اور کتنی دیر


جاہ و جلال, دام و درم اور کتنی دیر
ریگِ رواں پہ نقش قدم اور کتنی دیر

اب اور کتنی دیر یہ دہشت، یہ ڈر، یہ خوف
گرد و غبار عہدِ ستم اور کتنی دیر

حلقہ بگوشوں، عرض گزاروں کے درمیان
یہ تمکنت، یہ زعمِ کرم اور کتنی دیر

پل بھر میں ہو رہے گا حسابِ نبود و بود
پیچ و خم و وجود و عدم اور کتنی دیر

شام آ رہی ہے، ڈوبتا سورج بتائے گا
تم اور کتنی دیر ہو، ہم اور کتنی دیر 

(افتخار عارف)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں