شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 14






⚔ شمشیرِ بے نیام⚔

  حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

قسط نمبر-14

میں مدینہ کا ایلچی ہوں اور بصرہ کو جا رہا ہوں۔‘‘ایلچی نے جواب دیا۔’’میں رسولِ ﷲﷺ کا پیغام تمہارے سردارِ اعلیٰ کے لئے لے جا رہا ہوں۔‘‘’’کیا تم قبیلہ قریش کے محمدﷺ کی بات کر رہے ہو؟‘‘شرحبیل بن عمرو نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔’’پیغام کیا ہے؟‘‘’’پیغام یہ ہے کہ اسلام قبول کرلو۔‘‘ایلچی نے کہا۔’’اور باطل کے عقیدے ترک کردو۔‘‘’’کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں اپنے سردارِ اعلیٰ کی اور اپنے مذہب کی توہین برداشت کرلوں گا۔‘‘شرحبیل بن عمرو نے کہا۔’’اگر تم زندہ رہنا چاہتے ہو تو یہیں سے واپس مدینہ چلے جاؤ۔‘‘’’میں بصرہ کے رستے سے ہٹ نہیں سکتا۔‘‘ایلچی نے کہا۔’’یہ رسول ﷲﷺ کا حکم ہے۔جس کی تعمیل میں ،میں فخر سے اپنی جان دے دوں گا۔‘‘’’اور میں بڑے فخر سے تمہاری جان لوں گا۔‘‘شرحبیل بن عمرو نے کہا،اور اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا۔ ایلچی کے تینوں محافظ باہربیٹھے تھے۔ اندر سے تین آدمی نکلے۔ وہ کسی کی خون آلود لاش گھسیٹتے ہوئے باہر لا رہے تھے ۔محافظوں نے دیکھا کہ لاش کی گردن کٹی ہوئی تھی۔ انہوں نے پہچان لیا،یہ ان کے ایلچی کی لاش تھی۔شرحبیل بن عمرو باہر آیا۔’’تم اس کے ساتھی تھے؟‘‘شرحبیل نے محافظوں سے کہا۔’’مجھے یقین ہے کہ اسکے بغیر تم بصرہ نہیں جاؤ گے۔‘‘’’نہیں!‘‘ایک محافظ نے جواب دیا۔’’پیغام اس کے پاس تھا۔‘‘’’جاؤ،مدینہ کو لوٹ جاؤ۔‘‘شرحبیل نے کہا۔’’اور محمدﷺ سے کہنا کہ ہم اپنے قبیلے اور اپنے عقیدے کی توہین برداشت نہیں کیا کرتے۔اگر یہ شخص بصرہ پہنچ جاتا تو وہاں قتل ہو جاتا۔‘‘’’خدا کی قسم!‘‘ ایک محافظ نے کہا۔’’ہم اپنے مہمان کے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا کرتے۔‘‘’’میں تمہیں مہمان سمجھ کرتمہاری جان بخشی کر رہا ہوں ۔‘‘شرحبیل نے کہا۔’’اور مجھے یہ نہ کہنا کہ میں تمہیں اس کی لاش دے دوں۔‘‘مدینہ کی تمام تر آبادی کو معلوم ہو چکا تھا کہ رسول ﷲﷺ کا ایلچی دعوتِ اسلام لے کر بصرہ گیا ہوا ہے۔سب ایلچی کی واپسی کے منتظر تھے لیکن تینوں محافظ ایلچی کے بغیر واپس آئے۔ان کے چہروں پر گرد کی تہہ اور تھکن کے آثار ہی نہیں تھے، غم و غصے کے تاثرات بھی تھے۔ وہ مدینہ داخل ہوئے تو لوگ ہجوم کرکے آگئے۔’’ﷲ کی قسم! ہم انتقام لیں گے۔‘‘محافظ بازو لہرا لہرا کر کہتے جا رہے تھے۔’’موتہ کے شرحبیل بن عمرو کا قتل ہم پر فرض ہو گیا ہے۔‘‘ جب یہ خبر رسول ﷲﷺ کو ملی تو باہر مدینہ کی آبادی اکھٹی ہو گئی تھی ۔عربوں کے رواج کے مطابق قتل کی سزا قتل تھی۔

باہر لوگ انتقام انتقام کے نعرے لگا رہے تھے۔ اس دور میں بھی آج کل کی طرح ایک دوسرے کے ایلچیوں کو جن کی حیثیت سفیروں جیسی ہوتی تھی، دشمن بھی تحفظ دیتا تھا۔کسی کے ایلچی کو قتل کر دینے کا مطلب اعلانِ جنگ سمجھا جاتا تھا۔’’اہلِ مدینہ!‘‘ رسول ِکریمﷺ نے باہر آ کر مدینہ والوں کے بکھرے ہوئے ہجوم سے فرمایا۔’’ میں نے انہیں لڑائی کے لئے نہیں للکارا تھا ۔ میں نے انہیں سچا دین قبول کرنے کو کہا تھا۔ اگر وہ لڑنا چاہتے ہیں تو ہم لڑیں گے ۔‘‘’’ہم لڑیں گے…… ہم انتقام لیں گے ۔مسلمان کمزور نہیں۔‘‘ہجوم نعرے لگا رہا تھا۔ ’’مسلمانوں کا خون اتنا ارزاں نہیں۔ ہم ﷲ اور رسولﷺ کے ناموس پر مرمٹیں گے۔‘‘رسولِ کریمﷺ کے حکم سے اسی روز مجاہدینِ اسلام کی فوج تیار ہو گئی۔ جس کی تعداد تین ہزار تھی ۔رسولِ کریمﷺ نے سپہ سالاری کے فرائض زید ؓبن حارثہ کو سونپے۔ ’’اگر زید شہید ہو جائیں تو سپہ سالار جعفر بن ابی طالب ہو گا۔‘‘نبی کریمﷺ نے فرمایا۔’’جعفر بھی شہید ہو جائے تو سپہ سالار عبداﷲ بن رواحہ ہو گا۔ اگر عبداﷲ کو بھی ﷲ شہادت عطا کردے تو فوج اپنا سپہ سالار خود چن لے۔‘‘مؤرخ ابنِ سعد اور مغازی لکھتے ہیں کہ رسولِ کریمﷺ نے یہ تین سپہ سالار درجہ بدرجہ مقرر کرکے مجاہدین کو دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔ آپﷺ نے سپہ سالار زید ؓبن حارثہ سے فرمایا کہ’’ موتہ پہنچ کر سب سے پہلے شرحبیل بن عمرو کو جو ہمارے ایلچی کا قاتل ہے، قتل کیا جائے۔ پھر موتہ اور اس کے اردگرد کے لوگوں کو کہا جائے کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔ انہیں بتایا جائے کہ اسلام کیا ہے؟اگر وہ قبول کر لیں تو ان پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے۔‘‘ مجاہدین کی اس فوج میں خالد ؓبن ولید محض سپاہی تھے۔ کسی دستے یا جیش کے کماندار بھی نہیں تھے۔ روم کے شہنشاہ ہرقل کی فوج آج کے اُردن میں کسی جگہ خیمہ زن تھی۔ یہ قبیلہ غسان کا علاقہ تھا۔ فوج کی تعداد مؤرخین کے مطابق ایک لاکھ تھی۔ یہ فوج اس علاقے کی بستیوں پر چھا چکی تھی ۔ کھڑی فصل گھوڑے اور اونٹ کھا رہے تھے۔ لوگوں کے گھروں سے اناج اور کھجوروں کے ذخیرے فوج نے اٹھالیے تھے اور جوان اور خوبصورت عورتیں فوج کے سرداروں اور کمانداروں کے خیموں میں تھیں۔ہرقل کا خیمہ قناطوں اور شامیانوں کا محل تھا۔ قبیلہ غسان کا سردارِ اعلیٰ ہرقل کے سامنے بیٹھا تھا۔ اسے ہرقل کی فوج کشی کی اطلاع ملی تھی تو وہ بیش قیمت تحائف اور اپنے قبیلے کی بے حد حسین دس بارہ لڑکیاں لے کر ہرقل کے استقبال کو چلا گیا تھا۔ اب ان لڑکیوں میں سے دو تین ہرقل کے پہلوؤں میں بیٹھی تھیں ۔ ’’اور تم نے بتایا ہے کہ مدینہ سے محمد ﷺ نے تمہیں پیغام بھیجا تھا کہ تمہارا قبیلہ اس کا مذہب قبول کر لے۔‘‘   ہرقل نے کہا۔ ’’میں نے یہ بھی بتایا ہے کہ میرے ایک سردار شرحبیل بن عمرو نے مدینہ کے ایلچی کو مجھ تک نہیں پہنچنے دیا۔ ‘غسان کے سردارِ اعلیٰ نے کہا۔’’اسے موتہ میں قتل کر دیا تھا۔‘‘’’کیا مدینہ والوں میں اتنی طاقت اور جرات ہے کہ وہ اپنے ایلچی کے قتل کا انتقام لینے آئیں ؟‘‘ہرقل نے پوچھا۔’’ان کی طاقت کم ہے اور جرات زیادہ ۔‘‘سردارِ اعلیٰ نے کہا۔’’ان لوگوں پر محمدﷺ کا جادو سوار ہے ۔ پہلے پہل مجھے ان کے متعلق اطلاعیں ملیں تو میں نے انہیں کوئی اہمیت نہیں دی۔ مگر انہوں نے ہر میدان میں فتح پائی اور ہر میدان میں ان کی تعداد بہت تھوڑی تھی۔میں نے سنا ہے کہ محمدﷺ اور اس کے سالاروں کی جنگی چالوں کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا۔ اس نے مجھے اپنے مذہب کا جو پیغام بھیجا تھا اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بہت طاقتور سمجھنے لگا ہے۔‘‘’’تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ ہرقل نے ایک نیم برہنہ لڑکی کے ہاتھ سے شراب کا پیالہ لیتے ہوئے پوچھا۔’’بات صاف کہہ دوں تو میرے لیے بھی اچھا ہے اور آپ کے لئے بھی ۔‘‘سردارِ اعلیٰ نے کہا۔’’میں نے آپ کی فوج دیکھ لی ہے ۔ میرا قبیلہ کوئی چھوٹا قبیلہ نہیں۔ اگر زیادہ نہیں تو آپ جتنی فوج میرے پاس بھی ہے۔آپ اپنے ملک سے دور ہیں ۔ اگر ہم لڑیں گے تو میں اپنی زمین پرلڑوں گا۔ جہاں کا بچہ بچہ آپ کا دشمن ہے ۔‘‘’’کیا تم مجھے دھمکی دے رہے ہو؟‘‘ ہرقل نے مسکرا کرپوچھا۔’’اگر یہ دھمکی ہے تو میں اپنے آپ کو بھی دے رہا ہوں۔‘‘ غسان کے سردارِ اعلیٰ نے کہا۔’’میں آپ کو آپس کی لڑائی کے نتائج بتا رہا ہوں۔ جو ہم دونوں کے لئے اچھے نہیں ہوں گے۔اس کا فائدہ مدینہ والوں کو پہنچے گا۔ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ ہم دونوں مل کر مسلمانوں کو ختم کردیں۔ میں فتح کی صورت میں آپ سے کچھ نہیں مانگوں گا مفتوحہ علاقہ آپ کا ہو گا۔ میں اپنے علاقے میں واپس آ جاؤں گا۔ ہم آپس میں لڑ کر اپنی طاقت ضائع نہ کریں۔ پہلے ایک ایسی طاقت کو ختم کریں جو مدینہ میں ہم دونوں کے خلاف تیار ہو رہی ہے۔‘‘’’میں تمہاری تجویز کو قبول کرتا ہوں۔‘‘ شہنشاہ ہرقل نے کہا۔’’پھر اپنی فوج کو حکم دے دیں کہ غسان کی بستیوں میں لوٹ مار بند کر دیں۔‘‘’’دے دوں گا۔‘‘ ہرقل نے کہا۔’’ہمیں مدینہ والوں کے انتظار میں نہیں رہنا چاہیے۔ہم مدینہ کی طرف بڑھیں گے۔‘‘

انہیں زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا۔ مدینہ کے تین ہزار مجاہدین مدینہ سے بہت دور نکل گئے تھے۔موتہ سے کچھ فاصلے پر معان نام کا ایک مقام تھا ۔وہاں انہوں نے پڑاؤ کیا۔ اس علاقے اور اس سے آگے کے علاقے میں مجاہدین اجنبی تھے۔انہیں کچھ خبر نہیں تھی کہ آگے کیا ہے۔ معلوم یہ کرنا تھا کہ آگے دشمن کی فوج موجود ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو کتنی ہے اور کیسی ہے؟یہ معلوم کرنے کے لئے تین چار مجاہدین کو قریب سے شتر سواروں کے بھیس میں آگے بھیج دیا گیا۔ ان آدمیوں نے رات آگے کہیں جاکر گزاری اور اگلی شام کو واپس آئے۔وہ جو خبر لائے تھے وہ اچھی نہیں تھی ۔ وہ دور آگے چلے گئے تھے۔ پہلے انہیں غسان کے دو کنبے نظر آئے جو نقل مکانی کر کے کہیں جا رہے تھے۔دونوں کنبوں میں نوجوان لڑکیاں اور جوان عورتیں زیادہ تھیں۔وہ لوگ امیر کبیر معلوم ہوتے تھے۔ان کا سامان کئی اونٹوں پر لدا تھا۔ یہ قافلہ ایک جگہ آرام کے لئے رکا ہوا تھا۔ مجاہدین بھی وہیں رک گئے اور انہوں نے قافلے والوں کے ساتھ راہ و رسم پیدا کرلی اور یہ ظاہر نہ ہونے دیا کہ وہ مسلمان ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بصرہ جا رہے ہیں اوروہاں سے تجارت کا سامان لائیں گے۔’’یہیں سے واپس چلے جاؤ ۔‘‘قافلے کے آدمیوں نے انہیں بتایا ۔’’روم کے بادشاہ ہرقل کا لشکر لوٹ مار اور قتل وغارت کرتا چلا آرہا ہے۔ تم سے اونٹ اور مال و دولت چھین لیں گے اور ہو سکتا ہے تمہیں قتل بھی کر دیں۔‘‘پھر ہرقل کی فوج کشی کی باتیں ہوتی رہیں پتا چلا کہ انہوں نے ہرقل کی فوج دیکھی نہیں صرف سنا ہے کہ یہ فوج اُردن میں داخل ہو کر لوٹ مار کر رہی ہے ۔ان کنبوں میں چونکہ عورتیں زیادہ تھیں اس لیے انہیں بچانے کے لئے یہ لوگ بھاگ نکلے۔ مجاہدین کے لئے ضروری ہو گیا کہ وہ ہرقل کے متعلق صحیح صورتِ حال معلوم کریں ۔یہ بہت بڑا خطرہ تھا۔ مجاہدین اور آگے چلے گئے۔ انہیں غسان کی ایک بستی نظر آگئی۔ وہ بستی میں چلے گئے۔ بتایا کہ وہ بصرہ جا رہے ہیں ۔ مگر راستے میں رہزنوں نے انہیں لوٹ لیا، بستی والوں نے انہیں کھانا کھلایا اور خاصی آؤ بھگت کی۔وہاں سے انہیں صحیح اطلاع ملی۔
صحیح صورتِ حال یہ تھی کہ ہرقل اورقبیلہ غسان کے درمیان معاہدہ طے پاگیا تھا۔ قبیلہ غسان نے اپنی فوج ہرقل کی فوج میں شامل کر دی تھی اور دونوں فوجوں کا رخ مدینہ کی طرف تھا۔ مؤرخوں نے ہرقل کی فوج کی تعداد ایک لاکھ ،اور ایک لاکھ غسان کی فوج کی تعداد لکھی ہے لیکن بعض مؤرخ اس سے اتفاق نہیں کرتے۔وہ دونوں فوجوں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ بتاتے ہیں ۔بہر حال مدینہ کی اسلامی فوج کی تعداد سب نے تین ہزار لکھی ہے۔

’’اگر ہم واپس چلے گئے تو یہ ہرقل اور غسان کے لئے دعوت ہوگی کہ بے دھڑک مدینہ تک چلے آؤ۔‘‘عبدﷲ ؓبن رواحہ نے کہا۔’’ہم دشمن کو یہیں پر روکیں گے۔‘‘’’کیا ہم اتنی تھوڑی تعداد میں اتنے بڑے لشکر کو روک سکیں گے؟‘‘ زیدؓ بن حارثہ نے پوچھا۔’’کون سے میدان میں ہم تھوڑی تعداد میں نہیں تھے؟‘‘جعفر ؓبن ابی طالب نے کہا ۔’’اگر ہم مل کر کسی فیصلہ پرنہیں پہنچ سکتے تو ہم میں سے کوئی مدینہ چلا جائے اور رسول ﷲﷺ سے احکام لے آئے ۔‘‘’’ہم اتنا وقت ضائع نہیں کر سکتے۔‘‘عبداﷲؓ نے کہا۔’’ دشمن ہمیں اتنی مہلت نہیں دے گا ۔ﷲ کی قسم !میں دشمن کو یہ تاثر نہیں دوں گا کہ ہم اس کے لشکر سے ڈر گئے ہیں ۔‘‘’’اور میں مدینہ میں یہ کہنے کے لئے داخل نہیں ہوں گا کہ ہم پسپا ہو کر آئے ہیں ۔‘‘زیدؓ نے کہا ۔’’جانیں قربان کر کے زندہ رہنے والوں کے لئے مثال قائم کر جائیں گے۔ یہ مت بھولو کہ غسان کی فوج میں عیسائیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ عیسائی اپنے مذہب کی خاطر لڑیں گے۔‘‘عبداﷲؓ بن رواحہ کھڑے ہوئے اور اپنے مجاہدین کو اکھٹا کر کے اتنے جوشیلے لہجے میں خطاب کیا کہ تین ہزار مجاہدین کے نعرے زمین و آسمان کو ہلانے لگے۔سپہ سالار زیدؓ بن حارثہ نے آگے کو کوچ کا حکم دے دیا۔مؤرخین لکھتے ہیں کہ مجاہدینِ اسلام نے اپنے آپ کو بڑے ہی خطرناک امتحان میں ڈال دیا۔ ہرقل اور غسان کے سردارِ اعلیٰ کو معلوم ہو گیا تھا کہ مدینہ سے چند ہزار نفری کی فوج اپنے ایلچی کے قتل کا انتقام لینے آرہی ہے۔ مجاہدین کو کچل ڈالنے کے لئے ہرقل اور غسان کے لشکر آ رہے تھے۔ مجاہدین بڑھتے چلے گئے اور بلقاء پہنچے۔انہیں اور آگے جانا تھا لیکن غسان کی فوج کے دو دستے جن کی تعداد مجاہدین کی نسبت تین گنا تھی،راستے میں حائل ہو گئے۔ زیدؓ بن حارثہ نے مجاہدین کو دور ہی روک لیااور ایک بلند جگہ کھڑے ہو کر علاقے کا جائزہ لیا ۔انہیں یہ زمین لڑائی کے لئے موزوں نہ لگی۔ دوسرے سالاروں سے مشورہ کرکے زیدؓ بن حارثہ مجاہدین کو پیچھے لے آئے۔ غسان کی فوج نے اسے پسپائی سمجھ کر مجاہدین کا تعاقب کیا ۔زیدؓ موتہ کے مقام پر رک گئے اور فوراً اپنے مجاہدین کو لڑائی کی ترتیب میں کر لیا۔ انہوں نے فوج کو تین حصوں میں ترتیب دیا۔دایاں اور بایاں پہلو اور قلب۔ دائیں پہلو کی کمان قطبہؓ بن قتاوہ کے پاس اور بائیں پہلو کی عبایہ ؓبن مالک کے ہاتھ تھی۔زیدؓ خود قلب میں رہے۔

’’ﷲ کے سچے نبی کے مجاہدوں ! ‘‘زیدؓ بن حارثہ نے بڑی بلند آواز سے مجاہدین کو للکارا۔’’ آج ہمیں ثابت کرنا ہے کہ ہم حق کے پرستار ہیں ۔آج باطل کے نیچے سے زمین کھینچ لو۔ اپنے سامنے باطل کا لشکر دیکھو اور اس سے مت ڈرو۔یہ لڑائی طاقت کی نہیں ،یہ جرات، جذبے اور دماغ کی جنگ ہے۔میں تمہارا سپہ سالار بھی ہوں اور عَلَم بردار بھی۔دشمن کا لشکر اتنا زیادہ ہے کہ تم اس میں گم ہو جاؤ گے۔لیکن اپنے ہوش گم نہ ہونے دینا۔ہم اکھٹے لڑیں گے اور اکھٹے مریں گے۔‘‘ زید نے عَلَم اٹھا لیا۔دشمن کی طرف سے تیروں کی پہلی بوچھاڑ آئی۔ زیدؓ کے حکم سے مجاہدین کے دائیں اور بائیں پہلو پھیل گئے اور آگے بڑھے ۔یہ آمنے سامنے کا تصادم تھا۔ مجاہدین دائیں اور بائیں پھیلتے اور آگے بڑھتے چلے گئے اور زید ؓنے قلب کو آگے بڑھا دیا۔وہ خود آگے تھے۔ یہ معرکہ ایسا تھا کہ مجاہدین کا حوصلہ اور جذبہ برقرار رکھنے کے لئے سپہ سالار کا آگے ہونا ضروری تھا۔چونکہ عَلَم بھی سپہ سالار زیدؓ بن حارثہ کے پاس تھا، اس لیے دشمن انہی پر تیر برساتا اور ہلّے بول رہا تھا ۔زیدؓ کو تیر لگ چکے تھے۔ جسم سے خون بہہ رہا تھا لیکن انہوں نے عَلَم نیچے نہ ہونے دیا اور ان کی للکار خاموش نہ ہوئی۔ عَلَم اٹھاتے ہوئے وہ تلوار بھی چلا رہے تھے۔پھر ان کے جسم میں برچھیاں لگیں۔آخر وہ گھوڑے سے گر پڑے اور شہید ہو گئے۔عَلَم گرتے ہی مجاہدین کچھ بد دل ہوئے لیکن جعفر ؓبن ابی طالب نے بڑھ کر عَلَم اٹھا لیا۔’’رسول ﷲﷺ کے شیدائیو !‘‘جعفر ؓنے عَلَم اوپر کرکے بڑی ہی اونچی آواز سے کہا۔’’ﷲ کی قسم! اسلام کا عَلَم گر نہیں سکتا۔‘‘اور انہوں نے زید ؓبن حارثہ شہید کی جگہ سنبھال لی۔

(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں