ابلیس سے جنگ کی روداد۔ ۔۔ حج کا سفر ۔۔۔ حصہ-8

ابلیس سے جنگ کی روداد۔ ۔۔ حج کا سفر
حج کی داستان حج کی اصل روح کے تعارف کے ساتھ

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر محمد عقیل
حصہ-8

مکہ میں معمولات زندگی
مکہ میں قیام کی ابتدا میں ہی گلا خراب ہوگیا جوکہ یہاں ایک معمول کی بات تھی۔ میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ ماسک لگا کر پھر رہے ہیں۔ ان دنوں میں سوائن فلو پھیلا ہوا تھا اور پاکستان سے بھی بہت سے لوگ اسی خدشے کی بنا پر حج کرنے نہیں آئے تھے۔ میرا یہ معمول تھا کہ تمام نمازیں حرم میں پڑھتا اور دن میں دو سے تین مرتبہ طواف بھی کرتا تھا۔ ابتدا میں رش اتنا نہیں تھا لیکن آہستہ آہستہ رش بڑھتا جارہا تھا۔

سردی اور کثرت طواف کے باعث میرے پاؤں پھٹ چکے تھے چنانچہ میں نے پہلی مرتبہ چمڑے کے موزے پہنے۔لیکن وہ موزے سلپری تھے ۔ ایک مرتبہ میں یہی موزے پہن کر طواف کررہا تھا کہ اچانک سلپ ہوگیا۔ برابر چلنے والی ایک پاکستانی بوڑھی خاتون نے بسم اللہ کہہ کر مجھے پکڑ لیا اور گرنے سے بچالیا۔

ایک اور واقعہ طواف میں یہ پیش آیا کہ میری بیوی نے خواہش ظاہر کی کہ حطیم میں نماز پڑھنی ہے۔ میرے منع کرنے کے باوجود وہ نہ مانیں۔ چنانچہ جب میں انہیں حطیم کے قریب لے کر گیا تو ان کا دم رش کی بنا پر گھٹنے لگا۔ چنانچہ انہوں نے اپنا ارادہ ترک کردیا۔ البتہ رکن یمانی کو چھونے کی خواہش ظاہر کی۔ میں جب انہیں لے کر رکن یمانی کے قریب پہنچا تو پیچھے سے ایک ریلا آیا اور میں اپنی بیوی سمیت آگے موجود عرب میاں بیوی پر جاگرا۔ انہوں نے شکایتی نظروں سے مجھے دیکھا لیکن میں نے جب اپنی باڈی لینگویج سے اپنا عذر پیش کیا تو انہوں نے اسے قبول کرلیا۔

طواف کے دوران میں نے ایک مثبت بات نوٹ کی کہ لوگ ایک دوسرے کو جان بوجھ کر دھکا دینے سے گریز کرتے تھے ۔ البتہ کچھ لوگ بلاوجہ چلتے ہوئے آگے والے کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیتے اور اپنا بوجھ دوسرے پر منتقل کرنے کی کوشش کرتے جس سے بڑی الجھن ہوتی تھی۔
مسجد الحرام میں خاکی وردی والے شرطے (عربی میں شرطہ پولیس کو کہتے ہیں) اور برقع پوش خواتین خدام حرم کی صورت میں تعینات تھے ۔یہ لوگوں کو راستے میں بیٹھنے سے روکتے اور کسی بھی ناخوشگوارواقعے سے نبٹنے کے لئے تیار رہتے تھے۔ ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ ایک شخص کو شرطے پکڑ کر لے جارہے ہیں ۔ یہ غالبا کسی قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا تھا۔ لیکن اس دوران کوئی بدنظمی نہیں ہوئی اور لوگ طواف میں مصروف رہے۔

ایک صاحب کو طواف کرتے دیکھ کر رشک آنے لگا۔ یہ صاحب دونوں ٹانگوں سے محروم تھے اور گھسٹ کر طواف کررہے تھے۔ حالانکہ وہاں وہیل چئیر کی سہولت موجود تھی لیکن انہوں نے اپنے جسم کو اللہ کی راہ میں ڈال کر طواف کرنا پسند کیا۔

مسجد میں نماز کے دوران تو مکمل خاموشی رہتی تھی لیکن نماز کے بعد ہر وقت مسلسل شور ہوتا رہتا ۔ اس کی بڑی وجہ لوگوں کا باتیں کرنا تھا۔ اس شور کی بنا پر یکسوئی میسر نہ آتی تھی۔ اسی یکسوئی کو حاصل کرنے کے لئے میں حرم میں رات ڈھائی بجے بھی گیا لیکن شور میں کوئی کمی محسوس نہیں ہوئی۔

مسجد میں جگہ جگہ آب زم زم کے کولر رکھے تھے جن میں ٹھنڈا اور گرم پانی تھا۔ طواف کے بعد اکثر پیاس زیادہ لگتی تھی جس سے لوگ ٹھنڈا پانی پیتے اور اپنا گلا زیادہ خراب کرلیتے تھے۔ میں نے یہ احتیاط کی کہ پانی ملا کر پیوں۔ کچھ لوگ زم زم کے کولر ہی سے وضو کرنے لگ جاتے تھے۔ وہاں کےخدام انہیں منع کرتے لیکن لوگ پھر بھی باز نہ آتے۔ وہاں صفائی کا نظام بہت شاندار دیکھا۔ عین طواف کے دوران صفائی ہوتی رہتی تھی اور یہ کام مسلسل جاری رہتا۔
قیام کے دوران اکثر دوستوں کا پاکستان سے فون آجایا کرتا تھا جن میں الطاف، صبیح، مفتی طاہر عبداللہ، طاہر کلیم اور پرویز صاحب سر فہرست تھے۔ یہ حضرات اکثر اپنے لئے دعاؤں کا کہتے اور میں یاد سے ان تمام لوگوں کے لئے دعائیں مانگتا۔ایک ہفتے کے بعد ایک اور عمرہ بیگم کے ساتھ ادا کیا۔ عمرے کے لئے ایک ٹیکسی مسجدعائشہ جانے کے لئے ۳۰ ریال میں حاصل کی۔ اس میں دانش اور یاسر بھی میرے ساتھ تھے۔ مسجد عائشہ جاکر عمرے کی نیت کی اور پھر واپس ہوکر عمرہ اور سعی کی۔

دوسرے عمرے کے بارے میں فقہا کا اختلاف ہے۔ اہل حدیث حضرات کا کہنا ہے کہ یہ خلاف سنت ہے کیونکہ نبی کریم نے ایک سفر میں ایک ہی عمرہ ادا کیا حالانکہ انہوں نے مکے میں ۱۵ دن سے زائد بھی قیام کیا ۔ دوسر ی جانب احناف اس حدیث سے استدلا ل کرتے ہیں جس میں حجۃ الوداع کے موقع پر حضرت عائشہ عمرہ اد انہ کرپائی تھیں اورمخصوص ایام سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے عمرہ ادا کرنے کی کی خواہش ظاہر کی تو نبی کریم نے انہیں تنعیم کے مقام پر جاکر احرام باندھنے اور عمرہ کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ یہ وہی تنعیم ہے جہاں آ ج مسجد عائشہ موجود ہے۔
حرم چاروں طرف سے بازاروں اور ہوٹلوں سے گھرا ہوا تھا۔ لوگ نمازوں سے فارغ ہوکر اپنا زیادہ وقت یہیں گذارتے تھے۔ دراصل لوگوں کی تربیت نہیں ہوئی تھی کہ کس طرح اللہ سے تعلق قائم کیاجاتا ہے؟ کس طرح اس سے مناجات کی جاتی، کیسے اس کے تصور میں کھویا جاتا اور کس طرح سے اپنے معاملات اس کے سپرد کئے جاتے ہیں۔

حج کے اس سفر کا بنیادی مقصد آخرت کی فلاح تھا لیکن لوگ دنیا سے نکلنے کو تیار نہ تھے۔ نماز، طواف اور تلاوت کے علاوہ باقی دنیا ہی دنیا تھی۔ دعائیں بھی اسی دنیا کی ترقی کے لئے مانگی جاتی تھیں ۔ حرم کے باہر یہی دنیا منہ کھولے کھڑی تھی اور سرماِ یہ آخرت کی بجائے دنیاوی سامان کی خریداری زورو شور سے جاری تھی۔ ہمارے گروپ کی تربیتی کلاسوں میں نہ صرف حج کے مناسک کے بارے میں بتایا گیا تھا بلکہ غیبت، جھوٹ، چغلی ، ایذارسانی اور دیگر اخلاقی برائیوں سے بھی آگاہ کیا گیا اور ان سے بچنے کی ہدایات دی گئی تھیں۔ ان کی بنا پر گروپ کے لوگ بالعموم ان برائیوں سے بچنے کی کوشش کرتے اور ظاہر کے ساتھ اپنا باطن بھی درست رکھنے کا اہتما م کررہے تھے۔

ان طوافوں کے دوران میں نے ایک بات نوٹ کی وہ یہ کہ جو جوش ولولہ اور کیفیت ابتدائی دنوں میں تھی اس میں کمی آرہی تھی۔ میرے دل میں یہ خیال آیا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ میں اللہ سےدور ہورہا ہوں۔ لیکن پھر ایک عارف کی بات یاد آئی کہ کیفیت تو آنی جانی شے ہے۔ اصل مقصود تو اللہ کی عبادت اور اطاعت ہے۔ اگر یہ ہو تو کیفیت کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔ اکثر لوگ جذباتیت اور رقت ہی کو تعلق باللہ کی علامت سمجھتےہیں اور جب یہ کم ہونے لگتی ہے تو خودبھی عبادت میں کمی یا اسے ترک کردیتے ہیں۔ حالانکہ کیفیت کا ہونا یا نہ ہونا دونوں آزمائش ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ یہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ میرا بندہ میرے لئے عبادت کرتا ہے یا دل کی لذت و کیفیت کے لئے۔
میرا روم میٹ یاسر ایک ۳۰ سالہ نوجوان تھا۔ وہ روزانہ صبح اٹھتا اور ایک عمرہ کرکے آجاتا۔ جبکہ ہر نماز کے بعد ایک طواف اس کا معمول تھا۔ میں ایک دن میں تین طواف ہی کرپاتا کیونکہ گروپ لیڈر نے ہدایت کی تھی کہ حج سے پہلے توانائی بچائی جائے اور کسی بھی غیر ضروری تھکن سے بچا جائے تاکہ حج کے مناسک پر کوئی اثر نہ پڑے۔

ہوٹل میں صبح کا ناشتہ فری ہوتا تھا جبکہ باقی اوقات کا کھانا باہر کھانا پڑتا تھا۔ وہاں سالن کے ساتھ روٹی فری تھی ۔ ایک پلیٹ میں دو افراد باآسانی کھا لیتے تھے۔ ایک دو مرتبہ برگر کھانے کا بھی اتفاق ہوا لیکن وہ زیادہ پسند نہ آیا۔۸ نومبر کو میرے ہم زلف آفتاب جدہ سے مکہ ملنے کے لئے آئے۔ جدہ سے تمام راستوں پر سخت چیکنگ تھی اور کسی کو مکہ آنے نہیں دیا جارہا تھا لیکن آفتاب کسی نہ کسی طرح مکہ میں داخل ہوہی گئے۔ آفتاب کے ساتھ وہاں کی ایک مقامی ڈش مندی بھی کھائی جس میں چاول کے ساتھ گوشت بھی شامل تھا۔ آفتاب کے علاوہ دیگر رشتے داروں سے بھی ملاقات ہوئی ان میں میرے رشتے کے چچا رشید انکل بھی تھے۔ وہ امریکہ میں قیام پذیر ہیں اور اپنی فیملی کے ساتھ حج کرنے آئے ہوئے تھے۔

کعبہ کا دیدار اور صفات الٰہی
مکہ میں قیام کے دوران میرا معمول تھا کہ میں اکثر بیٹھ کر کعبے کو دیکھتا رہتا کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ کعبہ کو دیکھنا بھی عبادت ہے۔ جب میں نے غور کیا تو اس حکم کا فلسفہ سمجھ میں آگیا۔میں نے جب بھی کعبہ کو دیکھا تو مجھے اللہ کا جمال، جلال اور کمال نظر آیا۔

کعبہ کے دیدا ر میں اللہ کی رحمت مطلق کی شبیہ دکھائی دیتی کہ وہ اپنی مخلوق کے ساتھ کتنے مہربان، شفیق، نرم دل اور سخی اور ہیں انہوں نے انسان کو وجود بخشا، اسکی فطرت میں خیر و شر کا شعور ودیعت کیا ، اس کی راہنمائی کے لئے وحی کا سلسلہ شروع کیا اور پھر کعبے کی صورت میں اپنا گھر تعمیر کردیا کہ جسے خدا سے محبت ہے وہ کعبے کے دیدار سے اپنی نگاہوں کو سیر کرلے۔

میں اکثر بیٹھا خدا کی رحمت کے بارے میں سوچتا رہتا کہ اس نے مخلوقات کو پیدا کیا ، ان میں تقاضے پیدا کئے اور پھر ان تقاضوں کو انتہائی خوبی کے ساتھ پورا کرتے ہوئے اپنی رحمت، لطف اور کرم نوازی کا اظہار کیا۔چنانچہ اس دیدار کے دوران کبھی خدا مجھ پر محبت اور شفقت نچھاور کرتا نظر آتا تو کبھی وہ میری باتیں سنتا، میری غلطیوں پر تحمل سے پیش آتا، خطاؤں سے درگذر کرتا ، میری حقیر نیکی کی قدر دانی کرتا اور مجھے بے تحاشا نوازتا دکھائی دیتا ۔ یہی نہیں بلکہ جب بھی میں مشکل میں گرفتا ر ہوا تو وہ میرے لئے سراپا سلامتی ،پناہ کی چٹان اور ہدایت کا نور بنتا محسوس ہوتا ۔

لیکن اسی رحمت مطلق کے ساتھ ساتھ مجھے کعبے میں خدا کے جلا ل کا اظہار بھی نظر آتا۔ اس میں مجھے کائنات کے بادشاہ کا جلا ل و عظمت دکھائی دیتی جو ہر شے پر قدرت رکھتا ہے،جو کسی کے سامنے جواب دہ نہیں۔جو مقتدر اور بااختیار حاکم ہے، جو اپنی مخلوق پر ہر قسم کا تصرف رکھتا اور اپنی سلطنت کے ایک ایک پتے اور ہر ذرے پر مکمل اقتدار کا حامل ہے۔ اس دنیا کے ٹٹ پونجئیے صدور اور بادشاہ کے دربار میں لوگ جب جاتے ہیں تو زبانیں گنگ ہوجاتی، حلق خشک اور قدم لرزتے ہیں کہ کون سی بات حضور کو ناگوار گذر جائے اور میرا قصہ پاک ہوجائے۔ چنانچہ جب مجھے اس بادشاہوں کے بادشاہ کی قہاری عظمت اور بزرگی، بڑائی، شان اورشوکت کا تصور آتا تو ایک سنسنی اور خوف کا احساس ہوتا کہ کس ہستی کے محل میں بیٹھا ہوں ۔ اس احساس کے باعث میں لرز جاتا اور دل میں انتہائی خشیت ، پستی اور تذلل کا احساس ہوتا۔ لیکن پھر میں اسی کی رحمت کے دامن میں پناہ لینے کی کوشش کرتا۔

کعبے کا تفرد خدا کی یکتائی اور کمال کا بھی اظہار تھا کہ خدا اپنی ذات میں تنہا اور اکیلا ہے اور اس جیسا کوئی نہیں ہے ۔وہ اپنی صفات میں بھی یکتا و یگانہ ہے ۔ وہ قدوس ہے یعنی ہر نقص، عیب، برائی سے پاک اور منزہ ۔ہر ظلم، ناانصافی، بدیانتی ، بے حکمتی ، جذبات کی مغلوبیت اور ہر غلط صفت یا فعل سےمبرا۔ وہ ممدوح، ستودہ، پسندیدہ اور قابل تعریف ہستی ہے ۔

کعبے کا دیدار خدا کے گھر کا دیدار تھا۔ اور جب کوئی چاہنے والا اپنے محبوب کی چوکھٹ پر بیٹھ جاتا ہے تو وہ کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا۔ میں نے دیکھا کہ بہت سے دیگر لوگ بھی کعبے کے دیدار میں مشغول رہتے اور اپنے رب کے جمال ، جلال اور کمال کو محسوس کرتے تھے۔ ان کا دل یہی دعا کر رہا ہوتا تھا:
"اے اللہ! میں تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے کا بیٹا ہوں، تیری لونڈی کا بیٹا ہوں اور مکمل طور پر تیرے قبضہ میں ہوں۔ میری پیشانی کے بال تیرے ہاتھ میں ہیں تیری مدد کے بغیر مجھے حرکت و سکون کی قوت بھی حاصل نہیں ۔ تیرے حکم کو کوئی روکنے والا نہیں ۔جو تو کہتا اور چاہتا ہے وہی ہوتا ہے میرے بارے میں تیرا فیصلہ سراپا عدل و انصاف ہے۔ پس میں تجھ سے ہر نام کے وسیلہ سے مانگتا ہوں جسے تو نے اپنی ذات کے لئے اختیار کیا ہے یا اس کو اپنی کتاب میں نازل کیا ہے یا اس کو اپنی مخلوقات میں سے کسی کو سکھایا ہے کہ تو مجھے کامل طور پر اپنی غلامی میں لے لے اور مجھے غلامی کے آداب سکھا کر کامیابی سے ہمکنار کردے”۔

مقدس مقاما ت کی زیارت
کچھ دنوں بعد ہمیں مقدس مقامات کی زیارت پر لے جایا گیا۔ دو بسوں میں ہمارے گروپ کے تمام افراد سما گئے۔ سب سے پہلے غار ثور کو دور سے دیکھا ۔ یہ انتہائی بلندی پر واقع تھی۔ اس غار میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ پناہ لی تھی۔ یہ غار مدینے جانے والے راستے کی مخالف سمت تھی۔ روایات کے مطابق درالندوہ یعنی پارلیمنٹ میں قریش کے سرداروں نے مل جل کر فیصلہ کرلیا کہ تمام قبیلے ایک ساتھ مل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردیں ۔ اس طرح بنو ہاشم یعنی نبی کریم کے قبیلے کے لیے سب سے بدلہ لینا ممکن نہ ہوگا اور وہ دیت پر آمادہ ہوجائیں گے۔ اس پلاننگ کے بعد سب مخالفین نے آپ کے گھر کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔لیکن اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہیں۔ چنانچہ اللہ نے اس گھناؤنی سازش سے بچانے کا پہلے ہی اہتمام کردیا تھا۔ آپ نے اپنے بستر پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سلادیا اور خود کفار کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے ان کے سامنے سے نکل گئے اور کوئی آ پ کو نہ دیکھ پایا۔
آپ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ مدینے جانے والے راستے کی مخالف سمت چلے اور اس غار میں پناہ لی۔ یہ غار انتہائی پرخطر اور پتھروں سے بھرا ہوا تھا جس کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں بھی زخمی ہوگئے۔ یہاں نبی کریم نے تین راتیں چھپ کر گذاریں۔ اس غار کے ارد گرد حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام عامر بن فہیرہ بکریاں چراتے رہتے اور جب رات ہوجاتی تو انہیں بکریوں کا دودھ پلاتے۔ ایک مرتبہ جب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غار کے باہر چند آدمیوں کے پاؤں دیکھے تو انہوں نے آپ سے اس تشویش کا اظہار کیا۔ لیکن آپ نے کمال کے توکل کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ابو بکر تمہارا ان لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے جن کا تیسرا ساتھی اللہ ہو۔
غار ثور کے بعد اگلا مقام غار حرا دیکھا۔ یہ وہ غار تھا جہاں نبوت سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عبادت کیا کرتے تھے۔ یہ غار مکہ سے دو میل کے فاصلے پر ہے۔ یہ ایک مختصر سا غار ہے جس کا طول چار گز اور عرض پونے دو گز ہے۔ غار حرا کا رخ کچھ اس طرح کا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کعبہ ہوا کرتا تھا۔ یہاں آپ ستو اور پانی لے کر قیام کرتے، آنے جانے والے مسکینوں کو کھانا کھلاتے اور اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ اسی غار میں آپ کی ملاقات جبریل امین علیہ السلام سے ہوئی جنہوں نےپہلی مرتبہ آپ کے قلب پر اللہ کی آیات القا ء کیں۔
آگے چلے تو میدان عرفات دیکھا ۔ یہ وہ میدان ہے جہاں حج کا رکن اعظم ’’وقوف عرفہ‘‘ ادا کیا جاتا ہے ۔ حاجی کے لئے اس میدان میں نو ذی الحج کو زوال کے بعد قیام کرنا لازمی ہے اور اگر کسی وجہ سے ایسا نہ ہوپائے تو حج نہیں ہوتا۔ یہ ایک بہت بڑا میدان ہے جو نوذی الحج کو لاکھوں حاجیوں کو سمونے کی گنجائش رکھتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق حشر بھی اسی میدان میں واقع ہوگا۔یہیں وہ عظیم پہاڑ جبل رحمت بھی واقع ہے جس کے دامن میں آپ نے اپنا مشہور خطبہ حجۃ الوداع خطاب فرمایا تھا۔
عرفات کے ساتھ ہی منیٰ کی وادی بھی دیکھی۔ یہ وادی خیموں سے پٹی ہوئی تھی۔ ان خیموں میں حجاج ۸ ذی الحج اور پھر دس ، گیارہ اور بارہ ذی الحج کو قیام کرتے ہیں۔ بس میں گائیڈ ہمیں راستوں کے بارے میں بتا رہا تھا کیونکہ حج کے دنوں میں ہمیں بھی یہیں آنا تھا۔ منیٰ سے متصل جمرات کو بھی دور سے دیکھا جہاں کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ اسی راستے پر اسمٰعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کی جگہ بھی دیکھی جہاں نشانی کے طور پر سفید پتھر نصب کیا گیا تھا۔

جاری ہے----

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں