مسجد الحرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمید
جمعۃ المبارک 28 صفر 1439ھ بمطابق 17 نومبر 2017ء
ترجمہ: محمد عاطف الیاس
نظر ثانی: میاں عتیق الرحمٰن
لوگو! میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی تلقین کرتا ہوں۔ اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے، اللہ سے ڈرتے رہو اور اس علم سے بچو جس کا اثر آپ کے عمل میں نہیں، اس عبادت سے بچو جس میں اخلاص نہیں، اس مال سے بچو جس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی جاتی، اس دل سے بچو جس میں محبت الٰہی اور اسے ملنے کا شوق نہیں، اور اس وقت سے بچو کہ جسے بھلائیوں اور نیک کاموں سے معمور نہیں کیا جاتا۔
یاد رکھو کہ وہ خطرناک ترین چیزیں کہ جن سے بچنا ناگزیر ہے: دل کی بربادی اور وقت کا ضیاع۔ دل کی بربادی تو دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے سے ہوتی ہے اور وقت کا ضیاع خواہشات کی پیروی اور طویل امیدوں سے ہوتا ہے۔ مکمل نیکی یہ ہے کہ راہ ہدایت پر چلا جائے اور قیامت کی تیاری کی جائے۔
اے مسلمانو!
علم، انبیا کی میراث ہے اور سوال علم کی کنجی ہے۔ شریعت اسلامیہ نے علم سیکھنے کے لیے سوال کا حکم دیا ہے اور کی ترغیب دلائی ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’اُن لوگوں سے پوچھ لے جو پہلے سے کتاب پڑھ رہے ہیں‘‘ [يونس: 94]۔
اسی طرح فرمایا:
’’اہل ذکر سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے‘‘ [النحل: 43]۔
ابن شہاب کہتے ہیں کہ: ’’علم کئی خزانوں پر مشتمل ہے، ہر خزانے کی کنجی سوال ہے۔‘‘
الخلیل کہتے ہیں: ’’ہر علم پر ایک تالا لگا ہوتا ہے جس کی کنجی سوال ہے۔ جب تمہارے ہاتھ میں کنجیاں آ جائیں تو پھر تم جس تالے کو چاہو، کھول لو‘‘
سوال کرنے والے کے سوال سے اس کی عقل اور اس کا ادب جھلکتا ہے۔ عقل مند ہر چیز کو اپنی زبان پر نہیں لاتا اور جاہل یہ نہیں جان پاتا کہ کون سی چیز کہنی چاہیے اور کون سی نہیں کہنی چاہیے، یا کون سی چیز کب اور کیسے کہنی چاہیے۔
اس حوالے سے چند قاعدے جان لیجیے۔ سوال یوں کرو، گویا کہ تم جاہل ہو۔ عقلمندوں کی طرح جواب کو سمجھو۔ سوال درست ہو تو اسی میں آدھا جواب ہوتا ہے۔ جو استادوں کے سامنے ذلیل ہوتا ہے وہ استاد بن کر بڑی عزت کماتا ہے۔ علم وہی سیکھتا ہے جس کی زبان سوال کرنے والی، دل عقلمند اور بہترین ادب کا حامل ہو۔
اے مسلمان معاشرے کے لوگو!
چونکہ علم کے میدان میں سوال وجواب کی بڑی اہمیت ہے، تو اہل علم نے سوال پوچھنے اور فتویٰ دینے کے آداب پر طویل تحریریں لکھی ہیں۔
آج کے دور میں اللہ تعالیٰ نے رابطے کے وسائل بڑھا دیے ہیں اور کسی سے بات چیت کرنا انتہائی آسان ہو گیا ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ ان آداب کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے جو اہل علم نے سوال وجواب کے متعلق بیان کیے ہیں۔
اور جب ہم اخبارات، میگزینز، ٹی وی چینلز اور انٹرنیٹ پر مفتیوں کا حال دیکھتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ فتویٰ واقعتًا ایک اہم اور عظیم ذمہ داری ہے۔
میں اس حوالے سے چند گزاشات پیش کرتا ہوں جن میں چند آداب آ جائیں گے۔
پہلی گزارش: سوال کرنے والے اور فتویٰ پوچھنے والے کے متعلق ہے۔
علماء کرام کا کہنا ہے کہ: سوال کرنے والے اور فتویٰ پوچھنے والے کو چاہیے کہ اپنے سوال میں حقائق کو جوں کا توں، انتہائی باریک بینی کے ساتھ نقل کرے، یہاں تک کہ اسے تسلی ہو کہ اگر اللہ تعالیٰ کے یہاں اسے اس کے سوال کی سچائی کے متعلق پوچھا گیا تو وہ سرخرو ہی ہو گا۔
ان مسائل کے متعلق پوچھنا چاہیے جو سائل کو درپیش ہیں۔ جن مسائل کا سامنا ہی نہ ہو، ان کے متعلق پوچھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ سوال کرتے وقت حقائق چھپانے، حقائق کو چلاکی سے تبدیل کرنے یا الفاظ کے ہیر پھیر سے غلط مطلب سمجھنے سے بچنا چاہیے۔
ایک ہی سوال کو لے کر مفتیوں میں گھومتے نہیں رہنا چاہیے۔ یہ دیانت داری اور خدا خوفی کے خلاف ہے۔
آسانیاں تلاش کرنے اور مفتیوں کے فتووں سے آسان ترین یا من پسند فتووں کو اپنانے سے بچنا چاہیے۔ اہل علم کہتے ہیں: ’’جو ہر عالم کی دی گئی رخصت پر عمل کرتا ہے اور ہر مفتی کی غلطی ڈھونڈتا رہتا ہے، اس میں ساری برائی جمع ہو جاتی ہے‘‘
جو اپنے لیے بھلائی چاہتا ہے، وہ علما کی باتوں کا تقابل کر کے انہیں غلط ثابت کرنے میں نہ لگے۔ کیونکہ علما تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے دور سے اپنے اجتہاد، رائے اور جوابوں میں اختلاف کرتے رہے ہیں اور قیامت تک کرتے رہیں گے۔ چنانچہ ہمیں خود بری الذمہ ہونے کی فکر کرنی چاہیے تاکہ ہمارا دین بھی سلامت رہے، عبادت بھی درست ہو، معاملات بھی ٹھیک ہو جائیں اور زندگی آگے بڑھ سکے۔
اے میرے بھائیو!
اگر کسی مسئلے میں دو مختلف جواب سامنے آ جائیں تو اس عالم کے جواب پر عمل کرنا چاہیے کہ جو اپنے دین، علم اور خدا خوفی کے اعتبار سے بہتر ہے۔ خواہشات کی پیروی اور رخصتوں کی تلاش سے بچنا چاہیے۔
جو عالم کے امتحان کے لیے سوال کرتا ہے، وہ محرومی، گھاٹے اور دل کی سختی لے کر لوٹتا ہے۔ سوال تو سائل کی ضرورت کے لیے ہوتا ہے اور اس کا مقصد جواب معلوم کرنا، اس سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے، نہ کہ اہل علم سے بحث کرنا اور اپنی علمیت جتانا۔
حدیث میں آتا ہے: ’’جو علماء سے بحث کرنے کے لیے، جاہلوں کے سامنے اپنی علمیت جتانے کے لیے یا لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے علم حاصل کرتا ہے اللہ اسے جہنم میں ڈال دیتا ہے۔‘‘
سوال کو ضرورت سے زیادہ طویل نہیں کرنا چاہیے۔ ضرورت کے بغیر زیادہ سوال بھی نہیں کرنے چاہیں، تاکہ مفتی کے قیمتی وقت اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھا جا سکے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’میں نے صحابہ کرام سے بھلے لوگ کبھی نہیں دیکھے۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی میں صرف تیرہ مسئلے ہی پوچھے اور ان سب کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔ وہ صرف ضرورت کے وقت سوال کیا کرتے تھے۔‘‘
ادب کا تقاضا یہ ہے کہ سائل اپنے سوال میں یہ نہ کہے: ’’فلاں عالم نے کہا ہے‘‘ یا ’’فلاں عالم آپ کی رائے کی مخالفت کرتے ہیں‘‘ کیونکہ یہ بدتمیزی ہے اور کسی کو یہ پسند ہوتا کہ اس سے سوال کرتے وقت دوسروں کے اقوال نقل کیے جائیں۔
دانشمندوں کا کہنا ہے: ’’ہم عصر لوگوں کی باتیں کتابوں میں ہی رہنی چاہیں۔ انہیں آگے نہیں بڑھانا چاہیے۔‘‘
علماء کے درمیان اختلاف کو ہوا دینے یا ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے برے جذبات پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
اے مسلمان معاشرے کے لوگو!
دوسری گزارش: عورت کے حوالے سے ہے۔
اسے بھی حق کا سوال ہے اور اسے کن آداب کا لحاظ کرنا چاہیے؟
عورت کو بھی دینی مسائل دریافت کرنے کا حق ہے اور مسلمان عورت سوال سے بے نیاز بھی نہیں ہو سکتی۔
امام بخاری کی کتاب میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو جب بھی کوئی ایسا مسئلہ معلوم ہوتا جس کا جواب نہیں معلوم نہ ہوتا تو وہ اس کے متعلق پوچھتی رہتیں، یہاں تک وہ اس کا جواب معلوم کر لیتیں۔ صحابیات رسول صحابہ کرام سے سلام کرتیں، فتویٰ پوچھتیں، سوال کرتی اور مشورہ طلب کرتی تھیں۔
امام مسلم نے روایت کیا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’انصار کی عورتیں بھی خوب عورتیں تھیں۔ حیا نے انہیں دین سیکھنے اور سمجھنے سے نہیں روکا‘‘
سائل کو یہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ مفتی کا فتویٰ نہ کسی حرام کو حلال کرے گا اور نہ کسی حلال کو حرام کرے گا۔ اگر سائل سوال میں حیلہ کیا ہو اور سوال کے لفظوں میں ایسے تبدیلی کی ہو کہ معنیٰ اور مفہوم محتمل ہو جائے تو مفتی تو سوال کے مطابق ہی جواب دیتا ہے۔
اسی طرح اگر مفتی اس کا لحاظ کرے یا خاص تعلق کی وجہ سے درست فتویٰ نہ دے تو دونوں گناہ گار ہیں۔
اللہ مفتیوں کو صحیح فتوے دینے کی توفیق عطا فرمائے، صحیح راستہ دکھائے۔ ہم سب نے اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔
تیسری گزارش: مفتی کے آداب کے حوالے سے یہ ہے۔
مفتی اللہ رب العالمین کی طرف سے مہر لگانے والا ہے۔ وہ جس چیز کا فتویٰ دیتا ہے وہ اسے شریعت اسلامیہ کی طرف منسوب کرتا ہے۔ یا تو کسی واضح آیت یا حدیث کی بنا پر، یا پھر اہل علم ہونے کی حیثیت سے مناسب اجتہاد کی بنا پر فتویٰ دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’لوگ تم سے فتویٰ پوچھتے ہیں کہو اللہ تمہیں فتویٰ دیتا ہے‘‘ [النساء: 176]،
تو گویا مفتی اللہ کی طرف سے لوگوں کو احکام بتاتا ہے اور اللہ کی طرف سے ان احکام پر مہر لگاتا ہے۔
مفتی کو فتویٰ دینے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے، بلکہ آرام سے اور ٹھنڈے دماغ سے سوال پر غور کرنا چاہیے اور اسے اپنے دماغ میں واضح کر کے صورت حال کا صحیح اندازہ لگانا چاہیے۔
جواب واضح ہونا چاہیے، مکمل اور شامل ہونا چاہیے۔ سائل کے ساتھ نرمی سے پیش آنا چاہیے اور سوال سمجھنے اور جواب سمجھانے میں صبر سے کام لینا چاہیے۔
اسی طرح لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنی چاہیں، ان کے احوال، عادات اور صورت حال کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ ان سے سختیاں دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
یاد رہے کہ آسانی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فرائض چھوڑنے کی اجازت دے دی جائے یا شرعی احکام کو ختم کر دیا جائے اور لوگوں کی خواہشات کے ساتھ چلا جائے۔
اہل علم فرماتے ہیں: وقت، جگہ، عادات اور حالات کی تبدیلی سے فتویٰ بدل سکتا ہے، مگر لوگوں کی خواہشات کے ساتھ نہیں بدل سکتا، بلکہ یہ ان اصولوں پر قائم رہتا جو شریعت اسلامیہ نے وضع کیے ہیں اور جن میں ہر تبدیلی کی وجہ اور ضرورت کا مکمل طور پر ذکر کیا گیا ہے۔
اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے، اللہ سے ڈرو۔ ہر مفتی اور سائل اللہ سے ڈرے۔ شریعت کے احکام کی قدر کرو۔ یاد رکھیے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو دیکھ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرو، خود بریء الذمہ ہو جاؤ، آخرت میں اللہ کے سامنے پیش ہونے اور حساب کتاب دینے کے لیے تیار ہو جاؤ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں