رسولِ کریمﷺ نے ایسی ایک مہم خالدؓ بن ولید کی زیرِکمان یمن کے شمال میں نجران بھیجی۔ وہاں قبیلہ بنو حارثہ بن کعب آباد تھا۔ان لوگوں نے رسولِ کریمﷺ کے پیغام کا مذاق اڑایا تھا ۔ خالدؓ مجاہدین کے ایک سوار دستے کو جس کی تعداد چار سو تھی ساتھ لے کر جولائی ۶۳۱ء میں یمن کو روانہ ہوئے۔ مشہور مؤرخ ابنِ ہشام نے لکھا ہے کہ رسول ﷲﷺ نے خالدؓ سے کہاکہ’’ انہیں حملے کیلئے نہیں بھیجا جا رہا بلکہ وہ پیغام لے کر جا رہے ہیں ۔ چونکہ بنو حارثہ سرکش ذہنیت کی وجہ سے کسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں اس لیے خالدؓ انہیں تین باتیں کہیں کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔ اگر وہ سرکشی سے باز نہ آئیں اور خونریزی کو پسند کریں تو انہیں خونریزی کیلئے للکارا جائے۔‘‘خالدؓ جس جارحانہ انداز سے وہاں پہنچے اور جس اندازسے انہوں نے بنو حارثہ بن کعب کو قبولِ اسلام کی دعوت دی اس نے مطلوبہ اثر دکھایا ۔اس قبیلے نے بلاحیل و حجت اسلام قبول کرلیا۔ خالدؓ واپس آنے کے بجائے وہیں رُکے رہے اور انہیں اسلام کے اصول اور ارکان سمجھاتے رہے۔ خالدؓ بن ولید جنہیں تاریخ نے فنِ حرب و ضرب کا ماہر اور صفِ اول کا سالار تسلیم کیا ہے ۔ نجران میں چھ مہینے مبلغ اور معلم بنے رہے۔ انہوں نے جب دیکھا کہ اسلام ان لوگوں کے دلوں میں اُتر گیا ہے تو خالدؓ جنوری ۶۳۲ء میں واپس آ گئے۔ ان کے ساتھ بنو حارثہ کے چند ایک سرکردہ افراد تھے جنہوں نے رسولِ کریم ﷺ کے دستِ مبارک پر بیعت کی ۔ رسولِ ﷲ ﷺ نے ان میں سے ایک کو امیر مقرر کیا۔ اسلام کے دشمنوں نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کو میدانِ جنگ میں شکست دینا ممکن نہیں رہا اور یہ بھی دیکھا کہ ا سلام لوگوں کے دلوں میں اتر گیا ہے تو انہوں نے اسلام کو نقصان پہنچانے کا ایک اور طریقہ اختیار کیا۔ یہ تھا رسالت اور نبوت کا دعویٰ۔ متعدد افراد نے نبوت کا دعویٰ کیا جن میں بنی اسد کا طلیحہ ،بنی حنیفہ کا مسیلمہ،اور یمن کا اسود عنسی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ اُس کا نام عقیلہ بن کعب تھا۔ کیونکہ اس کا رنگ کالا تھا اس لئے وہ اسود کے نام سے مشہورہوا۔ اسود عربی میں کالے کو کہتے ہیں ۔ وہ یمن کے مغربی علاقے کے ایک قبیلے عنس کا سردار تھا اس لئے اسے اسود العنسی کہتے تھے۔ تاریخ میں اس کا یہی نام آیا ہے۔ وہ عبادت گاہ کا کاہن بھی رہ چکا تھا ۔ بالکل سیاہ رنگت کے باوجود اس میں ایسی کشش تھی کہ لوگ اس کے ہلکے سے اشارے کا بھی اثر قبول کر لیتے تھے ۔ اس میں مقناطیس جیسی قوت تھی کہ عورتیں اس کے کالے چہرے کو نا پسند کرنے کے بجائے اس کے قریب ہونے کی کوشش کرتی تھیں۔ اس نے یہ پراسراریت عبادت گاہ میں حاصل کی تھی۔ کاہن کو لوگ دیوتاؤں کا منظورِ نظر اور ایلچی سمجھتے تھے۔
اس علاقے کے زیادہ تر لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تھا ۔ اسود کے اپنے قبیلے میں اسلام داخل ہو چکا تھا لیکن اسود نے ان کے خلاف کبھی کوئی بات نہیں کی تھی۔ جیسے ان لوگوں کے ساتھ اس کا کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ خود بھی مسلمان ہو گیا تھا۔ اس وقت یمن کا حکمران بازان نام کا ایک ایرانی تھا۔ ایران کا شہنشاہ خسرو پرویز(کسریٰ) تھا۔ رسولِ کریمﷺ نے دور کے ملکوں کے جن بادشاہوں کو قبولِ اسلام کے خطوط لکھے تھے ان میں شہنشاہِ ایران بھی تھا،اسے خط دینے کیلئے رسول ﷲﷺنے عبدﷲ بن حذافہ کو بھیجا تھا۔ عبدﷲ ؓنے خسرو پرویز کے دربارمیں اسے خط دیا۔ اس نے خط کسی اور کو دے کر کہاکہ اسے اس کا ترجمہ سنایا جائے۔ اسے جب خط اس کی زبان میں سنایا گیا تو وہ آگ بگولہ ہو گیا۔ اس نے غصے سے باؤلا ہو کر خط کو بری طرح پھاڑ کر اس کے پرزے پھینک دیئے اور عبدﷲ ؓبن حذافہ کو دربار سے نکال دیا۔ عبدﷲ ؓاتنی دور کی مسافت سے آئے اور رسول ﷲﷺ کے حضور بتایا کہ شہنشاہِ ایران نے خط پھاڑ ڈالا ہے۔ خسرو پرویز کا غصہ خط پھاڑنے سے ٹھنڈ انہیں ہوا تھا۔ یمن پر ایران کی حکمرانی تھی اور بازان وہاں کا گورنر تھا۔ شہنشاہ ایران نے اپنے گورنر بازان کو خط بھیجا کہ حجاز میں محمدﷺ نام کا ایک آدمی ہے جس نے نبوت کا دعویٰ کر رکھا ہے۔ اس نے لکھا کہ رسولِ کریمﷺ کو زندہ پکڑ کر یا آپﷺ کا سرکاٹ کر اس کے دربار (ایران) میں پیش کیا جائے۔ بازان نے یہ خط اپنے دو آدمیوں کو دے کر مدینہ بھیج دیا ،مؤرخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض لکھتے ہیں کہ بازان نے ان آدمیوں کو رسول ﷲﷺ کو پکڑ لانے یا قتل کرکے آپﷺ کا سر لانے کیلئے بھیجا تھا اور کچھ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ بازان نے اسلام تو قبول نہیں کیا تھا لیکن وہ حضورﷺسے اتنا متاثر تھا کہ آپ ﷺ کو اپنے شہنشاہ کے ارادے سے خبردار کرنا چاہتا تھا،بہرحال مؤرخ اس واقعے پر متفق ہیں کہ بازان کے بھیجے ہوئے دو آدمی رسول ﷲﷺ کے یہاں گئے تھے اور خسرو پرویز نے جو خط بازان کو لکھا تھا وہ آپﷺ کے حضور پیش کیا تھا۔رسولﷲ ﷺ نے خط دیکھا اور آپﷺ نے مسکرا کر کہا کہ شہنشاہِ ایران گذشتہ رات اپنے بیٹے شیرویہ کے ہاتھوں قتل ہو گیا ہے اور آج صبح سے ایران کا شہنشاہ شیرویہ ہے۔’’گذشتہ رات کے قتل کی خبر مدینہ میں اتنی جلدی کیسے پہنچ گئی؟‘‘بازان کے ایک آدمی نے پوچھا اور کہنے لگا ’’کیا یہ ہمارے شہنشاہ کی توہین نہیں کہ یہ غلط خبر پھیلا دی جائے ،کہ اسے اس کے بیٹے نے قتل کر دیا ہے۔‘‘’’مجھے میرے ﷲ نے بتایا ہے ۔‘‘رسولِ کریمﷺ نے کہا۔’’ جاؤ !بازان کو بتا دو کہ اس کا شہنشاہ اب خسرو نہیں شیرویہ ہے۔‘‘رسولِ ﷲﷺ کو یہ خبر بذریعہ الہام ملی تھی۔
بازان کے آدمی واپس گئے اور اسے بتایا کہ رسول ﷲﷺ نے کیا کہا ہے ۔ تین چار دنوں بعد بازان کو اپنے نئے شہنشاہ شیرویہ کا خط ملا ۔ اس میں تحریر تھا کہ خسرو پرویز کو فلاں رات ختم کر دیا گیا ہے ۔ یہ وہی رات تھی جو حضورﷺ نے بتائی تھی۔ کچھ دنوں بعد بازان کو رسولِ کریمﷺ کا خط ملا کہ وہ اسلام قبول کرلے۔ بازان پہلے ہی آپﷺ سے متاثر تھا ۔ الہام نے اسے اور زیادہ متاثر کیا۔ رسول ﷲﷺ نے اسے یہ بھی لکھا تھا کہ اسلام قبول کرلینے کی صورت میں وہ بدستور یمن کا حاکم رہے گا اور اس کی حکمرانی کا تحفظ مسلمانوں کی ذمہ داری ہو گی۔ بازان نے اسلام قبول کرلیا اور وہ حاکم ِ یمن رہا۔ تھوڑے ہی عرصے بعد فوت ہو گیا۔
رسولِ اکرمﷺ نے یمن کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا اور ہر حصے کا الگ حاکم مقررکیا۔ بازان کا بیٹاجس کانام’’ شہر ‘‘تھا۔رسولِ کریمﷺ نے اسے صنعاء اور اس کے گردونواح کے علاقے کا حاکم بنایا۔ یہ خبر اُڑی تھی کہ اسود عنسی یمن کے علاقہ مذحج میں چلا گیا ہے اور ایک غار میں رہتا ہے جس کا نام خبان ہے ۔ اچانک یہ خبر ہوا کی طرح سارے یمن میں پھیل گئی کہ اسود غار سے نکل آیا ہے اور اسے خدا نے نبوت عطا کی ہے اور اب وہ اسود عنسی نہیں ،’’رحمٰن الیمن ‘‘ہے۔ خبر سنانے والے کسی شک کا اظہار نہیں کرتے تھے بلکہ وہ مصدقہ خبر سناتے تھے کہ اسود کو نبوت مل گئی ہے۔ انہوں نے اسے نبی تسلیم کرلیا تھا۔’’جاکر دیکھو!‘‘ خبر سنانے والے کہتے پھرتے تھے۔’’ مذحج جا کر دیکھو ،رحمٰن الیمن مردوں کو زندہ کرتا ہے۔ آگ کے شعلوں کو پھول بنا دیتا ہے ۔ چلو لوگوں چلو، اپنی روح کی نجات کیلئے چلو۔‘‘جن لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تھا وہ بھی مذحج کو اٹھ دوڑے۔ اسود چونکہ کاہن رہ چکا تھا اس لئے لوگ پہلے ہی تسلیم کرتے تھے کہ دیوتاؤں نے اسے کوئی پراسرار طاقت دے رکھی ہے۔ اب اس نے نبوت کا دعویٰ کیا تو لوگوں نے فوراً اس دعویٰ کو تسلیم کرلیا۔ غارِ خبان کے سامنے ہر لمحہ لوگوں کا ہجوم رہنے لگا۔ وہ اسود کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے بے تاب رہتے تھے۔ وہ دن کو تھوڑے سے وقت کیلئے باہر نکلتا تھا اور غار کے قریب ایک اونچی جگہ کھڑے ہوکر لوگوں کو قرآن کی آیات کی طرز کے جملے سناتا اورکہتا تھا کہ’’ اس کے پاس ایک فرشتہ آتا ہے جو اسے ہر روز خدا کی طرف سے ایک آیت اور راز کی ایک دو باتیں بتا جاتا ہے ۔‘‘
وہ لوگوں کو اپنے معجزے بھی دِکھایا کرتا تھا مثلاً جلتی ہوئی مشعل اپنے منہ میں ڈال لیا کرتا اور جب مشعل اس کے منہ سے نکلتی تو وہ جل رہی ہوتی تھی۔ اس نے ایک لڑکی کو ہوا میں معلق کرکے بھی دکھایا ۔ ایسے ہی چند اور شعبدے تھے جو وہ لوگوں کو دکھاتا تھا اور لوگ انہیں معجزے کہتے تھے۔ ایک تو وہ چرب زبان تھا ،دوسرے وہ خوش الحان تھا ۔ اس کے بولنے کا انداز پرکشش تھا۔ اس نے یمن والوں کو یہ نعرہ دے کر ’’یمن! یمن والوں کا ہے‘‘ ۔ ان کے دل موہ لیے تھے۔یمنی بڑی لمبی مدت سے ایرانیوں کے زیرِ نگیں چلے آ رہے تھے۔ ایرانی تسلط بازان کے قبولِ اسلام کے ساتھ ہی ختم ہوگیا تو حجاز کے مسلمان آ گئے۔ اس کے علاوہ وہاں یہودی ،نصرانی اور مجوسی بھی موجود تھے۔ یہ سب اسلام کی بیخ کنی چاہتے تھے۔ انہوں نے اسود عنسی کی نبوت کے قدم جمانے میں در پردہ بہت کام کیا۔ اسود اپنی نبوت کی صداقت ایک گدھے کے ذریعے ثابت کیا کرتا تھا ۔ اس کے سامنے ایک گدھا لایا جاتا وہ گدھے کو کہتا بیٹھ جا۔ گدھا بیٹھ جاتا ۔ پھر کہتا میرے آگے سر جھکا ، گدھا سجدے کے اندازسے سر جھکا دیتا، گدھے کیلئے اس کا تیسراحکم ہوتا، میرے آگے گھٹنے ٹیک دے۔ گدھا اس کے آگے گھٹنے ٹیک دیتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اسود عنسی کو یمن کے لوگوں نے نبی مان لیا،اسود نے ان لوگوں کو ایک فوج کی صورت میں منظم کرلیا،اس نے سب سے پہلے نجران کا رخ کیا۔ وہاں رسول ِکریمﷺ کے مقررکیے ہوئے دو مسلمان حاکم تھے ۔ خالد ؓبن سعید اور عمروؓ بن حزم۔ اسود کے ساتھ بہت بڑا لشکر تھا جو نجران میں داخل ہوا تو وہاں کے باشندے بھی اس کے ساتھ مل گئے ۔ دونوں مسلمان حاکموں کیلئے پسپائی کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ۔ اسود عنسی اس پہلی فتح سے سرشار ہو گیا اوراس کے لشکر کی تعدا د بھی زیادہ ہو گئی۔ اس نے نجران میں اپنی حکومت قائم کرکے صنعاء کی طرف پیش قدمی کی۔ وہاں بازان کا بیٹا شہر حکمران تھا۔ اس کے پاس فوج تھوڑی تھی پھر بھی وہ مقابلے میں ڈٹ گیا ۔ اس کی للکار نے اپنی فوج کے قدم اکھڑنے نہ دیے ۔لیکن شہر بن بازان چونکہ اپنی فوج کا حوصلہ قائم رکھنے کیلئے سپاہیوں کی طرح لڑ رہا تھا، اس لئے شہید ہو گیا۔ اِس سے اُس کی فوج کا حوصلہ ٹوٹ گیا۔ اسود کے خلاف لڑنے والے وہ یمنی بھی تھے جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا لیکن شکست کی صورت میں جان کا خطرہ مسلمانوں کو تھا۔ انہیں اسود کے لشکر کے ہاتھوں قتل ہونا تھا ۔ اسود کسی مسلمان کو نہیں بخشتا تھا چنانچہ مسلمان جانیں بچا کر نکل گئے اور مدینہ جا پہنچے۔
اسود عنسی جو اب’’ رحمٰن الیمن ‘‘کہلاتا تھا ،حضرموت ،بحرین ، احسا ء اور عدن تک کے تمام علاقوں پر بھی قبضہ کرکے تمام یمن کا بادشاہ بن گیا۔ اسلام کیلئے یہ بہت بڑا چیلنج تھا۔ شمال کی طرف سے رومیوں کے حملے کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا تھا۔ اس خطرے کو ختم کرنے کیلئے رسولِ ﷲﷺ نے ایک لشکر رومیوں پر حملے کیلئے تیار کیا تھا، جس کے سالارِ اعلیٰ بائیس سالہ نوجوان اسامہؓ تھے ۔ جو رسولِ کریمﷺ کے آزادکیے ہوئے غلام زیدؓ بن حارثہ کے بیٹے تھے۔ زیدؓ بھی سالار تھے اور وہ موتہ کے معرکے میں شہید ہو گئے تھے۔ یمن کو ایک خودساختہ نبی سے نجات دلانے کیلئے بہت بڑے لشکر کی ضرورت تھی ۔لیکن لشکر رومیوں کے خلاف لڑنے کیلئے جا رہا تھا، اگر رومیوں پر حملے ملتوی کرکے اس لشکر کو یمن بھیج دیا جاتا تو رومی یہ فائدہ اٹھاسکتے تھے کہ مدینہ پر حملہ کر دیتے۔ یہ خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا تھا۔ رسول ﷲﷺ نے دوسری صورت یہ سوچی کہ یمن میں جو مسلمان مجبوری کے تحت رہ گئے ہیں اور جنہوں نے اسود عنسی کی اطاعت قبول کرلی ہے انہیں اسود کا تختہ الٹنے کیلئے استعمال کیا جائے۔ اس طریقۂ کار کو حضورﷺ کے تمام سالاروں نے پسند کیا۔ اس مقصد کیلئے چند ذہین قسم کے افراد کو یمن بھیجنا تھا۔ رسول ﷲﷺ کی نظرِ انتخاب ’’قیس بن ہبیرہ‘‘ پر پڑی۔ آپﷺ نے انہیں بلا کر یمن جانے کا مقصد سمجھایا اور پوری طرح ذہن نشین کرایا کہ’’ اُنہیں اپنے آپ کو چھپا کر وہاں کے مسلمانوں سے ملنا ملانا ہے اور ایک زمین دوز جماعت تیار کرنی ہے جو اس جھوٹے نبی اور عیش و عشرت میں ڈوبے ہوئے خود ساختہ بادشاہ کا تختہ الٹے ۔‘‘آپﷺ نے قیس بن ہبیرہ سے یہ بھی کہا کہ وہ مدینہ سے اپنی روانگی کو بھی خفیہ رکھیں اور یمن تک اس طرح پہنچیں کہ انہیں کوئی دیکھ نہ سکے۔ اس پُرخطر مہم کو اور زیادہ مستحکم کرنے کیلئے رسولِ کریمﷺ نے دبر بن یحنس کو یک خط دے کر یہ کہا کہ یمن میں کچھ مسلمان سردار موجود ہیں جنہوں نے مجبوری کے تحت اسود کی اطاعت قبول کرلی ہے ۔ یہ خط انہیں پڑھواکر ضائع کر دینا ہے اور باقی کام قیس بن ہبیرہ کریں گے۔ اسودعنسی نے جب صنعاء پر حملہ کیا تھا تو وہاں کے حاکم ’’شہر بن بازان ‘‘نے مقابلہ کیا۔ لیکن وہ شہید ہو گیا تھا۔ اسکی جواں سال بیوی جس کا نام آزاد تھا، اسود کے ہاتھ چڑھ گئی۔ آزاد غیر معمولی طور پر حسین ایرانی عورت تھی،اس نے اسود کو قبول کرنے سے انکار کر دیا لیکن اسود نے اسے جبراً اپنی بیوی بنا لیا تھا ۔آزاد اب اس شخص کی اسیر تھی جس سے وہ انتہا درجے کی نفرت کرتی تھی ۔ اکیلی عورت کر بھی کیا سکتی تھی، اس کی خوش نصیبی صرف اتنی تھی کہ اسود عورتوں کا دلدادہ تھا ،اس نے اپنے حرم میں بیسیوں عورتیں رکھی ہوئی تھیں ۔ اسے تحفے میں بھی نوجوان لڑکیاں ملا کرتی تھیں ۔ وہ ہر وقت عورت اور شراب کے نشے میں بد مست رہتا تھا۔ رسولِ اکرمﷺ کے بھیجے ہوئے قیس بن ہبیرہ چوری چھپے سفر کرکے اور بھیس بدل کر صنعاء پہنچے۔ اسود نے صنعاء کو اپنا دارالحکومت بنالیا تھا۔ادھر دبر بن یحنس ایک مسلمان سردارکے ہاں خط لے کر پہنچ گئے ۔ اس مسلمان سردار نے یہ یقین تو دلا دیا کہ وہ ایسے چند ایک مسلمان سرداروں کو اکھٹا کر لے گا جنہوں نے دل سے اسود کی اطاعت قبول نہیں کی ۔ لیکن اسود کا تختہ الٹنا ممکن نظر نہیں آتا تھا کیونکہ وہ صرف بادشاہ ہی نہیں ،یمن کے باشندے اسے اپنا نبی مانتے تھے۔
قیس بن ہبیرہ ایک ایسے ٹھکانے پر پہنچ گئے جہاں رسولِ کریمﷺ کے شیدائی مسلمان موجود تھے۔ ان مسلمانوں نے بھی وہی بات کہی جو مسلمان سردار نے کہی تھی لیکن ان مسلمانوں نے ایسی کوئی بات نہ کہی کہ وہ اس زمین دوز تحریک میں شامل نہیں ہوں گے۔ انہوں نے پر عزم لہجے میں کہا کہ وہ خفیہ طریقہ سے وفادار مسلمانوں کو اکھٹا کرلیں گے۔’’ہم اس جھوٹے نبی کو ختم کرنے کیلئے زیادہ انتظار نہیں کرسکتے۔‘‘ایک مسلمان نے کہا۔’’جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
کیا تم لوگ یہ نہیں سوچ سکتے کہ اس شخص کو قتل کر دیا جائے۔‘‘’’قتل کون کرے گا؟‘‘ایک اور مسلمان نے پوچھا۔’’اور اسے کہاں قتل کیا جائے گا۔ وہ محل کے باہر نکلتا ہی نہیں ۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ محل کے اردگرد محافظوں کا بڑا سخت پہرہ ہوتا ہے ۔ کیا ہم میں کوئی ایسا آدمی نہیں جو اسلام کے نام پر اپنی جان قربان کردے؟‘‘قتل کا مشورہ دینے والے مسلمان نے پوچھا۔’’اس طرح جان دینے سے کیا حاصل کہ جسے قتل کرنا ہے اس تک پہنچ ہی نہ سکیں ؟‘‘اس مسلمان نے کہا۔’’بہرحال ہمیں خفیہ طریقے سے یہ تحریک چلا نی ہے کہ کم از کم مسلمان بغاوت کیلئے تیار ہو جائیں ۔‘‘اسود عنسی نے یمن پر قبضہ کر کے پہلا کام یہ کیا تھا کہ ایران کے شاہی اور دیگر اعلیٰ خاندانوں کے جو ایرانی. اس کے ہاتھ چڑھ گئے تھے انہیں اس نے مختلف طریقوں سے ذلیل وخوار کر کے رکھ دیا تھا ۔ ان کی حالت زرخرید غلاموں سے بدتر کر دی گئی تھی۔ لیکن اسود کی حکومت میں سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ اس کے پاس نہ کوئی تجربہ کار سالار تھا نہ کوئی کاروبارِ حکومت چلانے والا قابل آدمی تھا۔ یہ خطرہ تو وہ ہر لمحہ محسوس کرتا تھا کہ مسلمان اس پر حملہ کریں گے ۔ وہ خود عسکری ذہن نہیں رکھتا تھا اس کمی کو پورا کرنے کیلئے اسے ایرانیوں کا ہی تعاون حاصل کرنا پڑا۔ اس کے سامنے تین نام آئے۔ ان میں ایک ایرانی کا نام’’ قیس بن عبدیغوث تھا۔ جو بازان کے وقتوں کا مانا ہوا سالار تھا۔دوسرے دو حکومت چلانے میں مہارت رکھتے تھے۔ ایک تھا فیروز اور دوسرا داذویہ۔ فیروز نے اسلام قبول کرلیا تھا اور وہ صحیح معنوں میں اور سچے دل سے مسلمان تھا۔ اسود نے قیس بن عبدیغوث کو سالارِاعلیٰ بنا دیا اورفیروز اور داذویہ کو وزیر مقررکیا۔ تینوں نے اسود کی وفاداری کا حلف اٹھایا اور اسے یقین دلایا کہ وہ ہر حالت میں اس کے وفا دار ہوں گے۔
ایک روز فیروز باہر کہیں گھوم پھر رہا تھا کہ ایک گداگر نے اس کا راستہ روک لیا اور ہاتھ پھیلایا۔’’تو مجھے معذور نظر نہیں آتا۔‘‘فیروز نےاسے کہا ۔’’اگر تو معذور ہے تو تیری معذوری یہی ہے کہ تجھ میں غیرت اور خودداری نہیں۔‘‘’’تو نے ٹھیک پہچانا ہے ۔‘‘گداگر نے اپنا ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے کہا۔’’میری معذوری یہی ہے کہ میری غیرت مجھ سے چھن گئی ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ تیری بھی یہی معذوری ہے ۔میں نے بھیک کیلئے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ میں اپنی غیرت واپس مانگ رہا ہوں ۔‘‘’’اگر تو پاگل نہیں ہو گیا تو مجھے بتا کہ تیرے دل میں کیا ہے؟‘‘ فیروز نے گداگر سے پوچھا۔’’میرے دل میں ﷲ کے اس رسول کا نام ہے جس کا تو شیدائی ہے۔‘‘گداگر نے فیروز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرکہا۔’’اگر اسود عنسی کی شراب تیری رگوں میں چلی نہیں گئی تومیں جھوٹ نہیں کہہ رہا کہ تو نے دل پر پتھر رکھ کر اسود کی وزارت قبول کی ہے ۔‘‘فیروز نے اِدھر اُدھردیکھا ۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ مدینہ کا مسلمان ہے لیکن اسے یہ بھی خطرہ محسوس ہوا کہ یہ اسود کا کوئی مخبر بھی ہو سکتا ہے ۔’’مت گھبرا فیروز۔‘‘گداگر نے کہا ۔’’میں تجھ پر اعتبار کرتا ہوں تو مجھ پر اعتبار کر۔ میں تجھ کو اپنا نام بتا دیتا ہوں قیس بن ہبیرہ۔ مجھے رسول ﷲﷺ نے بھیجا ہے۔‘‘’’کیا تو سچ کہتا ہے کہ رسول ﷲﷺ نے تجھے میرے پاس بھیجا ہے؟‘‘ فیروز نے اشتیاق سے پوچھا۔’’نہیں !‘‘ قیس نے کہا۔’’رسول ﷲﷺ نے یہ کہا تھا کہ وہاں چلے جاؤ ۔ﷲ کے سچے بندے مل جائیں گے۔‘‘’’تجھے کس نے بتایا ہے کہ میں سچا مسلمان ہوں ۔‘‘فیروز نے پوچھا۔’’اپنے رسول ﷺ کا نام سن کر رسالت کے شیدائیوں کی آنکھوں میں جو چمک پیدا ہو جاتی ہے وہ میں نے تیری آنکھوں میں دیکھی ہے ۔‘‘قیس نے کہا ۔’’تیری آنکھوں میں چمک کچھ زیادہ ہی آگئی ہے۔ ‘‘فیروز نے قیس سے کہا کہ وہ چلا جائے ۔ اس نے قیس کو ایک اور جگہ بتا کر کہا کہ کل سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے وہ وہاں بیٹھا گداگری کی صدا لگاتا رہے۔ اگلی شام فیروز اس جگہ سے گزرا جو اس نے قیس بن ہبیرہ کو بتائی تھی۔فیروزکے اشارے پر قیس گداگروں کے انداز سے اٹھ کر فیروز کے پیچھے پیچھے ہاتھ پھیلا کر چل پڑا۔’’رسولِ ﷲﷺ تک پیغام پہنچا دینا کہ آپﷺ کے نام پر جان قربان کرنے والا ایک آدمی اسود عنسی کے سائے میں بیٹھا ہے ۔‘‘فیروز نے چلتے چلتے ادھر ادھر دیکھے بغیر دھیمی سی آواز میں کہا۔’’اور میں حیران ہوں کہ اتنی جنگی طاقت کے باوجود رسول ﷲﷺ نے یمن پرحملہ کیوں نہیں کیا۔‘‘’’ہرقل کا لشکر اردن میں ہمارے سر پر کھڑا ہے ۔‘‘قیس نے کہا ۔’’ہمارا لشکر رومیوں پر حملہ کرنے جا رہا ہے۔ کیا ہم دو آدمی پورے لشکر کا کام نہیں کر سکیں گے؟‘‘’’کیا تو نے یہ سوچا ہے کہ دو آدمی کیا کر سکتے ہیں ؟‘‘فیروز نے پوچھا۔’’قتل!‘‘قیس نے جواب دیا اور کہنے لگا۔’’ مجھ سے یہ نہ پوچھنا کہ اسود کو کس طرح قتل کیا جا سکتا ہے ؟ کیا تو نے اپنے چچا کی بیٹی آزاد کو دل سے اتار دیا ہے ؟‘‘فیروز چلتے چلتے رک گیا۔ اس کے چہرے پر کچھ اور ہی طرح کی رونق آ گئی جیسے خون اچانک ابل پڑا ہو۔
’’تو نے مجھے روشنی دِکھا دی ہے۔‘‘اس نے کہا ۔’’قتل کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ، میری چچا زاد بہن کا نام لے کر تو نے میرا کام آسان کردیا ہے۔ یہ کام میں کروں گا۔ تو اپنا کام کرتا رہ۔ جا قیس !زندہ رہے تو ملیں گے۔ ‘‘مؤرخوں نے لکھا ہے کہ فیروز کے دل میں اسود کی جو نفرت دبی ہوئی تھی وہ ابھر کر سامنے آگئی۔ اس نے اسود عنسی کے ایرانی سالار قیس بن عبدیغوث اور داذویہ کو اپنا ہم راز بنا لیا، اسود کا قتل ایک وزیر کیلئے بھی آسان نہیں تھا جو اس کے ساتھ رہتا تھا۔ اسود کے محافظ اسے ہر وقت اپنے نرغے میں رکھتے تھے ۔ سوچ سوچ کران تینوں ایرانیوں نے یہ فیصلہ کیا کہ آزاد کو اس کام میں شریک کیا جائے۔ لیکن قتل آزاد کے ہاتھوں نہ کرایا جائے۔ آزاد تک رسائی آسان نہیں تھی۔ اسود کو شک ہو گیا تھا کہ تینوں ایرانی اسے دل سے پسند نہیں کرتے ۔ اُس نے اِن پر بھروسہ کم کر دیا تھا۔ آزاد اور فیروز کی ویسے بھی کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی ۔ آزاد تک پیغام پہنچانے کیلئے عورت کی ہی ضرورت تھی۔ ایک وزیر کیلئے ایسی عورت کا حصول مشکل نہ تھا۔فیروز نے محل کی ایک ادھیڑ عمر عورت کو اپنے پاس بلایا۔ وہ بھی مسلمان تھی۔ فیروز نے اسے کہا کہ وہ اسے اپنے گھر میں رکھنا چاہتا ہے۔ اگر وہ پسند کرے تو وہ اسے اپنے ہاں لا سکتا ہے ۔ فیروز نے اسے کچھ لالچ دیا۔ ایک یہ تھا کہ اس سے اتنا زیادہ کام نہیں لیا جائے گا ،جتنا اب لیا جاتا ہے ۔ وہ عورت مان گئی۔ فیروز نے اسی روز اسے اپنے ہاں بلالیا۔ ایک روز آزاد اکیلی بیٹھی تھی۔ وہ ہر وقت جلتی اور کڑھتی رہتی تھی ۔اسے کوئی راہِ فرار نظر نہیں آتی تھی،اس کیفیت میں فیروز کی وہی خادمہ اس کے پاس آئی ۔’’میں کسی کام کے بہانے آئی ہوں۔‘‘ خادمہ نے کہا۔’’لیکن میں آئی دراصل تیرے پاس ہوں ،کیا تو اپنے چچا زاد بھائی سے کبھی ملی ہے۔ جو رحمٰن الیمن کا وزیر ہے؟‘‘’’کیا تو جاسوسی کرنے آئی ہے؟‘‘آزاد نے غصیلی آواز میں کہا۔’’نہیں۔‘‘خادمہ نے کہا۔’’مجھ پر یہ شک نہ کر کہ میں اس جھوٹے نبی کی مخبر ہوں۔ میرے دل میں بھی اسود کی اتنی ہی نفرت ہے جتنی تیرے دل میں ہے ۔‘‘’’میں نہیں سمجھ سکتی کہ تو میرے پاس کیوں آئی ہے۔‘‘آزاد نے کہا۔’’فیروز وزیر نے بھیجا ہے ۔‘‘خادمہ نے کہا۔’’میں فیروز کا نام بھی نہیں سننا چاہتی ۔‘‘آزاد نے کہا۔’’ اگر ا س میں غیرت ہوتی تو وہ اس شخص کا وزیر نہ بنتا جس نے اس کی چچا زاد بہن کو بیوہ کیا اور اسے جبراً اپنی بیوی بنا لیا۔‘‘آزاد شاہی خاندان کی عورت تھی۔ وہ اِن لونڈیوں اورباندیوں کو اچھی طرح سمجھتی تھی۔ اس نے اندازہ کرلیا کہ یہ عورت مخبری کرنے نہیں آئی۔ اس نے خادمہ سے پوچھا کہ فیروز نے اس کیلئے کیا پیغام بھیجا ہے۔ خادمہ نے بتایا کہ وہ اس سے ملنا چاہتا ہے۔ آزاد نے اسے ایک جگہ بتا کر کہا کہ فیروز وہیں رات کو آجائے۔ لیکن ہمارے درمیان ایک دیوار حائل ہو گی۔
آزاد نے کہا۔’’ اس میں ایک جگہ ایک دریچہ ہے جس میں سلاخیں لگی ہوئی ہیں۔ فیروز سلاخوں کے دوسری طرف کھڑا ہوکر بات کر سکتا ہے ۔‘‘خادمہ نے آزاد کا پیغام فیروز کو دے دیا۔ اسی رات فیروز محل کے اردگرد کھڑی دیوار کے اس مقام پر پہنچ گیا جہاں سلاخوں والا چھوٹا سا دریچہ تھا۔ آزاد اس کے انتظار میں کھڑی تھی۔’’تیری خادمہ پہ مجھے اعتبار آگیا ہے۔‘‘آزاد نے کہا۔’’تجھ پر میں کیسے اعتبار کروں ؟ میں نہیں مانوں گی کہ تو مجھے اس وحشی سے آزاد کرانے کی سوچ رہا ہے ۔‘‘’’کیا تو اس وحشی کے ساتھ خوش ہے ؟ ‘‘فیروز نے پوچھا۔’’اس سے زیادہ قابلِ نفرت آدمی میں نے کوئی اور نہیں دیکھا۔ ‘‘آزاد نے کہا۔ ’’تیرا یہاں زیادہ دیر کھڑے رہنا ٹھیک نہیں ۔ فوراً بتا تجھے اتنے عرصے بعد میرا کیوں خیال آگیا ہے؟‘‘’’کیااس وقت اسود کے ادھر نکل آنے کا خطرہ ہے؟‘‘فیروز نے پوچھا۔’’یا ابھی وہ تمہیں……‘‘’’نہیں!‘‘آزاد نے کہا ۔’’پہرہ داروں کا خطرہ ہے۔اسود اس وقت شراب کے نشے میں بے سدھ پڑا ہے۔ اس کے پاس عورتو ں کی کمی نہیں ہے ۔‘‘’’میں صرف تجھے نہیں پورے یمن کو آزاد کراؤں گا۔‘‘ فیروز نے کہا ۔’’لیکن تیری مدد کے بغیر میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔‘‘’’مجھے بتا فیروز !‘‘آزاد نے پوچھا۔’’میں کیا کر سکتی ہوں؟‘‘’’کسی رات مجھے اسود تک پہنچا دے۔‘‘ فیروزنے کہا۔’’اگلے روز وہاں سے اس کی لاش اٹھائی جائے گی۔ کیا تو یہ کام کر سکتی ہے؟‘‘’’کل رات اس وقت کے کچھ بعد اس دیوار کے باہر اس جگہ آ جانا جو میں تمہیں بتاؤں گی۔‘‘آزاد نے کہا۔’’میرا کمرہ اس دیوارکے بالکل ساتھ ہے ۔ تم دیوار کسی اور طریقے سے پھلانگ نہیں سکو گے۔ کمند پھینکنی پڑے گی۔ رسّا لیتے آنا۔ اسے دیوار کے اوپر سے اندر کو پھینکنا۔ میں اسے کہیں باندھ دوں گی۔ تم رسّے سے اوپر آجانا۔‘‘ اگلی رات فیروز اس طرح چھپتا چھپاتا اس دیوار کے ساتھ ساتھ جا رہا تھا کہ اسے پہرہ دار کے گزر جانے تک چھپنا پڑتا تھا۔ وہ اس جگہ پہنچ گیا جو اسے آزاد نے بتائی تھی ۔اس نے دیوار پر رسّا پھینکا جس کا اگلا سرا دوسری طرف نیچے تک چلا گیا۔ آزاد موجود تھی، اس نے رسّا پکڑ لیااور کہیں باندھ دیا۔ فیروز رسّے کوپکڑ کر اور پاؤں دیوار کے ساتھ جماتا دیوار پر چڑھ گیا ۔ اس نے رسّا دیوار پر باندھ دیا اور اس کی مددسے نیچے اتر گیا۔ آزاد اسے اپنے کمرے میں لے گئی اور آدھی رات کے بعد تک اسے کمرے میں ہی رکھا کیونکہ اسود کے بیدار ہونے کا خطرہ تھا۔’’آدھی رات کے بعد وہ بے ہوش اور بے سدھ ہو جاتا تھا۔‘‘ آزاد نے کہا۔’’یہ شخص انسانوں کے روپ میں دیو ہے،ایسا دیو جو شراب پیتا او رعورتوں کو کھاتا ہے۔ تم نے اس کی جسامت دیکھی ہے ؟ اتنا لمبا اور چوڑا جسم تلوار کے ایک دو وار کو شراب کی طرح پی جائے گا۔ اسے ہلاک کرنا آسان نہیں ہو گا۔‘‘
’’اسے ہلاک کرنا ہے خواہ میں خود ہلاک ہو جاؤں۔‘‘فیروز نے کہا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں