ابلیس سے جنگ کی روداد۔ ۔۔ حج کا سفر ۔۔۔ حصہ- 15

ابلیس سے جنگ کی روداد۔ ۔۔ حج کا سفر
حج کی داستان حج کی اصل روح کے تعارف کے ساتھ

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر محمد عقیل
حصہ-15

منٰی سے واپسی
۱۰ذی الحج کو رمی کا وقت فجر کے بعد ہی شروع ہوجاتا ہے لیکن دس اور گیارہ تاریخ کو رمی کا وقت زوال کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔ ظہر کےبعد ایک مرتبہ پھر رمی کرنے کے لئے روانہ ہوئے اور چونکہ یہ آخری روانگی تھی اس لئے خیمے سے اپنا سامان بھی اٹھالیا کیونکہ اب رخصتی کا وقت تھا۔ جب میں بیگم سے ساتھ باہر نکلا تو دیکھا کہ میری ایرو سافٹ کی قیمتی چپل کھو گئی ہے۔ اسی طرح ہمارے ایک ساتھی اقبال انکل کی وہیل چئیر بھی کوئی لے گیا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ کچھ لوگ شیطان کے خلاف جنگ میں پیچھے رہ گئے تھے۔

اس مرتبہ رمی کے لئے گراؤنڈ فلور کا انتخاب کیا۔ پہلے چھوٹے شیطان کو کنکریاں ماریں اور دعا مانگی ۔ پھر درمیانے شیطان کو کنکریاں مارنے کے بعد بھی دعا مانگی البتہ بڑے شیطان کو کنکریاں مارنے کے بعد دعا نہیں مانگی کیونکہ سنت یہی تھی۔ اس کے بعد ہم عزیزیہ میں اپنی قیام گاہ پر چلے گئے۔ یوں حج کے مناسک کا اختتام ہوا جس پر ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ تاریخ کو بھی رمی کی تھی جو کہ آپشنل تھی۔ چنانچہ ہم نے اس سنت پر عمل کرتے ہوئے تیرہ تاریخ کی رمی بھی کی۔ یوں ہمارا حج بھی اختتام پذیر ہوا۔

جدہ جدہ
میرے ہم زلف آفتاب اور عمران اور انکی بیوی جدہ میں ہی مقیم تھے ۔ یہ سب لوگ کافی عرصے سے اصرار کرہے تھے کہ جدہ آیا جائے۔ پہلے تو ہم حج کا بہانہ بنا کر ٹال رہے تھے کیونکہ ہمارا نہ تو شاپنگ کا کوئی خاص ارادہ تھا اور نہ ہی حرم سے دوری گوارا تھی۔ ان کا اصرار جاری رہا اورپھر ہم مجبور ہوگئے ۔

چودہ ذی الحج کو صبح عزیزیہ سے روانہ ہوئے اور حرم پہنچے ۔ ٹیکسی نے باب صفا پر اتارا تھا اور ہمیں باب فہد پر واقع مرکز توحید جانا تھا جہاں سے ہمیں جدہ جانے والی گاڑیاں ملتیں۔ جب باب صفا سے باب فہد کی جانب جارہے تھے تو مسجدالحرام کے باہر سے گذرنا پڑا۔ طواف کا بہت دل چاہ رہا تھا لیکن ہمارے پاس ایک بڑا سا بیگ تھا جسے اندر لے کر جانا ممکن نہ تھا۔ میری بیگم کے گھٹنے کی تکلیف دوبارہ شروع ہوگئی تھی اس لئے رفتار سست تھی۔

بڑی مشکل سے ایک ہائی ایس ملی جو بیس ریال فی بندہ لے رہی تھی۔ وین روانہ ہوئی اور کچھ ہی دیر بعد مکہ کے مضافاتی علاقے شروع ہوگئے۔ ابھی ہم نظاروں ہی میں مصروف تھے کہ اچانک ناکہ لگائی ہوئی پولیس نے وین کومڑنے کا اشارہ کیا۔ وین حاجیوں کے مرکز میں داخل ہوگئی۔ مسافروں سے کاغذات طلب کئے گئے۔ میں نے اپنا پیلا کارڈ دکھادیا۔ میں مطمئن تھا کیونکہ رافع نے بتایا تھا کہ اس کارڈ پر جدہ جاسکتے ہیں۔ ڈرائیور کافی دیر تک ان لوگوں سے بحث کررہا تھا جبکہ وہ لوگ ان مسافرین کو اتارنا چاہتے تھے جن کے کاغذات مکمل نہیں تھے۔ بعد میں علم ہوا کہ ہم بھی ان مسافرین میں شامل تھے اور ہمیں جدہ جانے کے لئے معلم کی جانب سے تصریح یعنی اجازت نامے کی ضرورت تھی۔ بہرحال ڈرائیور کو ہار ماننا پڑی اور اس نے دس مسافروں کو آدھے پیسے دے کر اتاردیا۔

ہمارے ساتھ بنگالی بھائی تھے۔ ہم وہاں بیٹھے رہے اور ایک عربی سے استفسار کیا کہ کیا معاملہ ہوگا۔ اس نے بتایا کہ کچھ دیر بعد ایک بس آئے گی اور وہ ہمیں لے جائے گی۔ اس دوران میں نے رافع سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی لیکن جواب ندارد۔ پھر میں نے جدہ میں عمران کو بتادیا کہ ہم نہیں آسکتے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ہمیں لینے آرہے ہیں۔ میں نے انہیں منع کیا لیکن وہ باز نہ آئے ۔ یہ ان کی محبت تھی وگرنہ آج کل کوئی اس طرح نہیں کرتا۔

اسی کوفت کے عالم میں تھے کہ ایک وین آئی اور اس نے ہمیں حرم سے دیڑھ کلومیٹر دور ام القریٰ نامی جگہ پر اتار دیا۔ یہاں سے ہم واپس حرم کی جانب رواں دواں تھے۔ راستے میں سامان کا بوجھ برداشت نہیں ہو رہا تھا چنانچہ کچھ اضافی کپڑے راستے میں پھینک دیے۔

اسی اثنا میں ظہر کا وقت ہوگیا چنانچہ ہم نے ایک مسجد میں نماز پڑھی۔ وہاں مساجد میں عورتوں اور مرد دونوں کے نماز پڑھنے کا انتظام ہوتا ہے۔ نماز کے بعد کچھ دور چلے اور حرم آگیا۔ اب وہی بیگ کا مسئلہ تھا جس کولے کر حرم میں داخل نہیں ہوسکتے تھے۔بڑی مایوس کن صورت حا ل تھی کیونکہ آفتاب کے آنے تک وقت حرم ہی میں گذارنا چاہتے تھے۔ بہرحا ل ایک دروازے سے داخل ہونے کی کوشش کی۔ وہاں پولیس اہلکار نے کچھ نہ کہا اور ہم جلدی سے اندر داخل ہوگئے۔ یہاں آکر اطمینان کا سانس لیا۔ اب طواف کرنا تھا لیکن مسئلہ وہی بیگ تھا۔ اسے لے کر ہم دونوں ایک ساتھ طواف نہیں کرسکتے تھے ۔ دوسرا آپشن یہ تھا کہ بیگ ہم میں سے ایک پکڑ ے اور دوسرا فرد طواف کرے ۔ اس طرح وقت بہت زیادہ لگ سکتا تھا۔ لیکن ہم نے اللہ کا نام لیا اور بیگ کو جوتیوں کے ڈبے کے اوپر رکھا اور مطاف میں داخل ہوگئے۔ اس طرح کے لاوارث بیگ شرطے کچھ ہی دیر میں ہٹا دیتے ہیں۔لیکن ہم جب طواف کرکے واپس آئے تو بیگ اپنی جگہ موجود تھا۔ مجھے یوں لگا کہ شاید اسی طواف کے لئے ہمیں شرطوں نے واپس بھیج دیا تھا۔

اب بھوک لگ رہی تھی۔ چنانچہ حرم کے سامنے واقع بن داؤد میں داخل ہوئے تاکہ کچھ کھاسکیں لیکن اسی اثنا میں آفتاب کا فون آگیا۔ اس نے بتایا کہ عمران گاڑی لے کر ٹنل میں موجود ہے اور ہمیں فوراً وہاں پہنچنا ہے۔ چنانچہ ہم کھانے کا ارادہ ترک کرکے باہر آگئے۔ ہم ٹنل میں داخل ہوئے تو پتہ چلا کہ عمران گاڑی لے کر آگے جاچکا ہے کیونکہ شرطے رکنے نہیں دیتے۔ یوں ہمیں پوری ٹنل کراس کرنی پڑی اور قریب ایک کلومیٹر چلنے کے بعد ہم نے عمران کو جالیا۔ بھوک پیاس اور تھکن سے نڈھال ہوچکے تھے۔ چیک پوسٹ وغیرہ سے گذر کر چار بجے جدہ پہنچ گئے۔مہوش انتظار ہی کررہی تھی اور اس نے کھانا تیار کیا ہوا تھا۔ عصر اور مغرب کی نمازوں سے فارغ ہوکر کھانا کھایا اور کچھ زیادہ ہی کھالیا۔

اب باہر چلنے کا پروگرام تھا۔ تھکن کے باوجود ضروری تھا کیونکہ دن کم تھے اور کچھ ضروری چیزیں لینی تھیں۔ جدہ کی سڑکیں کشادہ، عمارتیں بلند و بالا اور ٹریفک منظم تھا۔ وہاں کے ایک مشہور بازار بلد پہنچے اور شاپنگ کی۔ آفتاب کو عربی بول چال اور بارگیننگ میں مہارت تھی اس لئے کافی آسانی ہوگئی۔ وہاں بازار نماز کے اوقات بند ہوجاتے ہیں اور رات ۱۰ بجے کے بعد بالکل بند ہوجاتے ہیں۔ اگلے دن کارنش یعنی ساحل سمندر گئے اور پھر بلد گئے۔

جدہ ہم پہلی دسمبر کو پہنچے تھے اور آج تین دسمبر تھی۔ لیکن حرم سے دوری گوارا نہ تھی چنانچہ تین دسمبر کو ہم ۸۰ ریال دے کرا یک ٹیکسی کے ذریعے مکہ واپس آگئے۔ اگلے دن جمعہ تھا اور جمعہ کی نماز حرم میں پڑھی اور طواف کیا۔ ہفتے کو مسجد عائشہ جاکر احرام باندھا اور پھر حرم آکر عمرہ ادا کیا ۔

اتوار چھ دسمبر ہمارا مکہ میں آخری دن تھا۔ آج طواف وداع کرنا تھا جو باشاہ حقیقی کے دربار میں آخری سلام تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ ہمیں مکہ میں ایک مہینے سے زائد ہوگیا تھا اور اس شہر سے ایک انسیت ہوچلی تھی۔ طواف میں بہت رش تھا اور پہلی مرتبہ طواف ٹاپ فلور پر کیا۔ طواف کے بعد خانہ کعبہ کو بہت دیر تک دیکھتا رہا کہ دوبارہ یہ دیدار پتانہیں نصیب ہو یا نہ ہو۔ حرم کے مینار، اس کے ستون، درو دیوار، غلاف کعبہ اور کعبہ کے اوپر پرندوں کی چہچہاہٹ سب کچھ دل میں بس چکا تھا اور سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ جدائی کس طرح برداشت ہوگی۔ نمازیں پڑھنے کے بعد آخری مرتبہ کعبہ کو دیکھا اور روتے ہوئے اس عظیم گھر کو الوداعی سلام کیا۔

جاری ہے ۔۔۔۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں