تدبرِ القرآن
سورہ الکھف
استاد نعمان علی خان
حصہ-10
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا - 18:65
قَالَ لَهُ مُوسَىٰ هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَىٰ أَن تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا - 18:66
قَالَ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا - 18:67
وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَىٰ مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا - 18:68
پس ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا، جسے ہم نے اپنے پاس کی خاص رحمت عطا فرما رکھی تھی اور اسے اپنے پاس سے خاص علم سکھا رکھا تھا۔
اس سے موسیٰ نے کہا کہ میں آپ کی تابعداری کروں؟ کہ آپ مجھے اس نیک علم کو سکھا دیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے۔
اس نے کہا آپ میرے ساتھ ہرگز صبر نہیں کرسکتے۔
اور جس چیز کو آپ نے اپنے علم میں نہ لیا ہو اس پر صبر بھی کیسے کر سکتے ہیں؟
ہم نے پہلے پڑھا تھا کہ کتنی محنت اور مشکلوں کا سامنا کر کے موسی علیہ اسلام اس مقام تک پہنچے تھے جہاں انہوں نے خضر سے ملنا تھا۔ جب وہ وہاں ہہنچ گئے تو موسی علیہ اسلام نے خضر سے کہا کہ کیا میں آپ سے وہ علم حاصل کرسکتا ہوں جو آپ کے پاس موجود ہے؟
انہوں نے کہا "بےشک، پر میرے ساتھ تم صبر نہ کرپاوگے، اور کیسے صبر کروگے تم اس پر نہیں احاطہ کرسکتے تم جس کا کسی خبر سے"
موسی علیہ اسلام نے فرمایا کہ اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے۔ اور میں کسی معاملے میں آپ کی نافرمانی نہیں کرونگا۔
خضر نے موسی علیہ اسلام سے کہا کہ میں تمہیں اس شرط پر ساتھ لے کر جاؤں گا اگر تم مجھ سے کسی شے کے بارے میں سوال نہیں کروگے جب تک میں اس کو خود بیان نہیں کردیتا۔
اس کے بعد دونوں چل پڑے اور ایک کشتی میں سوار ہوئے تو خضر نے اس میں سوراخ کردیا ۔
اس کو دیکھ کر موسی علیہ اسلام نے ان سے کہا کہ آپ نے اس میں سوراخ کردیا ہے تاکہ اس میں موجود سوار غرق ہوجائیں۔ یہ تو بہت غلط کیا ہے۔
یہ سن کر خضر نے کہا کہ کیا میں نے تم سے کہا نہیں تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرپاؤگے؟؟
اس پر موسی علیہ اسلام نے ان سے درگزر کی التجا کی اور وہ آگے روانہ ہوگئے۔
اسی طرح کے کچھ اور بھی واقعات رونما ہوئے ۔ خضر نے ایک لڑکے کا قتل کردیا۔ جس پر دوبارہ موسی علیہ اسلام نے سوال کیا۔ اور یہ ان کی دوسری غلطی تھی۔
رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تھا: اللہ موسی علیہ اسلام پر رحمت نازل کرے اگر وہ صبر کرتے تو ہمیں اور بھی سیکھنے کو مل جاتا"
اس کے بعد وہ ایک گاؤں میں گئے اور ان سے کھانا مانگا تو لوگوں نے انہیں کچھ نہ دیا۔ خضر نے دیکھا کہ وہاں ایک دیوار گرنے کو تھی تو انہوں نے اسے سیدھا کردیا۔ جس پر موسی علیہ اسلام نے انہیں مشورہ دیا کہ آپ اس کام کے بدلے ان سے معاوضہ لے سکتے تھے۔
اب یہ تیسری دفعہ ہوگیا تھا کہ موسی علیہ اسلام نے ان کی بات نہ مانی تھی اور ان کے کاموں کے متعلق سوال کیا تھا۔
اس کے بعد خضر نے ان سے کہا کہ اب تمہاری اور میری علیحدگی کا وقت آگیا ہے۔ اور اب میں تمہیں بتاتا ہوں ان کاموں کے متعلق جو کہ وہ میں نے کیوں کیے تھے۔
اب ہم یہاں یہ سیکھتے ہیں کہ خضر نے ہر بات شروع میں نہ بتا کر اور ان سے یہ کہہ کر کہ کوئی سوال نہ پوچھنا موسی علیہ اسلام کے تجسس کو بڑھادیا تھا۔ اس باعث نا صرف پورے سفر میں انہیں دلچسپی رہی بلکہ ہر معاملے میں الرٹ بھی رہے، اور یہ علم کی کنجی ہے کہ جب طالب علم تجسس میں ہوتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟ وہ سیکھنے کے لیے بےتاب رہتا ہے۔
اور اگر ہم دیکھیں تو خضر نے جو بھی کام کیے وہ غلط تھے، ان کی کوئی لاجک نہیں بنتی تھی۔ لیکن آگے ہم پڑھیں گے کہ ان کاموں میں کتنی خیر چھپی ہوئی تھی۔ اور ہماری زندگی میں بھی ایسے بہت سے کام ہوتے ہیں جو بظاہر غلط نظر آتے ہیں، ان کی ہمیں سمجھ نہیں آتی مگر ان میں ہمارے لیے فائدہ ہوتا ہے جو ہمیں اس وقت سمجھ میں نہیں آتا۔
ہمیں وہ چھپی ہوئی خیر نظر نہیں آتی اسی لیے ہم مایوس ہوجاتے ہیں
اس لیے اس مشکل وقت کو قبول کرنا ہمارے لیے دشوار ہوجاتا ہے
لیکن ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے جب ہمیں سمجھ آتی ہے کہ جو ہوا تھا اس میں ہماری ہی بھلائی تھی۔
آپ اپنی کسی پرانی مشکل کو ہی یاد کریں کہ جب وہ آپ پر آئی تھی تو آپ کا کیا ردعمل تھا اور آج سالوں کے بعد آپ اس ایک مشکل کی وجہ سے کہاں پر ہیں؟
جو ہوتا ہے وہ اللہ کی قدرت ہے اس لیے جیسے بھی حالات ہوں ان پر دل سے کہنا چاہیے "رَضِیتُ بِاللّٰہِ رَبًّا
اے اللہ میں تجھ سے راضی ہوں، تو نے ہی مجھے تخلیق کیا ہے، تو ہی میرا خدا ہے، تو میری مشکلات سے واقف ہے اور تو ہی میرے معاملات کا فیصلہ کرنے والا ہے۔ اگر تونے یہ مشکل مجھے دی ہے تو میں اس کی حکمت نہیں جانتا پر تو جانتا ہے اور مجھے تجھ پر یقین ہے، میں تجھ سے راضی ہوں"
جاری ہے۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں