شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 5




⚔ شمشیرِ بے نیام ِ⚔

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

( قسط نمبر -5)



حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اپنے گھر گئے.
اپنی ایک خادمہ سے کہاکہ وہ یوحاوہ یہودن کو بلا لائے۔ یوحاوہ اتنی جلدی اس کے پاس آئی جیسے وہ اس کے بلاوے کے انتظار میں قریب ہی کہیں بیٹھی تھی۔’’تم نے مسلمانوں کو کامیابی سے دھوکا دیا ہے۔‘‘خالد نے یوحاوہ سے کہا۔’’ اورمغیث کے قبیلے کے لوگ تمہیں جادوگرنی کہنے لگے ہیں۔ لیکن یہ طریقہ مجھے پسند نہیں آیا۔‘‘’’میری بات غور سے سنو خالد !’’تم اپنے قبیلے کے نامور جنگجو ہو لیکن تم میں عقل کی کمی ہے۔ دشمن کو مارنا ہے ۔تلوار سے مارو اور اسے تیکھی نظروں سے ہلاک کر دو، تیر اور تلوار چلائے بغیر دشمن کو کوئی مجھ جیسی عورت ہی مار سکتی ہے۔

 آج چار برس بعد وہ جب صحرا میں تنہا جا رہا تھا۔ تو یوحاوہ کی باتیں اُسے یاد آ رہی تھیں۔ اس حد تک تو وہ خوش تھا کہ یہودی ان کے ساتھ تھے لیکن اسے یہ بھی معلوم تھاکہ یہودیوں کی دوستی میں جہاں مسلمانوں کی دشمنی ہے وہاں ان کے اپنے مفادات بھی ہیں ۔البتہ ا س نے یہ تسلیم کر لیا تھا کہ یوحاوہ اگر جادوگرنی نہیں تو اس کے سراپا میں جادو کا کوئی اثر ضرور ہے۔خالد کا گھوڑا مدینہ کی طرف چلا جا رہا تھا ۔ اس کے ذہن میں پھر خبیب ؓبن عدی اور زیدؓ بن الدثنہ آگئے۔ لوگ ان کی بولیاں بڑھ بڑھ کر دے رہے تھے۔ آخر سودا ہو گیا اور قریش کے دو آدمیوں نے انہیں بہت سے سونے کے عوض خرید لیا۔ یہ دونوں آدمی ان دونوں صحابیوںؓ کو ابو سفیان کے پاس لے گئے ۔’’ہم نے اپنے عقیدے سے ہٹ کر محمد )ﷺ(کے پاس چلے جانے والے ان دو آدمیوں کو اس لئے خریدا ہے کہ ان اہلِ قریش کے خون کا انتقام لیں جو احد کے میدان میں مارے گئے تھے۔‘‘ انہیں خریدنے والوں نے کہا ۔’’ہم انہیں آپ کے حوالے کرتے ہیں ۔آپ قریش کے سردار و سالار ہیں۔‘‘’’ہاں!‘‘ ابو سفیان نے کہا ۔’’مکہ کی زمین مسلمانوں کے خون کی پیاسی ہے ۔ان دو مسلمانوں کا خون اپنی زمین کو پلا دو۔لیکن مجھے یاد آ گیا ہے کہ یہ مہینہ جو گزر رہا ہے ہمارے دیوتاؤں عزیٰ اور ہبل کا مقدس مہینہ ہے ۔یہ مہینہ ختم ہو لینے دو ۔اگلے دن انہیں کھلے میدان میں لے جا کر لکڑی کے کھمبوں کے ساتھ باندھ دینا اور مجھے بلا لینا۔‘‘خالد نے جب ابو سفیان کا یہ حکم سنا تو وہ اس کے پاس گیا۔ ’’مجھے آپ کا یہ فیصلہ اچھا نہیں لگا ۔‘‘خالد نے ابو سفیان سے کہا ۔’’ہم دگنی اور تگنی تعداد میں ہوتے ہوئے اپنی زمین کو مسلمانوں کا خون نہیں پلا سکے تو ہمیں حق حاصل نہیں کہ دو مسلمانوں کو دھوکے سے یہاں لا کر ان کا خون بہایا جائے ۔ابو سفیان کیا آپ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کو دھوکا دینے والی تین چار عورتیں تھیں ؟کیا آپ اپنے دشمن سے یہ کہلوانا چاہتے ہیں کہ اہلِ قریش اب عورتوں کی آڑ میں بیٹھ گئے ہیں؟‘‘
’’خالد!‘‘ ابو سفیان نے با رعب لہجے میں کہا۔’’ خبیب اور زید کو میں بھی اتنا ہی اپنے قریب سمجھا کرتا تھا جتنا تم انہیں اپنے قریب سمجھتے تھے ۔تم اب بھی انہیں اپنے قریب سمجھ رہے ہو ؟اور یہ بھول رہے ہو کہ اب یہ ہمارے دشمن ہیں۔ اگر تم انہیں آزاد کرانا چاہتے ہو تو لاؤ اس سے دگنا سونا لے آؤ اور ان دونوں کو لے جاؤ۔‘‘ ’’نہیں!‘‘ پردے کے پیچھے سے ایک گرجدار نسوانی آواز آئی۔ یہ ابو سفیان کی بیوی ہند کی آواز تھی ۔اس نے غصے سے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔’’ حمزہ کا کلیجہ چبا کر بھی میرے سینہ میں انتقام کی آگ سرد نہیں ہوئی ہے ۔اگر ساری دنیا کا سونا بھی میرے آگے لا رکھو گے تو بھی میں ان دو مسلمانوں کو آزاد نہیں کروں گی۔‘‘
’’ابو سفیان !‘‘خالد نے کہا
اگر میری بیوی میری بات کے درمیان یوں بولتی تو میں اس کی زبان کھینچ لیتا۔‘‘ ’’تم اپنی بیوی کی زبان کھینچ سکتے ہو؟‘‘ہند کی آواز آئی۔’’ تمہارا باپ نہیں مارا گیا تھا۔ تمہارا کوئی بیٹا نہیں مارا گیا اور تمہارا چچا بھی نہیں مارا گیا۔ایک بھائی قید ہوا تھا اور تم مسلمانوں کے پاس جا کر منہ مانگا فدیہ دے کر اپنے بھائی کو چھڑا لائے ۔آگ جو میرے سینہ میں جل رہی ہے تم اس کی تپش سے نا آشنا ہو۔‘‘خالد نے ابو سفیان کی طرف دیکھا ۔ابو سفیان کے چہرے پر جہاں مردانہ جاہ و جلال اور ایک جنگجو سردار کا تاثر تھا۔ وہاں ایک خاوند کی بے بسی کی جھلک بھی تھی۔ ’’ہاں خالد!‘‘ ابو سفیان نے کہا ۔’’جس کے دل پر چوٹ پڑتی ہے اس کے خیالات تم سے بہت مختلف ہوتے ہیں ۔کسی کو اپنا دشمن کہنا کچھ اور بات ہے لیکن اپنے دشمن کو پنے کسی عزیز کا خون بخش دینا بڑی ہی ناممکن بات ہے۔ تم کس کس کو قائل کرو گے کہ وہ ان دو مسلمانوں کی جان بخشی کر دے؟ تم جاؤ خالد۔ ان دو مسلمانوں کو اپنے قبیلے کے رحم و کرم پر چھوڑ دو۔‘‘خالد خاموشی سے واپس چلا گیا۔پھر خالد کو وہ بھیانک منظر یاد آیا جب باہر میدان میں لکڑی کے دو کھمبوں کے ساتھ خبیبؓ اور زیدؓ بندھے کھڑے تھے۔ تماشائیوں کا چیختا چلاتا ہوا ہجوم اکھٹا ہو گیا تھا۔ اُدھر سے ابو سفیان اور ہند گھوڑوں پر سوار ہجوم میں داخل ہوئے ۔ہجوم کے نعرے اور انتقامی نعرے پہلے سے زیادہ بلند ہو گئے۔ اگر اس ہجوم میں کوئی خاموش تھا تو صرف خالد تھا۔ ابو سفیان گھوڑے پر سوار دونوں قیدیوں کے قریب گیا اور دونوں نے اسے کہا کہ’’ وہ زندگی کی آخری نماز پڑھنا چاہتے ہیں۔‘‘ ابو سفیان نے انہیں اجاز ت دے دی ۔

خالد اب مدینہ کی طرف جا رہا تھا۔ اسے جب وہ منظر یاد آیا کہ دونوں قیدیوں کے ہاتھ کھول دیئے گئے اور وہ قبلہ رو ہو کر نماز پڑھنے لگے ۔خالدپر اس وقت جو اثر ہوا تھا وہ اب چار برس بعد اس کی ذات سے ابھر آیا۔ گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھے بیٹھے خالد کا سر جھک گیا ۔خبیبؓ بن عدی اور زیدؓ بن الدثنہ ہجوم کی چیخ و پکار سے لا تعلق پنی موت سے بے پرواہ خدا کے حضور رکوع و سجود میں محوَ تھے۔ انہوں نے نہایت اطمینان سے نماز پڑھی ۔دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے۔ کوئی نہی بتا سکتا، تاریخ بھی خاموش ہے کہ انہوں نے خدا سے کیا دعا مانگی؟ انہوں نے خدا سے یہ نہیں کہا ہوگا کہ دشمن انہیں آزاد کردے۔وہ اٹھے اورخود ہی لکڑی کے کھمبوں کے ساتھ پیٹھیں لگا کر کھڑے ہو گئے۔ ’’او بد قسمت انسانو! ‘‘ابو سفیان نے بڑی بلند آواز سے خبیبؓ اور زیدؓ سے کہا۔’’ تمہاری قسمت اور زندگی میرے ہاتھ میں ہے۔ا پنی زبانوں سے کہہ دو کہ ہم اسلام کو ترک کرتے ہیں اور اب ہم اہلِ قریش میں سے ہیں اور تین سو ساٹھ بتوں کو برحق مانتے ہیں ۔یہ اعلان کر دو اور اپنی زندگیاں مجھ سے واپس لو۔اگر نہیں تو موت کو گلے لگاؤ۔ یہ بھی سوچ لو کہ تمہاری موت سہل نہیں ہو گی۔‘‘ ’’اے باطل کے پجاری ابو سفیان!‘‘زیدؓ کی آواز گرجی۔ ’’ہم لعنت بھیجتے ہیں پتھر کے ان بتوں پر جو اپنے اوپر بیٹھی ہوئی مکھی کو بھی نہیں اڑا سکتے۔ ہم لعنت بھیجتے ہیں عزیٰ اور ہبل پر جو تمہیں اگلے جہان دوزخ کی آگ میں پھینکیں گے۔ ہم پجاری ہیں اس ایک اﷲ کے جو رحمٰن اور رحیم ہے اور ہم عاشق ہیں محمد )ﷺ(کے جو اﷲکے رسول ہیں۔‘‘ ’’میرا رستہ وہی ہے جو زید نے تمہیں دِکھا دیا ہے۔‘‘ خبیب نے بلند آواز سے کہا۔’’اے اہلِ مکہ !سچا وہی ہے جس کے نام پر ہم قربان ہو رہے ہیں۔ ہمیں نئی زندگی ملے گی جو اس زندگی سے بہت زیادہ حسین اور مقدس ہو گی۔‘ ‘’’باندھ دو انہیں ان کھبوں کے ساتھ ۔‘‘ابو سفیان نے حکم دیا۔ ’’یہ موت کا ذائقہ چکھنے کے مشتاق ہیں ۔‘‘دونوں کے ہاتھ پیچھے کرکے کھمبوں کے ساتھ جکڑ دیئے گئے ۔ابو سفیان نے گھوڑا موڑا اور ہجوم کی طرف آیا۔

’’عزیٰ اور ہبل کی قسم! ‘‘ابو سفیان نے بلند آواز سے ہجوم سے کہا۔’’ میں نے اپنے قبیلے میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں دیکھا جو اپنے سردار پر اس محبت اور ایثار سے جان قربان کرنے کیلئے تیار ہو۔جس طرح محمد)ﷺ( کے پیروکار اس کے نام پر فدا ہوتے ہیں ۔‘‘ہند اپنے گھوڑے پر سوار کچھ دور کھڑی تھی۔ اس کے قریب اس کے چند ایک غلام کھڑے تھے۔ ایک غلام نے اپنے آقاؤ ں کو خوش کرنے کیلئے جوش کا ایسا مظاہرہ کیا کہ برچھی تان کر دونوں قیدیوں کی طرف کسی کے حکم کے بغیر بڑی تیز دوڑا اور کھمبے سے بندھے زیدؓ کے سینے پر برچھی کااتنا زور داروار کیا کہ برچھی کی انی زید کی پیٹھ سے باہر نکل گئی۔ زیدؓ بن الدثنہ فوراً شہید ہو گئے۔اس غلام نے سینہ تان کر ہجوم کی طرف خراجِ تحسین کی توقع پر دیکھا لیکن ہجوم کچھ اور ہی قسم کا شور بلند کرنے گا ۔تماشائی کہتے تھے کہ’’ یہ کوئی تماشا نہیں ہوا ۔یہ مسلمان اتنی سہل موت کے قابل نہیں ۔ہمیں کوئی تماشا دِکھاؤ۔‘‘’’ قتل کر دو اس غلام کو جس نے ایک مسلمان پر اتنا رحم کیا ہے کہ اسے اتنی جلدی مار ڈالا ۔‘‘ہند نے دبی آواز میں کہا ۔کئی آدمی تلواریں اور برچھیاں لہراتے اس غلام کی طرف دوڑے لیکن بہت سے آدمی دوڑ کر ان آدمیون اور غلام کے درمیان آ گئے۔ ’’خبردار! پیچھے کھڑے رہو۔‘‘ ایک آدمی نے جو گھوڑے پر سوار تھا للکار کر کہا ۔’’عربی خون اتنا بزدل نہیں کہ دو آدمیوں کو باندھ کر مارنے کیلئے قریش کاپورا قبیلہ اکھٹا ہو گیا ہے ۔خداکی قسم! ابو سفیان کی جگہ اگر میں ہوتا تو ان دونوں آدمیوں کو آزاد کر دیتا۔ یہ ہمارا خون ہیں اور یہ ہمارے مہمان ہیں ۔ہم ان سے میدان ِجنگ میں لڑیں گے۔یہ خالد تھا ۔‘‘’’یہ ٹھیک کہتا ہے۔‘‘ ہجوم میں سے کئی آوازیں سنائی دیں ۔’’دشمن کو باندھ کر مارنا عرب کی روایت کے خلا ف ہے۔‘‘تماشائیوں کے ہجوم میں سے بے شمار آوازیں ایسی سنائی دے رہی تھیں جو کہتی تھیں کہ ’’ہم تماشا دیکھیں گے۔ ہم دشمن کواس طرح ماریں گے کہ وہ مر مر کے جیئے۔‘‘تھوڑی دیر بعد تماشائیوں کا ہجوم دو حصوں میں بٹ گیا کہ ایک گروہ خبیبؓ کے قتل کے خلاف تھا اسے وہ عرب کی روایتی بہادری کے منافی سمجھتا تھا اور دوسرا گروہ خبیبؓ کو تڑپا تڑپا کہ مارنے کے نعرے لگا رہا تھا۔خالد نے جب اہلِ مکہ کو اور دور دور سے آئے ہوئے تماشائیوں کو اس طرح ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگاتے دیکھا تو وہ دوڑتاہوا ابو سفیان تک گیا۔
’’دیکھ لیا ابو سفیان!‘‘خالد نے کہا ۔’’دیکھ لیں ۔یہاں میرے کتنے حامی ہیں ،ایک کو مار دیا ہے دوسرے کو چھوڑ دیں ورنہ اہلِ قریش آپس میں ٹکرا جائیں گے ۔‘‘ہند نے خالد کو ابو سفیان کے پاس کھڑے دیکھا تو وہ سمجھ گئی کہ خالد بھی خبیبؓ کی رہائی کا حامی ہے۔ ہند نے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور ان دونوں کے پاس جا پہنچی۔’’خالد!‘‘ہند نے سخت بپھری ہوئی آواز میں کہا۔’’ میں جانتی ہوں تم کیا چاہتے ہو؟ کیا تم ابو سفیان کو اپنا سردار نہیں مانتے؟اگر نہیں تو یہاں سے چلے جاؤ۔ میں نے جو سوچاہے وہ ہو کر رہے گا۔ ‘‘’’خالد!‘‘ ابو سفیان نے کہا۔’’ا گر تم سمجھتے ہو کہ میرا حکم اور میرے ارادے صحیح نہیں تو بھی مجھے ان پر عمل کر نے دو۔ اگر میں نے اپنا حکم واپس لے لیا تو یہ میری کمزوری ہو گی۔ پھر لوگ میرے ہر حکم پر یہ توقع رکھیں گے کہ میں اپنا حکم واپس لے لوں۔‘‘خالد کو آج مدینہ کے راستے میں یاد آ رہا تھا اور اسے افسوس ہو رہا تھا کہ اس نے ابو سفیان کا حکم مان لیا تھا ۔خالد کی خوبیوں میں سب سے بڑی خوبی نظم و نسق اور اپنے سردار کی اطاعت تھی۔اس نے اپنے سینے پر پتھر رکھ کر صرف اس لئے ابوسفیان کا حکم مان لیا تھاکہ اہلِ قریش میں حکم عدولی کی روایت قائم نہ ہو۔’’اے اہلِ مکہ!‘‘ ابو سفیان نے دو گروہوں میں بٹے ہوئے تماشائیوں سے بلند آواز میں کہا۔’’ا گر آج یہاں دو مسلمانوں کے قتل پرہم یوں بٹ گئے تو ہم میدانِ جنگ میں بھی کسی نہ کسی مسئلے پر بٹ جائیں گے اور فتح تمہارے دشمن کی ہو گی۔ اگر اپنے سردار کی اطاعت سے یوں انحراف کرو گے تو تمہارا انجام بہت برا ہو گا۔‘‘ ہجوم کا شورور غوغا کم ہو گیا لیکن خالد نے دیکھا کہ اہلِ مکہ کے کئی ایک سردار چہروں پر نفرت کے آثار لیے واپس گھروں کو جا رہے تھے۔ انہیں دیکھ کر بہت سے لوگ بھی جو تماشا دیکھنے آئے تھے واپس چلے گئے۔ خالد وہاں نہیں رکنا چاہتا تھا لیکن وہ خطرہ محسوس کر رہا تھا کہ دونوں گروہ آپس میں ٹکرا جائیں گے۔ اس کے اپنے قبیلے کے زیادہ تر لوگ تماشائیوں میں موجود تھے وہ کم از کم اپنے قبیلے کو اپنے قابو میں رکھ سکتا تھا ۔ہند نے تماشے کا پورا انتظام کر رکھا تھا۔ اس کے اشارے پر چالیس کم سن لڑکے جن کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں، دوڑتے اور چیختے چلاتے ہوئے تماشائیوں میں سے نکلے اور خبیبؓ کے اردگرد ناچنے اور چیخنے چلانے لگے۔ دو چار لڑکے برچھیاں تانے ہوئے خبیبؓ تک جاتے اوردوڑ کر خبیبؓ پر وار کرتے تھے لیکن خبیبؓک و گزند پہنچائے بغیر ہاتھ روک لیتے ،خبیب ؓبدکتے اور نعرہ لگاتے تھے۔ ’’میرا خدا سچا ہے اورمحمد)ﷺ( خدا کے رسول ہیں۔‘‘ چند اور لڑکے اس طرح برچھیاں تان کران پر ہلہ بولتے جیسے خبیبؓ کے جسم کو چھلنی کر دیں گے لیکن وار کرکے وار روک لیتے۔ خبیب ؓکے بدکنے پر تماشائیوں کا ہجوم دادوتحسین کے نعرے اور قہقہے لگاتا ۔لڑکوں کا یہ کھیل کچھ دیر جاری رہا اس کے بعد لڑکوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ برچھی کا وار بڑی زور سے کرتے لیکن خبیبؓ کے جسم پر اتنا سا وار لگتا کہ برچھیوں کی انّیاں کھال میں ذرا سی اتر کر پیچھے جاتیں۔ بہت دیر تک یہی کھیل چلتا رہا۔ تماشائی دادوتحسین کے نعرے اور خبیبؓ ﷲ اکبر اور محمد رسول ﷲ)ﷺ(کے نعرے بلند کرتے رہے۔خبیبؓ کے کپڑے خون سے لال ہو چکے تھے ۔ابو جہل کا بیٹا عکرمہ ہاتھ میں برچھی لیے ان لڑکوں کے پاس جا پہنچا اور انہیں ہدایات جاری کرنے لگا ۔لڑکے اب اپنی برچھیاں خبیب ؓکے جسم میں چبھو رہے تھے ۔وہ گول دائرے میں گھومتے اور ناچتے تھے۔ خبیبؓ کے جسم کا کوئی بھی حصہ ایسا نہ رہا جہاں برچھی نہ چبھی ہو اور وہاں سے خون نہ ٹپک رہا ہو۔ ان کے چہرے پر بھی برچھیاں ماری گئیں ۔جب بہت دیر گزر گئی اور لڑکے ناچ ناچ کر اور برچھیاں چبھو چبھو کر تھک گئے تو عکرمہ نے لڑکوں کو وہاں سے ہٹا لیا۔ خبیبؓ خون میں نہائے ہوئے تھے اور ابھی زندہ تھے۔ اورہر طرف دیکھ رہے تھے۔ ان کے نعروں میں کمی نہیں آئی تھی۔ عکرمہ ان کے سامنے کھڑا ہو گیا اور برچھی تان کر خبیبؓ کے سینے میں اتنی زور سے ماری کہ فاصلہ کم ہونے کی وجہ سے برچھی خبیب ؓکے جسم سے پار ہو گئی۔ خبیبؓ شہید ہو گئے۔‘‘ ’’ان کی لاشیں یہیں بندھی رہنے دو ۔‘‘ہند کی گرجدار آواز سنائی دی۔ ’’اب کئی دن ان کی لاشوں کے گلنے سڑنے کا تماشا دیکھتے رہو۔‘‘یہ واقعہ جولائی ۶۲۵ء کا تھا۔جو خالد کو یاد آ رہا تھا ۔اس نے اپنے دل میں درد کی ٹیس محسوس کی۔خبیبؓ اور زیدؓ کے قتل نے قریش کے سرداروں میں اختلاف کا بیج بو دیا تھا۔ جس طرح ان دو مسلمانوں نے آخری وقت نماز پڑھی اور اسلام سے نکل آنے پر موت کو ترجیح دی تھی۔ اس نے قریش کے کئی سرداروں پر گہرا اثر چھوڑا تھا ۔خود خالد نے اگر اسلام کی نہیں تو خبیبؓ اور زیدؓ کی دل ہی دل میں بہت تعریف کی تھی۔

ابوسفیان اور اس کی بیوی ہند کے خلاف اس کے دل میں نا پسندیدگی پیدا ہو گئی تھی۔’’ جنگجوؤں کا شیوہ نہیں تھا۔‘‘ اس نے اپنے آپ سے کہا ۔’’یہ جنگجوؤں کو زیب نہیں دیتا ۔‘‘ایک روز وہ ان سرداروں کی محفل میں بیٹھا تھا جو رسولِ خدا ﷺ کے ان دو اصحابؓ کے قتل کے خلاف تھے ۔’’کیا تم سب جانتے ہو کہ مارے جانے والے یہی دو نہیں بلکہ چھ مسلمان تھے۔‘‘خالد نے پوچھا۔’’ہاں!‘‘ ایک نے جواب دیا۔’’ یہ شارجہ بن مغیث کا کام ہے ۔وہ ان چھ مسلمانوں کو دھوکے سے پھندے میں لایا تھا۔‘‘ ’’اوراس کے پیچھے مکہ کے یہودیوں کا دماغ کام کر رہا ہے۔‘‘ خالد نے کہا ۔’’اور اس میں یوحاوہ یہودن نے دوتین اور یہودی لڑکیاں ساتھ لے جا کر اپنے اور ان کے حسن کا جادو چلایا۔یوحاوہ جادوگرنی ہے۔‘‘ایک سردار نے کہا کہ’’ بھائی کو بھائی کے ہاتھوں ذبح کرا سکتی ہے۔ کیا یہ خطرہ نہیں کہ یہودی ہمیں بھی ایک دوسرے کا دشمن بنا دیں گے ۔‘‘کسی اور سردار نے کہا۔’’ نہیں ۔‘‘ایک بوڑھا سردار بولا۔’’ وہ محمد کے اتنے ہی دشمن ہیں جتنے ہم ہیں ۔یہودیوں کامفاد اس میں ہے کہ وہ ہمارے اور مسلمانوں کے درمیان دشمنی اتنی پکی اور اتنی شدید کر دیں کہ ہم مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دیں ۔‘‘’’ہمیں یہودیوں پر شک نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ایک سردار نے کہا۔’’ بلکہ ضرورت یہ ہے کہ ہم یہودیوں کو مسلمانوں کے خلاف زمین کے نیچے استعمال کریں ۔‘‘لیکن ایسے نہیں جیسے شارجہ نے کیا ۔خالد نے کہا ور ایسے بھی نہیں کہ جیسے ابو سفیان اور اس کی بیوی نے کیا ’’کیا تم سب جانتے ہو کہ یوحاوہ مکہ کے چند ایک یہودیوں کے ساتھ مدینہ چلی گئی ہے؟‘‘ بوڑھے سردار نے پوچھا ۔اور خود ہی جواب دیا۔’’ وہ مدینہ اور اردگرد کے یہودیوں اور دوسرے قبائل کو مسلمانوں کے خلاف ابھاریں گے ۔اسلام کے فروغ سے وہ لوگ خود خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ اگر محمد)ﷺ( کا عقیدہ پھیلتا چلا گیا تو اور میدانِ جنگ میں محمد )ﷺ(کے پیروکاروں کا جذبہ یہی رہا تو جو ہم دیکھ چکے ہیں تو خدائے یہودہ کا سورج غروب ہو جائے گا۔‘‘ ’’لیکن یہودی لڑنے والی قوم نہیں ۔‘‘خالد نے کہا ۔’’وہ میدانِ جنگ میں ہمارا ساتھ نہیں دی سکتی۔‘‘’’مسلمانوں کیلئے وہ میدانِ جنگ میں زیادہ مہلک ثابت ہوں گے۔‘‘ ایک اور سردار نے کہا۔’’ وہ اپنی یوحاوہ جیسی دل کش لڑکیوں کے ذریعے مسلمان سرداروں اور سالاروں کو میدانِ جنگ میں اترنے کے قابل نہیں چھوڑیں گے۔‘‘

یوحاوہ کا کردار خالد بھلا نہیں پا رہا تھا اور چار برس پرانی باتیں اسے سنائی دے رہی تھیں ۔وہ مدینہ کی طرف چلا جا رہا تھا اور احد کی پہاڑی اوپر اٹھتی چلی آرہی تھی ۔پھر یہ پہاڑی اس کی نظروں سے اوجھل ہونے لگی۔اس کا گھوڑا گھاٹی اتر رہا تھا۔ یہ کوئی ایک میل لمبا اور ڈیڑھ دو فرلانگ چوڑا نشیب تھا۔ اس میں کہیں کہیں مخروطی ٹیلے کھڑے تھے۔ یہ ریتیلی مٹی کے تھے ۔خالد کو دوڑتے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ اس نے چونک کر اُدھر دیکھا اور اس کا ہاتھ تلوار کے دستے پر چلا گیا ۔وہ چار پانچ غزال تھے جو اس سے نیچے دوڑتے جا رہے تھے ۔کچھ دور جا کر ایک غزال نے دوسرے غزال کے پہلو میں ٹکر ماری پھر دونوں غزال آمنے سامنے آ گئے اور ان کے سر ٹکرانے لگے ۔دوسرے غزال انہیں دیکھنے رک گئے۔’’اتنے خوبصورت جانور آپس میں لڑتے اچھے نہیں لگتے۔‘‘ خالدانہیں دیکھتا رہا ۔ایک تماشائی غزال نے خالد کے گھوڑے کو دیکھ لیا۔ا س نے گردن تانی اور کھر زمین پر مارا۔ لڑنے والے غزال جہاں تھے وہیں ساکت و جامد ہو گئے اور پھر تمام غزال ایک طرف بھاگ کھڑے ہوئے اور خالدکی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔قریش کے سردار دو گروہوں میں بٹ گئے تھے۔ ان کی آپس میں دشمنی پیدا نہیں ہوئی تھی لیکن پیار محبت اتحاد والی پہلی سی بات بھی نہیں رہی تھی۔خالد کو یاد آ رہا تھا کہ سب ابو سفیان کی سرداری اور سالاری کو تسلیم کرتے تھے۔ لیکن کھچاؤ سا پیدا ہو گیا تھا۔ جب اتحاد کی ضرورت تھی اس وقت اہلِ قریش نفاق کے راستے پر چل نکلے تھے۔ خالد کو یہ صورت حال سخت ناگوار گزرتی تھی۔’’کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آپس کا نفاق دشمن کو تقویت دیا کرتا ہے؟‘‘خالد نے ایک روز ابو سفیان سے کہا تھا ۔’’کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اس نفاق کو اتفاق میں کس طرح بدلہ جا سکتا ہے ؟‘‘’’بہت سوچا ہے خالد!‘‘ابو سفیان نے اکتائے ہوئے سے لہجے میں کہا تھا۔’’ بہت سوچا ہے۔ سب مجھے پہلے کی طرح ملتے ہیں لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ بعض کے دل صاف نہیں ۔کیا تم کوئی صورت پیدا کر سکتے ہو کہ دلوں سے مَیل نکالا جائے؟‘‘ ’’ہاں! میں نے ایک صورت سوچ رکھی ہے ‘‘۔خالد نے کہا تھا۔ ’’میں یہی تجویز آپ کے سامنے لا رہا تھا ،جن سرداروں کے دلوں میں میل پیدا ہوگئی ہے وہ اب سمجھنے لگے ہیں کہ ہم نام کے جنگجو رہ گئے ہیں اور ہم نے مسلمانوں کا ڈر اپنے دلوں میں بٹھا لیا ہے ۔شارجہ نے چھ مسلمانوں کو دھوکہ دے کر اور ان میں سے دو کو آپ کے ہاتھوں مروا کر ہماری شکل و صورت ہی بدل ڈالی ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ ہم مدینہ پر حملہ کریں یا مسلمانوں کو کہیں للکاریں اور ثابت کر دیں کہ ہم جنگجو ہیں اور ہم مسلمانوں کو ختم کر کے ہی دم لیں گے۔
’’ہمارے پاس جواز موجود ہے۔‘‘ابو سفیان نے کہا تھا۔’’ میں نے اُحد کی لڑائی میں آخر میں محمد )ﷺ(کو للکار کر کہا تھا کہ تم نے بدر میں ہمیں شکست دی تھی۔ ہم نے احد کی پہاڑی کے دامن میں انتقام لے لیا ہے ۔میں نے محمد سے یہ بھی کہا تھا کہ قریش کے سینوں میں انتقام کی آگ جلتی رہے گی ۔ہم اگلے سال تمہیں بدر کے مقام پر للکاریں گے۔‘‘’’ہاں! مجھے یاد ہے ۔‘‘خالد نے کہا۔’’ ادھر سے عمر کی آواز آئی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ ہمارے اﷲ نے چاہا تو ہماری اگلی ملاقات بدر کے میدان میں ہی ہو گی۔‘‘’’آواز تو عمر کی تھی،الفاظ محمد )ﷺ(کے تھے۔‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’محمد)ﷺ( بہت زخمی تھا۔ وہ اونچی آواز میں بول نہیں سکتا تھا۔ میں محمد)ﷺ( کو پیغام بھیجتا ہوں کہ فلاں دن بدر کے میدان میں آجاؤ اور اپنے انجام کو پہنچو۔‘‘
دونوں نے ایک دن مقرر کر لیا اور فیصلہ کیا کہ کسی یہودی کو مدینہ بھیجا جائے۔دوسرے ہی دن ابو سفیان نے قریش کے تمام سرداروں کو اپنے ہاں بلایا اور بڑے جوش و خروش کے ساتھ اعلان کیا کہ وہ مسلمانوں کو بدر کے میدان میں للکار رہا ہے۔ قریش یہی خبر سننے کے منتظر تھے۔ انہیں اپنے عزیزوں کے خون کا انتقام لینا تھا۔ان کے دلوں میں رسول ﷲﷺ کی نفرت بارود کی طرح بھری ہوئی تھی۔جوا یک چنگاری کی منتظر تھی۔وہ کہتے تھے کہ محمد )ﷺ(نے باپ بیٹے کو اور بھائی بھائی کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ہے۔ابو سفیان کے اس اعلان نے سب کے دل صاف کر دیئے اور وہ جنگی تیاریوں کی باتیں کرنے لگے۔ایک دانشمند یہودی کو پیغام دیا گیا کہ وہ مدینہ جا کر نبی کریمﷺ کو دے کر جواب لے آئے۔ خالد کو یاد آ رہا تھا کہ وہ اس روز کس قدر مطمئن اور مسرور تھا۔ قریش کے سرداروں کے دلوں میں جو تکدر پیدا ہو گیا تھا وہ صاف ہو گیا تھا ۔خالد بڑ ہانکنے والا آدمی نہیں تھا لیکن اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ رسولِ خداﷺ کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرے گا۔یہودی ایلچی جواب لے کر آ گیا۔رسول اﷲﷺ نے ابو سفیان کی للکار کو قبول کر لیا تھا۔لڑائی کا جو دن مقرر ہوا وہ مارچ ۶۲۶ء کا ایک دن تھا لیکن ہوا یوں کہ سردیوں کے موسم میں جتنی بارش ہوا کرتی تھی اس سے بہت کم ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ موسم تقریباً خشک گزر گیا اور مارچ کے مہینے میں گرمی اتنی زیادہ ہو گئی جتنی اس کے دو تین ماہ بعد ہوا کرتی تھی ۔ابو سفیان نے اس موسم کو لڑائی کیلئے موزوں نہ سمجھا۔اس یاد نے خالد کو شرمسار سا کر دیا۔وجہ یہ ہوئی تھی کہ ابو سفیان موسم کی گرمی کا بہانہ بنا رہا تھا۔ مشہور مؤرخ ابنِ سعد لکھتا ہے کہ ابو سفیان نے قریش کے سرداروں کو بلا کر کہا کہ وہ کوچ سے پہلے مسلمانوں کو خوفزدہ کرنا چاہتا ہے۔ اس نے یہودیوں کی خدمات حاصل کیں اور انہیں خاصی اجرت دے کر تاجروں کے بھیس میں مدینہ بھیج دیا۔انہیں ابو سفیان نے یہ کام سونپا تھا کہ وہ مدینہ میں یہ افواہ پھیلائیں کہ قریش اتنی زیادہ تعداد میں بدر کے میدان میں آ رہے ہیں جو مسلمانوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی.


جاری_ہے۔۔۔۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں