اسرا و معراج ، فضائل و اسباق - خطبہ جمعہ مسجد نبوی

ترجمہ: شفقت الرحمان مغل

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ  نے مسجد نبوی میں 11  -ربیع الثانی- 1439 کا خطبہ جمعہ " اسرا و معراج،،، فضائل و اسباق" کے عنوان پر ارشاد فرمایا  جس میں انہوں نے  کہا  کہ اسرا اور معراج کے طویل سفر کو اللہ تعالی نے اپنی قدرت کے اظہار کے لیے بیان فرمایا ، اس سفر میں بہت زیادہ اسباق  اور نصیحتیں ہیں کہ اس سفر کی سعادت صرف ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی، بیت المقدس اگرچہ انبیائے کرام کا گہوارہ ہے لیکن امامت کا شرف ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلمکو ہی ملا آپ نے خود اقامت کہی اور جماعت کروائی، تمام انبیائے کرام نے محمدی طریقے کے مطابق نماز ادا کی جو کہ شریعت محمدی  کے لیے شرف ہے۔

خطبے سے منتخب اقتباس پیش ہے:

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى}
 پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجد الحرام سے مسجد اقصی  کی سیر کروائی۔ [الإسراء: 1]، 
میں لا تعداد اور بے شمار نعمتوں پر اللہ کی حمد اور شکر بجا لاتا ہوں ، اور  گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، وہ بلند و بالا ہے،  میں یہ بھی  گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اس کے بندے  اور رسول  ہیں، آپ کو معراج کے سفر میں آسمانوں کی  بلندیوں پر لے جایا گیا۔  اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل  ،اور تمام صحابہ کرام    سمیت آپ کے تابعداروں پر رحمتیں  نازل فرمائے ۔

اسراء کا سفر بیان کر کے اللہ تعالی نے اپنی رفعت، عظمت  اور شان بیان کی کہ اس جیسی قدرت اور طاقت کا مالک کوئی نہیں جو کسی کو راتوں رات اتنی دور کی سیر کروا دے، اللہ تعالی کی قدرت اس حیرت انگیز سفر  اور ہمیشہ یاد رکھے جانے والے معجزے میں واضح ہوئی ، اس نے عقل کو دنگ اور  انسانی دماغ چکرا کر رکھ دیا ؛ کیونکہ اُس وقت اتنا تیز سفر انسانی سوچ سے ماورا تھا، اس سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد الحرام سے مسجد اقصی تک کا  طویل سفر چند لمحوں میں کروایا گیا، آپ نے اس طویل سفر میں اللہ تعالی کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں، پروردگار کی بادشاہی کا جلال دیکھا اور پھر اسی رات واپس بھی آ گئے۔

اسرا اور معراج کا سفر نبوت کی بہت بڑی نشانی اور عظیم ترین معجزہ تھا، اس سفر میں حکمتیں ، احکام اور بڑے بڑے سبق ہیں۔ اس سفر کو اللہ تعالی نے اپنے خلیل اور چنیدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مختص فرمایا، یہ بیت اللہ  سے بیت المقدس کی جانب سفر تھا ، بیت المقدس انبیاء کا گہوارہ  اور قبلۂ اول ہے؛ بیت المقدس کی جانب سفر اس لیے کیا گیا تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت  اور شان و شوکت عیاں ہو، آپ کے عزائم مضبوط ہونے کے ساتھ آپ مزید ثابت قدم ہو جائیں، یہ سفر  اللہ تعالی کی جانب سے جیتا جاگتا معجزہ  تھا کہ ایک بشر کو  آسمانوں میں لے جایا گیا اور پھر دوبارہ زمین پر لوٹا دیا گیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ساری کی ساری کائنات اللہ سبحانہ و تعالی کے کنٹرول میں ہے، اللہ کے سوا ہمارا کوئی معبود نہیں اور نہ ہی اس کے علاوہ ہمارا کوئی پروردگار ہے۔

اسرا کے سفر میں اسلام کی عظمت بھی عیاں ہوتی ہے ، یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے اسلام کو سابقہ تمام شریعتوں کا خلاصہ بنایا ، چنانچہ دین اسلام تمام سابقہ شریعتوں کے مقابلے میں آخری شریعت ہے، اسرا کے سفر نے انبیائے کرام کے مابین بھائی چارے کے تعلقات کو مضبوط بنایا اور یہ بھی بتلایا کہ سب کا پیغام رسالت ایک ہی ہے۔  یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بھی آسمان  کے پاس پہنچتے تو تمام انبیائے کرام نے آپ کا: (خوش آمدید! پارسا بھائی اور نیک نبی ) کہہ کر استقبال کیا، انہی انبیائے کرام کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:  (تمام انبیائے کرام کا باپ ایک ہے اور ان کی مائیں الگ الگ ہیں، ان کا دین ایک ہی ہے، اور میرا عیسیٰ بن مریم کے ساتھ تعلق سب سے بڑھ کر ہے)

تمام انبیائے کرام  نے جمع ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے مسجد اقصی میں نماز ادا کی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان  اور مقام بہت بلند ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام تر انبیائے کرام سے افضل ہیں ،امامت کروانے کا ذکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسرا کا واقعہ ذکر کرتے ہوئے خود فرمایا: (موسی علیہ السلام کھڑے نماز ادا کر رہے تھے  آپ  کا قد درمیانہ  اور جسم ٹھوس  تھا نیز آپ شنوءہ قبیلے  کے افراد جیسے  دکھ رہے تھے، اور اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام بھی کھڑے نماز ادا کر رہے تھے، آپ کی  شباہت میں سب سے قریب ترین عروہ بن مسعود ثقفی  ہیں، ایسے ہی ابراہیم علیہ السلام بھی کھڑے نماز ادا کر رہے تھے اور آپ سے تمہارے ساتھی  -یعنی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم - کی شکل سب سے زیادہ ملتی ہے، تو میں نے نماز کی اقامت کہی  اور ان کی امامت کروائی) انبیائے کرام کے اس طریقے اور سلیقے سے تمام داعیانِ حق کو سبق ملتا ہے کہ وہ بھی انبیائے کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اطاعت، نیکی اور تقوی کے امور پر متحد ہو جائیں، اختلاف اور تفریق پیدا کرنے والے اسباب  سے پرہیز کریں۔

جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد الحرام سے مسجد اقصی تک تیز رفتاری کے ساتھ سفر کروایا  گیا؛ بالکل اسی طرح پوری دنیا میں اسلام بھی بڑی تیزی کے ساتھ پھیلا، اسی لیے تو دین اسلام  آفاقی دین ہے کوئی بھی سرحد یا حد بندی اس کے لیے رکاوٹ نہیں بن سکتی۔

ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ: (یہ دین وہاں تک پہنچے گا جہاں تک دن اور رات  ہیں، یہاں تک کہ اللہ تعالی مٹی یا اون کے بنے ہوئے گھروں میں بھی اس دین کو داخل کر کے چھوڑے گا؛ چاہے اس کی وجہ سے کسی کو عزت ملے یا ذلت۔اللہ تعالی عزت اسلام اور مسلمانوں کو جبکہ ذلت شرک اور مشرکوں کو دے گا۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکا یہ فرمان بالکل سچ  ثابت ہو چکا ہے؛ کیونکہ اسلام  اس دھرتی کے طول و عرض میں سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے بلکہ دشمنوں کی زبانیں اور قلمیں بھی اسی کی گواہی دے رہی ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمانوں کی بلندیوں تک لے جایا گیا ، اور آپ کو یہ رتبہ بلند اس لیے ملا کہ آپ نے اپنی شخصیت میں عبدیت کا اعلی ترین مقام سمو رکھا تھا ، اور اسی عبدیت کے اعلی مقام  کی وجہ سے اللہ تعالی نے  آپ کی تعریف کے اعلی ترین مقام پر بھی آپ کو عبدیت  کے ساتھ ہی ذکر کیا اور فرمایا: {سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ} پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو سیر کروائی۔ [الإسراء: 1]

اسرا اور معراج کے اس سفر کے دوران آپ کو  مسجد الحرام ، مسجد نبوی اور مسجد اقصی کے مابین  انتہائی مضبوط تعلق  اور ناطہ پڑھنے کو ملے گا، اور اس تعلق  میں امت کے لیے بالکل واضح اشارہ ہے کہ مسجد اقصی کے بارے میں معمولی سی سستی کا شکار نہ ہو؛ کیونکہ مسجد اقصی کے مقام، قدسیت اور برکت کا یہی تقاضا ہے۔

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (تین مساجد کے علاوہ رخت سفر نہ باندھا جائے:  میری یہ مسجد، مسجد الحرام اور مسجد اقصی) بخاری

اسرا کے معجزے سے ہم اللہ تعالی کی مدد اور نصرت کے حوالے سے اہم ترین سبق حاصل کرتے ہیں کہ   جو بھی اللہ کے دین اور  اللہ تعالی کے احکامات پر کار بند ہو گا اللہ تعالی اس کے ساتھ ہوتا ہے، اور اللہ تعالی کے ساتھ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے اس بندے کی حفاظت فرماتا ہے، اسے کامیابیوں سے نوازتا ہے، اس کی مدد اور نصرت فرماتا نیز غلبہ عطا کرتا ہے۔ اس سبق کی وجہ سے ان جان نثاروں کے زخم مندمل ہوتے ہیں جو اخلاص کے ساتھ دشمن کے سامنے سینہ سپر ہیں اور مسلمانوں کے مقدس مقامات کے تحفظ کے لیے اپنی جانیں  نچھاور کر رہے ہیں۔

مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے والے اور ان کے خلاف گھات لگانے والے یہ بات سمجھ لیں کہ   مسلمانوں کی مدد کے لیے اللہ سبحانہ و تعالی کو اسباب کی ضرورت نہیں ہے، اگرچہ مسلمان تنہا ہوں  تب بھی اللہ تعالی ان کی مدد فرماتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ} 
کتنی ہی چھوٹی اور تھوڑی سی جماعتیں بڑی اور بہت سی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غلبہ پا لیتی ہیں، اللہ تعالی ڈٹ جانے والوں کے ساتھ ہے۔ [البقرة: 249]

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا تاریخ کے اوراق میں ایک الگ ہی واقعہ ہے  جو کہ عبرتوں سے بھر پور ہے، وہ اس طرح کہ مشرکین  لیلۃ الاسرا کے بعد صبح کے وقت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس یہ بتانے آئے کہ تمہارے دوست کا دعوی ہے کہ انہیں مکہ سے بیت المقدس لے جایا گیا  اور  پھر رات ہی  کو واپس بھی لوٹ آئے۔ مشرکین نے یہ سمجھا کہ ابو بکر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات کو جھٹلا دیں گے؛ لیکن سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنا ایک مشہور جملہ اور قاعدہ کلیہ بیان کیا کہ: " اگر انہوں نے کہا ہے تو یہ سچ ہے"

سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دل میں موجود یہ راسخ تصدیق  در حقیقت ایمان کا نتیجہ تھا۔ لیکن جس وقت  ایمان ہی  متزلزل ہو جائے اور لوگوں کے دلوں میں یقین کمزور ہو جائے، تو کچھ اپنے ہی ایسے لوگ  رونما ہو جاتے ہیں جو دین اسلام کے متعلق شک کریں اور مسلمہ اصولوں  کو توڑیں، یہ قرآنی نصوص اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا کر اپنی ناقص عقل کے مطابق کتاب و سنت کا محاکمہ کرتے ہیں.

لیکن جن مومنوں کے دلوں میں ایمان جا گزین ہو چکا ہو  تو وہ امام شافعی رحمہ اللہ کی اس بات کا عملی نمونہ بن جاتے ہیں:  "ہم اللہ تعالی پر  اور اللہ تعالی کی وحی  اسی طرح ایمان لاتے ہیں جیسے اللہ تعالی کی مراد ہے، اسی طرح ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر  اور آپ کی احادیث پر  اسی طرح ایمان لاتے ہیں جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد  تھی"

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.

یا اللہ! ہم تجھ سے معلوم یا نامعلوم ہمہ قسم کی بھلائی مانگتے ہیں چاہے کوئی جلدی ملنے والی یا دیر سے، یا اللہ ! ہم تجھ سے معلوم یا نامعلوم ہمہ قسم کی برائی سے پناہ مانگتے ہیں چاہے  چاہتے وہ جلد آنے والی  ہے یا دیر سے ۔

یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے، یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہمارا معاش ہے، اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، اور ہمارے لیے زندگی کو ہر خیر کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے، یا رب العالمین!




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں