ابلیس سے جنگ کی روداد۔ ۔۔ حج کا سفر
حج کی داستان حج کی اصل روح کے تعارف کے ساتھ
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر محمد عقیل
حصہ-14
رمی قربانی حلق
میں اپنی بیوی کےساتھ آگے بڑھتا رہا۔ رمی کے لئے تین پل تھے۔ ہم نے پہلی منزل کے پل کا انتخاب کیا کیونکہ یہاں رش نسبتاً کم تھا۔ لوگوں کو سامان کے ساتھ داخل نہیں ہونے دیا جارہاتھا۔ پہلے دن بڑے شیطان ہی کو کنکریاں مارنی تھیں۔ میں اس کے قریب پہنچا اور دل میں اعادہ کیا کہ یہ کنکریاں میں شیطان کی ناک رگڑنے کے لئے اور رحمان کو راضی کرنے کے لیے ماررہا ہوں۔ سات کنکریاں مار کر دعا نہیں کی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا تھا۔ یہ اسلام کا امتیاز ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک سنت کا ریکارڈ موجود ہے جبکہ دیگر مذاہب کا تو معاملہ یہ ہے کہ ان کی اصل کتاب تک محفوظ نہیں۔
سنگباری کرنے کے بعد نیچے اترنے لگے کیونکہ حفاظت کے لئے اب سعودی حکومت نے آنے اور جانے کے راستے الگ کردئے تھے۔ چنانچہ پلٹ کر جانے کا کوئی راستہ نہ تھا اور نہ ہمیں واپسی کی ضرورت تھی کیونکہ ہمارا عزیزیہ کا ہوٹل جمرات سے صرف ۲۰ منٹ کی واک پر تھا۔ جمرات کے پل سے نیچے اترنے کے بعد کچھ کھانے کو لیا اور تین دن بعد ڈٹ کر کھایا کیونکہ منی ٰ میں باتھ روم کے خوف کی بنا پر کھانے پینے میں احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ ہوٹل پہنچ کر رافع کو فون کیا کہ ہم نے رمی کرلی ہے اور ہمارے نام کی قربانی کرلی جائے تاکہ ہم حلق کرواکے احرام اتار دیں۔ حنفی مسلک میں رمی قربانی اور حلق کی ترتیب برقرار رہنی چاہئے اور اگر ایسا نہ ہو تو دم واجب آجاتا ہے جبکہ دیگر مسالک میں یہ ترتیب اگر غلط ہوجائے تو دم کی ضرورت نہیں۔
آدھے گھنٹے بعد علم ہوا کہ قربانی ہوگئی ہے چنانچہ ہم نے حلق کروالیا۔ چونکہ حجام کے پاس بہت رش تھا اس لئے ہم نے ایک دوسرے کے سر خود ہی مونڈ نےشروع کردئے۔ میرا سر ریحان نے مونڈا۔ اس کے بعد غسل کیا اور سول ڈریس زیب تن کرلیا۔ چنانچہ وہ احرام جو ۷ ذی الحج کو باندھا تھا وہ ۱۰ ذی الحج کی شام کو اتاردیا۔ اب اگلا مرحلہ طواف زیارت اور دو دن منیٰ میں قیام اور رمی کرنا باقی تھا۔
طواف زیارت
اگلے دن ایک اور معرکہ سر کرنا تھا اور وہ تھا طواف زیارت۔ تقریباً ۳۲ لاکھ حاجیوں کو یہ طواف بارہ تاریخ تک کرنا تھا جس کی بنا پر حر م میں غیر معمولی رش تھا۔ ہمارے گروپ کے کچھ لوگ دس تاریخ ہی کو طواف کر آئے تھے اور باقی لوگ وقتاً فوقتاً یہ فرض انجام دے کر آرہے تھے۔ لیکن ہر آنے والا گروہ رش میں اضافے کی خبریں ہی لارہا تھاجس سے اضطراب بڑھ رہا تھا۔
بہرحال نماز ظہر پڑھ کر۲۵ افراد کا قافلہ رمی اور طواف کرنے کے لئے نکلا۔ یہ گروہ عورتوں بوڑھوں اور چند نوجوانوں پر مشتمل تھا۔ اس میں وہ نوجوان بھی شامل تھے جو پہلے ہی طواف کرکے آگئے تھے اور اب صرف بزرگوں کی مدد کے لئے جارہے تھے۔مجھے ان کے ایثار پر رشک آگیا۔ رمی تو ہم نے سیکنڈ فلور پر جاکر پندرہ منٹ ہی میں کرلی لیکن اگلا محاذ طواف زیارت کرنا تھا۔ ٹرانسپورٹ سے جانا ایک مسئلہ تھا کیونکہ ٹرانسپورٹر حضرات ٹریفک جام ہونے کی بنا پر راستے ہی میں اتاردیتے تھے اور پھر باقی سفر پیدل ہی طے کرنا پڑتا تھا۔ دوسرا آپشن طریق المشاہ یعنی پیدل چلنے والوں کا راستہ تھا جو جمرات سے قریب پون گھنٹے کا سفر تھا۔
رمی کے بعد گروپ کے کچھ لوگوں نے چاہا کہ طواف کو رات تک موخر کردیا جائے کیونکہ ایک لڑکی کے رشتے دار نے فون پر رش کی بنا پر حرم آنے سے منع کردیا تھا۔ لیکن مجھے اس رائے سے اختلاف تھا۔ اس وقت پونے تین بج رہے تھے اور امید تھی کہ عصر سے قبل حرم پہنچ جائیں گے۔ بہرحال گروپ کے لوگوں نے میری رائے سے اتفاق کیا اور ہم طواف کے لئے چل پڑے۔ طریق المشاہ ایک لمبی سی سرنگ ہے جو آگے جاکر دو حصوں میں منقسم ہوجاتی ہے اور پھر یہ راستہ سیدھا باب صفا پر جاکر نکلتا ہے۔ اس سرنگ میں جگہ جگہ ٹوائلیٹ اور پانی پینے کے انتظامات ہیں۔ وہاں ہم چلتے رہے۔ کچھ دیر بعد ہی ہم گروپ والوں سے بچھڑ گئے۔
میری بیوی کے گھٹنے میں جھٹکا آگیا تھا جس کی بنا پر اسپیڈ مدھم رکھنا پڑ رہی تھی۔ آہستہ آہستہ تھکن میں بھی اضافہ ہورہا تھا لیکن خدا سے کیا ہوا عہد بھی یاد تھا کہ خواہ ٹانگیں ٹوٹ جائیں لیکن اس کی راہ میں چلتے رہنا ہے۔ اس دوران یہ بھی گھبراہٹ تھی کہ حرم میں نہ جانے کیا صورت حال ہوگی۔ راستے ہی میں نماز عصر ادا کی اور پھر سفر جاری رکھا۔ پیدل چلتے چلتے یوں محسوس ہورہا تھا گویا ساری عمریونہی چلتے رہنا ہے اور بات بھی کچھ غلط نہ تھی کیونکہ خدا کی راہ میں تو ساری زندگی ہی چلنا تھا خواہ وہ سرنگ ہو یا پھر یا زندگی کا سفر۔
بہرحال سرنگ کے دہانے پر دور ایک روشنی دکھائی دے رہی تھی جو سورج کی روشنی تھی۔ جب دہانے سے باہر نکلے تو دل باغ باغ ہوگیا کیونکہ مسجد الحرام کے مینار دیکھنے والوں کو دعوت نظارہ دے رہے تھے۔ وہاں کے درو بام دیکھ کر ساری تھکن دور ہوگئی۔ جب آگے بڑھے تو پتا چلا کہ لوگوں نے جو بے پناہ ر ش کے قصے سنائے تھے وہ غلط تھے یا کم از کم اب رش ختم ہوچکا تھا۔
میں لرزتے قدموں سے مسعیٰ کے راستے مطاف تک پہنچا اور سبز لائیٹ کی سیدھ میں آکر حجر اسود کی جانب استلام کیا اور خدا سے عہد کی تجدید کرتے ہوئے طواف زیارت کا آغاز کیا۔ اس وقت پانچ بج رہے تھے اور ہم سوچ رہے تھے کہ نہ جانے مغرب تک کتنے چکر ہو پائیں کیونکہ مغرب پانچ بج کر چالیس منٹ پر تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے وسعت اور آسانی پیدا کردی اور مغرب تک پانچ چکر مکمل ہوگئے۔ اسی اثنا ء میں مغرب ہوگئی اور امام نے بڑی جلدی نماز پڑھائی تاکہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ طواف کا موقع مل سکے۔نماز کے بعد باقی چکر مکمل کئے ، زم زم پیا، دو نفل پڑھے اور سعی کے لئے کمر کس لی۔سعی کے دوران عشاء کی اذان ہوگئی چنانچہ نماز پڑھی اور پھر باقی چکر مکمل کئے۔ اس کے بعد خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے حج کا یہ اہم فریضہ بھی خوش اسلوبی سے ادا کرنے کی توفیق دے دی۔
اب اگلا مرحلہ واپسی کا تھا۔ واپسی کے لئے باب اسمٰعیل استعما ل کیا اور پھر کھانے کے بعد ٹیکسی والوں سے عزیزیہ چلنے کی بات چیت کی۔ کوئی پچاس ریال مانگ رہا تھا تو کوئی تیس ریال فی بندہ۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ کوئی بھی منزل مقصود تک پہنچانے کی گارنٹی نہیں دے رہا تھا۔ چنانچہ ہم نے یہی فیصلہ کیا کہ واپسی کے لئے طریق المشاہ ہی استعما ل کرنا ہے۔ اس کے لئے واپسی حرم کے اندر ہی سے ہوئی وہاں دیکھا تو مطاف بہت خالی تھا اور ایک اور طواف کرنے کا دل چاہ رہا تھا۔ لیکن تھکاوٹ کے ڈر سے اس ارادے باز رہے۔ منی ٰ کے خیموں میں واپس پہنچتے پہنچتے رات کے بارہ بج گئے۔ اس طرح وہ پیدل سفر جو دوپہر دو بجے شروع کیا تھا دس گھنٹے کے بعد اختتام پذیر ہوا۔ تھکن سے چور ہونے کی جہ سے نیند جلد ہی آگئی۔
ابلیسی فوج کا کہرام
ادھر اہل ایمان شیطان کو کاری ضرب لگانے کے بعد منٰی میں چین کی نیند سورہے تھے اور دوسری جانب ابلیس کے خیموں میں ایک کہرام مچا ہوا تھا۔ وہاں کی طوائفیں بدصورتی کی مثال بن گئی تھیں، شراب کےجام ٹوٹے پڑے تھے، رقص و موسیقی بند ہوچکی تھی، خیمےالٹے پڑے تھے اور قہقوں کی بجائے آہیں اور سسکیاں تھیں۔ شیطان اپنی بے پناہ طاقت، وسائل اور منصوبہ بندی کے باوجود اہل ایمان کو شکست دینے میں ناکام رہا تھا۔ لیکن ابھی جنگ کے دو دن باقی تھے اور اس میں وہ اپنی بچی کچھی فوجیں جمع کرکے خاموشی سے اہل ایمان کو گمراہ کرنے کی سازشیں تیار کررہا تھا۔
اگلا دن بھی منی میں قیام کا تھا۔ اکثر لوگ احرام اتار کر سمجھ رہے تھے کہ حج مکمل ہوگیا ہے۔ چنانچہ منٰی میں قیام کے دوسرے روز اہل ایمان کا جذبہ سرد ہوتا جارہا تھا۔ یہ بات شیطانی لشکر کے فائدے میں تھی۔ شیطان کے چیلوں نے دوبارہ اپنے زخموں کو بھلا کر سازشیں شروع کردیں۔ ان کی کوششوں کے باعث کمزور اہل ایمان خدا کی یاد کی بجائے دنیاوی باتوں میں مشغول ہوچکے تھے۔ اب کچھ لوگوں کی گفتگو کا موضوع سیاست تھی، دنیاداری تھی، وطن میں موجود بیوی بچے تھے، کھانے کے وسائل پر قبضہ تھا، لوگوں کی برائیاں تھیں۔ ان کے علی الرغم خدا کے چنے ہوئے بندے بھی تھے۔ وہ اب بھی خدا کی حمد و ثنا میں مصروف تھے، وہ اس کی یاد میں آنسو بہا رہے تھے، حج میں اپنی کوتاہیوں پر معافی کے خواستگار تھے، مستقبل میں اس کی رحمت کے طلبگار تھے۔
فرزندان توحید کو تربیت کے ایک اور مرحلے سے گذارنے کے لئے ۱۱ ذی الحجہ کو بھی شیطان پر سنگباری کرنی تھی۔چنانچہ اس معرکہ کا وقت آن پہنچا اور اہل ایمان کی فوجوں نے بچے کچھے شیاطین کو پیچھے دھکیلنا شروع کردیا۔ دوبارہ ان کا ٹارگٹ جمرات ہی تھا۔ شیطان کی فوجیں تھکی ماندی مایوس اور افسردہ تھیں جبکہ اہل ایمان ترو تازہ، طاقت ور اور پرامید۔ شیطان کے لشکر سے آہ و بکا کی آوازیں تھیں جبکہ رحمانی لشکر سے خدا کی بڑائی اور حمد کے ترانے۔شیطانی لشکر میں ابتری تھی جبکہ رحمانی افواج میں تنظیم۔ شیطان کا کوئی والی وارث نہیں تھا جبکہ اہل ایمان کا سرپرست خداوند قدوس تھا۔
شیطان کا لشکر پسپا ہوتا رہا یہاں تک کہ جمرات آگیا۔ یہاں شیطانی افواج کا پڑاؤ چھوٹے جمرے پر ہوا۔ اہل ایمان کا ہلہ اس چھوٹے جمرے (شیطان)کے لئے ناقابل برداشت تھا۔ چنانچہ طاغوتی قوتیں پیچھے ہٹ کر جمرہ وسطیٰ(درمیانی شیطان) پر جمع ہوگئیں۔ اہل ایمان نے ایک اور کاری وار کیا اور شیطان کی فوج کی بڑی تعداد کام میں آگئی۔ بچی کچھی طاقت اپنے سردار بڑے شیطان کے جھنڈے تلے جمع ہوگئی۔ یہاں بھی تائید ایزدی سے اہل ایمان نے شیطان کوایک اور زک پہچائی اور اب اس کے لئے فرار کا کوئی راستہ نہ تھا۔ چنانچہ وہ پٹتا رہا اور قیامت تک پٹنا اس کا مقدر تھا۔
اگلے دن بارہ ذوالحج کو بھی یہی عمل دہرایا گیا اور یوں حج کے مناسک مکمل ہوچکے تھے۔ اہل ایمان وقوف عرفات ، قیام مزدلفہ، رمی ، قربانی ، حلق ،طواف وداع اور منی میں ۱۲ ذولحج تک قیام کرکے حج کے تمام ظاہری مناسک پورے کرچکے تھے۔ حج ختم ہوگیا تھا ۔ یعنی شیطان کے خلاف تمثیلی جنگ کا اختتام ہوچلا تھا۔
جنگ کے نتائج
سوال یہ تھا کہ اس جنگ میں فتح کس کو نصیب ہوئی۔ اس کا ایک جواب تو بہت سادہ تھا کہ طاغوتی لشکر کو شکست اور اہل ایمان کو فتح نصیب ہوئی تھی۔ لیکن اس فتح میں اپنی کمزوریوں کا جائزہ لینا بھی ضروری تھا۔ مسلمانوں میں تین گروہ تھے جنہوں نے اپنے تقوی اور استطاعت کے مطابق حج سے استفادہ کیا۔
ایک گروہ سابقون کا تھا ۔ اس گروہ کے مسلمانوں نے اپنی نیت خالص رکھی، اپنا مال اللہ کے لئے خاص کردیا، اپنے جسم کے ہر عضو کو اللہ کی اطاعت میں دے دیا ، اپنے دل کی گہرائیوں سے اللہ کی حمدو ثنا کی ، ا س کی بڑائی بیان کی۔ یہ وہ ہراول دستہ تھا جس نے اس تمثیلی جنگ سے تربیت حاصل کی کہ کس طرح شیطانی چالوں سے نبٹنا ہے اور نفس کے گھوڑے کو لگام دے کر اپنا مستقبل اللہ کی غلامی میں بتانا ہے۔ ان کے حج کو اللہ نے قبول کرلیا اور انہیں اس طرح کردیا جیسے وہ آج ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہوں ۔ ان کی خطائیں معاف ہوگئیں اور ان کا حج حج مبرور ہوگیا جس کا صلہ جنت کے سوا کچھ نہ تھا۔
مسلمانوں کا دوسرا گرو ہ تقوی کے اس مقام پرنہ تھا۔ اس گروہ میں علم کی کمی تھی، عمل میں کوتاہیاں تھیں اور نیت میں اتنا اخلاص نہ تھا۔ یہ لوگ حج کی اسپرٹ سے بھی پوری طرح آگاہ نہ تھے بس ظاہری فقہی احکامات مان کر حج کی رسومات انجام دے رہے تھے۔ لیکن یہ خدا کے وفادار تھے۔ انہوں نے اپنا دامن شرک کی گندگی سے پاک رکھا تھا۔ یہ اپنی کوتاہیوں پر شرمسار تھے، یہ معافی کے خواستگار تھے، جنت کے طلبگار تھے۔ یہ جانتے تھے کہ خدا اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہے اور اس نے اعلان کیا ہوا ہے کہ اگر تم چل کر آؤگے تو میں تمہارے پاس دوڑ کر آؤنگا۔ چنانچہ وہ مالی اور بدنی مشقتیں جھیل کر اپنے بادشاہ کے دربار میں چل کر آگئے تھے۔ چنانچہ یہ کیسے ممکن تھا کہ خدا دوڑ کر ان کے پاس نہ آتا، ان کی کوتاہیوں پر چشم پوشی نہ کرتا، ان کی خطاؤں سے درگذر نہ کرتا اور ان کے عمل کی کمی کو دور نہ کردیتا۔
مسلمانوں میں تیسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل تھا جو حج خدا کو راضی کرنے کی بجائے کسی اور نیت سے کرنے آئے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ اپنے نام کے ساتھ حاجی لگوانا چاہتے تھے، کچھ اپنے حرام کی کمائی پر سیر سپاٹے کے لئے نکلے تھےاورکچھ شاپنگ کی غرض سے آئے تھے۔ظاہری مناسک توا نہوں نے بھی کئے تھے لیکن کسی اور نیت اور مقصد کے ساتھ۔ ان کی حیثیت قابیل کی مانند تھی جو قربانی کے لئے کچھ اناج تو لایا لیکن یہ ردی اور فالتو اناج تھا ۔ ا س کی نیت یہی تھی کہ اگر قربانی قبول ہوگئی اور آگ نے اسے جلا دیا تو خو امخواہ اعلی درجے کا اناج ضائع ہوجائے گا۔یعنی اس نے قربانی کی ظاہری شکل تو پوری کی لیکن اس کی نیت میں فتور ہونے کی بنا پر اسے قبول نہ کیا گیا۔ بہر حال ان حاجیوں کا معاملہ اللہ کے سپر د تھا وہ جو چاہے فیصلہ کرے۔
جاری ہے ۔۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں