⚔ شمشیرِ بے نیام⚔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
قسط نمبر-9
اہلِ قریش ، غطفان اور دیگر قبائل جس محمد ﷺ کو شکست دینے آئے تھے وہ محمدﷺ کسی ملک کے بادشاہ نہیں تھے۔ وہ ﷲ کے رسولﷺ تھے۔ﷲ نے انہیں ایک عظیم پیغام دے کر رسالت عطا کی تھی۔ آپﷺ نے ﷲ سے مدد مانگی تھی ۔ﷲ اپنے رسولﷺ کو کیسے مایوس کرتا؟ اس کے علاوہ مدینہ کے اندر مسلمانوں کی عورتیں اور بچے دن رات اپنی کامیابی اور نجات کی دعائیں مانگتے رہتے تھے یہ دعائیں رائیگاں کیسے جاتیں؟
۱۸ مارچ ۶۲۷ء بروز منگل مدینہ کی فضا خاموش ہو گئی۔ سردی خاصی تھی، ہوا بند ہو گئی۔ موسم خوش گوار ہو گیا لیکن یہ طوفان سے پہلے کی خاموشی تھی۔ اچانک آندھی آ گئی جو اس قدر تیز و تند تھی کہ خیمے اڑنے لگے۔ جھکڑ بڑے ہی سرد تھے۔آندھی کی تندی اور اس کی چیخوں سے گھوڑے اور اونٹ بھی گھبرا گئے اور رسیاں تڑوانے لگے۔ مسلمانوں کی اجتماع گاہ سلع کی پہاڑی کی اوٹ میں تھی۔ ا س لیے آندھی انہیں اتنا پریشان نہیں کر رہی تھی جتنا مکہ کے لشکر کو ۔ قریش کھلے میدان میں تھے۔ آندھی ان کا سامان اڑارہی تھی ، خیمے اُڑ گئے یا لپیٹ دیئے گئے تھے ۔ لشکر کے سردار اور سپاہی اپنے اوپر ہر وہ کپڑا ڈال کر بیٹھ گئے تھے جو ان کے پاس تھا۔ ان کے لیے یہ آندھی خدا کا قہر بن گئی تھی ۔اس کی چیخوں میں قہر اور غضب تھا۔ ابو سفیان برداشت نہ کر سکا ،وہ اٹھا اسے اپنا گھوڑا نظر نہ آیا۔قریب ہی ایک اونٹ بیٹھا تھا۔ ابو سفیان اونٹ پر چڑھ بیٹھا اور اسے اٹھایا۔
مؤرخ ابنِ ہشام کی تحریر کے مطابق ابو سفیان بلند آواز سے چلانے لگا۔ ’’اے اہلِ قریش! اے اہلِ غطفان ! کعب بن اسد نے ہمیں دھوکا دیا ہے۔آندھی ہمارا بہت نقصان کر چکی ہے۔ اب یہاں ٹھہرنا بہت خطرناک ہے۔ مکہ کو کوچ کرو، میں جا رہا ہوں……میں جا رہا ہوں۔‘‘اس نے اونٹ کو مکہ کی طرف دوڑا دیا۔ خالد کو آج وہ منظر یاد آ رہا تھا۔تمام لشکر جسے مکہ سے مدینہ کی طرف کوچ کرتے دیکھ کر اس کا سینہ فخر سے پھیل گیا تھا اور سر اونچا ہو گیا تھا، ابو سفیان کے پیچھے پیچھے ڈری ہوئی بھیڑوں کی طرح جا رہا تھا۔ خالد اور عمرو بن العاص نے اپنے طور پر سوچا تھا کہ ہو سکتا ہے مسلمان عقب سے حملہ کر دیں، چنانچہ انہوں نے اپنے سوار دستوں کو اپنے قابو میں رکھ کر لشکر کے عقب میں رکھا تھا ۔ابو سفیان نے ایسے حفاظتی اقدام کی سوچی ہی نہیں تھی۔ اس پسپا ہوتے لشکر میں وہ آدمی نہیں تھے جو مارے گئے تھے اور اس لشکر میں نعیمؓ بن مسعود بھی نہیں تھے۔ قریش کا لشکر چلا تو نعیم ؓ آندھی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خندق میں اتر گئے اور رسولِ کریمﷺ کے پاس پہنچ گئے تھے
آج خالد مدینہ کی طرف اسی راستے پر جا رہا تھا جس راستے سے ا س کا لشکر ناکام واپس گیا تھا۔ اسے شیخین کی پہاڑی نظر آنے لگی تھی ۔ آندھی نے تاریخِ اسلام کا رخ موڑ دیا۔ آندھی نے یہ حقیقت واضح کردی کہ ﷲ حق پرستوں کے ساتھ ہوتا ہے۔رسولِ ﷲﷺ کے دشمنوں کی پسپائی تنکوں کی مانند تھی۔ جو آندھی میں اڑے جاتے ہیں اور انہیں ایک دوسرے کی خبر نہیں ہوتی۔ خالد کو یہ پریشانی لاحق تھی کہ مسلمان تعاقب کریں گے لیکن مسلمانوں نے تعاقب کی سوچی ہی نہیں تھی۔ اس آندھی میں تعاقب اور لڑائی مسلمانوں کے خلاف بھی جا سکتی تھی۔ جس دشمن کو ﷲ نے بھگا دیا تھا اس کے پیچھے جانا دانشمندی نہیں تھی۔ البتہ رسولِ کریمﷺ کے حکم سے چند ایک آدمیوں کو بلندیوں پر کھڑا کر دیا گیا تھا کہ وہ دشمن پر نظر رکھیں۔ ایسا نہ ہو کہ دشمن کہیں دور جا کر رک جائے اور منظم ہو کر واپس آجائے۔ آندھی اتنی مٹی اور ریت اڑا رہی تھی کہ تھوڑی دور تک بھی کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ بہت دیر بعد تین ،چار مسلمان گھوڑ سوار اس جگہ سے خندق پھلانگ گئے جہاں سے عکرمہ اور خالد کے گھوڑوں نے خندق پھلانگی تھی۔ وہ دور تک چلے گئے انہیں اڑتی ہوئی گرد اور ریت کے سوا کچھ بھی نظر نہ آیا۔ وہ رک گئے لیکن واپس نہ آئے۔شام سے کچھ دیر پہلے آندھی کا زور ٹوٹ گیااور جھکڑ تھم گئے ۔فضاء صاف ہو گئی اور نظر دور تک کام کرنے لگی۔ دور افق پر زمین سے گرد کے بادل اٹھ رہے تھے۔ وہ اہلِ قریش اور ان کے اتحادی قبائل کی پسپائی کی گرد تھی جو ڈوبتے سورج کی آخری کرنوں میں بڑی صاف نظر آ رہی تھی۔ یہ گرد مکہ کو جا رہی تھی۔ تعاقب میں جانے والے مسلمان سوار اس وقت واپس آئے جب رات بہت گہری ہو چکی تھی۔’’ﷲ کی قسم!‘‘انہوں نے واپس آ کر بتایا۔’’وہ جو ہمارے عقیدے کو توڑنے اور مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے آئے تھے، وہ مدینہ سے اتنی دہشت لے کر گئے ہیں کہ رک نہیں رہے۔ کہیں پڑاؤ نہیں کر رہے۔ کیا راتوں کو مسافر پڑاؤ نہیں کیا کرتے؟ کیا لشکر راتوں کو بھی چلتے رہتے ہیں؟ وہی چلتے رہتے ہیں جو منزل تک بہت جلدی پہنچنا چاہتے ہوں۔‘‘
احادیث،اور مؤرخوں کی تحریروں کے مطابق رسولِ کریمﷺ کو جب یقین ہو گیا کہ دشمن گھبراہٹ کے عالم میں بھاگا ہے اور ایسا امکان ختم ہو چکا ہے کہ وہ منظم ہوکر واپس آ جائے گا ، تب آپﷺ نے کمر سے تلوار کھولی،خنجر اتار کر رکھ دیا اور ﷲ کا شکر ادا کر کے غسل کیا۔ اس رات کی کوکھ سے جس صبح نے جنم لیا، وہ مدینہ والوں کے لیے فتح و نصرت اور مسرت و شادمانی کی صبح تھی۔ ہر طرف ﷲ اکبر اور خوشیوں کے نعرے تھے۔ سب سے زیادہ خوشی عورتیں اور بچے منا رہے تھے۔جنہیں چھوٹے چھوٹے قلعوں میں بند کردیا گیا تھا۔ وہ خوشی سے چیختے چلاتے باہر نکلے۔ مدینہ کی گلیوں میں مسلمان بہت مسرور پھر رہے تھے۔
فتح کے اس جشن میں بنو قریظہ کے یہودی بھی شامل تھے۔ رسولِ کریمﷺ نے انہیں امن و امان میں رہنے کے عوض کچھ مراعات دے رکھی تھیں۔ ظاہری طور پر وہ مسلمانوں کو اپنا دوست کہتے، اور دوستوں کی طرح رہتے تھے۔ اہلِ قریش کی پسپائی پر وہ مسلمانوں کی طرح خوشیاں منا رہے تھے لیکن ان کا سردار کعب بن اسد اپنے قلعے نما مکان میں بیٹھا تھا۔ اس کے پاس اپنے قبیلے کے تین سرکردہ یہودی بیٹھے تھے اور اُس وقت کی غیر معمولی طورپر حسین یہودن یوحاوہ بھی وہاں موجود تھی۔ وہ گذشتہ شام اہلِ قریش کی پسپائی کی خبر سن کر آئی تھی۔’’کیا یہ اچھا نہیں ہوا کہ ہم نے مسلمانوں پر حملے نہیں کیے؟ ‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’مجھے نعیم بن مسعود نے اچھا مشورہ دیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ قریش سے معاہدے کی ضمانت کے طور پر چند آدمی یرغمال کے لیے مانگو۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ قریش اس سے دگنا لشکر لے آئیں تو بھی خندق عبور نہیں کر سکتے۔ میں نے نعیم کا مشورہ اس لیے قبول کر لیا تھا کہ وہ اہلِ قریش میں سے ہے۔‘‘ ’’وہ اہلِ قریش میں سے نہیں۔‘‘ایک یہودی نے کہا۔’’وہ محمد کے پیروکاروں میں سے ہے۔‘‘ ’’خدائے یہودہ کی قسم! تمہاری بات سچ نہیں ہو سکتی۔‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’وہ اہلِ قریش کے ساتھ آیا تھا۔‘‘ ’’مگر ان کے ساتھ گیا نہیں۔‘‘ اسی یہودی نے کہا۔’’میں نے کل شام اسے مدینہ میں مسلمانوں کے ساتھ دیکھا ہے۔اس وقت تک اہلِ قریش کا لشکر مدینہ سے بہت دور جا چکا تھا۔‘‘’’پھر تمہیں کس نے بتایا ہے کہ وہ محمدﷺ کے پیروکاروں میں سے ہے؟‘‘کعب نے کہا۔’’میں ایسی بات کو کیوں سچ مانوں جو تم نے کسی سے پوچھا نہیں۔‘‘’’میں نے اپنے ایک مسلمان دوست سے پوچھا تھا۔‘‘یہودی نے کہا۔’’میں نے نعیم کو دیکھ کر کہا تھا،کیا مسلمان اب قریش کے جنگی قیدیوں کو کھلا رکھتے ہیں؟ میرے دوست نے جواب دیا تھا کہ نعیم کبھی کا اسلام قبول کرچکا ہے۔اسے مدینہ میں آنے کا موقع اب ملا ہے۔‘‘ ’’پھر اس نے ہمیں مسلمانوں سے نہیں بلکہ مسلمانوں کو ہم سے بچایا ہے۔‘‘ کعب بن اسد نے کہا۔’’اس نے جو کچھ بھی کیا ہے ، ہمارے لیے اچھا ثابت ہوا ہے۔ اگر ہم قریش کی بات مان لیتے تو……‘‘ ’’تو مسلمان ہمارے دشمن ہو جاتے۔‘‘ ایک اور یہودی نے کہا۔’’تم یہی کہنا چاہتے ہو نہ کعب! مسلمان پھر بھی ہمارے دشمن ہیں، ہمیں محمدﷺ کے نئے مذہب کو یہیں پر ختم کرنا ہے ورنہ محمدﷺ ہمیں ختم کرا دے گا۔‘‘’’کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ یہ مذہب جسے یہ لوگ اسلام کہتے ہیں ،کتنی تیزی سے مقبول ہوتا جا رہا ہے؟‘‘ تیسرے یہودی نے جو معمر تھا ،کہا۔’’ہمیں اس کے آگے بندھ باندھنا ہے۔اسے روکنا ہے۔‘‘’’لیکن کیسے؟‘‘کعب بن اسد نے پوچھا۔’’قتل۔‘‘ معمر یہودی نے کہا۔’’محمدﷺ کا قتل۔‘‘ ’’ایسی جرات کون کرے گا؟ ‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’تم کہو گے کہ وہ ایک یہودی ہو گا۔ اگر وہ محمدﷺ کے قتل میں ناکام ہو گیا تو بنو قینقاع اوربنو نضیر کا انجام دیکھ لو، مسلمانوں نے انہیں جس طرح قتل کیا ہے اوران میں سے زندہ بچ رہنے والے جس طرح دوردراز کے ملکوں کو بھاگ گئے ہیں وہ نہ بھولو۔‘‘ ’’خدائےیہودہ کی قسم!‘‘معمر یہودی نے کہا۔’’میری عقل تم سے زیادہ کام نہیں کرتی تو تم سے کم بھی نہیں،تم نے جو آج سوچا ہے وہ میں اور’’ لیث بن موشان‘‘ بہت پہلے سوچ چکے ہیں ۔ کوئی یہودی محمدﷺ کو قتل کرنے نہیں جائے گا۔‘‘’’پھر وہ کون ہو گا؟‘‘’’وہ قبیلۂ قریش کا ایک آدمی ہے۔‘‘بوڑھے یہودی نے جواب دیا۔’’لیث بن موشان نے اسے تیارکر لیا ہے ۔میرا خیال ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ یہ کام کر دیا جائے۔‘‘ ’’اگر تم لوگ بھول نہیں گئے کہ میں بنو قریظۃ کا سردار ہوں تو میں اس کام کی اجازت کیسے دے سکتا ہوں جو مجھے معلوم ہی نہ ہوکہ کیسے کیا جائے گا؟‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’اور مجھے کون بتائے گا کہ اس آدمی کو اتنے خطرناک کام کے لیے کیسے تیار کیا گیا ہے؟کیا اسے ابو سفیان نے تیار کیا ہے؟ خالدبن ولید نے تیار کیا ہے؟‘‘’’سنو کعب!‘‘بوڑھے یہودی نے کہا اور یہودی حسینہ یوحاوہ کی طرف دیکھا۔’’میں یہ بات لیث بن موشان کی موجودگی میں سناؤں تو کیا اچھا نہ ہوگا؟‘‘یوحاوہ نے کہا۔’’اس بات میں اس بزرگ کا عمل دخل زیادہ ہے۔‘‘ ’’ہم اس بوڑھے جادوگر کو کہاں سے بلائیں۔‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’ہم تم پر اعتبار کرتے ہیں۔‘‘ ’’وہ یہیں ہیں۔‘‘بوڑھے یہودی نے کہا۔’’ہم اسے ساتھ لائے ہیں اور ہم اسے بھی ساتھ لائے ہیں جو محمد ﷺ کو قتل کرے گا۔اب ہم انتظار نہیں کر سکتے۔ ہم سب کو امید تھی کہ قریش غطفان اور ان کے دوسرے قبائل اسلام کا نام و نشان مٹا دیں گے مگر ہر میدان میں انہوں نے شکست کھائی ۔ہم نے انہیں مدینہ پر حملہ کے لیے اکسایا تھا وہ یہاں سے بھی بھاگ نکلے۔ خدائے یہودہ کی قسم! کعب تم نے مسلمانوں پر عقب سے حملہ نہ کرکے بہت برا کیا ہے۔‘‘’’میں اس کی وجہ بتا چکا ہوں۔‘‘ کعب بن اسد نے کہا۔’’وجہ صحیح تھی یا غلط۔‘‘معمر یہودی نے کہا۔’’وقت ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ اب ہم قریش کی فتح کا انتظار نہیں کر سکتے۔ ‘‘اس نے یوحاوہ سے کہا۔’’لیث بن موشان کو بلاؤ دوسرے کو ابھی باہر رکھو۔‘‘یوحاوہ کمرے سے نکل گئی ۔واپس آئی تو اس کے ساتھ لیث بن موشان تھا ۔وہ ایک بوڑھا یہودی تھا جس کی عمر ستر اور اسی برس کے درمیان تھی۔اس کے سر اور داڑھی کے بال دودھ کی طرح سفید ہو چکے تھے۔ داڑھی بہت لمبی تھی،اس کے چہرے کا رنگ سرخ و سفید تھا ،اس نے اونٹ کے رنگ کی قبا پہن رکھی تھی۔ اس کے ہاتھ میں لمبا عصاتھا جو اوپر سے سانپ کے پھن کی طرح تراشا ہوا تھا ۔ لیث بن موشان کو یہودیوں میں جادوگر کے نام سے شہرت حاصل تھی۔ شعبدہ بازی اور کالے علم میں وہ مہارت رکھتا تھا ۔ وہ مکہ اور مدینہ کے درمیان کسی گاؤں کا رہنے والا تھا۔ اس کے متعلق بہت سی روایات مشہور تھیں، جن میں سے ایک یہ تھی کہ وہ مردے کو تھوڑی سی دیر کے لیے زندہ کر سکتا ہے اور وہ کسی بھی مرد یا عورت کو اپنے تابع کرنے کی طاقت رکھتا تھا۔
یہودی اسے اپنا پیرومرشد سمجھتے تھے ۔وہ جہاندیدہ اور عالم فاضل شخص تھا۔وہ کمرے میں داخل ہوا تو سب اس کی تعظیم کو اٹھے وہ جب بیٹھ گیا تو سب بیٹھے۔’’خاندانِ موشان کی عظمت سے کون واقف نہیں۔‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’خدائے یہودہ کی قسم! ہم میں سے کوئی بھی آپ کو یہاں بلانے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔ یوحاوہ شاید آپ کو لے آئی ہے۔‘‘ ’’میں پیغمبر نہیں، کعب بن اسد!‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’میں یہ خوبصورت الفاظ سننے کا عادی نہیں اور تعظیم و احترام کاوقت بھی نہیں۔کوئی نہ بلاتا تو بھی مجھے آنا تھا۔ تم لوگ اپنے فرض کی ادائیگی میں بہت وقت ضائع کر چکے ہو۔ تم سے یہ لڑکی اچھی ہے جس نے وہ کام کر لیا ہے جو تمہیں کرنا چاہیے تھا۔‘‘ ’’معزز موشان ‘‘کعب بن اسدنے کہا۔’’ہم نے ابھی اس انتہائی اقدام کی سوچی نہیں تھی۔اگر ہم محمد ﷺ کے قتل جیسا خوفناک ارادہ کرتے بھی تو یوحاوہ کو استعمال نہ کرتے۔ ہم اتنی خوبصورت اور جوان لڑکی کو استعمال نہیں کر سکتے-
جاری_ہے۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں