خطبہ جمعہ مسجد نبوی
ترجمہ: شفقت الرحمان مغل
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل شیخ حفظہ اللہ نے 27-ربیع الاول- 1439 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان " بیت المقدس کی فضیلت اور مسئلے کا حل " ارشاد فرمایا ، جس میں انہوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین ہر مسلمان کا مسئلہ ہے کوئی بھی اسلامی ملک یا معاشرہ اس مسئلے کو ایک لمحے کے لیے بھی اوجھل نہیں کر سکتا، ایسا اس لیے ہے کہ مسجد اقصی اور بیت المقدس کا اسلام میں بہت اعلی مقام ہے؛ یہ قبلہ اول، رسول اللہ ﷺ کی جائے اسرا ہے، یہاں ایک نماز کا ثواب مسجد نبوی کے مقابلے میں ایک چوتھائی ہے، یہ جگہ مقام حشر ہے، اس کی تعمیر سلیمان بن داود علیہما السلام نے فرمائی۔ چنانچہ انہی امور کے پیش نظر علمائے کرام اس خطے کے فضائل اور حقوق لوگوں تک پہنچانے کے لیے تسلسل سے کتابیں تحریر کرتے آئے ہیں انہوں نے متعدد کتابوں کے نام اور مؤلفین بھی ذکر کئے۔ بیت المقدس اسلامی دار الحکومت ہے، مسئلہ فلسطین عرب کا نہیں مسلمانوں کا مسئلہ ہے اور اس چیز کی گواہی الہامی شریعتوں اور عالمی قوانین میں واضح طور پر موجود ہے۔
خطبے سے منتخب اقتباس پیش ہے:
تمام تعریفیں اللہ کےلیے ہیں جس نے مخصوص جگہوں کو بلند مقام عطا فرمایا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں وہی اعلی اور بلند و بالا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، آپ کو اللہ تعالی نے مسجد الحرام سے مسجد اقصی تک راتوں رات سیر کروائی، یا اللہ! اُن پر، اُن کی آل، اور تمام متقی صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی، اور برکتیں نازل فرما۔
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ}
اے ایمان والو ! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہے تو اللہ تمہیں [حق و باطل کے مابین] تفریق کی قوت عطا کرے گا، تم سے تمہاری برائیاں دور کر دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑا ہی فضل کرنے والا ہے [الأنفال: 29]
ہر مسلمان کے دل میں ایک بہت ہی اہم مسئلہ جا گزین ہے اور وہ ہے مسجد اقصی کا مسئلہ ؛ بیت المقدس قبلہ اول ، حرمین شریفین کے بعد تیسری اعلی ترین مسجد اور سید ثقلین صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے اسرا ہے ۔
یہ عصر حاضر کا ایسا اہم ترین مسئلہ ہے کہ مسلم معاشرے کے ہر فرد کے ذہن میں ہر وقت اجاگر رہتا ہے؛ چاہے وہ مسلم معاشرہ بذات خود کسی بھی بحران کا شکار ہو یا ان کے اپنے حالات جس قدر بھی خراب ہوں مسئلہ فلسطین کبھی بھی ذہنوں سے اوجھل نہیں ہوتا۔
بیت المقدس اور اس کے احاطے میں مسجد اقصی کا وجود مسلمانوں کے ہاں عقیدے سے متعلقہ مسئلہ ہے، اس کا مسلمانوں کی تاریخ سے نا قابل فراموش اور گہرا تعلق ہے، بیت المقدس اور مسجد اقصی کے اس تاریخی تعلق کو کسی بھی صورت اسلامی تاریخ سے نکالنا ممکن نہیں؛ کیونکہ یہ امت کی پہچان ہے، یہ امت اسلامیہ کی اساسی علامت اور امت اسلامیہ کے ہاں مقدس مقام ہے۔
بیت المقدس کو یہ مقام حاصل کیوں نہ ہو! اللہ کی کتاب صبح شام ہمیں یاد کرواتی ہیں کہ:
{سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ}
پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجد الحرام سے مسجد اقصی کی سیر کروا دی، جس مسجد کے ارد گرد ہم نے برکت فرمائی، تا کہ ہم اپنے بندے کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ [الإسراء: 1]
مسجد اقصی ان تین مساجد میں سے ایک ہے جن کی جانب قرب الہی کی جستجو میں رخت سفر باندھا جا سکتا ہے، ان تینوں جگہوں کی جانب اللہ کا فضل طلب کرنے کے لیے سفر کر سکتے ہیں، جیسے کہ اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح احادیث ثابت ہیں۔
سر زمین بیت المقدس محشر [جمع ہونے] اور منشر [دوبارہ زندہ ہونے]کی جگہ ہے؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لونڈی میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: "میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمیں بیت المقدس کے بارے میں بتلائیں" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (وہ جمع ہونے اور زندہ ہونے کی جگہ ہے) اس روایت کو ابن ماجہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
بیت المقدس کی اسلام میں اتنی فضیلت کیوں نہ ہو! یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے اسرا ہے، یہاں سے ہی آپ کو آسمانوں کی جانب لے جایا گیا؛
بیت المقدس کے عظیم فضائل میں عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کی روایت بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس وقت سلیمان بن داود علیہما السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالی سے تین دعائیں مانگیں: 1) قوت فیصلہ جو اللہ تعالی کے فیصلوں کے عین مطابق ہو۔ 2) ایسی بادشاہی جو ان کے بعد کسی کے لائق نہ ہو۔ 3) اور اس مسجد میں نماز کی نیت سے آنے والا کوئی بھی ہو وہ جب یہاں سے واپس نکلے تو اپنے گناہوں سے ایسے پاک صاف ہو جیسے اس کی ماں نے اسے آج جنم دیا ہے) تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( پہلی دو دعائیں تو ان کی قبول ہو گئیں تھیں اور مجھے امید ہے کہ تیسری بھی قبول ہو گئی ہو گی) نسائی، ابن ماجہ نے اسے روایت کیا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
اسلامی بھائیو!
بیت المقدس اور مسجد اقصی کی اسلام میں بہت فضیلت اور امتیازی خوبیاں ہیں، انہی خوبیوں نے بہت سے مسلم علمائے کرام کو مجبور کیا کہ صدیوں سے بیت المقدس کی فضیلت ،شان اور حقوق کے متعلق مستقل تالیفات لکھتے چلے آئیں، چنانچہ اہل علم کی بہت بڑی تعداد نے مسجد اقصی اور بیت المقدس کی مسلمانوں کے ہاں اہمیت اور فضیلت اجاگر کرنے کے لیے کتابیں لکھیں۔
اسی لیے تمام کے تمام مسلمان چاہے ان کا تعلق کسی بھی ملک اور خطے سے ہو ، وہ کسی بھی جگہ کے رہائشی ہوں، سب مسلمان کسی بھی ایسے اقدام کو تسلیم نہیں کرتے جو مسئلہ قدس اور مسجد اقصی پر منفی اثرات مرتب کرے؛ کیونکہ یہ اسلامی مقدسات ہیں کسی صورت میں ان کی بے حرمتی کی گنجائش نہیں۔ بلکہ بیت المقدس کے متعلق منفی اقدامات مسلمانوں کو اپنے مسلّمہ حقوق مزید پر زور طریقے سے مانگنے پر ابھارتے ہیں، ان کے مطالبے اپنے حقوق لینے، ظالم کو روکنے اور مظلوم کی مدد کے مقررہ اصولوں کے عین مطابق ہیں، ان کے یہ مطالبے سابقہ تمام آسمانی شریعتوں اور عالمی دستور میں بھی موجود ہے۔
مسلم اقوام!
امت مسلمہ کے مسائل دھواں دھار تقریروں اور زرق برق نعروں کے ذریعے حل نہیں ہوں گے، مسلمانو! مذمت، اظہارِ تشویش ، احتجاج اور مظاہروں سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا؛ کیونکہ مسلمانوں نے یہ تمام کام پہلے کتنی بار کر لیے ہیں، ماضی میں تسلسل کے ساتھ ان پر عمل رہا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ ایسا رد عمل ہوتا ہے جو ظلم نہیں روک پاتا، ان سے نقصانات کا ازالہ نہیں ہوتا، ایسے اقدامات سے مسلح کاروائیوں اور جارحیت میں کمی نہیں آتی، اس لیے مسلمانو! اللہ تعالی کی جانب حقیقی رجوع کے بغیر کوئی چارہ نہیں، اللہ تعالی کی طرف اخلاص اور گڑگڑا کر رجوع لازمی ہے، اس کے ساتھ ساتھ اسلام اور مسلمانوں کے حقوق کو تحفظ دینے کے لیے بھر پور کوشش اور محنت بھی ہو۔
امت مسلمہ کی مدد اور فتح دل و جان کے ساتھ دینِ الہی کی مدد سے ہو گی، دین الہی کو تسلیم کر کے اس پر عمل پیرا ہوں اور اسے عملی شکل دیں۔ چنانچہ جس دن بھی امت دین الہی پر عمل پیرا ہو جائے گی، اللہ تعالی کے احکامات اور شریعت کی پابند بن جائے گی، پوری امت اپنے تمام تر عملی اقدامات حقیقی دین سے حاصل کرے گی کہ جس دین کی بنیاد پر مسجد اقصی کا مسئلہ کھڑا ہوا ہے تو تب امت مؤثر علاج اور مثبت نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہو گی، فرمانِ باری تعالی ہے:
{إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ}
اگر تم اللہ [کے دین]کی مدد کرو تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم بنا دے گا۔ [محمد: 7]
کیونکہ عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے ہمراہ تمام تر صحابہ کرام نے مسجد اقصی کو تب آزاد کروایا تھا جب انہوں نے غلبہ اسلام کیلیے دل و جان سے عملی اقدامات کئے تھے۔
اسلامی بھائیو!
جس دن دلوں پر قرآن و سنت کا راج ہو گا، زندگی کے تمام شعبے عملی طور پر اس کی گواہی دیں گے تو مسلمان کبھی بھی کمزور اور ذلیل نہیں ہوں گے، انہیں کسی قسم کی پستی اور تنزلی کا سامنا نہیں ہو گا؛ کیونکہ اللہ تعالی نے سچا وعدہ بتلا دیا ہے کہ:
{وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ}
اور نہ ہی کمزوری دکھاؤ اور غم بھی نہ کرو، اگر تم مؤمن ہو تو تم ہی غالب ہو۔ [آل عمران: 139]
مسلمان جس وقت بھی اپنی حالت کو اسلامی تعلیمات کے مطابق مکمل طور پر ڈھال لیں گے کہ کسی بھی اعتبار سے کمی باقی نہ رہے، اسلامی تعلیمات کو ہی مکمل طور پر بالا دستی دیں ، ظاہر و باطن ہر طرح سے شریعت پر ہی عمل پیرا ہوں، اسلامی تعلیمات کے سائے تلے اسلام کے لیے زندگی گزاریں جیسے کہ سلف صالحین نے اپنی زندگیاں گزاریں، جیسے کہ صحابہ کرام اور ان کے بعد مسلمانوں نے زندگی گزاری، تو ان کی کوئی بھی کوشش اور کاوش ناکام نہیں ہو گی چاہے حالات کتنے ہی بگڑ جائیں، ان کے راستے میں کبھی اندھیرا نہیں ہو گا چاہے کتنی ہی رکاوٹیں کھڑی کر دی جائیں، شرط یہ ہے کہ جب تک وہ اسلام پر قائم رہیں، اسلامی احکامات کی پابندی کریں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سنتوں پر عمل پیرا ہوں اور انہی کو مضبوطی سے تھام کر رکھیں، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا}
بیشک اللہ تعالی ایمان لانے والوں کا دفاع فرماتا ہے۔ [الحج: 38]
بصورت دیگر جب امت میں شہوت پرستی ، گمراہ کن لہو و لعب، ہوس پرستی، اور شبہات کا راج رہے تو امت پر جارحیت، مصیبتیں اور ہر قسم کی بلائیں اور بحران آتے رہیں گے؛ کیا اللہ تعالی نے ہمیں صاف لفظوں میں نہیں فرمایا:
{وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ}
اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچے تو وہ تمہارے کیے دھرے کی وجہ سے ہے، اور اللہ بہت سی چیزوں سے درگزر فرما لیتا ہے۔[الشورى: 30]
اسی طرح اللہ تعالی نے غزوہ احد کے متعلق نہیں فرمایا!
{أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّى هَذَا قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ}
بھلا جب (احد کے دن) تم پر مصیبت آئی تو تم چلا اٹھے کہ "یہ کہاں سے آ گئی ؟" حالانکہ اس سے دو گنا صدمہ تم کافروں کو پہنچا چکے ہو؟ آپ ان مسلمانوں سے کہہ دیں کہ: یہ مصیبت تمہاری اپنی لائی ہوئی ہے، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔[آل عمران: 165]
تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے چاہے وہ کسی بھی منصب پر فائز ہیں کہ اقصی ، بیت المقدس، اور فلسطین جیسے بنیادی مسئلے کی حمایت میں صرف اسلام کی بنیاد پر کھڑے ہو جائیں، مؤثر انداز میں متحد ہوں، ٹھوس بنیادوں پر آگے بڑھیں کہ جن کی بدولت ثمرات سامنے آئیں اور اہداف پورے ہو سکیں۔
{وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ}
تم اقدامات کرو؛ تمہاری پیش قدمی کو اللہ، اللہ کا رسول اور مومنین عنقریب ملاحظہ کر لیں گے۔[التوبۃ: 105]
کسی بھی اقدام کے لیے گہری بصیرت اور کامل حکمت کا ہونا از بس ضروری ہے کہ انہی دونوں کی بدولت امت اسلامیہ متنوع چیلنجز کا مقابلہ ہر صورت میں کر سکتی ہے۔ اس کے لیے آپس میں تعاون، مدد اور شانہ بشانہ چلیں نہ کہ گالم گلوچ، ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کھول لیں۔ اس طریقے پر عمل کریں تو ظالم کو ظلم سے روکا جا سکتا ہے اور امت اسلامیہ کو فتح اور کامیابی حاصل ہو گی۔
نیز امت کو در پیش مسائل کے لیے گہری نظر و فکر کی ضرورت ہے کہ جن کی بدولت جذباتی بھنور کی بجائے ٹھوس عملی اقدامات سامنے آئیں، متوازن اور بہتر طریقہ کار اپنا کر مخلص کاوشوں کو یکجا کریں، اپنائے گئے ٹھوس موقفوں کو مضبوط طریقے سے مربوط بنائیں، دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں سید الانبیاء والمرسلین کی شریعت کے سائے تلے اقدامات کریں جو کہ پوری دنیا کو امن و سلامتی، خوشحالی اور امان کی جانب گامزن کر سکتی ہے۔
نیز اللہ تعالی کے اس فرمان کی تعمیل بھی ضروری ہے:
{إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ}
یقیناً یہ تمہاری امت حقیقت میں ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں پس تم میری عبادت کرو۔ [الأنبياء: 92]
یا اللہ! یا حیی! یا قیوم! ہمیں تیری طرف کامل صورت میں رجوع کرنے والا بنا، یا اللہ! یا حیی! یا قیوم! سب مسلمانوں کو تیری طرف کامل صورت میں رجوع کرنے والا بنا، یا اللہ! تمام مسلمانوں کو صرف انہی کاموں کی توفیق دے جنہیں تو پسند فرماتا ہے، یا اللہ! انہیں صرف انہی کاموں کی توفیق دے جنہیں تو پسند فرماتا ہے، جن کے ذریعے غلبہ اسلام ممکن ہو، تیرے نیک بندوں کے لیے جو ممد و معاون ہوں، یا حیی! یا قیوم! آمین!!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں