تسلسل ٹوٹ جائے گا
شاعر: محسنؔ بھوپالی
نا چھیڑو کھلتی کلیوں ، ہنستے پھولوں کو
ان اُڑتی تتلیوں ، آوارہ بھنوروں کو ،
تسلسل ٹوٹ جائے گا !
فضا محو سماعت ہے ،
حسین ہونٹوں کو نغمہ ریز رہنے دو ،
نگاہیں نیچی رکھو
اور
مجسم گوش بن جاؤ
اگر جنبش لبوں کو دی ،
تسلسل ٹوٹ جائے گا !
افق میں ڈوبتے سورج کا منظر
اس بلندی سے ذرا دیکھو
اسی رنگین کنارے پر ،
شفق سونا لٹائے گی
یونہی تم بےحس و ساکت رہو
ایسے میں پلکیں بھی ذرا جھپکیں
تسلسل ٹوٹ جائے گا !
وہ خوابیدہ ہے ، خوابیدہ ہی رہنے دو
نا جانے خواب میں کن وادیوں کی سیر کرتی ہو
بلندی سے پھسلتے آبشاروں میں کہیں گم ہو
فلک آثار چوٹی پر کہیں محو ترنم ہو
اگر آواز دی تم نے
تسلسل ٹوٹ جائے گا !
میں شاعر ہوں ،
میری فکر رساں ، احساس کی اس سطح پر ہے
جس میں خوشبو رنگ بنتی ہے
صدا کو شکل ملتی ہے
تصور بول اٹھتا ہے
خاموشی گنگناتی ہے
یہ وہ وقفہ ہے _ _ _ _ _ _ ایسے میں ،
اگر داد سخن بھی دی
تسلسل ٹوٹ جائے گا !
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں