رمضان؛ محاسبہِ نفس اور اطاعت گزاری کا مہینہ ۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔۔ 10 مئی 2019


Image result for ‫مدینہ‬‎

رمضان؛ محاسبہِ نفس اور اطاعت گزاری کا مہینہ
خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
05 رمضان 1440ہجری بمطابق 10 مئی 2019
امام و خطیب: پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل


فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے05 رمضان 1440ہجری کا خطبہ جمعہ " رمضان؛ محاسبہِ نفس اور اطاعت گزاری کا مہینہ" کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ زندگی کا ہر لمحہ نیکی کرتے ہوئے اور گناہوں سے بچتے ہوئے گزرے تو یہ حقیقی سعادت مندی ہے، انسان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ آخرت کے لئے اس نے کیا تیاری کی ہے؟ کیونکہ یہ سوچ حدیث نبوی کے مطابق عقلمندی کی علامت ہے، انسان کو کسی بھی ایسے عمل سے بچنا چاہیے جس سے نیکیوں کا ثواب کم یا ختم ہو جائے۔ قرآن کریم اور رمضان کا بہت گہرا تعلق ہے اسی ماہ میں قرآن نازل کیا گیا اور در حقیقت رمضان کی عبادات نعمت قرآن کے شکرانے کا مظہر ہیں۔ کسی بھی نعمت کے ملنے پر شکر گزاری شیوہ پیغمبری ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ساری زندگی اسی چیز کا مصداق تھی۔ قرآن کریم کا رمضان میں روح پر بڑا گہرا اثر ہوتا ہے؛ کیونکہ برائی کا عنصر روزے کی وجہ سے کمزور ہو چکا ہوتا ہے تو ایسے میں قرآن کی تاثیر کارگر ثابت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن کریم میں ہر طرح کے مسئلے کا حل موجود ہے چاہے وہ دنیاوی مسئلہ ہو یا دینی، انہوں نے تمام مسلمانوں کو مخاطب کیا کہ کیا تم نے رمضان میں آخرت کی تیاری، ہڑپ شدہ مال کی واپسی، بد اخلاقی سے توبہ، صلہ رحمی، والدین کے ساتھ حسن سلوک، حرام اور سود خوری سے توبہ کر لی ہے؟ آج اپنا خود محاسبہ کر لو ورنہ کل کوئی اور تمہارا حساب کرے گا، آخر میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ روزے کا اثر اسی وقت ہوتا ہے جب انسان روزے کو نیک اعمال کے ذریعے عمدہ بنا لے اور کسی بھی ایسے عمل سے دور رہے جو ثواب میں کمی کا باعث بنے ، آخر میں انہوں نے جامع دعا کروائی۔

منتخب اقتباس

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جو زمین اور آسمانوں کا پروردگار ہے، وہ نعمتیں اور برکتیں دینے والا ہے، ہماری بندگی سے اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، اور ہماری خطائیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں، نیکی اور بدی کرنے والے کو ہی ان کا نفع اور نقصان ہوتا ہے، اللہ تعالی تو تمام مخلوقات سے بے نیاز ہے۔ میں اپنے رب کی حمد خوانی کرتا ہوں اور اس کی نعمتوں پر اسی کا شکر گزار ہوں، اللہ تعالی کی معلوم اور نامعلوم سب نعمتوں پر اسی کے لئے حمد و شکر بجا لاتا ہوں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں، اس کے اچھے اچھے نام ہیں اور اس کی صفات عظیم ترین ہیں، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد -صلی اللہ علیہ وسلم-اللہ کے بندے ، اور اسکے رسول ہیں، آپ کی براہین اور معجزوں کے ذریعے تائید کی گئی، یا اللہ! اپنے بندے ، اور رسول محمد -صلی اللہ علیہ وسلم-ان کی اولاد اور نیکیوں کی طرف سبقت لے جانے والے صحابہ کرام پر اپنی رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔


مسلمانو!

محاسبہ نفس، عبادت کے لیے محنت، زیادہ سے زیادہ نیکیوں کا حصول ، اللہ تعالی کی توفیق سے کی جانیوالی نیکیوں پر دوام، عمل صالح کی توفیق اور نیکیوں کو ضائع کرنے والے اعمال سے اجتناب ؛ دنیا و آخرت میں عین سعادت مندی اور کامیابی کے باعث عمل ہیں، فرمان باری تعالی ہے:
 {وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى[40] فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى} 
اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا، اور نفس کو خواہشات سے روکا [40] تو بیشک جنت ہی اس کا ٹھکانا ہوگی[النازعات : 40-41]

ایسے ہی اللہ تعالی نے اہل جنت کے بارے میں فرمایا: 
{وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ (25) قَالُوا إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنَا مُشْفِقِينَ (26) فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ}
 اور وہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر سوال کرتے ہوئے [25] کہیں گے: اس سے پہلے ہم اپنے گھر والوں میں دبک کر رہا کرتے تھے۔ [26] پھر اللہ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں تپتی لو کے عذاب سے بچا لیا۔ [الطور: 25 - 27]

امام ابن کثیر رحمہ اللہ ، اللہ تعالی کے فرمان: {وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ}
 اور ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل کے لیے کیا پیش کیا ہے [الحشر: 18] 
کی تفسیر میں کہتے ہیں: "تم خود اپنا محاسبہ کر لو اس سے قبل کے تمہارا محاسبہ کیا جائے، یہ دیکھ لو کہ تم نے اپنے لیے کتنے نیک عمل کیے ہیں جو روز قیامت تمہارے لیے مفید ہوں اور تم اُنہیں اپنے رب کے سامنے پیش کر سکو

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (عقلمند وہ ہے جو اپنا محاسبہ کرے، اور موت کے بعد کے لیے تیاری کرے، اور وہ شخص عاجز ہے جو چلے تو نفسانی خواہشات کے پیچھے لیکن امیدیں اللہ سے لگائے۔)یہ حدیث حسن ہے۔

ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں محاسبہ نفس اس طرح ہو گا کہ انسان ہر قسم کے گناہوں سے توبہ کر لے، نیکیوں کو ضائع کرنے والے اعمال سے بچے، اور زیادہ سے زیادہ خیر و بھلائی کے کام کرے۔

جبکہ بدبختی، ذلت اور رسوائی ؛ ہوس پرستی اور حرام کاموں کے ارتکاب میں ہے، ایسے ہی نیکیاں ترک کرنے یا نیکیوں کو تباہ کرنے والے اعمال بھی ذلت و رسوائی کا باعث بنتے ہیں۔

نقصان کے لئے انسان کو اتنا ہی کافی ہے کہ نیکیوں کا ثواب کم کرنے والی حرکت کر بیٹھے۔

مسلمانو!

تم دیکھ رہے ہو کہ دن اور رات کس تیزی کے ساتھ گزرتے جا رہے ہیں، سالہا سال بھی کس قدر سرعت کے ساتھ گزر رہے ہیں، کوئی بھی دن گزرنے کے بعد دوبارہ کبھی واپس نہیں آئے گا، زندگی شب و روز کے آنے جانے کا نام ہے۔ اس کے بعد موت آ جائے گی اور تمام کی تمام امیدیں ختم ہو جائیں گی، تب خواہشات کا دھوکا سب پر عیاں ہو جائے گا۔

مسلمانو!

نعمتِ ایمان اور نعمتِ قرآن کی تعظیم کرو؛ کیونکہ ایمان اور قرآن سے بڑھ کر کسی کو کوئی نعمت ملی ہی نہیں۔

جو بھی مسلمان رمضان میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی امید سے روزے رکھے تو وہ لازمی طور پر ایمان پا لیتا ہے، اسے قرآن کی برکتیں بھی حاصل ہو جاتی ہیں۔

قرآن والے وہ ہیں جو قرآن پر عمل کریں چاہے وہ قرآن کے حافظ نہ ہوں، اور جو شخص قرآن پر عمل نہ کرے تو وہ قرآن والا نہیں چاہے وہ قرآن کا حافظ ہی کیوں نہ ہو!

رمضان میں قرآن کریم کا نزول؛ امت مسلمہ کے لئے ہدایت و رحمت والی عمومی اور ہر فرد کے لئے خصوصی نعمت ہے، یہ نعمت خوشحال زندگی کی بھی ضامن ہے ، تو روزوں کے مہینے میں قرآن کریم کا نزول خیر و برکت اور سعادت مند زندگی کا نکتہِ آغاز ، اور آخرت میں بلند درجات پا کر کامیابی حاصل کرنے کا راز ہے۔ قرآن کریم سے روشنی ملتی ہے اور اندھیرے چھٹ جاتے ہیں، قرآن کریم جہالت اور گمراہی کا خاتمہ کرتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَكِنْ جَعَلْنَاهُ نُورًا نَهْدِي بِهِ مَنْ نَشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ}
 اور اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے ایک روح آپ کی طرف وحی کی۔ اس سے پہلے آپ یہ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا چیز ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے۔ لیکن ہم نے اس روح کو ایک روشنی بنا دیا۔ ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہیں؛ اس روشنی سے راہ دکھا دیتے ہیں اور بلاشبہ آپ سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کر رہے ہیں۔ [الشورى: 52]

چنانچہ اس امت کے اولین یا بعد میں آنے والے افراد میں سے جو بھی قرآن مجید پر ایمان لایا تو اس نے قرآن کریم کی عمومی اور مکمل نعمت کا شکر بھی ادا کر دیا نیز انفرادی طور پر ملنے والی نعمتِ ایمان کا بھی شکر ادا کر دیا ہے۔ جبکہ قرآن پر ایمان نہ لانے والا تمام نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے، اور جہنم میں بھی ہمیشہ رہے گا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {وَمَنْ يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الْأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ}
 اقوام عالم میں سے کوئی بھی اس کا انکار کرے گا تو آگ اس کا ٹھکانہ ہے۔[هود: 17]


ہم پر اللہ تعالی کی رحمت ہے کہ اس نے اپنی حکمت اور علم کے مطابق ہم پر رمضان المبارک کے روزے فرض فرمائے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ماہ میں قیام اللیل بھی فرمایا، اور ماہ رمضان کے خصوصی فضائل بتلائے، اس طرح ماہ رمضان میں بڑی بڑی عبادات اور نیکیاں یک جا ہو گئیں۔ پھر اللہ تعالی نے اس ماہ میں اعمال کا اجر بھی بڑھا دیا تا کہ مسلمان نعمت قرآن اور نعمت ایمان پر اللہ عزوجل کا شکر ادا کریں ۔

نعمت عطا کرنے والے کا شکر واجب ہے، تا کہ اللہ تعالی نعمت کو زائل ہونے سے محفوظ فرما دے، اور ہمیں دنیا و آخرت میں ڈھیروں مزید نعمتیں عطا فرمائے، اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر اللہ کی مختلف عبادات بجا لانے سے ہو گا، ان میں سے عظیم ترین عبادت عقیدہ توحید ہے، اسی طرح اللہ کی مخلوق کے ساتھ بھلائی کرنے سے بھی شکر ادا ہو گا، اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا: 
{إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ (1) فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ}
 بیشک ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا کی [1] پس آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔ [الكوثر: 1، 2]

 یہاں کوثر سے مراد اتنی زیادہ خیر و بھلائی مراد ہے جس کا احاطہ صرف اللہ تعالی ہی کر سکتا ہے، اسی خیر میں جنت کی ایک نہر بھی ہے جسے کوثر کہتے ہیں، تو اللہ تعالی نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی فرمائی کہ مختلف عبادات کے ذریعے نعمتوں کا شکر ادا کریں ، اور خلقت کے ساتھ مختلف قسم کے احسانات والے کام کریں، اس پر ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت اور احسان کے تمام مقامات کا حق ادا کر دیا اور اللہ تعالی کے حکم کی بجا آوری کامل ترین انداز میں فرمائی۔

تو ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی ہماری طرف سے ہمارے نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیائے کرام کو ملنے والے بدلے سے بھی زیادہ بہترین بدلہ عطا فرمائے؛ آپ نے پیغام رسالت پہنچا دیا، امانت ادا کر دی اور امت کی خیر خواہی فرمائی۔

اسی طرح اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کے لیے فرمایا:
 { فَخُذْ مَا آتَيْتُكَ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ}
 جو کچھ میں نے تمہیں دیا اس پر عمل پیرا ہو جائیں اور میرا شکر کرنے والوں میں شامل ہو جائیں۔[الأعراف: 144]

اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ}
اے آل داؤد! ان [نوازشوں ]کے شکر میں نیک عمل کرو، میرے بندوں میں سے شکر گزار کم ہی ہوتے ہیں۔ [سبأ: 13]

 اس آیت کی تفسیر میں کچھ مفسرین کا کہنا ہے کہ: دن اور رات کی کوئی بھی گھڑی ایسی نہیں گزرتی کہ جس میں داود علیہ السلام کی آل میں سے کوئی رکوع یا سجدے کی حالت میں نہ ہو۔

اور جس وقت اللہ تعالی نے مریم علیہا السلام پر ہونے والی نعمتیں شمار کروائیں تو انہیں بھی شکر ادا کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: 
{يَامَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ}
 اے مریم! اپنے رب کی اطاعت کر، اور سجدہ کر، اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر۔ [آل عمران: 43]

اسی طرح اس امت کے افضل ترین افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
 {تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا}
 تم انہیں رکوع و سجود کرتے ہوئے اور اللہ کے فضل اور اس کی رضا تلاش کرتے ہوئے دیکھو گے۔ [الفتح: 29] 

تو رمضان اور غیر رمضان میں عبادات؛ نعمتِ قرآن اور نعمتِ ایمان پر اللہ کا شکر ہیں۔

قرآن کریم کا رمضان میں روح پر بڑا ہی گہرا اثر ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ روزے کی بدولت برائی کے اسباب کمزور پڑ جاتے ہیں اور نیکیوں کے اسباب قوی ہو جاتے ہیں، اسی طرح شیطان کا تسلط بھی کمزور ہو جاتا ہے؛ اس لیے رمضان میں زیادہ سے زیادہ قرآن کریم کی تلاوت کریں ۔

قرآن کریم ہی در حقیقت امت اسلامیہ کا جسم اور جان ہے، امت اسلامیہ کی بقا اور خوشحالی کا ضامن ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا}
 یقیناً یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے اور نیک عمل کرنے والے مومنوں کو اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے۔ [الإسراء: 9]

اللہ کے بندو!

فرض روزوں میں تمہارے لیے بہت بڑا اجر ہے، روزے کی بدولت دنیاوی فوائد بھی ملتے ہیں، اہل دانش ان فوائد سے بہرہ ور ہیں۔

تاہم روزوں کے ثمرات اور روزے داروں کو فوائد اسی وقت حاصل ہوتے ہیں جب انسان انہیں نیک عمل کے ذریعے پاکیزہ بنا دے، روزوں کو انہیں توڑنے والی اشیا سے محفوظ رکھے، گناہوں اور برائیوں جیسے کسی بھی ایسے کام سے بچے جن سے روزوں کے ثواب میں کمی آئے۔

اے مسلم!

جب تم روزہ رکھو تو تمہارے ساتھ تمہاری سماعت، بصارت، زبان اور اعضا کا بھی روزہ ہونا چاہیے انہیں حرام کاموں سے محفوظ کریں تا کہ آپ کا تزکیہ نفس ہو، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ}
 اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کا کہا مانو اور اپنے اعمال غارت نہ کرو۔ [محمد: 33]

اور ایک حدیث میں ہے کہ: (جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو اس دن بیہودہ باتیں نہ کرے اور نہ ہی برائی پر عمل کرے، پھر بھی کوئی اسے برا بھلا کہے تو کہہ دے: میرا روزہ ہے۔)

اے مسلم!

رمضان میں اپنا محاسبہ کر لو؛ تا کہ روزِ قیامت تمہارا حساب قدرے آسان ہو جائے!

تو کیا تم نمازیں اسی طرح ادا کرتے ہو جیسے تمہیں حکم دیا گیا ہے؟

کیا تم نے روزے رکھ کر زکاۃ بھی ادا کی ہے؟

کیا تم نے گناہوں سے توبہ کر لی ہے؟

کیا تم نے سود خوری اور دیگر روزی کے حرام ذرائع چھوڑ دئیے ہیں؟

کیا تم نے صلہ رحمی کی ہے؟

کیا تم نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کیا ہے؟

کیا تم نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دیا ہے؟

کیا تم نے ہدایت یافتہ بننے کے لئے سیرت طیبہ پر چلنے کی مکمل کوشش کی ہے؟

اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا}
 اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سیدھی بات کیا کرو [70] تو اللہ تعالی تمہارے اعمال کو بہتر کر دے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا۔ اور جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کا کہا مان لیا اس نے بڑی کامیابی حاصل کر لی۔ [الأحزاب: 70، 71]

{إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا}
 یقیناً اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو [الأحزاب: 56]

 اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا)

اس لئے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود پڑھو۔

اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَسَلِّمْ تَسْلِيْمًا كَثِيْراً۔


یا اللہ! ہمارے اگلے ، پچھلے، خفیہ، اعلانیہ، اور جنہیں تو ہم سے بھی زیادہ جانتا ہے سب گناہ معاف فرما دے، تو ہی تہہ و بالا کرنے والا ہے، تیرے سوا کوئی معبود بر حق نہیں۔

یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تو ہماری اطاعت گزاری کے لئے مدد فرما، یا اللہ! ہمیں اس ماہ کے روزے رکھنے کی توفیق عطا فرما اور ہماری مدد بھی فرما، یا اللہ! ہمیں اس ماہ میں ایسے قیام کرنے توفیق عطا فرما جیسے تجھے پسند ہو اور تیری رضا کا موجب ہو، یا اللہ! ہمیں لیلۃ القدر میں قیام نصیب فرما، یا اللہ! ہماری کی ہوئی نیکیاں بھی قبول فرما، یا اللہ! جن نیکیوں کو کرنے کی تو نے ہمیں توفیق دی اور ان پر معاونت بھی فرمائی یا اللہ! ہماری ان تمام نیکیوں کو قبول فرمانا، یا اللہ! ہماری ان نیکیوں کو روزِ قیامت تک کے لئے محفوظ فرمانا۔

یا اللہ! ہمارے گناہ مٹا دے، یا اللہ! ہمارے گناہ مٹا دے، یا ذالجلال والا کرام!

یا اللہ! ہمیں حق بات کو حق سمجھنے کی توفیق دے اور پھر اتباعِ حق بھی عطا فرما، یا اللہ! ہمیں باطل کو باطل سمجھنے کی توفیق دے اور پھر اس سے اجتناب کرنے کی قوت بھی عطا فرما۔

آمین یا رب العالمین!!


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں