مفروضے
تحریر: مزمل خان
مفروضہ ہوتا نہیں، قائم کیا جاتا ہے۔ مختلف افراد مختلف مفروضے قائم کرتے رہتے ہیں. کئی لوگ حقیقت کو مفروضہ سمجھتے ہیں اور کچھ اپنے مفروضے کو حقیقت خیال کرتے ہیں۔ زندگی کے ساتھ ساتھ کئی مفروضے چلتے رہتے ہیں اور زندگی کی رونق بحال رہتی ہے۔ کچھ لوگوں کے مطابق دل کے خوش رکھنے کو یہ خیال اچھا ہوتا ہے۔
مفروضہ بُری بات نہیں ہے بشرطیکہ زندگی صرف اسی تک محدود نہ کر دی جائے. کچھ لوگ محض مفروضے کی بنیاد پر دوسروں سے ناراض ہو جاتے ہیں. وہ دوسروں کا عمل دیکھ کر اُن کی نیت کے بارے خود ایک مفروضہ بنا لیتے ہیں۔ اور یوں اپنا فرض کیا ہوا خیال' دوسروں کی حقیقت خود پر نہیں کھُلنے دیتا۔ انسان دوسرے کا عمل دیکھ کر پریشان ہے اور یہ پریشانی اپنی بد گمانی کی وجہ سے ہے' اپنے خیال اور اپنے مفروضوں کی وجہ سے ہے۔۔۔۔
اگر کسی انسان کے متعلق کوئی مفروضہ قائم کرنا ہی ہے تو کیوں نہ اس کا رخ مثبت رکھا جائے۔۔۔۔ بے وفائی کے اس دور میں اگر کچھ فرض کرنا ضروری ہے تو '' فرض کرو کہ ہم اہلِ وفا ہوں''۔ برسوں اک دوسرے کے ساتھ رہنے والے بھی قلبی طور پر ایک دوسرے کے قریب نہیں آ رہے' دونوں طرف مفروضے ہیں۔۔۔ شکوک ہیں' بدگمانیاں ہیں۔ ہر انسان کو یہ دعویٰ ہے کہ وہ دوسرے کی حقیقت سے آگاہ ہے اور یہی وہ مفروضہ ہے جس کی اوٹ میں دوسرے کی حقیقت چھُپ کہ رہ گئی ہے۔۔۔۔ ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے چلے جاتے ہیں۔
در اصل زندگی میں صرف مفروضہ نہیں ہے بلکہ مشاہدہ بھی ہے' ادراک بھی ہے' حقیقت اور معرفت بھی ہے۔ تصویر کا صرف ایک رخ دیکھ کر ہم اپنے مفروضے کو حقیقت نہیں کہہ سکتے۔ زندگی کا زاویہ صرف وہی نہیں ہے جس زاویے سے ہم زندگی کو دیکھتے ہیں۔۔۔۔ ایک بات کے کئی پہلو ہو سکتے ہیں، بات سے بات نکلتی رہتی ہے اس لیے کسی بات کے متعلق صرف اپنی رائے کو حتمی جاننا کوئی اٹل حقیقت بھی نہیں ہے۔ حقیقت کی طرف سفر تو سفر در سفر ہے' اس کا ادراک تو پرت در پرت ہے۔۔۔۔ اور مسافر کے لیے ضروری ہے کہ اس کا سفر کسی ایسے مفروضے کی نذر نہ ہو جائے جو اس کے لیے حقیقت کی راہوں کو مخدوش کر دے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں