تدبر القرآن ۔۔۔ سورہ الکوثر از نعمان علی خان ۔۔۔ حصہ سوم

تدبر القرآن
سورۃ الکوثر
از استاد نعمان علی خان
حصہ سوم

فَصَلِّ لِرَبِّكَ "اپنے رب کے سامنے نماز پڑھیں"
نارملی نماز "لِ" کے ساتھ نہیں آتی ۔ یہاں "لِ" تعلیل ہے جس کامطلب ہے اپنے رب کے لیے پڑھیں ۔ رب جس نے آپکا خیال رکھا ۔ وہ ابھی بھی آپکی پرواہ کرتا ہے ۔اور اس تکلیف کے موقعے پر جب زیادہ تر لوگ یہ کہنے لگ جاتے ہیں  کہ اللہ نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا؟
تو اللہ تعالی نے ان کی اس بات کے جواب میں یہ "فصل للہ" نہیں کہا۔
"فصل اللہ: اللہ سے مانگیں
اللہ نے کہا
"لربک"
تمہارا رب
وہ جس نے تمہیں چھوڑا نہیں۔
ہر دفعہ جب اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہیں قرآن میں "ربک"  کا استعمال کرتے ہیں ۔جیسے
مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ یہاں ہم کیا سیکھ رہے ہیں ؟اللہ نے آپکو جو عطا کیا ہے اسکے لیے شکرادا کرنے کا طریقہ کیا ہے ؟آپ اللہ کا شکر نماز کے ذریعے ادا کرتے ہیں ۔ آپ نماز کو ایک فرض کے طور پر دیکھتے ہیں ،پانچ وقتہ تکلیف دہ شیڈول۔
اور رسول اللہ کے لیے یہ ایک ایسی چیز ہے جس میں نہ صرف وہ اپنے غم سے پناہ لیں گے بلکہ ایسا ذریعہ ہے جس سے اپنے غم کو خوشی میں تبدیل کریں گے۔ صلوت یہ ہونی چاہیے۔اللہ کے شکر کا نماز سے بہتر کوئی طریقہ نہیں۔
پھر فرمایا
"وانحر"
اس کا ترجمہ قربانی کا کیا جاتا ہے ۔مگر عربی میں وضح بھی قربانی ہو تا ہے۔ ذبح سے مراد بھی قربانی ہوتا ہے۔سو نحر کیا ہے؟
ا میں ذبح گردن کے آگے سے ہوتا ہے ۔
نحر گردن کے پیچھے اور بڑے جانور کے لیے ہوتا ہے ۔سو کہا جارہا ہے کہ صرف کسی چھوٹی چیز کی قربانی نہ کریں ۔یہ بڑا موقع ہے ۔آپ کو کوئی بڑی قربانی کرنے کی ضرورت ہے۔

ابراہیم علیہ اسلم نے بھی کہا تھا کہ
"میں نے خواب دیکھا میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں ۔"
یہاں انھوں نے ذبح کا لفظ استعمال کیا مگر اللہ تعالی فرماتے ہیں،
نہیں! اس سے بڑی قربانی کرو یعنی نحر کرو۔ 
آپ کو نحر کرنے کی ضرورت ہے۔

اس آیت میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اللہ تعالی اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابراہیم کی میراث میں موازنہ کر رہے ہیں ۔ نماز اور قربانی کا مکمل ادارہ حضرت ابراہیم کی میراث ہے۔مثال کے طور پر حضرت ابراہیم علیہ اسلام فرماتے ہیں
مجھے نماز قائم کرنے والا بنا دےاور میری اولاد کو بھی۔

یہ حضرت ابراہیم کے الفاظ ہیں اور جب وہ اولاد کے بارے میں بھی سوچتے ہیں تو وہ اس اولاد کو بھی شامل کرتے ہیں جسے قربان کرنےکے لیے وہ راضی تھے۔
اور یہ ہی وجہ ہے کہ حج کے دنوں میں لوگ زیادہ نماز پڑھتے ہیں اور قربانی کرتے ہیں ۔یہ موقع نماز سے شروع ہوتا ہے۔اور پھر نحر کرتے ہیں ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی میراث کو پورا کرتے ہیں۔
اس ایک آیت میں اللہ تعالی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد دلا رہے ہیں کہ آپکی میراث وہی ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تھی۔ حضرت ابراہیم کو اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ آپ سے تو بہت کم مانگا گیا ہے اسکے نسبتاً ۔اور آپ حضرت ابراہیم کی میراث پر ہے جن کے لیے چیزیں آسان کر دی گئی تھیں۔مشکل ترین چیزیں آسان کر دی گئی تھیں سو اس میں اطمینان اور سکون تلاش کریں اور حضرت ابراہیم کی میراث کو مکمل کریں۔

شَانِئَكَ :
بغض ،عداوت کے ساتھ جب آپ کسی کے دشمن ہیں اور ان سے شدید نفرت کرتے ہیں۔
هُوَ الْأَبْتَرُ :
بے شک وہی جاری نہ رہنے والا ہے (جڑ کٹا ہے)

آپ اس کے بارے میں فکرمند نہ ہوں ۔آپ کو اس کے خلاف بددعا کرنے کی بھی ضرورت نہیں ۔آپکو اسکے بارے میں سوچنے کی تکلیف کرنے کی بھی ضرورت نہیں اپنے دماغ اور دل کو انکو سوچنے میں استعمال نہ کریں جنھوں نے آپکو تکلیف دی ہے۔ جانے دیں ان باتوں کو۔
وہ اس قابل نہیں۔ آپکو اسکے ساتھ ڈیل کرنے کی ضرورت نہیں ۔آپکو صرف اللہ کے لیے صیح کرنا ہے۔
فَصَلِّ لِرَبِّك
آپ اپنا کام کرتے رہیں۔

جاری ہے۔۔
-استاد نعمان علی خان

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں