کیا قربانی قبول ہوئی؟؟ از ڈاکٹر محمد عقیل


*کیا قربانی قبول ہوئی؟*

*• "حضرت قربانی سے متعلق کچھ ارشاد فرمائیں۔”*
پوچھو کیا پوچھنا ہے۔

*• قربانی کی بنیادی شرط کیا ہے ؟* میاں ! قرآن میں آتا ہے کہ اللہ کو تمہارا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقوی پہنچتا ہے۔ ۔ یاد رکھو! قربانی میں اصل اہمیت تقوی کی ہے گوشت اور خون کی نہیں۔ تقوی کے بنا سارے جانورگوشت اور خون ہیں جو کتنے ہی بڑے اور کتنے ہی قیمتی ہوں لیکن خدا کے نزدیک ان کی کوئی اہمیت نہیں۔ تقوی ہو تو محض ناخن کاٹنے پر ہی خدا قربانی کا اجر دے دیتا ہے اور تقوی نہ ہو تو کروڑوں کی نام نہاد قربانی منہ پر مار دی جاتی ہے
۔
*• حضور تقوی کیا ہے؟* تقوی God Consciousness کا نام ہے۔ یہ خدا کو اپنے تمام معاملات میں شامل کرلینے اور پھر اس کی مرضی کے مطابق عمل کرنے کا نام ہے۔ تقوی اپنی رضا کو خدا کی رضا میں فنا کردینے کا نام ہے۔

*• حضرت مجھے بتائیے کہ میری قربانی میں تقوی شامل ہے یا نہیں؟* ” اچھا یہ بتاؤ کیا قربانی کی تیاری کرلی؟”

*• جی ہاں! ایک گائے خرید کر اپنے گھر باندھ لی ہے۔* میاں یہ تو تم نے جانور خرید کر باندھا ہے ۔ اگر تم نے اپنے اندر کی حرص و ہوس، شہوت، مادہ پرستی، سستی و کاہلی ، انا اور تکبر جیسے جانوروں کو قربانی کے لیے نہیں باندھا تو خاک تیاری کی۔ اچھا جانور خریدتے وقت کیا ارادے تھے ؟

*• حضرت ! بس وہ بیگم بچے بہت تنگ کررہے تھے، کہہ رہے تھے کہ سب کے ہاں جانور آگئے ہیں ، ہم بھی تگڑا جانور لائیں گے تاکہ سب سے اچھا ہمارا ہی جانور لگے۔* ارے صاحبزادے ! یہ تو تم نے بچوں کی رضا کے لیے جانور خریدا ہے جس کا مقصد دکھاوا ہے اور بس۔ اس میں خدا کی رضا کہاں ہے؟

*• تو حضرت ! آپ ہی بتائیے کہ پھر کیا ارادہ کرتا؟* بھائی، جانور خریدنے سے پہلے خدا کے حضور کھڑے ہوتے ، اس سے عرض کرتے کہ میرا مال ، میری جان، میری اسٹیٹس ، میرا خاندان ، میر ا گھر میرا روزگار سب آپ ہی کا دیا ہوا ہے۔ میں نے عہد کیا ہے کہ آپ کی رضا کے لیے ہر کسی بھی قربانی سے گریز نہیں کروں گا یہاں تک کہ جان بھی قربان کرنی پڑی تو کروں گا۔ اور یہ جانور آپ ہی کے عطا کردہ مال میں سے آپ کی رضا کے لیے علامتی طور پر حاضر ہے۔ اس حقیر سے نذرانے کو عظیم بنا کر قبو ل کرلیجے۔
اچھا یہ بتاؤ، گوشت کی تقسیم کا کیا ارادہ ہے؟

*• حضرت ! اب آپ سے کیا چھپاؤں، ابھی ایک نیا ڈیپ فریزر لیا ہے جس میں بکرا محفوظ ہوجائے گا ۔ باقی گائے کا گوشت انہی لوگوں میں تقسیم کرنے ارادہ ہے جو ہمارے گھر گوشت بھجوائیں گے ۔ البتہ کچھ گوشت غریبوں میں بھی دینے کا ارادہ ہے۔*

میاں! اس معاملے میں کوئی فتوی تو نہیں دے سکتا۔ البتہ ترمذی کی روایت کا مفہوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ایک بکری ذبح کی اور اس کا گوشت لوگوں میں تقسیم کیا۔ کچھ دیر بعد آپ نے حضرت عائشہ سے پوچھا کہ کچھ گوشت باقی ہے؟ تو حضرت عائشہ نے فرمایا کہ صرف ایک دستی بچی ہے باقی سب تقسیم ہوگیا۔ تو آپ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جو صدقہ ہوگیا وہی باقی ہے (یعنی آخرت میں )۔
یہ جذبہ ہو تو قربانی قربانی ہے وگرنہ یہ سب قربانی کے نام پر گوشت کی خرید و فروخت معلوم ہوتی ہے۔ اچھا قربانی کرنے کے تمام انتظامات مکمل کرلیے؟

*• جی ہاں! کھال تو پہلے ہی مدرسے والوں نے بک کرلی ہے ۔ باقی ایک پروفیشنل قصائی سے بات کرلی ہے وہ نماز کے فور ا بعد آجائے گا۔ وہ ساتھ ساتھ بوٹیاں بنائے گا تو میں اپنے بیٹوں کے ساتھ گوشت شام تک تقسیم کردوں گا اور شام کو تکہ پارٹی بھی ہے۔ سب انتظام مکمل ہے۔* اچھا صاحبزادے! تم یہ تو جانتے ہو کہ اللہ کو جانور کا نہ خون پہنچتا ہے نہ گوشت۔ بلکہ صرف تقوی پہنچتا ہے۔تم نے خون اور گوشت کا انتظام تو کرلیا۔ یہ بتاؤ، تقوی کے خدا کے حضور پہنچانے کا کیا انتظام کیا؟

*• جی تقوی پہنچانے کا انتظام ؟ اس پر تو کبھی سوچا ہی نہیں بلکہ مجھے تو علم ہی نہیں کہ یہ بھی کوئی کا م ہے۔لیکن یہ تو اصل قربانی کا مقصد ہے اور قربانی بنا تقوی محض ایک دھوکہ ، فریب اور تکہ پارٹی ہی ہے ۔ حضرت ! آپ نے میر ی آنکھیں کھول دی ہیں۔ مجھے بتائیے یہ کس طرح ہوگا، اور مجھے کیا انتظام کرنے ہونگے۔ اس نے نمناک آنکھوں کے ساتھ پوچھا۔*

میاں ! میں تمہیں یہیں لانا چاہتا تھا اور الحمدللہ تم آگئے۔ دیکھو جب پیغمبر کی قوم پر کچھ وقت بیت جاتا ہے تو رسومات کے پیچھے موجود مقاصد نگاہوں سے اوجھل ہوجاتے ہیں ۔ بعض اوقات ظاہر پرست علما ء فقہی بحثوں میں اتنا الجھادیتے ہیں کہ حقیقت نگاہوں سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ پھر یوں سمجھو کہ دین کے حکم کا ڈھانچہ تو رہ جاتا ہے، روح نکل جاتی ہے۔ یہی سب قربانی کے ساتھ ہوا ہے۔

*• لیکن ہمارے ہاں تو تقوی پر زور دینے کی بجائے کچھ اور بحثیں جاری رہتی ہیں۔* ہاں ،آج جانور کے دانت، سینگ، وزن، گوشت کی تقسیم ، کھال کے عطیے ، نصاب ، اور واجب و سنت کی باتیں تو بہت ہیں لیکن قربانی کی اصل روح شاید ان فقہی موشگافیوں پر قربان ہوچکی ہے۔کیا ابراہیم علیہ السلام کو جب خواب نظر آیا تھا تو انہوں نے خدا سے پوچھا کہ یہ قربانی واجب ہے یا آپشنل؟ کیا انہوں دریافت کیا کہ انسان کی اور وہ بھی پہلوٹھے بیٹے کی قربانی جائز ہے یا ناجائز؟ نہیں ایسا نہیں کیا کیونکہ جو محبوب ہوتا ہے اس سے بحث نہیں کی جاتی، سر تسلیم خم کیا جاتاہے۔ یہی سنت ابراہیمی ہے کہ فقہی موشگافیوں سے بالاتر ہوکر اپنی محبوب شے کو خدا کی راہ میں قربا ن کردیا جائے ۔ قربانی میں اصل اہمیت اس جذبے اور تقوی کی ہے اور اس کی رکاوٹ میں آنے والے ہر فقہی موشگافی ثانوی ہے۔

*• حضرت یہ تو بات ٹھیک ہے لیکن وہ تو پیغمبر تھے، ہم ان کے برابر کہاں ہوسکتے ہیں؟* یہی تو غلط فہمی ہے۔ تمام پیغمبر انسان تھے ۔ انہیں بھی اولاد سے محبت ہوتی تھی، ان کا بھی گھر بار تھا، انہیں بھی اولاد کی تکلیف پر اتنی ہی تکلیف ہوتی تھی جتنی ایک انسان کو ہوتی ہے۔ پھر خدا تم سے کب تمہاری اولاد کی قربانی مانگ رہا ہے؟البتہ وہ یہ ضرور کہتا ہے کہ جب آخرت کے مقابلے میں مال و اولاد آڑے آجائے تو اپنی کی ناجائز خواہشات کو پورا کرنے کی بجائے انہیں قربان کردو۔

*• حضرت ، پھر بھی مجھے کسی ایسے واقعے سے سمجھائیے جو پیغمبر کا نہ ہو ۔* اچھا تو قرآن میں وہ واقعہ یاد کرو جب ہابیل و قابیل نے خدا کے حضور قربانی پیش کی۔ ہابیل جو چرواہا تھا وہ اپنے گلے سے بہترین پہلوٹھی کا بھیڑ لے کر آیا۔ قابیل جو ایک کسان تھا اس نے سوچا کہ یوں بھی اس قربانی کے اناج نے جل کر راکھ ہو جانا ہے تو وہ کچھ فالتو قسم کا اناج لے آیا۔ معاملہ نہ پہلوٹھی کے بچے کا تھا اور نہ ناقص اناج کا ۔ معاملہ اس نیت اور جذبے کا تھا جو ہابیل اور قابیل نے خدا کے حضور پیش کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہابیل کی قربانی کو خدا کی بھیجی ہوئی آگے نے جلاڈا لا جو اس بات کی علامت تھی کہ خدا نے قربانی قبول کرلی۔ یہ کس چیز کی قربانی تھی ؟ یہ قربانی اپنی بہترین شے خدا کو راہ میں دینے کا علامتی اظہار تھا۔ یہی وہ تقوی تھا، خدا خوفی تھی، محبت تھی جو ہابیل نے صرف علامتی طور پر پیش ہی نہیں کی بلکہ وقت پڑنے پر اس کا ثبوت بھی دیا۔

*• ہابیل نے کس طرح ثبوت دیا؟* جب قابیل نے اس کے قتل کا ارادہ ظاہر کیا تو اس نے اس وقت بھی خدا خوفی اور تقوی کے مظاہر کرتے ہوئے یہی کہا کہ تم اگر مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ بڑھاؤگے تو میں خدا کی محبت اور تقوی کا پابند رہتے ہوئے تمہیں قتل کرنے میں پہل نہیں کروں گا۔ اور اس نے کا ثبوت بھی دیا کہ قابیل نے اسے ناحق قتل کردیا لیکن ہابیل نے ایک قدم بھی خدا کی مرضی کے خلاف نہیں اٹھایا۔ گویا جو ابتدا اس نے پہلوٹھی کا محبوب بھیڑ قربان کرکے کی تھی اس کا عملی مظاہرہ اس نے خدا کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے کردیا۔

*• حضور مجھے آپ آسان الفاظ میں بتادیجے کہ مجھے کیا کرنا ہے؟* کرنا کچھ نہیں، قربانی کا جانور خریدتے وقت یوں سمجھو کہ خدا کے ہاتھو ں تم اپنی جا ن بیچ رہے رہو۔سورہ توبہ کی وہ آیت کا ترجمہ پڑھو کہ اللہ نے ایمان رکھنے والوں سے ان کی جان اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ جانور خریدتے وقت بیوی بچوں کی خوشی کو ثانوی رکھو، دکھاوے کا عنصر ختم کرو۔جانور کی قربانی سے قبل اپنے نفس کے اندر موجود جانوروں کو تلاش کرو جو تمہیں خدا کی راہ سے روکتے ہیں۔ ان جانوروں کے نام ایک ایک کرکے پرچے پر لکھو اور یہ بتاو کہ انہیں کب اور کیسے ذبح کرنا ہے۔ جب قربانی کے جانور پر چھری چلاو تو یہ ذہن میں رکھو کہ تم اپنے نفس کی رضا پر چھری چلارہے ہو اور اسے خدا کی رضا کے تابع کررہے ہو۔ اس کے بعد زندگی میں قربانی کے لیے تیار رہو۔

*• اچھا مجھے کیسے علم ہوگا کہ قربانی قبول ہوگئی ؟* اس کا حقیقی علم تو خدا ہی کو ہے البتہ جب تقوی دل میں آجاتا ہے تو اس کی قربانی قبول ہوجاتی ہے اور جس کی قربانی قبول ہوجاتی ہے اس کی زندگی بدل جاتی ہے۔وہ عملی دنیا میں ہر لمحہ خدا کی یاد میں رہتا ہے۔ پھر اس کی آنکھیں اس کی نہیں خدا کی ہوجاتی ہیں، پھر اس سوچیں خدا کی نذر ہوجاتی ہیں، پھر اس کی یادیں خدا کے حضور رہتی ہیں، پھر اس کی سانسیں اس کی نہیں رہتیں، پھر اس کے قدم خدا ہی کے لیے اٹھتے اور اسی کے لیے رکتے ہیں۔ پھر اس کی جان مال عزت آبرو سب خدا کی مرضی کے تابع ہوجاتی ہے۔ پھر وہ کہہ اٹَھتا ہے کہ *ان صلاتی ونسکی محیای ومماتی للہ رب العالمین*۔ کہ میری نماز، میری قربانی، میراجینا، میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔

*• حضرت بول رہے تھے اور وہ گردن جھکائے آنسو بہار ہا تھا۔ شاید یہ اسی تقوی کا بیج تھا جو دل کے باغیچے میں پھوار پڑنے کے بعد پھٹ چکا تھا۔ وہ گرد ن جھکائے اٹھا اور جانور کی جانب توجہ دینے کی بجائے اندر کے جانوروں کو قربان کرنے کے لیے تیار ہونے لگا۔ تاکہ کل اس کا وجود گواہی دے دے کہ اس کی قربانی اپنے مقام کو پہنچ گئی۔*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں