تدبر القرآن ۔۔۔۔ سورۃ الکوثر از نعمان علی خان۔۔۔ حصہ دوم

تدبر القرآن
سورۃ الکوثر
از استاد نعمان علی خان
حصہ دوم

اب دیکھتے ہیں وہ کیا الفاظ ہیں جنہوں نے انتہائی شدید صدماتی حالت کو خوشی میں تبدیل کر دیا تھا۔
یہ نوٹ کرنا اس لیے ضروری ہے کہ کبھی کبھار ہم بھی اس قدر تکلیف دہ صورت حال میں پڑیں گے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تھے ۔اللہ تعالی نے انکو اس غیر معمولی تکلیف دہ صورت حال میں ڈالا اور انہیں یہ سورۃ عطا فرمائی۔ یہ سورۃ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے لیے ہی نہیں اتری قرآن، ساری انسانیت کے لیے تحفہ ہے اور یہ امت اسکی پہلی وصول کنندہ ہے۔ 
یہ سورہ جو اتنی چھوٹی ہے کہ صرف اس وقت پڑھی جاتی ہے جب لوگوں کے پاس وقت کم ہوتا ہے۔ ہم اس وقت اسکی تلاوت کرتے ہیں جب ہم جلدی میں ہوں۔(نماز میں)۔ 
مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس سورۃ کو وصول کرنے کی بڑی بھاری قیمت عطا کی تھی۔ یہ آسانی سے نہیں ملی ۔
یہ الفاظ مفت میں نہیں ملے ہم مفت میں انجوائے کرتے ہیں مگر جب آپ انکو ان حالات کے ساتھ ملا کے دیکھتے جو پیش آئے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی اس مسکراہٹ کا تب آپکو اندازہ ہو گا اور اس چیز کا بھی کہ اس سورۃ کی آپکی زندگی میں کیا اہمیت ہے اور یہ میری زندگی میں کیا کردار ادا کر سکتی ۔
وہ بوجھ، تکلیف، غم ،جنک نیچے آپ دبے ہوئے ہیں ۔یہ اُن سب کو مکمل طور پر آپ سے ہٹا سکتی ہے۔ اس لیے یہ آپ کو عطا کی گئے ہے ۔
فرمایا:
إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ
کوئی شک نہیں بے شک ہم نے آپکو کوثر عطا کیا ۔

کوثر کو ترجمہ کرنا خاصا مشکل ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے کئی احادیث میں صرف ایک نہیں کئی احادیث میں اسکی وضاحت فرمائی۔ابن کثیر کی تفسیر میں بہت توالت نہیں ہوتی ۔مگر جب انھوں نے اس سورت کی تفسیر کی تع وہ تقریبا 7 صفحات کی ہےاور چھ اس میں سے پہلی آیت پر ہے ۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے مسلسل اس سورت کو اپنی امت کے ساتھ منسلک کیا ہے ۔
ہمارے پیغمبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم محبت کرنے والے باپ تھے مگر امت کے لیے انکا پیار بیٹے کے لیے پیار سے زیادہ تھا۔ حتی کے حضرت اابراہیمؑ نے فرمایا دنیا میں بھی 
میری اولاد کا کیا ہو گا؟
اور
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم قیامت کے دن بھی جس دن کوئی کسی شخص کی فکر نہیں کرے گا وہ  کہیں گے "امتی امتی" میری امت امت ۔
یہ وہ محبت ہے جو انکے دل میں آپ میں سے ہر ایک اور میرے لیے تھی۔ یہ اللہ تعالی نے اس پیغمبر کے اندر رکھ دیا تھا۔
بالخصوص مومنوں کے لیے رسول اللہ ﷺ انتہائی شفیق ہیں
(القرآن)
وہ ہمیشہ ہر وقت محبت کرنے والے خیال رکھنے والے ہیں ۔
سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو اندازہ تھا کہ جنت میں نہر (الکوثر) کا جو تحفہ اللہ نے دیا ہے وہ صرف ان ہی کے لیے نہیں ہے ۔یہ ساری امت کے لیے تحفہ ہے ۔اور اس بات نے انہیں خوشی سے مغلوب کر دیا ۔

حسن بصری،دیگر علما اور کئی صحابہ کا خیال تھا کہ رسول اللہ نے اس لفظ کوثر کی تشریح کی اسے حوض کوثر کہا(وہ مراد لیا) کہ اس کا پہلا مطلب جنت کی نہر ہے مگر یہ صرف اکلوتا مطلب نہیں ہے ۔

لفظ الکوثر جیسے بنا ہوا ہے یہ کافی عجیب لفظ ہے ۔یہ فاعل کے پیٹرن پر ہے ۔کوثر فاعل۔اور فاعل بہت کم استعمال ہوتا ہے ۔

ان اعطینک الکثیر کا مطلب ہوگا کہ ہم نے آپکو بہت زیادہ کچھ عطا کیا۔

مگر کوثر غیر معمولی زیادہ ہے۔ کوثر مبالغے کے لیے استعمال ہونے والی غیر معمولی فارم ہے ۔مبالغہ بذات خود تعریف کے لحاظ سے کسی چیز کو اپنے معنی میں بڑھانا ہے ۔معنی میں زور دینا ۔ یہ۔بذات خود غیر معمولی ہے اور اس پر اللہ نے غیر معمولی فارم کا استعمال کیا ہے ۔اور پھر یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو عطا کی ۔اسی وجہ سے کچھ صحابہ نے کہا الکوثر سے مراد القرآن ہے۔الکوثر سے مراد الوحی ہے ۔

الکوثر سے مراد امت ہے جو بڑھتی ہی جائے گی ۔جو انکی پیروی کرے گی ۔
یہ سب رسول اللہ کو عطا کیا گیا۔
اب اسکو سیاق و سباق کے ساتھ دیکھتے ہیں ۔

یہاں ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اپنی زندگی کے انتہائی ڈراونے تجربے سے گزرے ہیں۔ اور اللہ تعالی بجائے انہیں یہ کہنے کہ کہ وہ صبر کریں ۔آپکا بیٹا ٹھیک ہے وہ جنت میں جائے گا ۔کچھ بھی کسی بھی طرح کا حوصلہ دینے کے بجائے۔

حتی کے جب آپ بھی کہیں تعزیت کے لیے جاتے ہیں پہلی بات آپ شکرگزاری کی نہیں کرتے ۔آپ یہ نہیں کہتے اللہ کا شکر ہے ۔آپ صبر کرنے کا کہتے ہیں ۔یہ صبر کا وقت ہے ۔مگر اللہ تعالی انہیں کہتے ہیں انھوں نے اپکو آج تک دیے جانے والا سب سے بڑا تحفہ دیا ہے ۔جو لے لیا گیا ہے اسکا ذکر تک نہیں صرف جو عطا کیا گیا اس کا ذکر ہے۔جو لے لیا گیا اسکے بارے میں کوئی بات ہی نہیں ۔جو لے لیا گیا ہے اسکے بارے میں مت سوچیں۔ جو دیا گیا ہے مکمل طور پر اس کو سوچیں ۔اپنی سوچ میں تبدیلی لائیں۔ جب آپ اس بارے میں سوچتے ہیں جو آپ سے لے لیا گیا ہے تو صبر کی ضرورت ہوتی ہے ۔اور جب جو ملا ہے اسکے بارے میں سوچیں توشکر چاہیے ہوتا ہے ۔ایسے حالات میں جہاں باقی ہر شخص سوچیں گا یہاں صبر کی ضرورت ہے اللہ تعالی اسکو اپنے قرآن کے ذریعے شکر والے حالات سے بدل رہے ہیں ۔سبحان اللہ

جاری ہے۔۔۔

-استاد نعمان علی خان

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں