آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ (62-63)
از- ابویحییٰ
ہمارے ملک میں سیاست عوام کی دلچسپی کا ایک بہت اہم موضوع ہے۔ شام سات سے رات بارہ تک جس طرح ہمارے ہاں ٹالک شو دیکھے جاتے ہیں ، دنیا میں کم ہی کہیں دیکھے جاتے ہوں گے۔ یہی معاملہ اخبارات اور سوشل میڈیا پر سیاسی امور کا ہے۔ ایسے میں نواز شریف صاحب کی برطرفی جیسے واقعات کے ساتھ عوام کی دلچسپی سیاسی امور میں مزید بڑھ جاتی ہے۔
سیاست اور سیاستدانوں کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ احتسابِ غیر میں زندہ رہتے ہیں۔ دوسروں کی ہر خامی کو نمایاں کرنا اور اپنی ہر خرابی کو دوسروں کی کمزوری کی آڑ میں چھپانا سیاست میں ایک فن ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے بیشتر فکری رہنما جن کا کام قوم کے مزاج کی اصلاح ہوتا ہے، عملی یا نظری سیاست سے پوری طرح وابستہ رہے ہیں۔ لہٰذا انھوں نے بھی قوم میں اسی مزاج کو فروغ دیا۔ حتیٰ کہ خود دین اسلام کی حقیقت ہمارے ہاں احتساب کائنات قرار پائی ہے۔ جبکہ قرآ ن مجید دین کا مقصد اپنی ذات کا تزکیہ بیان کرتا ہے جو احتساب ذات سے پیدا ہوتا ہے نہ کہ احتساب غیر سے۔
سیاسی اور فکری قائدین کا پیداکردہ یہی وہ مزاج ہے جس میں ہمارے ہاں افراد میں احتساب ذات یعنی اپنی غلطی کے اعتراف اور اپنی اصلاح کا مزاج نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے ہاں ہر شخص دوسرے کو آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کی سولی پر چڑھانا پسند کرتا ہے، مگر خود کبھی اس کے آئینے میں اپنی شکل دیکھنا پسند نہیں کرتا۔ لوگ دوسروں کی صداقت اور امانت کو چیلنج کرتے ہیں، مگر اپنے کذب و خیانت سے ہمیشہ بے پروا رہتے ہیں۔
یہ رویہ کچھ چالاک، چرب زبان اور طاقتور لوگوں کو عارضی طور پر فائدہ دے سکتا ہے، مگر اجتماعی طور پر قوم اور انفرادی طور پر فرد کی آخرت کے لیے یہ رویہ تباہ کن ہے۔ دنیا میں وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جہاں غلطی کا اعتراف کرکے اصلاح کا جذبہ عام ہو ۔ قیامت کی نجات انھی لوگوں کا مقدر ہے جو دوسروں کے بجائے اپنا احتساب کرتے رہتے ہیں۔
حال ہی میں نواز شریف صاحب کو آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کی بنیاد پر عہدے سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد اس فیصلے کی صحت و عدم صحت پر بحث چھڑگئی۔ اس بات پر بحث چھڑ گئی کہ باقی لوگ کون سے دودھ سے دھلے ہیں۔ مگر کتنے لوگ ہیں جو اس واقعے کے بعد اس احساس سے تڑپ اٹھے ہوں کہ کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کا احتساب شروع کریں گے۔ ان کے دل کا ہر خیال، تنہائی میں کیا گیا ہر کام، خفیہ طور پر کی گئی ہر گفتگو، رائی کے دانے کے برابر کیاگیا ہر کام، خلوت وجلوت کی ہر مشغولیت دن کی روشنی کی طرح سب کے سامنے آجائے گی۔
لوگوں کو اگر لازمی طور پر ہونے والے اس احتساب اور اس کے نتیجے میں ہونے والی رسوائی اور سزا کا معمولی اندازہ بھی ہوجائے تو ان کا سکون ختم ہوجائے گا۔ وہ دوسرا کا احتساب کرنا بھول جائیں گے۔ ان کا اصل مسئلہ یہ بن جائے گا کہ وہ روزِقیامت عالم الغیب رب کی پکڑ سے بچ جائیں۔ ان کا پورا وجود سراپا توبہ و استغفار بن جائے گا۔
یہی وہ لوگ ہیں جو کسی معاشرے میں پیدا ہونے لگیں تو پھر صداقت و امانت عام ہوجاتی ہے۔ لوگ کرپشن اور ظلم کی ہر قسم سے دور رہتے ہیں۔ لوگ اپنی زبان، نگاہ اور ہاتھ پاؤں کو خدا کی امانت سمجھ کران کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ اپنی طاقت اور اختیار کو ایک اثاثہ نہیں بلکہ ایک ذمہ داری سمجھ کر استعمال کرتے ہیں۔ جب ایسے لوگ پیدا ہواجائیں تو پھرآئین میں کسی آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کی ضرورت نہیں رہتی۔ ہر شخص اپنا محتسب خود بن جاتا ہے۔
مگر جب احتساب غیر کا مزاج پیدا ہوجائے تو پھر ہر شخص دوسروں کا احتساب کرتا ہے اور اپنے احتساب کا کبھی موقع نہیں آنے دیتا۔ ہر شخص دوسروں کی آنکھ کا تنکا ڈھونڈتا ہے اور اپنی آنکھ کا شہتیر اسے نظر نہیں آتا۔ ایسے معاشرے میں صادق و امین تو کوئی نہیں ہوتا، مگر پکڑا صرف وہ جاتا ہے جو کسی طاقتورکے نیچے آجائے۔باقی لوگ اپنی زندگی منافقت کے ساتھ گزارتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ خدا کی پکڑ آتی ہے اور قوم کی دنیا اور فرد کی آخرت دونوں تباہ ہوجاتی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں