سوشل میڈیا پر تلخیاں، ایک آسان حل


سوشل میڈیا پر تلخیاں، ایک آسان حل 
 تحریر - کفیل اسلم

یہ میرا گیارہواں کمنٹ تھا۔ ہر بار میری یہ کوشش کہ نرم لہجہ رکھتے ہوئے لایعنی بحث پر 'فلُ سٹاپ' لگاؤں مگر جناب تھے کہ ہر بار ضد کی نئی پرت اتار کر پرانا سوال داغ دیتے۔ جھنجھلاہٹ میں بالآخر میری انگلیوں سے بھی شعیب اختر کی کسی تیز رفتار گیند کی طرح الفاظ نکلنے لگے۔ میں جو پچھلے کئی کمنٹس تحمل سے پڑھ اور لکھ رہا تھا، اب ضبط جواب دے گیا تھا۔ لمبا چوڑا کمنٹ لکھا جس میں بلا کی حرارت تھی۔ سوچ رہا تھا یہ پڑھتے ہی اگلے کے طوطے اڑ جائیں گے۔ کمنٹ پر حتمی نظر ڈالی تو وہ آٹھ دس سطور پر مشتمل ایک پیراگراف کا رُوپ دھار چکا تھا، جس میں کہیں طنز کا تڑکا تو کہیں دھونس نما محاورے۔ بس پوسٹ کرنے کو ہی تھا یہ لائٹ چلی گئی اور جذبات پر اوس پڑ گئی۔ خیر، منہ بُرا سا بنا کر کرسی سے اٹھا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔

آپ کے ساتھ بھی سوشل میڈیا پر اکثر ایسے معاملات پیش آتے ہوں گے، جہاں آپ کی کسی عام سی پوسٹ پر کچھ احباب دندناتے ہوئے آجاتے ہوں گے اور پھر وہی ہوتا ہوگا جو ابھی میرے ساتھ ہوا۔

صورتحال کا جائزہ لیں تو معاملہ اتنا گھمبیر بھی نہیں، مگر جذبات کی رو میں بہہ کر اکثر ایسا ہونے لگتا ہے۔ کچھ تجاویز ہیں، سوشل میڈیا کی دنیا میں ان کی یاددہانی سے معاملات ٹھیک رہ سکتے ہیں:

ہر فرد کو رائے کا حق دیجیے:
یہ بات طے کرلیجیے کہ دنیا میں ہر فرد آپ کا ہم خیال نہیں۔ کہیں دوسرا آپ سے اتفاق کرے گا تو کہیں اختلاف۔ ہر ایک کو اس کی رائے کا اظہار کا پورا پورا حق ہے جیسا کہ آپ کو حاصل ہے لہٰذا آسان حل یہ ہے کہ جب بھی کسی دوست کی وال یا ٹائم لائن پر کوئی اختلافی چیز دیکھیں اُسے دیکھیں، پڑھیں اور سمجھیں۔ پسند آئے تو ٹھیک ورنہ آگے نکل جائیں۔ بحث سے گریز کریں۔ آپ نے دو چار کمنٹ میں اُسے قائل نہیں کرلینا۔

گالم گلوچ سے گُریز کیجیے:
پہلے تو بحث سے گریز ہی کیجیے مگر دوسرے سےاگر دوستی ہے اور رفاقت ایسی ہے کہ بحث و تکرار چل سکتی ہے تو ٹھیک ہے مگر قُربت کا مطلب ہرگز ہرگز یہ نہیں کہ آپ گالم گلوچ پر اُتر آئیں۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ پرانی رفاقتیں اس بات پر ٹوٹ جاتی ہیں کہ فلاں موقع پر اُس نے مجھے گالی دی اور بات بڑھ گئی۔ آسان حل یہ ہے کہ جہاں معاملات میں حِدّت بڑھ جائے، وہیں بات کو روک دیں چاہے اگلا کتنا ہی آپ کو بحث جاری رکھنے پر اُکساتا رہے۔

فرقہ واریت سے مکمل پرہیز کیجیے:
جتنے فرقے ہمارے معاشرے میں موجود ہیں میرا نہیں خیال کہ دوبارہ مستقبل قریب میں یہ سب ایک ہوجائیں گے اور اختلاف ختم ہوجائیں گے۔ یہ اختلاف رہے گا اور ماضی میں بھی رہا ہے۔ کیا یہ ضروری ہے کہ ایسے اختلاف جن پر لڑے بغیر بھی ہم اچھے مسلمان رہ سکتے ہیں ان کو ڈسکس کر کے اچھے تعلقات کو بگاڑ لیں؟ جو آپ کو حق لگتا ہے آپ اُس پر عمل کیجیے اور اُسے شئیر کیجیے مگر جو آپ کی فقہ کے خلاف ہے آپ کا کیا خیال ہے فیس بک، ٹویٹر پر کمنٹ باکس میں تُند و تُرش جملوں سے خود کو حق پر ثابت کرلیں گے؟ آسان حل یہ ہے کہ آپ اپنی بات دلیل سے رکھیے۔ ماننے والا ماننے ورنہ آپ کا فرض ادا ہوا اب آپ اپنا راستہ لیجیے۔ اللہ اب آپ سے نہیں پوچھے گا کہ پیغام کیوں نا دیا؟

رہنما کا احترام کریں:
جب بھی دو افراد کے درمیان بحث ہو معاملہ سنگین تب ہوتے ہے جب دومیں سے کوئی ایک دوسرے کے مذہبی یا سیاسی رہنما کے لیے ایسے جملے استعمال کرجائے جو وہ اپنے رہنما کے لیے سننا کسی صورت بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ جواباً یہ معاملہ دونوں طرف آگ لگادیتا ہے اور پھر یہ تکرار تعلق ختم ہونے پر منتج ہوتے ہیں۔ آسان حل یہ ہے کہ جس سے بھی اختلاف ہو کوشش کیجیے کہ اختلاف ایسے لفظوں میں کیجیے کہ آپ کا مدّعا بھی پہنچ جائے اور سامنے والا زچ بھی نا ہو اور ایسا کرنا ممکن بھی ہے۔

سوچ سمجھ کر کمنٹ کیجیے:
دیکھنے میں آیا ہے کہ کئی بار کسی سٹیٹس پر پڑھنے والے قربت کے جذبات کے باعث کچھ بھی لکھ دیتے ہیں جو صاحبِ سٹیٹس کے لیے یا اُس لسٹ میں موجود اس کے رشتہ دار احباب کے لیے خاصی کوفت کا باعث بنتا ہے۔ اور یہ لڑائی کمنٹ باکس سے ان-باکس میں منتقل ہوجاتی ہے۔ اس مسئلہ کا آسان حل یہ ہے کہ اپنے کمنٹس کا استعمال سوچ سمجھ کر کیجیے۔

سوشل میڈیا بہت مفید چیز ہے۔ اس سے اپنی صلاحیتوں کا بڑھانے کا ذریعہ بنائیے نا کہ کوفت کا۔ خوش رہیے، سوشل میڈیا استعمال کرتے رہیے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں