شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر-3





⚔شمشیرِ بے نیام⚔

 سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

( قسط نمبر -3 )

قریش کے ساتھ جو عورتیں آئی تھیں وہ بھاگ گئی تھیں لیکن عمرہ نام کی ایک عورت وہیں کہیں چھپ گئی تھی ۔اس نے جب قریش کے گھڑ سواروں کو مسلمانوں پر حملہ کرتے دیکھا تو اسے قریش کا پرچم زمین پر پڑا نظر آ گیا ۔اس عورت نے پرچم اٹھا کر اوپر کر دیا۔ ابو سفیان نے اپنے بھاگتے ہوئے پیادوں پر قابو پا لیا تھا۔ اس نے ادھر دیکھا تو اسے اپنا پرچم لہراتا ہوا نظر آ گیا۔ اس نے ہبل زندہ باد اور عزیٰ زندہ باد کے نعرے لگائے اور پیادوں کو واپس لاکر مسلمانوں کو گھیرے میں لے لیا۔ 

خالد کو وہ وقت یاد آ رہا تھا۔ وہ رسولِ کریمﷺ کو ڈھونڈ رہا تھا اور آج چار برس بعد وہ مدینہ جا رہا تھا۔ اس کے ذہن پر رسولِ کریمﷺ کا غلبہ تھا ۔

اُحد کی پہاڑی افق سے ابھرتی آ رہی تھی اور خالد کا گھوڑا خراماں خراماں چلا جا رہا تھا۔ خالد کی ذہنی کیفیت کچھ ایسی ہوتی جا رہی تھی جیسے اسے آگے جانے کی کوئی جلدی نہ ہو اور کبھی وہ لگام کو یوں جھٹکا دیتا جیسے اسے بہت جلدی پہنچنا ہو،لیکن جس منزل کو وہ جا رہا تھا وہ منزل ابھی اس پر پوری طرح واضح نہیں ہوئی تھی۔ کبھی اسے یوں لگتا جیسے ایک مقناطیسی قوت ہے جو اسے آگے ہی آگے کھینچ رہی ہے اور کبھی وہ محسوس کرتا جیسے اس کے اندر سے اٹھتی ہوئی ایک قوت اسے پیچھے دھکیل رہی ہے۔”خالد!“ اسے ایک آواز سنائی دی ۔جو اس کے اندر سے اٹھتی تھی لیکن اسے حقیقی سمجھ کر اس نے گھوڑے کی باگ کھینچی اور آگے پیچھے دیکھا وہاں ریت کے سوا کچھ بھی نہ تھا لیکن آواز آ رہی تھی ۔”خالد کیا یہ سچ ہے جو میں نے سنا ہے؟“خالد نے اس آواز کو پہچان لیا ۔یہ اس کے ساتھی عکرمہ کی آواز تھی۔

ایک ہی روز پہلے اسے عکرمہ کہہ رہا تھا ”اگر تم یہ سوچ رہے ہو کہ محمد)ﷺ( خدا کا بھیجا ہوا نبی ہے تووہ خیال دل سے نکال دو ۔محمد)ﷺ( ہمارے بہت سے رشتے داروں کا قاتل ہے۔ اپنے قبیے کو دیکھ جو سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے محمد )ﷺ(کو قتل کرنے کی قسم کھائے ہوئے ہے۔“

 خالد نے لگام کو ہلکا سا جھٹکا دیا اور گھوڑا چل پڑا ۔اس کا ذہن پھر چار برس پیچھے چلا گیا جب وہ احد کے معرکے میں رسولِ کریمﷺ کو ڈھونڈ رہا تھا ۔وہ قریش کی اس قسم کو پورا کرنے کا عزم لیے ہوئے تھا کہ رسول اﷲﷺ کو سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے قتل کرنا ہے۔ اسے یاد آرہا تھا کہ مسلمانوں کے تیر اندازوں نے جب عینین کی پہاڑی چھوڑ دی تھی تو اس نے اس پہاڑی پر حملہ کرکے عبداﷲ بن جبیرؓ اور ان کے نو تیر اندازوں کو جو رسول اﷲﷺ کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے وہاں رہ گئے تھے ختم کیا تھا۔ مسلمانوں کے ہاتھوں سے بھاگے ہوئے قریش پھر واپس آ گئے تھے اور انہوں نے اپنے آپ کو منظم کر لیا تھا۔مسلمان یہ معرکہ ہار چکے تھے اور یہ اپنے رسول ﷲﷺکی حکم عدولی کا نتیجہ تھا۔ خالد اور ابو جہل کا بیٹا عکرمہ فنِ حرب و ضرب کے ماہر تھے۔ ان کیلئے ایک ایک مسلمان کو قتل کرنا اب مشکل نہیں رہا تھا ۔ خالد دیکھ رہا تھا کہ مسلمان دو حصوں میں بٹ گئے تھے بڑا حصہ الگ تھا جو اپنے کمانڈر رسولِ کریمﷺ سے کٹ گیا تھا۔ چند ایک تیر انداز رسول اﷲﷺ کے ساتھ تھے۔یہ وہ صحابہ کرامؓ تھے جو قریش کے حملے کی وجہ سے افرا تفری کا شِکار نہیں ہوئے تھے۔ ان کی تعداد تیس تھی ۔ان میں ابو دجانہؓ ،سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت ابو بکرصدیقؓ،حضرت ابو عبیدہؓ ، طلحہ بن عبداﷲؓ ،مصعب بن عمیرؓ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ان چودہ خواتین میں سے جو زخمیوں کی دیکھ بھال کیلئے ساتھ آئی تھیں ۔دو رسول اﷲﷺ کے ساتھ تھیں ۔ایک اُمّ ِعمارہؓ تھیں اور دوسری اُمّ ِایمنؓ نام کی ایک حبشی خاتون تھیں۔ اُمّ ِایمن آپﷺکے بچپن میں آپ ﷺکی دایہ رہ چکی تھیں۔ باقی بارہ خواتین ابھی تک زخمیوں کو اٹھانے اور پیچھے لانے اور ان کی مرہم پٹی کرنے میں مصروف تھیں ۔خالد رسول ِ کریمﷺ کو ڈھونڈ رہا تھا لیکن وہ میدانِ جنگ میں زیادہ گھوم پھر نہیں سکتا تھاکیونکہ اس کی کمان میں گھڑ سواروں کا ایک جیش تھا جسے اس نے پوری طرح اپنی نظم و نسق میں رکھا ہوا تھا۔وہ اندھا دھند حملے کا قائل نہ تھا۔ اس کا اصول تھا کہ دشمن کی ایسی رگ پر ضرب لگاؤ کہ دوسری ضرب سے پہلے وہ گھٹنے ٹیک دے۔

آج چار برس بعد جب کہ وہ تن تنہا صحرا میں جا رہا تھا ۔اس کے ذہن میں گھوڑے دوڑ رہے تھے ۔اسے تیر کمانوں کے زنّاٹے سنائی دے رہے تھے ۔اس کے ذہن میں مسلمانوں کے نعرے گونج رہے تھے ۔اس کا خیال تھا کہ مسلمان یہ ظاہر کرنے کیلئے نعرے لگا رہے ہیں کہ انہیں موت کا کوئی ڈر نہیں ۔طنز اور نفرت سے اب بھی اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ اس نے ارادہ کر لیا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کرے گا ۔قیدی کم ہی بنائے گا ۔اسے ابھی پتا نہیں چل رہا تھا کہ رسولِ کریمﷺ کہاں ہیں ۔اس نے دیکھا کہ ابو سفیان جو بھاگتے ہوئے قریش کو ساتھ لے کر واپس آ گیا تھا۔ مسلمانوں کی فوج کے بڑے حصے پر حملہ آور ہو چکا تھا اور مسلمان بے جگری سے لڑ رہے تھے۔ مسلمانوں نے اسے اپنی زندگی کا آخری معرکہ سمجھ کر شجاعت و بے خوفی کے ایسے ایسے مظاہرے کیے کہ کثیر تعداد قریش پریشان ہو گئی۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر خالد آگ بگولہ ہو گیا ۔اس نے اپنے سواروں کو مسلمانوں پر ہلہ بولنے کا حکم دیا۔ اس نے تلوار نیام میں ڈال لی اور برچھی ہاتھ میں لے لی ۔اس نے مسلمانوں پر عقب سے حملہ کیا ۔اس نے برچھی سے مسلمانوں کو چن چن کر مارا ۔اس کی برچھی جب کسی مسلمان کے جسم میں داخل ہوتی تو وہ چلا کر کہتا ۔”میں ہوں ابو سلیمان !“ہر برچھی کے وار کے ساتھ اس کی للکار سنائی دیتی تھی کہ” میں ہوں ابو سلیمان!“آج چار برس بعد جب وہ مسلمانوں کے مرکز مدینہ کی جانب جا رہا تھا تو اسے اپنی ہی للکار سنائی دے رہی تھی”میں ہوں ابو سلیمان !“ اسے یاد نہیں آ رہا تھا کہ اس کی برچھی کتنے مسلمانوں کے جسموں میں اتری تھی ۔وہ رسول اﷲﷺ کو بھول گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اسے پتا چلا تھا کہ مسلمان اپنے نبیﷺ کی کمان سے نکل چکے ہیں اور عکرمہ مسلمانوں کے نبیﷺ کی طرف چلا گیا ہے۔ حقیقت بھی یہی تھی کہ رسول اﷲﷺ کی کمان ختم ہو چکی تھی اور معرکے کی صورت حال ایسی ہو گئی تھی کہ آپﷺ مسلمانوں کو از سرِ نو منظم نہیں کر سکتے تھے لیکن آپ ﷺ اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جان بچانے کیلئے میدانِ جنگ سے نکلنا بھی نہ چاہتے تھے۔ حالانکہ صورتِ حال ایسی تھی کہ پسپائی کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا لیکن آپﷺ کسی بہتر پوزیشن میں جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ آپ ﷺکو معلوم تھا کہ قریش آپﷺ کو ڈھونڈ رہے ہوں گے اور آپﷺ کے گروہ پر بڑا شدید حملہ ہو گا۔

آپﷺ ایک پہاڑی کی طرف بڑھنے لگے ۔آپﷺ کے ساتھیوں نے آپﷺکو اپنے حلقے میں لے رکھا تھا۔ آپﷺ تھوڑی ہی دور گئے ہوں گے کہ عکرمہ نے اپنے گھڑ سواروں سے آپﷺ پر حملہ کر دیا۔ قریش کے ایک پیادہ جیش کو کسی طرح پتا چل گیا کہ رسولِ کریمﷺ پر عکرمہ نے حملہ کر دیا ہے تو قریش کا یہ پیادہ جیش بھی آپﷺ کے گروہ پر ٹوٹ پڑا۔ آپﷺ کے اور آپﷺ کے کسی ایک بھی ساتھی کے بچ نکلنے کا سوال ہی ختم ہو گیا تھا۔ آپﷺ کے تیس ساتھیوں نے اور ان دو خواتین نے جو آپﷺ کے ساتھ تھیں ۔آپﷺ کے گرد گوشت پوست کی دیوار کھڑی کر دی۔ خالد کو یاد آ رہا تھا کہ رسول اﷲﷺ جسمانی طاقت کے لحاظ سے بھی مشہور تھے ۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ آپﷺ نے عرب کے مانے ہوئے پہلوان رکانہ کو تین بار اٹھا اٹھا کہ پٹخا تھا ۔اب میدانِ جنگ میں ان کی طاقت کے ایک اور مظاہرے کا وقت آ گیا تھا ۔گوشت پوست کی وہ دیوار جو آپﷺ کے فدائین نے آپﷺ کے ارد گرد کھڑی کر دی تھی اسے آپﷺ نے خود توڑا۔آپﷺ کے ہاتھ میں کمان تھی ۔ترکش میں تیر بھی تھے۔ اس وقت خالد مسلمانوں کے بڑے حصے میں الجھا ہوا تھا۔ اسے جب بعد میں بتایا گیا تھا کہ جب رسول ﷲﷺ اور ان کے تیس ساتھی اور دو عورتیں قریش کے گھڑ سواروں اور پیادوں کے مقابلے میں جم گئے تھے تو خالد نے بڑی مشکل سے یقین کیا تھا ۔اس نے ایک بار پھر کہا تھا کہ یہ طاقت جسمانی نہیں ہو سکتی، یہ کوئی اور ہی طاقت ہے ۔اس وقت سے ایک سوال اسے پریشان کر رہا تھا کہ کیا عقیدہ طاقت بن سکتا ہے ؟وہ اپنے قبیلے میں کسی سے اس سوال کا جواب نہیں لے سکتا تھا کیونکہ فوراً یہ الزام عائد ہو سکتا تھا کہ اس پر بھی محمد )ﷺ( کا جادو اثر کر گیا ہے ۔آج وہ یہی سوال اپنے ذہن میں لیے مدینہ کی طرف جا رہا تھا احد کی پہاڑی افق سے اوپر اٹھ آئی تھی ۔چار برس پرانی یادیں اسے پھر اس پہاڑی کے دامن میں لے گئیں جہاں اسے اپنا ہی نام سنائی دے رہا تھا ۔”ابو سلیمان ابو سلیمان “وہ اپنے تصور میں دیکھنے لگا کہ ان تیس آدمیوں اور دو عورتوں نے اتنے سارے گھڑ سواروں اور پیادوں کا مقابلہ کس طرح کیا ہو گا۔ رسولِ کریمﷺ اپنے دستِ مبارک سے تیر برسا رہے تھے۔ آپﷺ کے ساتھی بڑھ چڑھ کر آپﷺ کو اپنے حلقے میں لے لیتے ۔ایک مؤرخ مغازی کی تحریر کے مطابق آپﷺ اپنے گرد حلقے کو بار بار توڑتے اور جدھرسے دشمن ان کی طرف بڑھتا اس پرتیر چلاتے۔آپﷺ کی جسمانی طاقت عام انسان کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی ۔

آپﷺ کمان کو اس قدر زور سے کھینچتے تھے کہ آپﷺ کا چھوڑا ہوا تیر جس جسم میں لگتا تھا تیر کی نوک اس جسم کے دوسری طرف نکل جاتی تھی۔ آپﷺ نے اس قدر تیر چلائے تھے ایک تیر چلانے کیلئے آپﷺ نے کمان کو کھینچا تو کمان ٹوٹ گئی ۔آپﷺ نے اپنے ترکش میں بچے ہوئے تیر سعد بن ابی وقاصؓ کو دے دیئے ۔سعد بن ابی وقاصؓ کے نشانے کا کوئی بھی مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ خود آپﷺ بھی سعد ؓکے نشانے کو تسلیم کرتے تھے۔ ادھر مسلمان ابو سفیان اور خالد کے ہاتھوں کٹ رہے تھے اور خون کا آخری قطرہ بہہ جانے تک مقابلہ کر رہے تھے ۔ادھر آپ ﷺکے تیس فدائین اور دو خواتین کی بے جگری کا یہ عالم تھا جیسے ان کے جسم نہیں ان کی روحیں لڑ رہی ہوں۔ مشہور مؤرخ طبری لکھتا ہے کہ کہ ایک ایک مسلمان نے بیک وقت چار چار پانچ پانچ قریش کا مقابلہ کیا ۔ان کا انداز ایسا دہشت ناک تھا کہ قریش پیچھے ہٹ جاتے تھے یا ان پر حملہ کرنے والا اکیلا مسلمان زخموں سے چور ہو کر گر پڑتا تھا۔ قریش نے جب رسول ِاکرمﷺ کے فدائین کی شجاعت کا یہ عالم دیکھا تو کچھ پیچھے ہٹ کر ان پر تیروں کے ساتھ ساتھ پتھر بھی برسانے لگے۔ اس کے ساتھ ہی قریش کے چند ایک گھڑ سوار سر پٹ گھوڑے دوڑاتے آپﷺ پر حملہ آور ہوئے لیکن آپ ﷺکے ساتھیوں کے تیر ان کے جسموں میں اتر کر انہیں واپس چلے جانے پر مجبور کردیتے تھے ۔اس صورتِ حال سے بچنے کیلئے قریش نے چاروں طرف سے تیروں اور پتھروں کا میِنہ برسا دیا۔ خالد کو عکرمہ نے بتایاتھا کہ:” ابو دجانہ‘ محمد)ﷺ (کے آگے جا کھڑے ہوئے ۔ان کی پیٹھ دشمن کی طرف تھی۔ ابو دجانہ بیک وقت دو کام کر رہے تھے ایک یہ کہ وہ اپنے تیر سعد بن ابی وقاص کو دیتے جا رہے تھے اور سعد بڑی تیزی سے تیر برسا رہے تھے۔ اسکے ساتھ ہی ابو دجانہ محمد)ﷺ( کو تیروں سے بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ تیروں اور پتھروں کی بارش میں کوئی نہ دیکھ سکا کہ ابو دجانہ کس حال میں ہیں۔ جب ابو دجانہ گر پڑے تواس وقت دیکھاکہ ان کی پیٹھ میں اتنے تیر اتر گئے تھے کہ ان کی پیٹھ خار پشت کی پیٹھ لگتی تھی۔ “رسولِ اکرمﷺ کو بچانے کیلئے آپﷺ کے کئی ساتھیوں نے جان دے دی۔لیکن عکرمہ اور اسکے گھڑ سواروں اور پیادوں پر اتنی دہشت طاری ہو چکی تھی کہ وہ پیچھے ہٹ گئے۔ قریش تھک بھی گئے تھے۔ رسولِ کریمﷺ نے اپنے ساتھیوں کاجائزہ لیا ۔ہر طرف خون ہی خون تھا لیکن زخمیوں کو اٹھانے اور مرہم پٹی کرنے کا موقع نہ تھا۔ دشمن ایک اور ہلّہ بولنے کیلئے پیچھے ہٹا تھا ۔

مجھے قریش کے ایک اور آدمی کا انتظار ہے۔“ رسولِ اکرمﷺنے اپنے ساتھیوں سے کہا۔” کون ہے وہ یا رسول اﷲﷺ!“ آپ ﷺکے ایک صحابیؓ نے پوچھا ۔”کیا وہ ہماری مدد کو آ رہا ہے؟“ ”نہیں! “آپﷺ نے فرمایا۔” وہ مجھے قتل کرنے آئے گا، اسے اب تک آ جانا چاہیے تھا۔“صحابی ؓ نے پوچھا” لیکن وہ ہے کون؟“”اُبی بن خلف !“آپﷺ نے فرمایا۔ابی بن خلف ‘رسولِ اکرمﷺ کے کٹر مخالفین میں سے تھا۔ وہ مدینہ کا رہنے والا تھا ۔اسے جب پتا چلا کہ رسول اﷲﷺ نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو ایک روز وہ آپﷺ کے پاس آیا اور اس نے آپﷺ کا مذاق اڑایا۔ آپﷺ نے تحمل اور بردباری سے اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ ”کیا تم مجھے اتناکمزور سمجھتے ہو کہ میں تمہارے اس بے بنیاد عقیدے کو قبول کرلوں گا۔“ ابی بن خلف نے گستاخانہ لہجے میں کہا تھا۔ ”میری بات غور سے سن لے محمد‘ کسی روز میرا گھوڑا دیکھ لینا اسے میں اس وقت کیلئے موٹا تازہ کر رہا ہوں جب تم قریش کو پھر کبھی جنگ کیلئے للکارو گے ۔اب بدر کے خواب دیکھنے چھوڑ دو۔میں اسی گھوڑے پر سوار ہوں گا اور تم مجھے میدانِ جنگ میں اپنے سامنے دیکھو گے اور میں اپنے دیوتاؤں کی قسم کھا کہ کہتا ہوں کہ تمہیں اپنے ہاتھوں قتل کروں گا۔“ ”ابی!“رسولِ خداﷺ نے مسکرا کہ کہا تھا۔” زندگی اور موت اس اﷲ کے اختیار میں ہے جس نے مجھے نبوت عطا فرمائی ہے اور مجھے گمراہ لوگوں کو سیدھے راستے پر لانے کا فرض سونپا ہے‘ ایسی بات منہ سے نہ نکالو جسے میرے اﷲ کے سوا کوئی بھی پورا نہ کر سکے۔یوں بھی تو ہو سکتا ہے کہ تم مجھے قتل کرنے آؤ اور تم میرے ہاتھوں قتل ہو جاؤ۔“ ابی بن خلف رسول اﷲﷺ کی اس بات پر طنزیہ ہنسی ہنس پڑا اور ہنستا ہوا چلا گیا۔ اب احد کے معرکے میں رسولِ خداﷺ کو ابی بن خلف یاد آ گیا۔ جوں ہی آپﷺ نے اس کا نام لیا تو دور سے ایک گھوڑا سر پٹ دوڑتا آیا۔ سب نے ادھر دیکھا۔ ”میرے عزیز ساتھیو !“رسولِ اکرمﷺ نے اپنے ساتھیوں سے کہا ۔”مجھے کچھ ایسے لگ رہا ہے جیسے یہ سوار جو ہماری طرف بڑھتا آ رہا ہے ابی ہی ہو گا۔ اگروہ ابی ہی ہوا تو اسے روکنا نہیں ،اسے میرے سامنے اور میرے قریب آنے دینا۔“ مؤرخین واقدی،مغازی اور ابن ہشام نے لکھا ہے کہ وہ سوار ابی بن خلف ہی تھا ۔اس نے للکار کر کہاکہ:” سنبھل جا محمد !ابی آ گیا ہے۔یہ دیکھ میں اسی گھوڑے پر سوار ہوں جو تمہیں دکھایا تھا۔“ ”یا رسول اﷲﷺ !“رسول اﷲﷺ کے ساتھیوں میں سے تین چار نے آگے ہو کرکہا۔” ہمیں اجازت دیں کہ اسے آپﷺ کے قریب آنے تک ختم کردیں ۔“ ”نہیں ۔“رسولِ اکرمﷺ نے کہا ۔”اسے آنے دو‘ میرے قریب آنے دو‘ اسے راستہ دے دو۔

رسولِ کریمﷺ کے سر پر زنجیروں والی خود تھی۔ اس کی زنجیریں آپﷺ کے چہرے کے آگے اور دائیں بائیں لٹک رہی تھیں۔ آپﷺ کے ہاتھ میں برچھی تھی اور تلوار نیام میں تھی ۔ابی کا گھوڑا قریب آ گیا تھا۔ ”آگے آ جا ابی!“رسولِ خداﷺ نے للکارکہ کہا۔”میرے سوا تیرے ساتھ کوئی نہیں لڑے گا۔“ابی بن خلف نے اپنا گھوڑا قریب لا کہ روکا اور طنزیہ قہقہہ لگایا اسے شاید پورا یقین تھا کہ وہ آپﷺ کو قتل کر دے گا۔ اس کی تلوار ابھی نیام میں تھی۔ آپﷺ اس کے قریب چلے گئے ‘وہ بڑے طاقت ور گھوڑے پر تھا اور آپﷺ زمین پر ۔اس نے ابھی تلوار نکالی ہی تھی کہ آپﷺ نے آگے بڑھ کر اور اچھل کر اس پر برچھی کا وار کیا ،وہ وار بچانے کیلئے ایک طرف کو جھک گیا لیکن وار خالی نہ گیا ۔آپﷺ کی برچھی کی انّی اس کے دائیں کندھے پر ہنسلی کی ہڈی سے نیچے لگی ۔وہ گھوڑے سے گر پڑا اور اس کی پسلی ٹوٹ گئی۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ رسولِ خداﷺ کاوار اتنا کاری نہ تھا کہ ابی جیسا قوی ہیکل آدمی اٹھ نہ سکتا ۔رسولِ خداﷺ اس پر دوسرا وار کرنے کو دوڑے ۔ وہ گھوڑے کے دوسری طرف گرا تھا اس پر شاید دہشت طاری ہو گئی تھی یا آپﷺ کا وار اس کیلئے غیر متوقع تھا‘وہ اٹھا اور اپنا گھوڑا وہیں چھوڑ کر بھاگ گیا‘ وہ چلّاتا جا رہا تھا” محمد نے مجھے قتل کر دیا ہے ۔اے اہلِ قریش !محمد نے مجھے قتل کر ڈالا۔“قریش کے کچھ آدمیوں نے اس کے زخم دیکھے تو اسے تسلی دی کہ اسے کسی نے قتل نہیں کیا۔ زخم بالکل معمولی ہیں۔ لیکن اس پر نہ جانے کیسی کیفیت طاری ہو گئی تھی کہ اسکی زبان سے یہی الفاظ نکلتے تھے ۔”میں زندہ نہیں رہوں گا ‘محمد نے کہا تھا کہ میں اس کے ہاتھوں قتل ہو جاؤں گا۔“مؤرخ ابنِ ہشام نے یہاں تک لکھا ہے کہ ابی نے یہ الفاظ بھی کہے تھے :”اگرمحمد مجھ پر صرف تھوک دیتا تو بھی میں زندہ نہ رہ سکتا تھا۔“جب احد کا معرکہ ختم ہو گیا تو ابی قریش کے ساتھ مکہ روانہ ہو گیا۔ راستے میں انہوں نے پڑاؤ کیا تو ابی مر گیا۔خالد کو آج چار برس بعد وہ وقت کل کی بات کی طرح یاد آرہا تھا ۔اسے یقین تھا کہ مسلمانوں کو اہلِ قریش کچل کر رکھ دیں گے۔ لیکن مسلمان جس طرح جانیں قربان کر رہے تھے اس نے خالد کو پریشان کر دیا۔یوں لگتا تھا جیسے مسلمان پیادوں سے قریش کے گھوڑے بھی خوف زدہ ہیں۔ خالد نے اپنے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور اس خونریز معرکے میں ابو سفیان کو تلاش کرتا اس تک پہنچا ۔”کیا ہم مسلمانوں کو فیصلہ کن شکست دینے کے قابل نہیں رہے ؟“خالد نے ابو سفیان سے کہا ۔”کیا قریش کی ماؤں کے دودھ ناقص تھے کہ یہ ان مٹھی بھر مسلمانوں سے خوف ذد ہ ہوئے جا رہے ہیں ؟“

”دیکھو خالد!“ ابی سفیان نے کہا ۔”جب تک محمد ان کے ساتھ ساتھ ہے اور وہ زندہ سلامت ہے یہ خون کاآخری قطرہ بہہ جانے تک شکست نہیں کھائیں گے۔“ ”تو یہ فرض مجھے کیوں نہیں سونپ دیتے؟“خالد نے کہا۔ ”نہیں!“ ابو سفیان نے کہا۔” تم اپنے سواروں کے پاس جاؤ‘ تمہاری قیادت کے بغیر وہ بکھر جائیں گے ۔محمد اور اس کے ساتھیوں پر حملہ کرنے کیلئے میں پیادے بھیج رہا ہوں۔“ آج مدینہ کی طرف جاتے ہوئے خالد کو افسوس ہو رہا تھا کہ ابو سفیان نے اس کے ایک عزم کوکچل ڈالا تھا ۔رسولِ خداﷺ کے قتل کو وہ اپنا فرض سمجھتا تھا ۔وہ رسولِ خداﷺ کو قتل کرکے اپنے سب سے بڑے دیوتاؤں ہبل اور عزیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا تھا ۔اس نے اپنے سالار کا حکم ماننا ضروری سمجھا اور اپنے سوار دستے کی طرف چلا گیا ۔اسے اطمینان ضرور تھا کہ رسولِ اکرمﷺ کے ساتھ اب چند ایک ساتھی ہی رہ گئے ہوں گے اور آپﷺ کو قتل کرنا اب کوئی مشکل نہیں ہوگا اور اس کے بعد مسلمان اٹھنے کے قابل نہیں ہوں گے ۔خالد کو میدانِ جنگ کی کیفیت بڑی اچھی طرح یاد تھی۔ اس نے ذرابلندی سے دیکھا تھا کہ احد کے دامن میں دور دور تک زمین خون سے لال ہو گئی تھی۔ کہیں گھوڑے تڑپ رہے تھے اور کہیں خون میں نہائے ہوئے انسان کراہ رہے تھے۔ زخمیوں کو اٹھانے کا ابھی کسی کو ہوش نہ تھا۔ پھر اس نے دیکھا ۔پیادہ قریش رسولِ کریمﷺ کے پاس پہنچ گئے تھے اور انہوں نے آپﷺ کے ساتھیوں کا حلقہ بھی توڑ لیا تھا۔ قریش کے تین آدمی عتبہ بن ابی وقاص، عبداﷲ بن شہاب اور ابنِ قمہ رسولِ کریمﷺ پر پتھر برسانے لگے۔ عجیب صورت یہ تھی کہ عتبہ کا سگا بھائی سعد بن ابی وقاصؓ رسولِ اکرمﷺ کی حفاظت میں لڑ رہا تھا ۔رسولِ اکرم ﷺکے ساتھیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی یا وہ لڑتے لڑتے بکھر گئے تھے۔ عتبہ نے آپﷺ پر جو پتھر برسائے ان سے آپ ﷺ کے نیچے والے دو دانت ٹوٹ گئے اور نچلا ہونٹ زخمی ہوگیا۔ عبداﷲ کے پتھر سے آپﷺ کی پیشانی پر خاصا گہرا زخم آیا ۔ابنِ قمہ نے آپﷺ کے قریب آ کر اتنی زور سے پتھر مارا کہ آپ ﷺکے خود کی زنجیر کی دو کڑیاں ٹوٹ کر رخسار میں اتر گئیں ان سے رخسار کی ہڈی بھی بری طرح مجروح ہوئی ۔آپﷺ نے برچھی سے دشمنوں پر وار کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن دشمن قریب نہیں آتے تھے ۔آپ کاخون اتنا نکل گیا تھا کہ آپﷺ گر پڑے ۔اس وقت آپﷺ کے ایک صحابیؓ طلحہ ؓنے جو قریش کے دوسرے آدمیوں کے ساتھ لڑ رہے تھے دیکھ لیا اور دوڑتے ہوئے آپﷺ تک پہنچے۔ ان کی للکار پر ان کے دوسرے ساتھی بھی آ گئے ۔

آپﷺ کو پتھروں سے گرانے والے قریش آپﷺ پر تلواروں سے حملہ کرنے ہی والے تھے کہ سعدؓ بن ابی وقاص نے اپنے سگے بھائی عتبہ پر حملہ کر دیا ۔عتبہ اپنے بھائی کا غیض و غضب دیکھ کر بھاگ نکلا۔طلحہؓ نے رسولِ خداﷺ کو سہارا دے کر اٹھایا ۔آپﷺ پوری طرح سے ہوش میں تھے اس دوران آپﷺ کے ساتھیوں نے ان آدمیوں کو بھگا دیا تھا جنہوں نے رسولِ کریمﷺ پر حملہ کیاتھا۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ:” سعدؓ بن ابی وقاص پر قابو پانا مشکل ہو رہا تھا ،سعد کہتے تھے ”میں اپنے بھائی کو قتل کر کے اس کے جسم کے ٹکڑے کردینا چاہتا ہوں جس نے میری موجودگی میں میرے نبیﷺ پر حملہ کیا ہے۔“وہ اکیلے ہی قریش کی طرف دوڑنے کی کوشش کرتے تھے انہیں بڑی مشکل سے روکا گیا اگر رسولِ خداﷺ انہیں رکنے کا حکم نہ دیتے تو و ہ کبھی نہ رکتے۔“ قریش غالباً بہت ہی تھک گئے تھے ۔وہ معرکے سے منہ موڑ گئے ،تب رسولِ اکرمﷺ کے ساتھیوں نے آپﷺ کے زخموں کی طرف توجہ دی۔جو خواتین آپﷺ کے ساتھ تھیں انہوں نے آپﷺ کو پانی پلایا ‘کپڑوں سے زخم صاف کیے‘ اس وقت یہ دیکھا گیا کہ خود کی زنجیروں کی ٹوٹی ہوئی کڑیاں آپﷺ کے رخسار کی ہڈی میں اتری ہوئی ہیں ۔ایک صحابی ابو عبیدہؓ جو عرب کے ایک مشہور جرّاح کے فرزند تھے آگے بڑھے اور آپﷺ کے رخساروں سے کڑیا ں نکالنے لگے لیکن ہاتھوں سے کڑیاں نہ نکلیں۔ آخر ابو عبیدہؓ نے دانتوں کی مدد سے ایک کڑی نکال لی ۔جب دوسری کڑی نکالی تو کڑی تو نکل آئی لیکن ابی عبیدہؓ ؓکے سامنے کے دو دانت ٹوٹ گئے۔ اس کے بعد لوگوں نے ابو عبیدہ کو الاثرم “کہنا شروع کر دیا ۔اس کا مطلب ہے وہ آدمی جس کے سامنے والے دانت نہ ہوں۔پھر وہ اسی نام سے مشہور ہوگئے ۔)یہ بھی رسولِ کریمﷺ کا معجزہ ہے کہ اس کے بعد ابو عبیدہؓ ایسے خوبصورت دِکھتے تھے کہ اُن کے چہرے سے نگاہ نہیں ہٹتی تھی(۔اُمّ ِایمنؓ جو رسول ِ اکرمﷺ کے بچپن میں آپﷺ کی دایہ رہ چکی تھیں ‘آپﷺ پر جھکی ہوئی تھیں ۔اس وقت تک آپﷺ کی طبیعت سنبھل چکی تھی۔ اچانک ایک تیر امِ ایمن ؓکی پیٹھ میں اتر گیا اور اس کے ساتھ ہی دور سے ایک قہقہہ سنائی دیا۔ سب نے ادھر دیکھا تو قریش کاایک آدمی حبان بن العرقہ دور کھڑا ہنس رہا تھااس کے ہاتھ میں کمان تھی۔ یہ تیر اسی نے چلایا تھا۔ وہ ہنستا ہوا پیچھے کو مڑا ‘رسولِ خداﷺ نے ایک تیر سعد ؓبن ابی وقاص کو دے کر کہا کہ:” یہ شخص یہاں سے تیر لے کر ہی واپس جائے ۔

سعدؓ نے جو تمام قبائل میں تیر اندازی میں خصوصی شہرت رکھتے تھے ‘کمان میں تیر ڈال کر حبان پر چلایا ‘تیر حبان کی گردن میں اتر گیا۔ سعدؓ کے تمام ساتھیوں نے بڑی زور سے قہقہہ لگایا اور حبان نے ڈگمگاتے ہوئے چند قدم اٹھائے اوروہ گر پڑا۔ آج خالد جب مدینہ کی طرف بڑھتا جا رہا تھا اور احد کی پہاڑی افق سے اوپر ہی اوپر اٹھتی آ رہی تھی۔ اسے اپنے کچھ ساتھی یاد آنے لگے۔ عقیدوں کے اختلاف نے بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیا تھا لیکن خالد کو یہ خیال بھی آیا کہ بعض لوگ اپنے عقیدے کو اس لیے سچا سمجھتے ہیں کہ وہ اس کے پیروکار ہوتے ہیں ۔حق اور باطل کے فرق کو سمجھنے کیلئے بڑی مضبوط شخصیت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ایک سوال اسے پھر پریشان کرنے لگا :”میں مدینہ کیوں جا رہا ہوں ؟اپنا عقیدہ مدینہ والوں پر ٹھونسنے کیلئے یا ان کا عقیدہ اپنے اوپر مسلط کرنے کیلئے ؟“اسے ابو سفیان کی آواز سنائی دی جو ایک ہی روز پرانی تھی۔” کیا یہ سچ ہے کہ تم مدینہ جا رہے ہو؟ کیا تمہاری رگوں میں ولید کا خون سفید ہیو گیا ہے ؟“صحرا میں جاتے ہوئے ان آوازوں نے کچھ دور تک اس کاتعاقب کیا پھر وہ اپنے ان دوستوں کی یاد میں کھو گیا جن کے خلاف وہ لڑا اور جن کا خون اس کے سامنے بہہ گیا تھا ۔ان میں ایک ”مصعب ؓبن عمیر“ بھی تھے ۔قریش جو معرکے سے منہ موڑ گئے تھے کچھ دور ہی پہنچے تھے کہ خالد نے اپنے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور ابو سفیان کو جا پکڑا۔ اس نے ابو سفیان سے پوچھا کہ:” تم لوگ جنگ کو ادھورا چھوڑ کر کہاں جا رہے ہو؟ مسلمانوں کا دم خم ختم ہو چکا ہے؟“ ابو سفیان بھی یہی چاہتا تھا کہ یہ معرکہ فیصلہ کن نتیجے پر پہنچے۔ قریش کے چند سوار وہیں سے پلٹ آئے ۔خالد دیکھ چکا تھا کہ رسولِ کریمﷺکہاں ہیں ۔یہاں پھر ابو سفیان نے خالد کو کسی اور طرف بھیج دیا اور کچھ آدمیوں کونبی کریمﷺ پر حملے کا حکم دیا۔ اب رسول کریمﷺ کے ساتھ کچھ اور مسلمان آن ملے تھے۔ اب پھر ابن قمہ لڑتے ہوئے مسلمانوں کا حلقہ توڑ کر رسولِ اکرمﷺ تک پہنچنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس وقت رسولِ اکرمﷺ کے پاس مصعب ؓبن عمیرکھڑے تھے اور اُمّ ِعمارہؓ اپنے قریب پڑے ہوئے دو تین زخمیوں کو پانی پلا رہی تھیں۔ انہوں نے جب قریش کو ایک بار پھر حملے کیلئے آتے دیکھا تو زخمیوں سے ہٹ کر انہوں نے ایک زخمی کی تلوار اٹھا لی اور قریش کے مقابلے کیلئے ڈٹ گئیں۔ قریش کا سب سے پہلا سوار جو ان کے قریب آیا ۔اس تک وہ نہیں پہنچ سکتی تھیں اس لیے انہوں نے تلوار سے اس کے گھوڑے پر ایسا وار کیا کہ گھوڑا گر پڑا۔ سوار گھوڑے کے دوسری طرف گرا ۔ام عمارہؓ نے گھوڑے کے اوپر سے کود کر قریش کے اس آدمی پر وار کیا اور اسے زخمی کر دیا۔وہ اٹھا اور بھاگ کھڑا ہوا ۔

مصعب ؓبن عمیر کا قد بت اور شکل و صورت بھی رسولِ کریمﷺ کے ساتھ نمایاں مشابہت رکھتی تھی۔ ابن ِ قمہ مصعبؓ کو رسولِ خداﷺ سمجھ کر ان پر حملہ آور ہوا ۔مصعبؓ تیار تھے انہو ں نے ابنِ قمہ کا مقابلہ کیا پھر دونوں میں تیغ زنی ہوئی لیکن ابنِ قمہ کا ایک وار مصعبؓ پر ایسا بھرپور پڑا کہ وہ گرے اور شہید ہو گئے۔ )مصعب بن عمیرؓ بہت لاڈوں میں پلے نوجوان تھے لیکن تدفین کے وقت اُن کا کفن بھی ادھورا تھا( ام عمارہؓ نے مصعبؓ کو گرتے دیکھا ۔غیض و غضب سے ابنِ قمہ پر تلوارکا وار کیا لیکن ابنِ قمہ نے زرہ پہن رکھی تھی اور وار کرنے والی ایک عورت تھی‘ اس لیے ابنِ قمہ کو کوئی زخم نہ آیا۔ ابنِ قمہ نے ام عمارہ ؓکے کندھے پر بھرپور وار کیا جس سے وہ شدید زخمی ہو کر گر پڑیں ۔اس وقت رسولِ کریمﷺ جو قریب ہی تھے ۔ابنِ قمہ کی طرف بڑھے لیکن ابنِ قمہ نے پینترا بدل کر آپﷺ پہ ایسا وار کیا جو آپﷺ کے خود پر پڑا ۔تلوار خود سے پھسل کر آپﷺ کے کندھے پر لگی آپﷺ کے بالکل پیچھے ایک گڑھا تھا آپﷺ زخم کھا کر پیچھے ہٹے اور گڑھے میں گر پڑے۔ ابنِ قمہ نے پیچھے ہٹ کر گلا پھاڑ کر کہا:” میں نے محمد کو قتل کر دیا ہے۔“ وہ یہی نعرے لگاتا میدانِ جنگ میں گھوم گیا۔اس کی آواز قریش نے بھی سنی اور مسلمانوں نے بھی۔ قریش کو تو خوش ہونا ہی تھا۔ مسلمانوں پر اس کا بڑا تباہ کن اثر ہوا کہ حوصلہ ہار بیٹھے اوراحد کی پہاڑی کی طرف پسپا ہونے لگے۔’اپنے نبیﷺ کے شدائیو!“بھاگتے ہوئے مسلمانوں کو ایک للکار سنائی دی۔” اگر نبیﷺ نہ رہے تو لعنت ہے ہم پر کہ ہم بھی زندہ رہیں۔ تم کیسے شیدائی ہو کہ نبی کریمﷺ کی شہادت کے ساتھ ہی تم موت سے ڈر کر بھاگ رہے ہو؟“ مسلمان رک گئے۔ اس للکار نے انہیں آگ بگولہ کر دیا‘ وہ پیادہ تھے لیکن انہوں نے قریش کے گھڑ سواروں پر حملہ کر دیا۔ یہ حملہ خالد اور عکرمہ کے گھڑ سواروں پر ہوا تھا۔ خالد کو آج یاد آرہا تھا کہ اس کے ہاتھوں کتنے ہی مسلمانوں کا خون بہہ گیا تھا ان میں ایک رفاعہؓ بن وقش بھی تھے ۔خالد کے دل میں درد کی ایک ٹیس سی اٹھی ‘اسے کچھ ایسا احساس ہونے لگا جیسے وہ بے مقصد خون بہاتا رہا ہے لیکن اس وقت وہ مسلمانوں کو اپنا بد ترین دشمن سمجھتا تھا۔ اب مسلمانوں کا دم خم ٹوٹ چکا تھا۔ پیادے گھڑ سواروں کا مقابلہ کب تک کرتے ؟ وہ مجبور ہو کر پہاڑی کی طرف پسپا ہونے لگے ۔رسولِ اکرمﷺ بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک تنگ سی وادی کی طرف جا رہے تھے۔ جس طرح مسلمانوں نے فتح کی خوشی میں اپنا مورچہ چھوڑ دیا تھا اور جنگ کا پانسا اپنے خلاف پلٹ لیا تھا اسی طرح اب قریش کے آدمی مسلمانوں کی لاشوں پر اور تڑپتے ہوئے زخمیوں پر مالِ غنیمت اکھٹا کرنے کیلئے ٹوٹ پڑے ۔

ان میں سے کچھ قریش رسولِ کریمﷺ کے تعاقب میں چلے گئے‘ لیکن آپﷺ کے ساتھیوں نے ان پر ایسی بے جگری سے ہلہ بولا کہ ان میں سے زیادہ تر قریش کو جان سے مار ڈالا اور جو بچ گئے وہ بھاگ نکلے ۔رسولِ اکرمﷺ ایک بلند جگہ پہنچ گئے ۔آپﷺ نے وہاں سے صورتِ حال کا جائزہ لیا‘ آپﷺ کے تیس صحابہؓ میں سے سولہ شہید ہو چکے تھے جو چودہ زندہ تھے ان میں زیادہ تر زخمی ۔آپﷺ نے بلندی سے میدانِ جنگ کا جائزہ لیا آپﷺ کو کوئی مسلمان نظر نہیں آ رہا تھا۔ مسلمان یہ سمجھ کر کہ رسولِ اکرمﷺ شہید ہو چکے ہیں‘ سخت مایوسی کے عالم میں اِدھر ُادھر بکھر گئے۔کچھ واپس مدینہ چلے گئے۔ کچھ قریش کے انتقام سے بچنے کے لئے پہاڑی کے اندر موجود تھے۔ یہاں رسولِ خداﷺ کو اپنے زخموں کی طرف توجہ دینے کی فرصت ملی ۔آپﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہؓ جو آپﷺ کو ہر طرف تلاش کرکر کہ تھک چکی تھیں۔ آپﷺ کے پاس آ پہنچی تھیں ۔قریب ہی ایک چشمہ تھا ۔حضرت علیؓ وہاں سے کسی چیز میں پانی لائے اور آپﷺ کو پلایا ۔حضرت فاطمہؓ آپﷺ کے زخم دھونے لگیں ۔وہ سسک سسک کر رو رہی تھیں۔ ؓخالد کو آج یاد آ رہا تھا کہ رسولِ کریمﷺ کی شہادت کی خبر نے اسے روحانی سا اطمینان دیا تھا لیکن ایک للکار نے اسے چونکا دیا۔ وادی میں للکار کی گونج بڑی دور تک سنائی دے رہی تھی ۔کوئی بڑی ہی بلند آواز میں کہہ رہا تھا:” مسلمانو! خوشیاں مناؤ ۔ہمارے نبیﷺ زندہ اور سلامت ہیں ۔“اس للکار پر خالد کو ہنسی بھی آئی تھی اور افسوس بھی ہوا تھا۔اس نے اپنے آپ سے کہا تھا کہ کوئی مسلمان پاگل ہو گیا ہے۔ہوا یوں تھا کہ جس طرح مسلمان اِکا دُکا اِدھر ُادھر بکھر گئے یا چھپ گئے تھے ۔اسی طرح کعب بن مالکؓ نام کا ایک مسلمان اِدھر ُادھر گھومتا پہاڑی کے اس مقام کی طرف چلا گیا جہاں رسولِ اکرمﷺ سستا رہے تھے۔ اس نے نبی کریمﷺ کو دیکھا تو اس نے جذبات کی شدت سے نعرہ لگایا ”ہمارے نبیﷺ زندہ ہیں“۔ تمام مسلمان جو اکیلے اکیلے یا د دو چار چار کی ٹولیوں میں اِدھر ُادھر بکھر گئے تھے اس آواز پر دوڑ کر آئے۔ حضرت عمرؓ بھی اسی آواز پر رسولِ خداﷺ تک پہنچے تھے۔ اس سے پہلے ابو سفیان میدانِ جنگ میں پڑی ہوئی ہر ایک لاش کو دیکھتا پھر رہا تھا‘ وہ رسولِ کریمﷺ کا جسدِ مبارک تلاش کر رہا تھا ۔ اسے قریش کا جو بھی آدمی ملتا اس سے پوچھتا :”تم نے محمد کی لاش نہیں دیکھی؟“اسی تلاش میں خالد اس کے سامنے آگیا۔ ”خالد!“ ابو سفیان نے پوچھا:” تم نے محمد ﷺ کی لاش نہیں دیکھی؟“”نہیں“۔خالد نے جواب دیا اور ابو سفیان کی طرف ذرا جھک کر پوچھا :”کیا تمہیں یقین ہے کہ محمدﷺ شھید ھو چکے ھیں"؟“

”ہاں !“ ابی سفیان نے جواب دیا:” وہ ہم سے بچ کر کہاں جا سکتا ہے ۔تمہیں شک ہے؟“”ہاں ابوسفیان!“خالد نے جواب دیا ۔”میں اس وقت تک شک میں رہتا ہوں جب تک کہ اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لوں ۔محمد)ﷺ( اتنی آسانی سے قتل ہوجانے والا شخص نہیں ہے۔“ ”معلوم ہوتا ہے تم پر محمد)ﷺ( کا طلسم طاری ہے۔“ ابو سفیان نے تکبر کے لہجے میں کہا۔” کیا محمد)ﷺ( ہم میں سے نہیں تھا ؟کیا تم اسے نہیں جانتے تھے۔ جو شخص اتنی قتل و غارت کا ذمہ دار ہے ۔ایک روز اسے بھی قتل ہونا ہے ۔محمد)ﷺ( قتل ہو چکا ہے۔ جاؤ اور دیکھو‘ اس کی لاش کو پہچانو۔ہم اسکا سر کاٹ کر مکہ لے جائیں گے۔“عین اس وقت پہاڑی میں سے کعب ؓبن مالک کی للکار گرجی” مسلمانو! خوشیاں مناؤ ۔ہمارے نبیﷺ زندہ سلامت ہیں۔“ پھر یہ آواز بجلی کی کڑک کی طرح گرجتی کڑکتی وادی اور میدان میں گھومتی پھرتی رہی۔”سن لیا ابو سفیان!“ خالد نے کہا ۔”اب میں تمہیں بتاتا ہوں کہ محمد)ﷺ(کہاں ہے۔ میں اس پر حملہ کرنے جا رہا ہوں لیکن میں تمہیں یقین نہیں دلا سکتا کہ میں محمد)ﷺ( کو قتل کر آؤں گا۔“کچھ دیر پہلے خالد نے رسولِ کریمﷺ اور ان کے ساتھیوں کو پہاڑی کے اندر جاتے دیکھا تھا لیکن وہ بہت دور تھا۔ خالد ہار ماننے والا اور اپنے ارادے کوادھورا چھوڑنے والا آدمی نہیں تھا ۔اس نے اپنے چند ایک سواروں کو ساتھ لیا اورپہاڑی کے اس مقام کی طرف بڑھنے لگا جدھر اس نے رسولِ کریمﷺ کو جاتے دیکھا تھا۔ مشہور مؤرخ ابن ہشام کی تحریر سے پتا چلتا ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے جب خالد کو اپنے سواروں کے ساتھ اس گھاٹی پر چڑھتے دیکھا جہاں آپﷺ تھے تو آپﷺ کے منہ سے بے ساختہ دعا نکلی” خدائے ذوالجلال! انہیں اس وقت وہیں کہیں روک لے۔“خالد اپنے سواروں کے ساتھ گھاٹی چڑھتا جا رہا تھا۔و ہ ایک درہ سا تھا جوتنگ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ گھوڑوں کو ایک قطار میں ہونا پڑا۔ رسولِ کریمﷺ زخموں سے چور پڑے تھے ۔حضرت عمرؓ نے جب خالد اور اس کے سواروں کو اوپر آتے ہوئے دیکھا تو وہ تلوار نکال کر کچھ نیچے اترے۔ ”ولید کے بیٹے !“حضرت عمرؓ نے للکارا۔”اگر لڑائی لڑنا جانتے ہو تو اس درّہ کی تنگی کو دیکھ لو۔ اس چڑھائی کو دیکھ لو ۔کیا تم اپنے سواروں کے ساتھ ہمارے ہاتھ سے بچ کر نکل جاؤ گے؟“ خالد لڑنے کے فن کو خوب سمجھتا تھا ۔اس نے دیکھ لیا تھا کہ یہ جگہ گھوڑوں کو گھما پھرا کر لڑانے کیلئے موزوں نہیں ہے بلکہ خطرناک ہے ۔خالد نے خاموشی سے اپنا گھوڑا گھمایا اور اپنے سواروں کے ساتھ وہاں سے نیچے اتر آیا ۔

جنگِ اُحد ختم ہو چکی تھی۔ قریش اس لحاظ سے برتری کا دعویٰ کر سکتے تھے کہ انہوں نے مسلمانوں کو زیادہ نقصان پہنچایا لیکن یہ جنگ ہار جیت کے بغیر ختم ہو گئی تھی۔ ”لیکن یہ ہماری شکست تھی۔“ خالد کو جیسے اپنی آواز سنائی دی۔ ”مسلمانوں کی نفری سات سو تھی اور ہم تین ہزار تھے۔ ہمارے پاس دو سو گھوڑے تھے ۔ہماری فتح تب ہوتی جب ہم محمد)ﷺ( کو قتل کردیتے۔“خالد نے اپنے آپ میں جھنجھناہٹ محسوس کی۔ اس پر ایسی کیفیت طاری ہو گئی کہ اس کے دانت بجنے لگے۔ اسے جنگ کا آخری منظر یاد آنے لگا تھا۔ اُس نے اِس بھیانک یاد کو ذہن سے نکالنے کیلئے سر کو جھٹکا دیا لیکن مکھیوں کی طرح یہ یاد اس کے ارد گرد بھنبھناتی رہی۔ اسے اپنے آپ میں شرم سی محسوس ہونے لگی ۔جنگجو یوں نہیں کیا کرتے ۔خالد جب حضرت عمرؓ کی للکار پر واپس آ رہا تھا تو اس بلندی سے اس کی نظر میدانِ جنگ پر پڑی ۔وہاں لاشیں بکھری ہوئی تھیں ۔شاید ان میں بے ہوش زخمی بھی ہوں گے۔ لاشوں اور زخمیوں کو اٹھانے کیلئے نہ ابھی مسلمان آگے بڑھے تھے نہ اہلِ قریش ۔خالد کو ابو سفیان کی بیوی ہند نظر آئی ۔وہ ہاتھ میں خنجر لیے ہوئے دوڑے چلی آ رہی تھی۔ اس کے اشارے پر قریش کی وہ عورتیں جو قریش کے لشکر کے ساتھ آئی تھیں اس کے پیچھے پیچھے دوڑی آئیں۔ ہند ہر ایک لاش کو دیکھتی تھی ۔وہ اونچے قد کی اور فربہی مائل جسم کی پہلوان قسم کی عورت تھی۔ وہ ہر ایک لاش کو دیکھتی تھی۔ کوئی لاش اوندھے منہ پڑی ہوئی نظر آتی تو وہ پاؤں کی ٹھوکر سے اس لاش کو سیدھا کر کے دیکھتی تھی۔ اس نے اپنے ساتھ کی عورتوں سے کہا کہ وہ حمزہؓ کی لاش تلاش کریں۔ اسے حمزہ ؓکی لاش مل گئی۔

جاری ہے......

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں