مسجد حرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ فیصل بن جمیل الغزاوی
جمعۃ المبارک 4 ربیع الثانی 1439 ہ بمطابق 22 دسمبر 2017
ترجمہ محمد عاطف الیاس
اللہ رب العالمین کے لیے بے انتہا، پاکیزہ اور بابرکت تعریف ہے۔ بالکل ویسی تعریف جیسی ہمارے رب کو پسند ہے اور جس سے وہ راضی ہوتا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ دنیا وآخرت میں ساری تعریف اسی کے لیے ہے۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دین رحمت اور ہدایت کے ساتھ مبعوث کیے گئے تھے۔ اللہ کی رحمتیں برکتیں اور سلامتی ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پاکیزہ اور نیک اہل بیت پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں امہات المومنین پر، تمام صحابہ کرام پر اور قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنے والوں پر۔
اے مسلمان بھائیو!
بھلا ہونا، اہل ایمان کی صفت ہے، جس سے ان کی بھلائی، اچھے اوصاف اور بہترین اخلاق ظاہر ہوتے ہیں۔ ہم میں سے ہر کوئی چاہتا ہے کہ اسے بھلا کہا جائے اور برائی سے متصف ہونے کو ہر کوئی نا پسند کرتا ہے، بلکہ ہر کوئی یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ برے لوگوں سے دور رہے اور بھلے لوگوں کے قریب رہے۔ اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو پھر ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ اچھے لوگ کون ہیں اور ان کی صفات کیا ہیں؟ انہیں ممتاز کرنے والی چیز کون سی ہے اور وہ کس طرح رہتے ہیں؟
امام احمد کی کتاب مسند الامام احمد میں سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت منقول ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے! مومن کی مثال شہد کی مکھی جیسی ہے۔ وہ بھلی چیز کھاتی ہے اور اچھی چیز ہی پیدا کرتی ہے۔ جہاں بھی جاتی ہے، نہ کوئی چیز توڑتی ہے اور نہ کوئی چیز خراب کرتی ہے۔
اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مومن کی مثال بتائی ہے کہ جس کے اندر تمام بھلی صفات پائی جاتی ہیں اور جو ظاہری طور پر اسلام کے اخلاق اپنائے ہوئے ہے۔ بتایا کہ مومن شہد کی مکھی جیسا ہے جو اللہ تعالی کے حکم سے مختلف پھلوں سے کھاتی ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
’’ہر طرح کے پھلوں کا رس چوسو۔‘‘ (النحل)
وہ جو چیز بھی بناتی ہے، بہت خوب بناتی ہے۔ اس کے جسم سے کوئی ناپاک چیز نہیں نکلتی۔ فرمان الٰہی ہے:
’’اِس مکھی کے اندر سے رنگ برنگ کا ایک شربت نکلتا ہے جس میں شفا ہے لوگوں کے لیے۔‘‘ (النحل)
مومن بھی ایسا ہی ہوتا ہے، بھلے کام کرنے والا، اچھے اخلاق والا اور نیکی میں سبقت لے جانے والا۔
اے مسلم معاشرے کے لوگو!
بھلا مسلمان وہ ہوتا ہے جو خود پاکیزہ ہوتا ہے اور جسے اللہ تعالی کی طرف سے پاکیزگی عطا کی گئی ہوتی ہے۔ وہ ہر برائی، کمی، گناہ اور جہالت سے پاکیزہ رہنے کی کوشش میں رہتا ہے۔ اسی طرح وہ علم و حیا اپناتا ہے اور اچھے اخلاق پر قائم رہتا ہے۔ وہ اپنے نفس کی اصلاح، بہتری اور پاکیزگی میں لگا رہتا ہے۔ اس طرح اس کا دل اللہ تعالیٰ کی پہچان سے، اسکی زبان اللہ کے ذکر اور حمد و ثنا کے بیان سے اور اس کے اعضاء اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری سے بھلے ہو جاتے ہیں۔
اے مسلمانو!
مسلمان ہر معاملے میں بھلا ہوتا ہے، اپنے معاملات میں اور اپنے لین دین میں، اپنے آنے جانے میں اور اٹھنے بیٹھنے میں، وہ اپنی زندگی میں بھی بھلا ہوتا ہے اور اپنی موت کے بعد بھی بھلا ہوتا ہے۔ اگر مسلمان کی روح کے متعلق بات کی جائے تو مسلمان کی روح بھی بہت بھلی ہوتی ہے۔
میرے بھائیو!
مومن کلمہ طیبہ کو بھی دہراتا رہتا ہے، وہ اپنی زندگی میں اور موت کے وقت اسے بار بار زبان پر لاتا رہتا ہے۔ کلمہ طیبہ کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کو کس چیز سے مثال دی ہے؟ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا درخت، جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے اپنے پھل دے رہا ہے یہ مثالیں اللہ اس لیے دیتا ہے کہ لوگ اِن سے سبق لیں۔‘‘ (ابراہیم: 24۔ 25)
کلمہ طیبہ سے مراد لاالہ الا للہ ہے۔ تو اے مسلمان! اس کلمہ طیبہ سے خوش ہو جا! اسے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک بنا لے اور اسے ہمیشہ یاد رکھ۔ کیونکہ جس کی زندگی کے آخری الفاظ لا الہ الا اللہ ہوں وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔ تو موت تک اللہ تبارک وتعالیٰ سے ثابت قدمی کا سوال کرتا رہ۔
فرمان الٰہی ہے:
’’ان کو پاکیزہ بات قبول کرنے کی ہدایت بخشی گئی اور انہیں قابل تعریف الہ کا راستہ دکھایا گیا۔‘‘ (الحج: 24)
یعنی اللہ تعالی نے اہل ایمان کو بھلے بول سکھائے ہیں، سب سے اچھا بول لا الہ الاللہ ہے۔ اور اس کے بعد سب سے افضل الفاظ وہ الفاظ ہیں جن میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے اور جن میں اللہ کے بندوں کے ساتھ نرمی ہوتی ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے:
’’اُس کے ہاں جو چیز اوپر چڑھتی ہے وہ صرف پاکیزہ قول ہے، اور عمل صالح اس کو اوپر چڑھاتا ہے۔‘‘ (فاطر: 10)
اس آیت میں پاکیزہ بول سے مراد تلاوت، تسبیح، حمدوثنا اور ہر وہ پاکیزہ قول جو انسان اپنے منہ سے نکلتا ہے۔ یہ سب بول اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے پیش ہوتے ہیں اور وہ ذکر کرنے والے کے حق میں گواہی دیتے ہیں۔
اللہ کے بندو!
بھلے مرد اور بھلی عورتیں ایک دوسرے کا خیال کرتے ہیں اور ان لوگوں کے ساتھ رہتے ہیں جوان ہی جیسے کام کرتے ہیں۔ فرمان الہی ہے:
’’پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے۔‘‘ (النور: 26)
بھلے بول بھی افضل اور بہترین بول ہوتے ہیں۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت پر عمل کیجئے۔ فرمان نبوی ہے:
لوگوں کو کھانا کھلاؤ اور بھلا بول بولو۔ اسے امام طبرانی نے حضرت علی رضی اللہ تعالئ عنہ سے روایت کیا ہے۔
مومن اس چیز کا بھی خاص خیال کرتا ہے کہ اس کی کمائی پاکیزہ اور بھلی ہو۔
امام مسلم نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ ہو تعالی عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اے لوگو! اللہ بڑا پاکیزہ ہے اور وہ پاکیزہ چیز ہی قبول کرتا ہے۔ اللہ تعالی نے اہل ایمان کو بھی وہی حکم دیا ہے جو اس نے رسولوں کو دیا ہے۔ فرمایا:
’’اے پیغمبرو، کھاؤ پاک چیزیں اور عمل کرو صالح، تم جو کچھ بھی کرتے ہو، میں اس کو خوب جانتا ہوں۔‘‘ (المومنون :51)
امام قرطبی علی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:
اللہ تعالی نے انبیاء کو اور مومنین کو برابر مخاطب کرتے ہوئے حلال کھانے کا اور حرام سے بچنے کا حکم دیا اور پھر آیت کے آخر میں سب کو یہ کہتے ہوئے خبردار کیا کہ میں آپ کے کاموں کو خوب جانتا ہوں!
اللہ کے رسولوں پر رحمتیں اور سلامتی ہو، اگر ان کے ساتھ یہ معاملہ ہے تو پھر ہمارا معاملہ کیسا ہوگا!
اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ صدقہ دیتے وقت بھلی کمائی میں سے دیں اور ناجائز کمائی سے صدقہ نہ دیا جائے بلکہ نیک کمائی سے صدقہ دیا جائے تو وہ بہت بھلا ہے چاہے وہ کم ہی کیوں نہ ہو۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ ہو تعالئ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالی پاکیزہ مال ہی قبول کرتا ہے، تو جو اپنے پاکیزہ مال سے صدقہ دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے دائیں ہاتھ میں لے لیتا ہے، چاہے وہ صدقہ ایک کھجور ہی کیوں نہ ہو، وہ اللہ تعالی کے ہاتھ میں یوں بڑھتا ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنے جانور یا پودے کو پالتا ہے۔ یہاں تک کہ وہی کھجور ایک پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے۔ اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
اے میرے بھائیو!
مومن کی بھلائی کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں سے ملتا جلتا ہے اور ان کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے، ایسا کرنا بھی نیکی ہے اور ایسا کرنے والا ایک بھلے کام میں مصروف رہتا ہے۔
میرے بھائیو!
لوگوں کے دلوں میں خوشی پیدا کرنا بھی بھلے لوگوں کی علامت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی صفات بیان کرتے ہوئے جو لوگوں کے حقوق مکمل حد سے زیادہ ادا کر دیتے ہیں، فرمایا:
اللہ کے بہترین بندے وہ ہیں جو حق ادا کر دیتے ہیں اور دوسروں کے دل میں خوشی ڈالتے ہیں، اسے امام طبرانی نے سیدنا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
دل کی طرف جانے والا مختصر ترین راستہ بھلے بول کا راستہ ہے۔ فرمان نبوی ہے:
آگ سے بچنے کی کوشش کرو، چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے سے، اور جو یہ بھی نہ کرسکے وہ بھلے بول ہی کے ذریعے آگ سے بچنے کی کوشش کرے۔ اسے امام بخاری نے عادی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے۔
مومن اپنی زندگی بڑی خوشی اور ثابت قدمی سے جیتا ہے، کیونکہ اس کا دل اطمینان سے اور نفس سکون اور سینہ ٹھنڈک سے بھرا ہوتا ہے۔ وہ بہترین اور بھلی زندگی گزارتا ہے۔ اہل ایمان کے ساتھ اللہ تعالی کا یہی وعدہ ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
’’جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشر طیکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔‘‘ (النحل: 97)
نیک زندگی گزارنے کے بعد اللہ تعالی اہل ایمان کو بھلی موت نصیب فرما تا ہے اور انہیں پاکیزہ موت نصیب فرما تا ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
’’ اُن متقیوں کو جن کی روحیں پاکیزگی کی حالت میں جب ملائکہ قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں “سلام ہو تم پر، جاؤ جنت میں اپنے اعمال کے بدلے۔‘‘ (النحل: 32)
یعنی فرشتے انہیں کہتے ہیں کہ تم شرک سے پاکیزہ ہو کر آئے ہو، تمہارے کام اور تمہارے بول بہت اچھے ہیں۔ چناچہ انہیں بہت بھلی موت نصیب ہوتی ہے اور روح بڑی آسانی سے نکل جاتی ہے، انہیں روح نکلنے کی تکلیف محسوس نہیں ہوتی، موت کی شدت انہیں تنگ نہیں کرتی اور وہ عذاب قبر سے محفوظ رہتے ہیں۔ انہیں فرشتے خوش آمدید کہتے ہیں اور کہتے ہیں: تم پر سلامتی ہو، تاکہ ان کے دل مطمئن ہو جائیں۔ پھر انہیں بشارت دیتے ہیں کہ داخل ہو جاؤ جنت میں اپنے اعمال کی وجہ سے۔
اللہ اکبر! رب کعبہ کی قسم! یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں اور ان کے پاس اللہ تعالی کی بے انتہا نعمتیں ہوں گی۔ فرمان الہی ہے:
’’ان مومن مردوں اور عورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ان سدا بہار باغوں میں ان کے لیے پاکیزہ قیام گاہیں ہوں گی، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی خوشنودی انہیں حاصل ہوگی یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘ (التوبہ : 72)
اے میرے بھائیو!
جنت میں پاکیزہ اور نیک لوگوں کے ساتھ ان کا امام اور سردار، اشرف المخلوقات، خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہوں گے۔ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان! جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہوئے تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دیا اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! زندگی میں بھی آپ بھلے تھے اور موت کے بعد بھی آپ بہت بھلے ہیں۔ اس رب کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! اللہ تعالی آپ کو دہری موت کبھی نہ دے گا۔ اسے امام بخاری نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کیا ہے۔
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرو، ان کی راہ پر چلو، ان کی شریعت پر عمل کرو۔ پاکیزہ زندگی گزارو تاکہ تم کامیاب ہو سکو۔
اے اللہ ہم تم سے بھلائی کا سوال کرتے ہیں برائی سے دور رہنا مانگتے ہیں اے اللہ ہم تجھ سے نیک اور بھلی اور پاکیزہ زندگی مانگتے ہیں اے اللہ ہم کھلے اور چھپے فتنوں سے تیری پناہ میں آتے ہیں
وآخردعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں