ہم خوشحال زندگی کیسے گزار سکتے ہیں؟
اقتباس خطبہ جمعہ مسجد نبوی
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل شیخ حفظہ اللہ نے 27-شوال- 1438 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "ہم خوشحال زندگی کیسے گزار سکتے ہیں؟" ارشاد فرمایا ، جس میں انہوں نے کہا کہ پر سکون اور خوشحال زندگی ہر انسان کا ہدف ہے ، لیکن اسے پانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کو اللہ تعالی کے احکامات کے تابع کر دے، اپنا عقیدہ مضبوط بنائے، اللہ کے فیصلوں کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دے۔
خطبے کا اقتباس پیش ہے:
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے سعادت مندی اور مسرتیں اپنے اطاعت گزار بندوں کے لیے لکھ دی ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں وہی پہلے اور بعد میں آنے والے سب لوگوں کا معبود ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور تمام انبیاء میں افضل ترین ہیں، یا اللہ! ان پر، ان کی آل، اور تمام صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی، اور برکتیں نازل فرما۔
ذہنی سکون، دلی اطمینان اور سعادت پوری انسانیت کے مقاصد میں شامل ہے، یہ ساری بشریت کا ہدف ہے، سب لوگ انہیں حاصل کرنے کیلیے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر خوب کوشش اور تگ و دو کرتے ہیں، لیکن انسان جتنی بھی کوشش کر لے اس کے لیے دنیا کی جتنی مرضی رنگینیاں جمع کر لے، خواہشات نفس پوری کرنے کے لیے جتنی بھی دوڑ دھوپ کر لے، انہیں یہ سب ملنے والا نہیں ہے وہ تو اس کی راہ کے راہی بھی نہیں بن سکتے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ خوشحال اور زندگی میں لہر بہر کی تمام تر صورتوں کا راز خالق انسانیت کے اس فرمان میں پنہاں ہے: فرمانِ باری تعالی ہے:
{مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ }
جو مرد یا عورت ایمان کی حالت میں نیک عمل کرے تو ہم اسے خوشحال زندگی بسر کرائیں گے اور ان کے بہترین اعمال کے مطابق انہیں ان کا اجر عطا کریں گے[النحل: 97]
اس آیت کریمہ میں محقق مفسرین کے ہاں "خوشحال زندگی" سے مراد دنیا کی زندگی ہے، جبکہ آخرت کی زندگی میں ملنے والی مسرتیں، خوشیاں، راحتیں اور نعمتیں اس کے علاوہ ہیں۔
اور اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مومن کا معاملہ تعجب خیز ہے کہ اس کا سارے کا سارا معاملہ ہی خیر والا ہے، اور یہ خوبی صرف مومن کے ساتھ خاص ہے۔ چنانچہ اگر مومن کو تکلیف پہنچے تو مومن اس پر صبر کرتا ہے، تو یہ تکلیف اس کیلیے بھلائی کا باعث بن جاتی ہے۔ اور اگر مومن کو خوشی ملے تو وہ اس پر شکر کرتا ہے تو یہ خوشی اس کیلیے بھلائی کا باعث بن جاتی ہے) مسلم
یہ ایمان ہی ہے جو انسان کو ملی ہوئی معمولی دنیا پر بھی خوش کر دیتا ہے، اللہ تعالی کی عنایت پر راضی کر دیتا ہے، اور اللہ تعالی کی نوازشوں پر قناعت پسند بنا دیتا ہے۔
چنانچہ مسرتوں اور نعمتوں سے بھر پور کامیابی صرف ایسے ہی ممکن ہے جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے: (یقیناً وہ شخص کامیاب ہو گیا جو اپنا سب کچھ اللہ کے سپرد کر دے ، اللہ تعالی اسے ضرورت کے مطابق رزق دے، نیز اللہ تعالی اسے جو کچھ بھی عنایت کرے اس پر قناعت عطا کر دے) مسلم
دل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو تو اسے جوڑنے کے لیے صرف اللہ تعالی سے لگاؤ ہی کار گر ثابت ہوتا ہے۔ دل وحشت زدہ ہو تو اس کی تنہائی اللہ تعالی سے محبت کے ذریعے ہی ختم ہوسکتی ہے۔ دل کے غموں کو وحدانیتِ الہی اور معرفت الہی سے زائل کیا جا سکتا ہے۔
لہذا اگر کوئی شخص ابدی راحت اور قلب و جان میں ظاہری و باطنی دائمی خوشحالی کا متمنی ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے نفس کو اللہ تعالی کے احکامات کے مطابق ڈھال لے، اپنی زندگی کے ہر گوشے کو اللہ تعالی کی اطاعت میں گزارے تو پھر وہ اس دنیا میں بھی مختلف نعمتوں کے مزے لوٹے گا اور آخرت میں بھی، فرمانِ باری تعالی اسی کے بارے میں کہ :
{إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ}
بیشک نیک لوگ نعمتوں میں ہوں گے۔ [الانفطار: 13]
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "جس وقت انسان اللہ کی نافرمانی کرتا ہے تو اللہ تعالی اس پر اپنے دو سپاہی مسلط کر دیتا ہے یہاں تک بندہ توبہ نہ کر لے: پہلا سپاہی: "غم" اور دوسرا سپاہی "پریشانی"۔
اس لیے مسلمانو! اپنے دل کا تعلق صرف اللہ تعالی سے بناؤ، اپنے پروردگار کے بارے میں حسن ظن رکھو، اگر تم متقی اور پاک صاف بن جاؤ تو تمہیں سعادت مندی اور خوشحالی نصیب ہو گی۔
محصور وہ ہے جس کا دل پروردگار سے روک دیا جائے، اسیر وہ ہے جو اپنی خواہشات کا اسیر ہو، پریشان وہ ہے جو اپنے آپ کو گناہوں میں ملوّث کر لے، مغموم وہ ہے جو اپنے نفس کو تباہ کن گناہوں اور شرعی خلاف ورزیوں میں ڈبو لے۔
کسی صاحب معرفت کا کہنا ہے کہ: "دنیا میں سے مسکین لوگ دنیا سے چلے جاتے ہیں لیکن دنیا کی بہترین چیز سے لطف اندوز نہیں ہوتے۔ کہا گیا: وہ کیا چیز ہے؟ تو بتلایا: اللہ کی محبت، اللہ کے ساتھ انس، اللہ سے ملنے کا شوق، صرف اسی کی جانب متوجہ ہو کر بقیہ ہر چیز سے رو گردانی کا لطف"
فرمانِ باری تعالی ہے:
{إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ}
یقیناً جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر اس پر ڈٹ گئے انہیں کوئی خوف نہ ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ [الأحقاف: 13]
اللہ کے بندو! اللہ کا ڈھیروں ذکر کرو، اور صبح و شام بھی اسی کی تسبیح بیان کرو ، اور تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں۔
جزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریںوایاکم :)
حذف کریں