بتلاؤ، تو بندہ اپنی خواہشات بیان کرنا شروع کرے گا تو اللہ تعالی فرمائے گا: تجھے تیری ساری خواہشات دیتا ہوں اور دنیا سے دس گنا زیادہ بھی)

یا اللہ! ہم تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے اعمال کی توفیق مانگتے ہیں، نیز جہنم اور اس کے قریب کرنے والے تمام اعمال سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

آمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں