خطبہ جمعہ مسجد نبوی
ترجمہ: شفقت الرحمان مغل
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد الرحمن بعیجان حفظہ اللہ نے پہلی بار 02-محرم الحرام- 1439 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "سال رفتہ اور 9، 10 محرم کا روزہ" ارشاد فرمایا انہوں نے کہا کہ دنیا جائے امتحان اور فانی ہے اور آخرت نتائج کی جگہ اور دائمی ہے اس لیے اپنی آخرت سنوارنے کیلیے بھر پور کوشش کریں، دنیاوی رعنائیوں میں دل مت لگائیں؛ کیونکہ ہر گزرتا لمحہ آپ کو قبر اور حساب کے قریب دھکیل رہا ہے، زندگی جس قدر بھی لمبی ہو جائے آخرت کے مقابلے میں انتہائی مختصر ہے.
خطبے کا منتخب اقتباس پیش ہے:
سب سے سچا کلام قرآن مجید ہے، مضبوط ترین ذریعہ نجات تقوی ہے، بہترین ملت؛ ملتِ ابراہیم ہے اور بہترین واقعات قرآن مجید میں ہیں، سب سے افضل ترین طرزِ زندگی جناب محمد ﷺ کا ہے، بد ترین امور بدعات ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ}
اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں ہی آئے۔[آل عمران : 102]
اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں ہی آئے۔[آل عمران : 102]
اللہ کے بندو!
دنیا امتحان اور فنا کی جگہ ہے، جبکہ آخرت نتائج اور بقا کی جگہ ہے۔ دنیا دھوکے کا سامان ہے۔ دنیا لمحوں، دنوں اور مہینوں کا نام ہے، اس میں سال اور صدیاں آتی ہیں، کئی سال آ کر چلے گئے ، کچھ اور بھی آ کر چلے جائیں گے، دن اور مہینے گزرتے جا رہے ہیں ، اللہ تعالی دن اور رات کو آگے پیچھے بھیج رہا ہے ، ان میں اہل بصیرت کے لیے عبرت ہے۔
اس دنیا میں نسلیں فنا ہو جائیں گی اور تمنائیں ختم ہو جائیں گی، ز ندگیاں بھسم ہو جائیں گی،
{كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ (26) وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ}
اس پر موجود ہر چیز نے فنا ہونا ہے[26]صرف تیرے رب کی ذو الجلال والاکرام ذات کیلیے دائمی بقا ہے۔ [الرحمن: 26، 27]
{كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ (26) وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ}
اس پر موجود ہر چیز نے فنا ہونا ہے[26]صرف تیرے رب کی ذو الجلال والاکرام ذات کیلیے دائمی بقا ہے۔ [الرحمن: 26، 27]
تالله ما الدنيا بدار بقاء
كلا وإن شيد الأنام قصورها
اللہ کی قسم! دنیا کبھی بھی بقا کی جگہ نہیں ہے، چاہے لوگوں نے یہاں محل بنا لیے ہیں!!
تتفاوت الأعمار لكن يستوي
عند الممات طويلها وقصيرها
عمریں سب کی الگ الگ ہوتی ہیں لیکن موت کے وقت بڑی اور چھوٹی عمر والے سب برابر ہو جاتے ہیں
هيهات ما الدنيا بدار يرتجى
فيها البقاء ولا يتم سرورها
دنیا کوئی ایسا ٹھکانا نہیں ہے کہ یہاں بقا کی امید رکھیں اور اس کی رعنائیاں کبھی بھی پوری نہیں ہوں گی
والموت غاية كل نفس فاستوت
عند اللبيب قصورها وقبورها
ہر نفس کی انتہا موت ہے، اس لیے عقل مند کے ہاں دنیا کے محلات یا قبریں یکساں مقام رکھتی ہیں۔
ایک اور سال گزر کر دنیا کی عمر میں کمی اور موت کو قریب کر گیا ہے، اس سال میں کی گئی کارکردگی انتہا کو پہنچ گئی ہے اور اس کے دفاتر لپیٹ دئیے گئے ہیں، چنانچہ جس نے سال کے لمحات کو غنیمت سمجھا، وقت سے فائدہ اٹھایا اور بہتر کارکردگی دکھائی تو وہ مبارکباد کا مستحق ہے۔
ہم ایک نئے سال میں داخل ہو چکے ہیں جو ہمیں قبر کی جانب دھکیل رہا ہے اور ہمیں روزِ قیامت اور دوبارہ جی اٹھنے کے دن کی طرف ہانک رہا ہے۔ اس لیے صاحب دل اور کان دھرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی سے فائدہ اٹھا لے تا کہ بعد میں ندامت نہ اٹھانی پڑے۔
اللہ کے بندو!
وقت گزرتا جا رہا ہے، زندگی تھوڑی سی ہے، اسی تھوڑی سی مدت میں زندگی کے لمحات محصور ہیں، جبکہ ذمہ داریوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے، حقوق کی تعداد بہت زیادہ ہے، پھر انسان سے یہ بھی پوچھا جانے والا ہے کہ زندگی کہاں گزاری؟ جوانی کہاں صرف کی؟ انسان سے ضائع کردہ زندگی کے بارے میں حساب لیا جائے گا، رائیگاں کیے ہوئے وقت کا حساب کیا جائے گا۔ زندگی کتنی ہی لمبی ہو جائے ہے پھر بھی مختصر:
{قَالَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ (112) قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَاسْأَلِ الْعَادِّينَ (113) قَالَ إِنْ لَبِثْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا لَوْ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (114) أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ}
اللہ فرمائے گا: تم زمین میں کتنے سال رہے؟ [112] وہ کہیں گے: ہم ایک یا ایک دن کا کچھ حصہ رہے ہیں؛ شمار کرنے والوں سے پوچھ لو [113] اللہ فرمائے گا: تم تھوڑی دیر ہی ٹھہرے ہو اگر تم جانتے ہو [114] کیا تم نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ہم نے تمہیں عبث پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف نہیں لوٹایا جائے گا؟[المؤمنون: 112 - 115]
{قَالَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ (112) قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَاسْأَلِ الْعَادِّينَ (113) قَالَ إِنْ لَبِثْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا لَوْ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (114) أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ}
اللہ فرمائے گا: تم زمین میں کتنے سال رہے؟ [112] وہ کہیں گے: ہم ایک یا ایک دن کا کچھ حصہ رہے ہیں؛ شمار کرنے والوں سے پوچھ لو [113] اللہ فرمائے گا: تم تھوڑی دیر ہی ٹھہرے ہو اگر تم جانتے ہو [114] کیا تم نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ہم نے تمہیں عبث پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف نہیں لوٹایا جائے گا؟[المؤمنون: 112 - 115]
زندگی کی سانسیں -اللہ کے بندو!- کچھ کر گزرنے کا بہترین موقع ہیں، یہ تو موجب شکر نعمت ہے۔
تم میں سے بہتر وہ ہے جس کی زندگی لمبی ہو اور عمل بھی اچھے ہوں، جبکہ تم میں سے برا وہ ہے جس کی عمر لمبی ہو اور اس کے اعمال بھی برے ہوں۔
تم میں سے بہتر وہ ہے جس کی زندگی لمبی ہو اور عمل بھی اچھے ہوں، جبکہ تم میں سے برا وہ ہے جس کی عمر لمبی ہو اور اس کے اعمال بھی برے ہوں۔
توجہ فرمائیں! یہ بھی نعمتوں کے شکر میں شامل ہے کہ اپنی زندگی اللہ تعالی کی اطاعت میں سنت نبوی کے مطابق گزاریں۔
جبکہ دوسری جانب نعمتوں کی ناشکری ، سخت آزمائش ، عذاب، حسرت اور ندامت کے اسباب میں یہ شامل ہے کہ اپنی زندگی اللہ تعالی کی نافرمانی میں صرف کریں، یا غیر شرعی امور میں کھپا دیں۔
ہجری سال کی ابتدا ماہ محرم سے ہوتی ہے اور یہ حرمت والا مہینہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ}
جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اس دن سے اللہ کے ہاں نوشتہ میں مہینوں کی تعداد بارہ ہی ہے، جن میں چار مہینے حرمت والے ہیں۔ یہی محکم دین ہے۔ لہذا ان مہینوں میں اپنے آپ پر ظلم نہ کرو ۔[التوبۃ: 36]
{إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ}
جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اس دن سے اللہ کے ہاں نوشتہ میں مہینوں کی تعداد بارہ ہی ہے، جن میں چار مہینے حرمت والے ہیں۔ یہی محکم دین ہے۔ لہذا ان مہینوں میں اپنے آپ پر ظلم نہ کرو ۔[التوبۃ: 36]
ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (زمانہ اپنی اسی اصلی حالت میں واپس آ گیا ہے جیسے اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمین کے تخلیق کے دن انہیں بنایا تھا، سال میں بارہ مہینے ہوتے ہیں، ان میں سے چار حرمت والے ہیں، تین ایک ساتھ ہیں : ذو القعدہ، ذو الحجہ اور محرم، اور چوتھا مضر قبیلے کا رجب جو کہ جمادی اور شعبان کے درمیان ہے) متفق علیہ
ایک عمل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور گناہوں کے مٹانے والے اعمال میں شامل ہے، نیز اس عمل سے اللہ کا شکر ادا ہوتا ہے اور عاشورہ کا روزہ رکھ کر عظمت الہی کا اقرار بھی ہوتا ہے ، وہ یہ ہے کہ دس محرم کا روزہ رکھیں۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشورہ کا روزہ رکھتے ہوئے پایا، جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: "اس دن میں اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون کے خلاف کامیابی عطا فرمائی تھی، چنانچہ ہم اس دن کی تعظیم کرتے ہوئے روزہ رکھتے ہیں" اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (موسی علیہ السلام سے ہمارا تعلق تم سے زیادہ ہے، پھر آپ نے اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا)" متفق علیہ
اور صحیح مسلم میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یومِ عرفہ کے روزے سے متعلق مجھے اللہ تعالی سے امید ہے کہ وہ سابقہ اور لاحقہ دو سالوں کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے، اور عاشورا کے روزے سے متعلق مجھے اللہ تعالی سے امید ہے کہ سابقہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے"
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری عمر میں علم ہوا کہ یہودیوں نے عاشورا کو اپنا مذہبی تہوار بنا لیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ فرما لیا کہ ہم آئندہ سال نو اور دس محرم کا روزہ رکھیں گے لیکن اس سے پہلے آپ کی وفات ہو گئی۔
اس لیے افضل یہی ہے کہ: یہودیوں کی مخالفت کرتے ہوئے عاشورا سے ایک دن پہلے کا روزہ رکھیں اور اگر کوئی 9 کا روزہ نہ رکھ سکے تو پھر 10 محرم یعنی عاشورا کا لازمی رکھے۔
مسلم اقوام!
بدعات فتنہ ہوتی ہیں، اور فتنوں میں آزمائشیں آتی ہیں، بدترین شے بدعات ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں لے جانے والی ہے، اس لیے مضبوط کڑے کو تھام لو اور صراط مستقیم پر گامزن رہو، دیگر راستوں کے پیچھے مت لگو وگرنہ تمہیں جادۂ حق سے دور کر دیں گے۔ اس لیے ایسے تمام اعمال سے دور رہیں، اپنے پروردگار کی کتاب کو تھام لیں، اپنے نبی کی سیرت کو اپنا لیں تو یہ تمہارے لیے کافی ہے۔
{فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ إِنَّكَ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (43) وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ وَسَوْفَ تُسْأَلُونَ}
پس جو وحی آپ کی طرف کی گئی ہے اسے مضبوطی سے تھامے رہیں بیشک آپ راہ راست پر ہیں۔[43] اور یقیناً یہ آپ کے لئے اور آپ کی قوم کے لئے نصیحت ہے اور عنقریب تم سے باز پرس ہو گی۔ [الزخرف: 43، 44]
{فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ إِنَّكَ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (43) وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ وَسَوْفَ تُسْأَلُونَ}
پس جو وحی آپ کی طرف کی گئی ہے اسے مضبوطی سے تھامے رہیں بیشک آپ راہ راست پر ہیں۔[43] اور یقیناً یہ آپ کے لئے اور آپ کی قوم کے لئے نصیحت ہے اور عنقریب تم سے باز پرس ہو گی۔ [الزخرف: 43، 44]
اللہ کے بندو!
{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (90) وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ}
اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو [91] اور اگر تم نے اللہ سے کوئی عہد کیا ہو تو اسے پورا کرو۔ اور اپنی قسموں کو پکا کرنے کے بعد مت توڑو۔ جبکہ تم اپنے (قول و قرار) پر اللہ کو ضامن بنا چکے ہو جو تم کرتے ہو، اللہ اسے خوب جانتا ہے [النحل: 90، 91]
اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو [91] اور اگر تم نے اللہ سے کوئی عہد کیا ہو تو اسے پورا کرو۔ اور اپنی قسموں کو پکا کرنے کے بعد مت توڑو۔ جبکہ تم اپنے (قول و قرار) پر اللہ کو ضامن بنا چکے ہو جو تم کرتے ہو، اللہ اسے خوب جانتا ہے [النحل: 90، 91]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں