ترجمہ: شفقت الرحمان مغل
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے05-ذوالقعدہ-1438 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں "عرشِ الہی کا تعارف اور مسجد اقصی کی حالت" کے عنوان پر ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی کی صفت خالق اللہ تعالی کے معبود حقیقی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے اور اگر کسی چیز میں صفت خالق نہ ہو پھر بھی اس کی پرستش کی جائے تو یہ اس کے باطل ہونے کی علامت ہے۔
خطبے کا اقتباس درج ذیل ہے:
یقیناً تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، نفسانی اور بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔
اللہ تعالی صفاتِ جلال اور جمال سے موصوف ہے۔ اس کی ذات، اسما، صفات اور افعال سب ہی کامل ترین ہیں۔ اس کا کوئی ہم نام یا ہم سر نہیں ، اس کی کوئی شبیہ یا اس کا کوئی ثانی نہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
{لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ}
اس کی مثل کوئی نہیں ہے اور وہ سننے اور دیکھنے والا ہے۔[الشورى: 11]
اللہ تعالی کے خصوصی ناموں میں سے "خالق" اور "الخلّاق" ہیں۔ پیدا کرنا اللہ تعالی کی صفت اور فعل ہے، یہ ایسی صفت ہے جو اللہ تعالی کے سوا کسی اور کے لائق نہیں۔ اللہ تعالی کا خالق ہونا واضح ترین علم ہے۔ اللہ تعالی کا خالق ہونا ہر حقیقت کی بنیاد ہے کیونکہ تمام کی تمام موجودات اسی کے ایجاد اور پیدا کرنے کی وجہ سے ہیں۔ وہی پیدا کرتا ہے اور جانتا ہے، اسی لیے تمام اقوام اس کے خالق ہونے کی قائل رہی ہیں، نیز اللہ تعالی نے شرک و کفر کرنے والوں پر اسی صفت کو حجت بنایا اور فرمایا:
{أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ}
کیا انہیں عدم سے وجود دیا گیا ہے یا وہ [اپنے آپ کو]خود ہی پیدا کرنے والے ہیں؟[الطور: 35]
کسی بھی چیز کا وجود اسی کی تخلیق ہے؛ کیونکہ
{اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ}
اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے۔[الزمر: 62]
اس کی مخلوقات بہت زیادہ اور لا متناہی ہیں، تخلیق میں اس کا کوئی ثانی نہیں ،
{فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ}
اللہ برکتوں والا ہے اور وہ سب سے بہترین خالق ہے۔[المؤمنون: 14]
تمام مخلوقات اسی کے تسلط اور اختیار میں ہیں، نیز اللہ تعالی نے ہر مخلوق کی معین مقدار بنائی ،
{إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ}
بیشک ہم نے ہر چیز کو خاص مقدار میں پیدا کیا ہے۔[القمر: 49]
ہر مخلوق کی تخلیق حکمت سے بھری ہوئی اور فضولیات سے مکمل طور پر منزّہ ہے:
{أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ}
کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم نے تمہیں عبث پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف نہیں لوٹایا جائے گا؟![المؤمنون: 115]
سارا جہاں اللہ تعالی کی ربوبیت کا گواہ ہے، اور ہر چیز اس بات کی دلیل ہے کہ وہ یکتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{أَفَلَمْ يَنْظُرُوا إِلَى السَّمَاءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنَاهَا وَزَيَّنَّاهَا وَمَا لَهَا مِنْ فُرُوجٍ (6) وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ (7) تَبْصِرَةً وَذِكْرَى لِكُلِّ عَبْدٍ مُنِيبٍ}
کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھا کہ ہم نے کس طرح اسے بنایا اور آراستہ کیا اور اس میں کوئی شگاف نہیں اور زمین کو ہم نے پھیلا دیا اور اس میں مضبوط پہاڑ رکھ دیئے اور اس میں ہر طرح کی پر بہار چیزیں اگائیں [8] یہ ہر رجوع کرنے والے بندے کے لیے بصیرت اور سبق ہے [ق: 6 - 8]
مخلوقات کے بارے میں سوچ و بچار نصیحت اور عبرت کا باعث ہے، اس سے خالق کی تعظیم کیلیے رغبت پیدا ہوتی ہے ، یہ ایمان میں اضافے کا باعث بھی ہے۔
سب سے عظیم اور بڑی مخلوق رحمن کا عرش ہے، اللہ تعالی نے عظمت کو عرش کی صفت قرار دیا ہے، اور عرش کی لمبائی چوڑائی اس کو بنانے والا ہی جانتا ہے، عرش اللہ تعالی کی مخلوق ہے،
{ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ}
یہ ہے اللہ تمہارا پروردگار جس کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں، وہی ہر چیز کا خالق ہے۔[الأنعام: 102]
اللہ تعالی نے اپنے آپ کو عرش کا پروردگار بیان کر کے اپنی تعریف بھی بیان فرمائی ہے:
{رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ}
[اللہ] عرش عظیم کا پروردگار ہے۔[التوبہ: 129]
نیز اپنی تعریف میں عرش کی ملکیت کو بھی بیان کیا کہ میں ہی اس کا مالک ہوں اور فرمایا:
{رَفِيعُ الدَّرَجَاتِ ذُو الْعَرْشِ}
بلند درجوں والا اور عرش والا ہے۔ [غافر: 15]
اس کی تفسیر میں ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اللہ تعالی عرش عظیم کا مالک ہے جو کہ تمام مخلوقات سے بلند و بالا ہے"
اللہ تعالی نے اسے آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے پہلے پیدا کیا تھا:
{وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا}
وہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور (اس وقت) اس کا عرش پانی پر تھا۔ تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے [هود: 7]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اللہ تعالی موجود تھا اس سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی، اللہ کا عرش پانی پر تھا، پھر اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا اور ذکر [یعنی لوح محفوظ] میں ہر چیز لکھ دی) بخاری
عرش غیبی چیز ہے یعنی ہم اسے دنیا میں نہیں دیکھ سکتے، تاہم اللہ تعالی نے ہمیں اس کی کچھ صفات کے بارے میں بتلایا ہے تا کہ اللہ پر ایمان پختہ ہو اور یہ بات بھی ذہن میں محکم ہو جائے کہ اللہ تعالی اپنی مخلوق سے بلند ہے۔ چنانچہ عرشِ الہی پورے جہان پر قبے کی طرح ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرش کو ایسے ہی بیان کیا اور فرمایا: (بیشک اللہ کا عرش آسمانوں کے اوپر ایسے ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں کے ساتھ قبے کی طرح کا اشارہ فرمایا۔ ابو داود
عرش سب سے اعلی اور بلند مخلوق ہے ،وہ تمام مخلوقات کے لیے چھت بھی ہے، اللہ تعالی نے عرش کو اپنا خصوصی قرب دیا، اس سے بڑھ کر کوئی مخلوق اللہ کے قریب نہیں نیز چونکہ اللہ تعالی پاکیزہ ذات ہے لہذا اس کے قریب بھی پاکیزہ چیز ہی ہو سکتی ہے۔
اللہ تعالی نے عرش کو پیدا فرما کر اسے اپنی تمام مخلوقات سے امتیازی بلندی عطا فرمائی ہے، ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "عرش تمام مخلوقات کے لیے چھت ہے، تمام آسمان ،زمینیں ، ان کے درمیان اور ان کے اندر کی ہر چیز عرش سے نیچے ہیں، سب کی سب اللہ تعالی کے اختیار ، قدرت اور علم میں گھری ہوئی ہیں، اللہ تعالی کے تخمینے ہر چیز پر درست ثابت ہوتے ہیں اور وہ ہر چیز کا کار ساز ہے"
اللہ تعالی نے آسمان کو بزرگی سے موصوف فرمایا:
{ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيد}
وہ بزرگی والے عرش کا مالک ہے (1) [البروج: 15]
عرش کی بزرگی کا مطلب یہ ہے کہ یہ عرش بہت بڑا ہے، اس کی شان بہت اعلی ہے، بہت ہی معزز ہے، اس میں بہت سی خوبیاں ہیں مخلوقات میں اس سے بڑھ کر کوئی نہیں، اس کا منظر اور شکل و صورت انتہائی لبھانے والی ہے۔
عرش سب سے وزنی مخلوق ہے، ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا کے پاس سے صبح سویرے فجر کی نماز کے وقت گزرے تو سیدہ جویریہ اپنی نماز کی جگہ بیٹھی تھیں، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کے وقت کے بعد واپس آئے تو تب بھی سیدہ جویریہ وہیں بیٹھیں تھیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کیا آپ اس وقت سے اسی حالت میں بیٹھی ہیں جس حالت پر میں چھوڑ کر گیا تھا؟) انہوں نے کہا: "جی ہاں" تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میں نے تمہارے بعد چار جملے تین بار کہے ہیں اگر انہیں اب تک کے تمہارے کیے ہوئے اذکار سے تولا جائے تو میرے جملے تمہارے اذکار سے وزنی ہو جائیں گے: "سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، عَدَدَ خَلْقِهِ، وَرِضَا نَفْسِهِ، وَزِنَةَ عَرْشِهِ، وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ " )مسلم
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اس سے واضح ہوتا ہے کہ عرش کا وزن سب سے زیادہ ہے۔"
عرش کو اٹھانے کے لیے اللہ تعالی نے چار بہت بڑے بڑے فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی ہوئی ہے، یہ فرشتے ہر وقت اللہ تعالی کی تسبیح، ثنا اور مومنوں کیلیے استغفار کرتے رہتے ہیں۔
عرش کے گرد و پیش موجود فرشتوں کا کام ہی ذکر اور دعا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَتَرَى الْمَلَائِكَةَ حَافِّينَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَقِيلَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ}
اور تو فرشتوں کو دیکھے گا عرش کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر رہے ہیں۔ اور ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ [الزمر: 75]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعاؤں میں کثرت سے وسیلہ دیتے کہ اللہ عرش کا پروردگار ہے، عرش کی تخلیق پر اللہ کی ثنا بیان کرتے اور مصیبت کے وقت اللہ تعالی کی اس صفت کا واسطہ دیتے ہوئے دعا فرماتے:
" لَا إِلَه إِلاَّ اللَّهُ الْعَظِيْمُ الْحَلِيْمُ، لَا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ رَبُّ العَرْشِ الْعَظِيمِ ، لَا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ رَبُّ السَّمَواتِ ، وَرَبُّ الْأَرْضِ ، وَرَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِ "
متفق علیہ
کل مخلوقات کے فنا ہو جانے پر اللہ تعالی نے عرش کو خصوصیت بخشی کہ وہ باقی ہی رہے گا، چنانچہ عرش ان مخلوقات میں شامل نہیں ہے جنہیں قیامت کے دن مٹھی میں لیا جائے گا یا لپیٹ دیا جائے گا، نیز اہل سنت کا اتفاق ہے کہ عرش فنا نہیں ہوگا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "عرش اللہ تعالی کی ان مخلوقات میں شامل نہیں جو چھ دن میں پیدا کی گئیں، اللہ تعالی عرش کو شق نہیں فرمائے گا اور نہ ہی اسے ختم کرے گا، بلکہ مشہور احادیث بھی قرآن مجید کی طرح اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ عرش باقی رہے گا"
آخرت کے دن عرش کو آٹھ فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے اور اللہ تعالی مخلوقات کے مابین فیصلے کیلیے آئے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ}
اور تیرے رب کے عرش کو اس دن آٹھ فرشتے اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے[الحاقہ: 17]
جس وقت لوگ انبیائے کرام سے شفاعت طلب کریں گے تو تمام انبیائے کرام قیامت کی سختی اور ہولناکی کی وجہ سے شفاعت کرنے سے معذرت کر لیں گے، تو پھر لوگ سید الخلق ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں گے، اس بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (وہ میرے پاس آئیں گے، پھر میں عرش کے نیچے سجدہ ریز ہو جاؤں گا، پھر کہا جائے گا: "محمد! سر اٹھائیں، شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی، مانگیں آپ کو دیا جائے گا") متفق علیہ
جس وقت محشر میں لوگوں کی تکالیف بڑھ جائیں گی، سورج سر کے ایک میل قریب آ جائے گا تو اللہ تعالی اپنے چنیدہ بندوں کو اپنے عرش کا سایہ نصیب فرمائے گا،
آپ ﷺ کا فرمان ہے: (سات قسم کے افراد کو اللہ تعالی عرش کا سایہ نصیب فرمائے گا جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہو گا:
1) عادل حکمران،
2) اپنے پروردگار کی عبادت میں پروان چڑھنے والا نوجوان،
3) ایسا آدمی جس کا دل مسجد سے جڑا ہوا ہو
4) دو ایسے آدمی جو اللہ کیلیے آپس میں محبت کرتے ہو اسی پر ملیں اور جدا ہوتے ہوں
5) ایسا آدمی جس سے جاہ و جمال والی خاتون بدکاری کا مطالبہ کرے اور وہ کہہ دے: میں اللہ سے ڈرتا ہوں
6) ایسا شخص جو صدقہ کرتے ہوئے اتنا خفیہ انداز اپنائے کہ بائیں ہاتھ کو بھی علم نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا؟
7) ایسا شخص جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرے تو اس کی آنکھیں نم ہو جائیں) متفق علیہ
جنت کے مختلف درجے ہیں ان میں سب سے اعلی جنت الفردوس ہے اور اس کی چھت رحمن کا عرش ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جب بھی اللہ سے مانگو تو جنت الفردوس مانگو؛ کیونکہ یہ سب سے بہترین اور بلند ترین جنت ہے، اسی میں سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں اور اس کے اوپر رحمن کا عرش ہے۔) بخاری
ان تمام تر تفصیلات کے بعد: مسلمانو!
اگر اللہ کا عرش اتنا عظیم اور بڑا ہے تو پھر اللہ تعالی کی ذات اس سے بھی بڑی اور عظیم ہے، وہ ہر چیز کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے، اسے کوئی چیز اپنے گھیرے میں نہیں لے سکتی، وہ ہر چیز پر غالب ہے اس پر کوئی چیز غالب نہیں، وہ اتنا خفیہ ہے کہ مخلوق تک رسائی سے اسے کوئی چیز نہیں روک سکتی۔ مخلوق کی شان اصل میں اللہ تعالی کی عظمت اور کبریائی کی دلیل ہے، مخلوق کی عظمت اللہ تعالی کی شان و شوکت کی دلیل ہے، ایک مسلمان کے لیے ایمان بالغیب اور یقین شرف کی بات ہے، اسی پر ایمان کا دار و مدار ہے، اللہ تعالی نے اپنے متقی بندوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا:
{يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ}
وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ [البقرة: 3]
پھر غیب پر ایمان لانے والوں کی تعریف ان الفاظ میں فرمائی:
{أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ}
یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔[البقرة: 5]
ایمان بالغیب، خشیت، عظمتِ الہی کے اقرار اور اطاعت کی وجہ سے انسان کا دل مطمئن رہتا ہے، انسان کی شرح صدر ہوتی ہے، دنیاوی اور اخروی سعادت حاصل ہوتی ہے۔
اللہ تعالی اپنی شایان شان کیفیت کے ساتھ عرش پر مستوی ہے، اور یہ عظیم ترین مخلوق [یعنی عرش] پر خاص علو ہے،
{الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى}
رحمن عرش پر مستوی ہے۔[طہ: 5]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور آپ کے عظیم پیغام کی وجہ سے آپ کو مکہ سے مسجد اقصی لے جایا گیا، پھر وہاں سے انہیں ساتویں آسمان تک اوپر لے جایا گیا، آپ نے محرر فرشتوں کے قلموں کے چلنے کی آواز بھی سنی۔
اللہ تعالی نے مسجد اقصی کا مقام و مرتبہ واضح کرنے کی غرض سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسرا کے لیے اسے منتخب فرمایا، وہیں سے آپ کا سفرِ معراج شروع ہوا، مسجد اقصی کو انبیائے کرام نے بنایا ہے، یہ قبلہ اول اور مسجد الحرام کے بعد بنائی جانے والی دنیا کی دوسری مسجد ہے، نیز مسجد اقصی ان تین مساجد میں سے ایک ہے جن کی جانب ثواب کی نیت سے رخت سفر باندھ سکتے ہیں، یہیں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیائے کرام اور رسولوں کی امامت کرواتے ہوئے نماز پڑھائی، اللہ تعالی نے اس مسجد میں اور اس کے ارد گرد خطے کو بابرکت بنایا، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
{الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ}
[مسجد اقصی] جس کے آس پاس ہم نے برکت فرمائی۔[الإسراء: 1]
بیت المقدس اور اس کے آس پاس کے علاقے کی جانب لوگ محشر کے لیے جمع ہوں گے۔ مسجد اقصی سے محبت دین اور ایمان کا حصہ ہے، نیز مسجد اقصی کی تعظیم اللہ تعالی کی تعظیم میں بھی شامل ہے، جس وقت سے انبیائے کرام کی یہ مسجد قید میں ہے اس وقت سے وہاں کے حالات مایوس کن ہیں، وہاں سے المناک خبریں آتی ہیں، در ناک مسائل وہاں پر کھڑے کر دئیے گئے ہیں، مسجد اقصی کی عمارت کی بے حرمتی اور اسے جلا دیا جاتا ہے۔ نمازوں اور ذکرِ الہی سے منع کیا جاتا ہے، مسجد کے احاطے میں عبادت گزاروں کا قتل عام اور انہیں تکلیفیں دی جا رہی ہیں، اللہ کے اس پر امن گھر کو دہشت اور وحشت کی جگہ میں بدل دیا گیا ہے۔
اللہ تعالی مسجد اقصی کو دوبارہ مسلمانوں کو لوٹانے پر قادر ہے کہ مسلمان مسجد اقصی کو عبادت گزاری اور ذکر الہی سے آباد کریں ، لیکن اس کے لیے مسلمانوں کو اللہ تعالی کے احکامات کی پابندی کرنی ہو گی؛ کیونکہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے:
{إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ}
اگر تم اللہ کی مدد کرو تو وہ تمہاری مدد کرے گا۔[محمد: 7]
اللہ تعالی سعودی حکمرانوں کو جزائے خیر سے نوازے کہ انہوں نے اس مسئلے کے حل کیلیے بھر پور کاوشیں کیں۔
یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، یا اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات سنوار دے، یا قوی! یا عزیز! یا اللہ! مسلم خطوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! خونِ مسلم کی حفاظت فرما، یا اللہ! مسلمانوں کے تمام ممالک کو خوشحال اور امن کا گہوارہ بنا دے۔ یا ذو الجلال والاکرام! یا اللہ! تمام مسلمانوں کو مکمل طور پر اپنی جانب متوجہ فرما لے۔ آمین!!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں