ہجرتِ مصطفی کا منظوم واقعہ


ہجرتِ مصطفی کا منظوم واقعہ 

مجھے اک درد والی داستاں سب کو سنانی ہے​
نبی کی جانبِ طیبہ یہ ہجرت کی کہانی ہے​
نبی کے سب صحابہ ہی نبی پر جاں چھڑکتے تھے​
مخالف ان کی الفت دیکھ کر بے حد بھڑکتے تھے​
وہ خانہ کعبہ پیارا جس کو بیت اللہ کہتے تھے​
وہ مکہ جس میں احمد{ﷺ} اقربا کے ساتھ رہتے تھے​
وہ پیارا بندہ اللہ کا محمد{ﷺ} نام تھا اُن کا​
سخاوت عام تھی اُن کی ، محبت کام تھا اُن کا​
نہ تھا اُن کا کوئی ہمسر ذہانت میں ، شجاعت میں​
نہ تھا اُن کا کوئی ثانی صداقت میں ، امانت میں​
شرافت میں ، ولایت میں ، عبادت میں ، ریاضت میں​
نظر آتے تھے سب سے آگے میدانِ سعادت میں​
وہ ایسے عمدہ خصلت تھے کہ کل مکے میں عزت تھی​
تصور میں نہ تھا ، اُن کے مقدر میں بھی ہجرت تھی​
صحابہ سب کے سب سرکارِ عالی کے جیالے تھے​
محمد{ﷺ} پر وہ اپنی جان بھی دے دینے والے تھے​
صحابہ کافروں کے ظلم و اِیذا سہتے جاتے تھے​
انھیں یوں دیکھ کر آقا کے آنسو بہتے جاتے تھے​
نبی سہ جاتے اپنی ذات پر جو صدمہ آتا تھا​
مگر دردِ رفیقاں آپ سے دیکھا نہ جاتا تھا​
غموں کے دیس کی تکلیف سے پردیس ہے اچھا​
روانہ کردیا کچھ ساتھیوں کو جانبِ حبشہ​
ہوئے ایسے وہ سب کفارِ مکہ دل کے نابینا​
صحابہ کا انھی کے گھر میں مشکل کردیا جینا​
پریشانی بہت ہی بڑھ گئی حضرت کے سینے میں​
روانہ کردیا اپنے صحابہؓ کو مدینے میں​
پھر اک دن بیٹھے کرنے مشورہ کافر کئی سارے​
جو محسن تھا اسی سے تنگ تھے وہ عقْل کے مارے​
ابوسفیان ، عتبہ ، شیبہ ، بوجہل و امیہ تھے​
جبیر و حارث و بوالبختری ، نضر و طعیمہ تھے​
نمودار اس جگہ شیطاں تھا اک بوڑھے کی صورت میں​
ہدایت تھی مگر ان میں سے کچھ لوگوں کی قسمت میں​
شروع ان کا ہوا پھر مشورہ ، دینے لگے آرا​
ہلاکت اس کی تھی مقصود جو اللہ کا تھا پیارا​
کہا اک نے کہ کردو کوٹھری میں قید اسے بس تم​
سمجھتا تھا کہ ہوجائے گا حق یوں پھر ہمیشہ گم​
کوئی کہنے لگا مکہ سے کردو دربدر اس کو​
جلاوطنی میں ہی حل اس کا آتا تھا نظر اس کو​
مگر اس بوڑھے شیطاں نے کیا رد دونوں باتوں کو​
کہا یوں روک نا پاؤ گے اہلِ حق کے ہاتھوں کو​
کہ بھڑکائے گی ہر دل کو محمد{ﷺ} کی نظربندی​
ہدایت عام کردے گی محمد{ﷺ} کی جلاوطنی​
کہا بوجہل نے شیطانیت والے قرینے سے​
کہ اک اک منتخب ہو نوجواں ہر اک قبیلے سے​
یہ سارے دفعۃً حملہ کریں مل کر محمد{ﷺ} پر​
قبیلے سب ہی شامل ہوں گے پھر یوں قتلِ احمد{ﷺ} پر​
قبائل سے نہ بدلہ لے سکیں گے ، عافیت ہوگی​
نہ ہوں گی مشکلیں ، ہوگی اگر کچھ تو دیت ہوگی​
ہوا شیطان راضی ، حاضریں بھی خوش ہوئے سارے​
عمل کرنے چلے اس پر بِچارے عقْل کے مارے​
اِدھر مجلس ہوئی برخاست ، اُدھر وحیِ مبین اتری​
نبی پر آیتِ ’’وَاﷲُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْن ‘‘ اتری​
خدا کا حکم آیا آپ کو ہجرت ہے اب کرنی​
دعا تلقین پھر کردی گئی ’’قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ‘‘​
نبی نے آبدیدہ پوچھا ”ساتھی کون ہے میرا؟​
خدا کی اس مقدس رہ میں راہی کون ہے میرا؟“​
وہ خوش قسمت ہے اللہ کی طرف سے ہو جسے توفیق​
کہا جبریل نے ساتھی بنیں گے آپ کے صدیق​
(صدیق سے مراد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ)​
ہوا معلوم جب صدیق کو وہ روگئے یک دم​
سعادت اس قدر پائی کہ وہ خوش ہوگئے یک دم​
یقیں اس پر جنابِ عائشہ کو آج آتا ہے​
کبھی فرطِ خوشی سے بھی تو رونا آہی جاتا ہے​
سدا تیار رکھتے تھے ہر اک شے ہر گھڑی اپنی​
مہیا کردی فوراً آپ(ابوبکر) نے تب اونٹنی اپنی​
روایت واقدی کی ہے کہ اس کا نام قصواء تھا​
”محمد“ راوی کہتے ہیں کہ اس کا نام جدعاء تھا​
خدا سے عشق جو کرتے ہیں ہوتا ہے خیال ان کا​
کہ اپنے رب کے رستے میں فدا ہو جان و مال ان کا​
خدا کی راہ میں سب کچھ فدا کرتے تھے وہ پیہم​
دیے بوبکر کو لیکن نبی نے آٹھ سو درہم​
سدا بوبکر نے اسلام پر سیکھا تھا بس کھپنا​
اشارہ تھا کہ راہِ حق میں جان اپنی ہو مال اپنا​
نبی نے ورنہ تھا بوبکر کے بارے میں فرمایا​
کہ ان کے مال نے سب سے زیادہ نفْع پہنچایا​
شبِ تاریک کے پردے فضا میں ہر طرف چھائے​
نبی کا قصہ کرنے ختم کفارِ قریش آئے​
محمد{ﷺ} جوں ہی سوئیں گے کریں گے ایک دم حملہ​
سہولت ہی سے پھر تیار منصوبہ کریں اگلا​
علی سے آپ{ﷺ} نے فرمایا تم یاں آج سوجانا​
امانت کی یہ چیزیں ہیں انھیں لوگوں کو لوٹانا​
میں چلتا ہوں ، میرے بستر پہ اب تم شب بسر کرنا​
ضرر کوئی نہیں پہنچے گا ، تم ہرگز نہیں ڈرنا​
اٹھائی خاک مٹھی میں ، پڑھیں آیاتِ ’’اَغْشَیْنَا‘‘​
خدا کے حکم سے ان کے سروں پر خاک کو پھینکا​
جو ہوجائے خدا کا ہر جگہ ہوتا ہے وہ غالب​
خدا نے کافروں کی آنکھ سے ان کو کیا غائب​
ہدایت کے چمن کے پھول کھلتے گئے ، نکھرتے گئے​
کوئی نہ دیکھ پایا اور وہ دونوں گزرتے گئے​
اگرچہ سب نبی کی جان کے دشمن ہی رہتے تھے​
کسی کے گھر میں گھس جانے کو پر معیوب کہتے تھے​
چناں چہ صبح تک کفار نے گھیرے رکھا وہ گھر​
نظر آئے علی پھر ان کو پیغمبر کے بستر پر​
ہوا اس دم فضا میں خندہ زن مجمع صداقت کا​
ان اندھوں کو جب اندازہ ہوا اپنی حماقت کا​
حرم میں لے گئے حضرت علی کو ، خوب دھمکایا​
یہاں سے پھر ہر اک بوبکر کے گھر میں چلا آیا​
مشقت سب سے بڑھ کر ہے وطن کو چھوڑنے والی​
رسول اللہ نے مکہ کی جانب اک نظر ڈالی​
محمد{ﷺ} کی زباں سے اس گھڑی جاری ہوئے کلمے​
ہیں جن کے سامنے پھیکے چمن کے سب کے سب نغمے​
زمیں تُو سب سے بہتر ، رب کو تُو محبوب ہے بے حد​
ہے عمدہ شہر تو سب سے ، مجھے مرغوب ہے بے حد​
نکالا گر نہ جاتا تجھ سے ہرگز نا نکلتا میں“​
فضیلت خوب یوں اب ہوگئی معلوم مکہ میں​
نہیں تھا کوئی معمولی محمد مصطفی{ﷺ} کا گھر​
نہیں تھا چھوڑنے جیسا یقینًا وہ خدا کا گھر​
جہاں چالیس برسوں تک کسی کا وقت ہو گزرا​
جہاں ہو خانداں رہتا کسی انسان کا پورا​
وطن کو چھوڑ کر اپنے خدا کی راہ میں بڑھنا​
بہت مشکل ہے اپنے گھر سے بے گھر ہوکے چل پڑنا​
زمین و آسماں نے اس گھڑی دیکھا عجب منظر​
محمد{ﷺ} چھپ رہے تھے آہ غارِ ثور کے اندر​
نبی کے واسطے صدیق گویا بن کے پرچھائیں​
کبھی آگے ، کبھی پیچھے ، کبھی دائیں ، کبھی بائیں​
نظر فرماؤ اے عشاق! اے مجنوں! یہاں آؤ​
محبت ایسی دیکھی ہے کبھی تم نے تو بتلاؤ​
پھر اتنے میں وہ غارِ ثور کے نزدیک آپہنچے​
نبی{ﷺ} سے پہلے ہی صدیق فوراً اس میں جا پہنچے​
گئے اندر ، صفائی کی ، نبی{ﷺ} کو پاس بلوایا​
اسی کو میرے رب نے ’’اِذْ ہما فِی الْغَارِ‘‘ فرمایا​
عمر کے سامنے جب غار کا یہ تذکرہ ہوتا​
تو یہ سن کر عمر فاروق کا یوں تبصرہ ہوتا​
وہ اک صدیق کی شب کی غار کے اندر جو رہ کر تھی​
عمر کی عمر بھر کی کُل عبادت سے وہ بہتر تھی​
خدا کے حکم سے مکڑی نے جالا تن دیا فوراً​
نظر جالے پہ ڈالی اور آگے بڑھ گئے دشمن​
نبی{ﷺ} نے غمزدہ بوبکر کو دیکھا تو فرمایا​
جسے سن کر دلِ صدیق نے بے حد سکوں پایا​
نہ کر یوں غم کہ ہم دونوں کا تو اللہ وارث ہے​
اگرچہ ہم اکیلے ہیں ، مگر اللہ ثالث ہے​
ہمارے ساتھ اللہ ہے ، نہ غم کر اے میرے ساتھی!​
پھر اتریں آیتیں ’’ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اﷲَ معنا‘‘ کی​
کیا اعلان پھر کفار نے جو ان کو لائے گا​
تو وہ اس کام پر انعام میں سو اونٹ پائے گا​
رہے دونوں یہ چھپ کر تین دن تک غار کے اندر​
جب آئی چوتھی شب یہ چل پڑے پھر اپنی منزل پر​
مدینہ بن گیا پھر مصطفی کے نور کا مسکن​
ہدایت کا وہ پھیلا نور ، روشن ہوگیا گلشن​
یہاں سے پھر ہدایت کو خدا نے عام فرمایا​
محمد{ﷺ} نے یہاں کام اپنا سرانجام فرمایا​
سلام ان پر جنھوں نے چھوڑا گھر ، مکہ سے ہجرت کی​
سلام ان پر جنھوں نے ان کی جان و دل سے نصرت کی​
نبی کا قصہ پڑھ کر دل میں اک وجدان ہے طاری​
تمنا ہے کہ روزِ حشر ہو اعلانِ رب جاری​
محمد{ﷺ}اور ان کے سب صحابہ آئیں جنت میں​
محبت کرنے والے ساتھ ان کے جائیں جنت میں​
ہمارے واسطے قربانی دینا ان کا شیوہ ہے​
اسامہؔ بھی انھی کی الفتوں کا نام لیوا ہے​

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں