ترجمہ: شفقت الرحمان مغل
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس صلاح بن محمد البدیر حفظہ اللہ نے 12-ذو القعدہ- 1438 کا مسجد نبوی میں خطبہ جمعہ بعنوان "آخرت کے مقابلے میں دنیا کی قیمت" ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے فرمایا کہ دنیا کی زندگی فانی اور آخرت کی زندگی دائمی ہے اس لیے دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دینا ہی عقلمندی ہے؛ کیونکہ دنیا آخرت کے مقابلے میں سمندر کے ایک قطرے کے برابر ہے، نیز انسان جتنی بھی دنیا کما لے انسان اسے اپنے ساتھ نہیں لے کر جاتا بلکہ وہ یہی رہ جاتی ہے، اس لیے انسان کو چاہئیے کہ اپنی زندگی کی قدر کرے اور اس میں آخرت کے لیے زادِ راہ بنا لے۔
خطبے کا منتخب اقتباس درج ذیل ہے:
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ان تعریفوں پر میں معاوضے کا خواہاں نہیں ، میں اسی کی ثنا خوانی کرتا ہوں کیونکہ اسی نے گمراہی اور تباہی سے ہمیں تحفظ عنایت فرمایا، ہماری رہنمائی کے ساتھ ہمیں ہدایت یافتہ اعمال کیلیے توفیق بھی دی، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اس کی شریک حیات یا اولاد کچھ بھی نہیں، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں ، آپ سے بڑھ کر کوئی بھی اتباع اور اقتدا کے لائق نہیں ۔اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی اولاد اور صحابہ کرام پر درود و سلام نازل فرمائے ، کہ انہوں نے دین کی سر بلندی کے لیے خوب محنت کی اور دشمنوں کے سامنے مداہنت کا شکار نہیں ہوئے۔
مسلمانو!
دنیا کی زندگی کمتر اور فانی ، جبکہ آخرت کی زندگی برتر اور دائمی ہے۔
مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ کی قسم! دنیا کی مثال آخرت کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈالے پھر دیکھے کہ کتنا پانی انگلی پر لگا ہے) مسلم
دنیا کا مقام اس پانی کی مثل ہے جو ٹھاٹھے مارتے ہوئے سمندر میں انگلی ڈبونے والی کی انگلی کے ساتھ لگ جائے، جبکہ آخرت عظیم موجوں والے پانی سے بھرے باقی ماندہ سمندر کی مثل ہے۔
تو عقل مند انسان کس طرح آخرت کی نعمتوں سے اعراض کر کے گھٹیا سی دنیا کے پیچھے پڑ سکتا ہے؟!
حالانکہ دنیا سے جانے کا وقت بھی قریب ہے اور دنیا کا اختتام بھی ہونے والا ہے!
اللہ کے بندو!
مان لو کہ دنیا تمہارے ہاتھوں میں ہے، بلکہ موجودہ دنیا سے بھی دو گنا تمہیں دے دی گئی ہے پر یہ دیکھو کہ مرتے وقت تمہارے پاس کتنی دنیا ہو گی؟!
روزانہ تمہارے لیے یکے بعد دیگرے عبرتیں سامنے آتی ہیں، اور اگر تم باز آنے والے بنو ، تو موت تمہیں ہر برائی سے روکتی ہے۔
کب تک، آخر کب تک، جہالت میں ڈوبے رہو گے؟! اور تقوی الہی اختیار نہیں کرو گے؟! کیا دنیا کے بعد بھی دار العمل ہے؟! یا تم نے آخرت کی بجائے کہیں اور جانا ہے؟!
زندگی عبرتوں سے بھری ہوئی ہے اس میں تقدیری فیصلوں کا راج ہوتا ہے، کسی سے بادشاہت چھین لی جاتی ہے، تو کسی سے تندرستی واپس لے لی جاتی ہے، تو کسی کو آزمائش میں ڈال دیا جاتا ہے!!
ہر ایک مخلوق فنا ہونے کے لیے ہے تو ہر بادشاہت بھی خاتمے کی جانب گامزن ہے، پروردگار کے علاوہ کسی کی بادشاہت قائم نہیں رہے گی وہ حقیقی بادشاہ اور قہّار ہے، غلبہ اور بقا اسی کو حاصل ہے اس کے سوا ہر چیز فنا کی جانب بڑھ رہی ہے۔
دیکھتی آنکھوں کو کیا ہو گیا ہے کہ بصیرت نہیں رکھتیں!
دل پتھر ہوگئے ہیں کہ سوچتے ہی نہیں!
نفس بھول بھلیّوں میں گم ہیں کہ نصیحت پکڑتے ہی نہیں!
کیا نفس کو مہلت اور ڈھیل نے دھوکے میں ڈال دیا ہے؟
یا نفس کی کارکردگی نے کامیابی کا نقارہ اسے سنا دیا ہے؟
یا نفس کو ابھی تک دنیا کے فنا ہونے کا یقین نہیں ہوا؟
یا غفلت نے اس پر اتنا تسلط جما لیا ہے کہ دلوں پر غفلت کے تالے پڑ گئے ہیں؟!
اے وہ شخص جس نے اپنے آپ کو کھلی آزادی دی ہوئی ہے!
جس نے اپنے لیے گنجائش نکالی ہوئی ہے!
کیا یہ بھول گئے ہو کہ ہم سب بشر ہیں؟!
ہم تقدیر کے گھیرے میں ہیں؟!
ہم ایک سفر میں محو ہیں؟!
ہم زمین کے ایک گڑھے تک جا رہے ہیں؟!
موت ہم سب کو آنی ہے؟!
حشر میں ہم سب نے اکٹھے ہونا ہے؟!
کب تک تم باز نہیں آؤ گے اور اپنے آپ کو لگام نہیں دو گے؟!
کب تک تم نصیحت کرنے والے کی بات پر کان نہیں دھرو گے؟!
کب تک تمہارا دل ملامت گر کے سامنے موم نہیں گا؟!
کیا ابھی تک وقت نہیں آیا کہ تم خشوع اپناؤ اور تہجد گزار بن جاؤ؟!
کیا ہم نیم بیہوشی میں ہیں یا ہمارے دل ہی سنگلاخ ہو چکے ہیں؟!
پیارے بھائی ہوش کے ناخن لے، دیکھنا کہیں سوئے ہی نہ رہ جانا!!
اے دھوکے میں پڑے ہوئے ! تم خواب خرگوش میں ہو اور آگ کو دہکایا جا رہا ہے!
اس آگ کے شعلے بھجائے نہیں جائیں گے اور نہ ہی وہاں کے انگارے ماند پڑیں گے!!
ایسا شخص خوشخبری کا مستحق ہے جسے نصیحت فائدہ دے، وعظ سے ہی بیدار ہو جائے پھر بھر پور محنت کرنے لگے اور غفلت میں نہ پڑا رہے، کمر کس لے اور دھوکے میں نہ رہے، فوری عمل کرے تاخیر اور سستی کا شکار نہ ہو، تمام احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے برے دوستوں کو خیر آباد کہہ دے اور اللہ سے تعلق بنا کر توبہ کر لے۔
لیکن وہ شخص انتہائی خسارے میں ہے جس کو ہوس توبہ سے روک دے، شیطان اسے گمراہ کر کے تباہ کر دے، پھر اسے مزید غفلت، سنگ دلی، تکبر اور نخوت کی دلدل میں پھنسا دے۔
{قُلْ يَاعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ}
آپ کہہ دیں: اپنے نفسوں پر زیادتی کرنے والے میرے بندو! تم اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہونا، بیشک اللہ تعالی تمام گناہوں کو معاف کر دیتا ہے، بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔[الزمر: 53]
مسلمانو!
گرم لو سے بچنے کی کوشش کرنے والو!
تپتی دھوپ سے بچ کر بھاگنے والو!
گرمی کی حدت سے تنگ آ جانے والو!
آفتاب کی تمازت سے گھبرانے والو!
گرمی کی شدت سے بچنے کیلیے سوتی اور لینن کا لباس پہننے والو!
سورج تیز شعاعوں سے بچنے کیلیے بند کمروں، محلات، درختوں، گھروں ،سائے دار جگہوں اور ٹھنڈے علاقوں کا سفر کرنے والو!
تم جہنم کی آگ سے اپنے آپ کو بچاؤ اس کیلیے واجبات ادا کرو ، نمازوں کی پابندی کرو، گناہوں اور معصیت چھوڑ دو، ؛ کیونکہ جہنم کے شعلوں ، لپٹوں اور تپش سے بچاؤ کی دنیاوی گرمی سے بھی زیادہ ضرورت ہے۔
تم سورج کی تپش سے تو بچاؤ کرتے ہو جہنم کی آگ سے کیوں بچاؤ نہیں کرتے!؟
تم جہنم کا ہلکا ترین عذاب بھی برداشت نہیں کر سکتے، اگر تم فولاد کے بھی بن جاؤ تو پگھل جاؤ گے۔
اس لیے کسی بھی گناہ پر راضی نہ ہو ؛ کیونکہ یہ بہت بڑا عیب ہے جس سے انسان ناراضی کا
مستحق ٹھہرتا ہے۔
مسلمانو!
تم آج کل ایسے دور سے گزر رہے ہو جس میں فتنے تسلسل کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں! نت نئی برائیاں جنم لے رہی ہیں، ایک سے بڑھ کر ایک نیا فتنہ پیدا ہو رہا ہے ،ان فتنوں نے خوب دھول اڑا رکھی ہے، ان کا رونما ہونا انتہائی المناک معاملہ ہے، چیخ و پکار سے بھر پور زندگی میں یہ فتنے ہر اس شخص کو اپنی طرف گھسیٹ رہے ہیں جو ان کی جانب تھوڑی سی بھی توجہ کرتا ہے، پھر یہ فتنے اسے نظریاتی اور اخلاقی ہر دو اعتبار سے پیچھے کی طرف دھکیل دیتے ہیں، اس کی فکر اور سلوک تنزلی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اس لیے اپنے دلوں کو خواب گاہوں سے بیدار کرو، اپنے آپ کو شہوت پرستی سے نکال کر جادۂ حق کی جانب گامزن کرو، کتاب و سنت کے سائے تلے اپنے آپ کو تحفظ فراہم کرو،
غفلت سے گہری کوئی نیند نہیں ۔
شہوت پرستی سے بڑھ کر کوئی غلامی نہیں ۔
دل کے مردہ ہونے سے بڑی کوئی مصیبت ہیں۔
بڑھاپے سے بڑا کوئی ڈرانے والا نہیں۔
اور جہنم سے برا کوئی ٹھکانا نہیں۔
{وَمَا هِيَ إِلَّا ذِكْرَى لِلْبَشَرِ (31) كَلَّا وَالْقَمَرِ (32) وَاللَّيْلِ إِذْ أَدْبَرَ (33) وَالصُّبْحِ إِذَا أَسْفَرَ (34) إِنَّهَا لَإِحْدَى الْكُبَرِ (35) نَذِيرًا لِلْبَشَرِ (36) لِمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَتَقَدَّمَ أَوْ يَتَأَخَّرَ}
یہ بشریت کی لیے نصیحت ہی ہے [31] قسم ہے چاند کی [32]اور رات کی جب وہ جانے لگے [33] اور صبح کی جب وہ روشن ہونے لگے [34]بلاشبہ جہنم یقیناً ایک بہت بڑی چیز ہے [35] یہ بشریت کو ڈرانے والی ہے [36] ہر اس شخص کے لیے جو آگے بڑھنا چاہتا ہے یا پیچھے رہنا چاہتا ہے۔[المدثر: 31 - 37]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں