شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 19





شمشیرِ بے نیام

سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

(  قسط نمبر-19 )

تاریخ میں ان آدمیوں کو قبیلۂ ثقیف کے لکھا گیا ہے۔جو اپنے آدمی کی للکار پر اس ٹھیکری پر چڑھنے لگے جس پر رسول ﷲﷺ کھڑے تھے۔ صحابہ کرامؓ جو آپﷺ کے ساتھ تھے، ان آدمیوں پر ٹوٹ پڑے۔ مختصر سے معرکے میں وہ سب بھاگ نکلے۔ ان میں سے کوئی بھی رسول اکرمﷺ تک نہ پہنچ سکا۔’’میں مالک بن عوف سے شکست نہیں کھاؤں گا۔‘‘رسول اﷲﷺ نے کہا۔’’وہ اتنی آسانی سے کیسے فتح حاصل کر سکتا ہے۔‘‘حضورﷺ نے اپنی فوج کو بکھرتے اور بھاگتے تو دیکھ ہی لیا تھا ۔ آپﷺ دشمن کو بھی دیکھ رہے تھے ۔ آپﷺ کی عسکری حس نے محسوس کر لیا کہ مالک بن عوف اپنے پہلے بھرپور اور کامیاب وار پر اس قدر خوش ہو گیا ہے کہ اسے اگلی چال کا خیال ہی نہیں رہا۔ وہ اسلامی فوج کی بھگدڑ اور افراتفری کی پسپائی سے فائدہ نہیں اٹھا رہا تھا۔ حضورﷺ کو توقع تھی کہ مالک بن عوف کی متحدہ فوج مسلمانوں کے تعاقب میں آئے گی لیکن تعاقب میں دشمن کے جو آدمی آئے تھے وہ تعداد میں تھوڑے اور غیر منظم تھے ۔ اس کے علاوہ حضورﷺ نے اپنے ہراول دستے کو پیچھے آتے بھی دیکھا تھا اور آپﷺ نے معلوم بھی کیا تھا کہ ہراول کے کتنے آدمی شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔ آپﷺ کو بتایا گیا کہ کئی ایک مجاہدین کے گھوڑے اور اونٹ زخمی ہوئے ہیں شہید ایک بھی نہیں ہوا۔ اس سے رسول ﷺ نے یہ رائے قائم کی کہ یہ دشمن تیر اندازی میں اناڑی ہے اور جلد باز بھی ہے۔ اتنی زیادہ تیر اندازی کسی کو زندہ نہ رہنے دیتی۔ حضورﷺ نے اپنے پاس کھڑے صحابہ کرامؓ پر نظر ڈالی۔ آپﷺ کی نظریں حضرت عباسؓ پرٹھہر گئیں ۔ حضرت عباس ؓ کی آواز غیر معمولی طورپر بلند تھی۔ جو بہت دور تک سنائی دیتی تھی۔ جسم کے لحاظ سے بھی حضرت عباسؓ قوی ہیکل تھے۔ ’’عباس!‘‘حضورﷺ نے کہا۔’’تم پر اﷲ کی رحمت ہو۔ مسلمانوں کو پکارو ……انہیں یہاں آنے کیلئے کہو۔‘‘’’اے انصار!‘‘ حضرت عباس ؓنے انتہائی بلند آواز میں پکارنا شروع کیا۔’’ اے اہلِ مدینہ…… اے اہلِ ……مکہ آؤ۔ اپنے رسول کے پاس آؤ۔‘‘

حضرت عباسؓ قبیلوں کے اور آدمیوں کے نام لے لے کر پکارتے رہے اور کہتے رہے کہ اپنے رسول ﷺ کے پاس اپنے اللہ کے رسول کے پاس آؤ۔

سب سے پہلے انصار آئے۔ ان کی تعداد معمولی تھی لیکن ایک کو دیکھ کردوسرا آتا چلا گیا۔ مکہ کے کچھ دوسرے قبیلوں کے لوگ بھی آ گئے۔ ان کی تعداد ایک سو ہو گئی۔ رسولِ کریمﷺ نے دیکھا کہ قبیلہ ہوازن کے بہت سے آدمی پسپا ہوئے مسلمانوں کی طرف دوڑے آ رہے تھے۔ آپﷺ نے ان ایک سو مجاہدین کو دشمن کے ان آدمیوں پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ مجاہدین ان کے عقب سے ان پر ٹوٹ پڑے۔ ہوازن کے آدمی بوکھلا گئے اور مقابلے کیلئے سنبھلنے لگے لیکن مجاہدین نے انہیں سنبھلنے کی مہلت نہ دی ۔ ان میں سے بہت سے بھاگ نکلے ۔ان کے زخمی اور ہلاک ہونے والے پیچھے رہ گئے۔ وہ تو اچانک ایسے حالات پیدا ہو گئے تھے کہ مجاہدین میں بھگدڑ مچ گئی تھی ، ورنہ وہ ہمیشہ اپنے سے کئی گنا زیادہ دشمن سے لڑے اور فاتح اور کامران رہے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ عباسؓ کی پکار پر مسلمان رسولِ ﷲﷺ کے حضور اکھٹے ہو رہے ہیں اور دشمن مسلمانوں کے چھوٹے سے گروہ کے جوابی حملے کو بھی برداشت نہیں کر سکا اور انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ ہوازن اور ثقیف ان کے تعاقب میں نہیں آ رہے تو کئی ہزار مجاہدین واپس آ گئے ۔ رسول ﷲﷺ نے انہیں فوراً منظم کیا اور دشمن پر حملے کا حکم دے دیا۔ خالدؓ بن ولید لا پتا تھے۔ کسی کو ہوش نہیں تھا کہ دیکھتا کہ کون لاپتا ہے اور کون کہاں ہے ۔ وہی تنگ گھاٹی جہاں مجاہدین پر قہر ٹوٹا تھا، اب متحدہ قبائل کیلئے موت کی گھاٹی بن گئی تھی۔ قبیلہ ہوازن چونکہ سب سے زیادہ لڑاکا قبیلہ تھا اس لیے اسی کے آدمیوں کو آگے رکھا گیا تھا۔ یہ لوگ بلا شک و شبہ ماہر لڑاکا تھے لیکن مسلمانوں نے جس قہر سے حملہ کیا تھا اس کے آگے ہوازن ٹھہر نہ سکے۔ مسلمان اس خفت کو بھی مٹانا چاہتے تھے جو انہیں غلطی سے اٹھانی پڑی تھی۔ یہ دست بدست لڑائی تھی ۔

مجاہدین نے تیغ زنی کے وہ جوہر دکھائے کہ ہوازن گر رہے تھے یا معرکے سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ رسولﷲ ﷺ معرکے کے قریب ایک بلند جگہ کھڑے تھے۔ آپﷺ نے للکار للکارکر کہا۔’’یہ جھوٹ نہیں کہ میں نبی ہوں ……میں ابنِ عبد المطلب ہوں۔‘‘ہوازن پیچھے ہٹتے چلے جا رہے تھے۔ وہ اب وار کرتے کم اور وار روکتے زیادہ تھے۔ ان کا دم خم ٹوٹ رہا تھا۔ ان کے پیچھے قبیلہ ٔ ثقیف کے دستے تیار کھڑے تھے ۔ مالک بن عوف نے چلا چلا کر ہوازن کو پیچھے ہٹا لیا۔ قبیلۂ ثقیف کے تازہ دم لڑاکوں نے ہوازن کی جگہ لے لی ۔ مسلمان تھک چکے تھے اور ثقیف تازہ دم تھے لیکن مسلمانوں کو اپنے قریب اپنے رسولﷺ کی موجودگی اور للکار نیا حوصلہ دے رہی تھی۔ مسلمانوں کی تلواروں اور برچھیوں کی ضربوں میں جو قہر اور غضب تھا اور ان کے نعروں اور للکار میں جو گرج اور کڑک تھی اس نے ثقیف پر دہشت طاری کردی۔ ثقیف کے لڑاکا جو عرب میں خاصے مشہور تھے تیزی سے پیچھے ہٹنے لگے اور پھر ان کے اونٹوں اور گھوڑوں نے بھگدڑ بپا کر دی۔ اس سے دشمن میں وہی کیفیت پیدا ہو گئی جو گھاٹی میں صبح کے وقت مسلمانوں میں پیدا ہو گئی تھی۔ ہوازن بڑی بری حالت میں پیچھے کو بھاگے تھے ۔ اب ثقیف بھی پسپا ہوئے تو ان کے اتحادی قبائل کے حوصلے لڑے بغیر ہی ٹوٹ پھوٹ گئے۔ وہ افراتفری میں بھاگ اٹھے۔
مالک بن عوف تنگ راستے سے دور پیچھے ہوازن کے بھاگے ہوئے دستوں کو یکجا کر رہا تھا۔ اس کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ جارحانہ کارروائی سے منہ موڑ چکا ہے اور اپنے دستوں کو دفاعی دیوار کے طور پر ترتیب دے رہا ہے۔ رسول ﷲﷺ نے یہ ترتیب دیکھی تو آپﷺ اپنے لشکر کی طرف پلٹے۔ آپﷺ نے دیکھا کہ جو مجاہدین صبح کے وقت بھاگ گئے تھے وہ سب واپس آ گئے ہیں۔ حضورﷺ نے حکم دیا کہ’’ گھڑ سواروں کو آگے لاؤ۔‘‘ذرا سی دیر میں سوار پیادوں سے الگ ہو گئے ۔ آپﷺ نے سواروں کو ایک خاص ترتیب میں کرکے حکم دیا کہ ’’ہوازن کو سنبھلنے اور منظم ہونے کا موقع نہ دواور برق رفتار حملہ کرو۔‘‘ان سواروں میں بنو سلیم کے وہ سوار بھی شامل تھے جن پر سب سے پہلے تیروں کی بوچھاڑیں آئی تھیں اور مسلمانوں کی جمعیت پارہ پارہ ہو گئی تھی۔ لیکن بنو سلیم کا کمانڈر ان کے ساتھ نہیں تھا اور وہ تھے خالدؓ بن ولید جو ابھی تک کہیں بے ہوش پڑے تھے۔ رسولِ ﷲﷺ نے اس سوار دستے کی قیادت زبیر ؓبن العوام کے سپرد کی اور انہیں حکم دیا کہ آگے جو درّہ ہے اس پر مالک بن عوف قبضہ کیے بیٹھا ہے ،اسے درّے سے بے دخل کر دو۔ رسولِ کریمﷺ نے جنگ کی کمان اپنے دستِ مبارک میں لے لی تھی۔ آپﷺ کے اشارے پر زبیرؓ بن العوام نے ایسا برق رفتار اور جچا تلا ہلّہ بولا کہ ہوازن جو ابھی تک بوکھلائے ہوئے تھے مقابلے میں جم نہ سکے اور درّے سے نکل گئے ۔ درّہ خاصہ لمبا تھا۔ رسولِ اکرمﷺ نے زبیر ؓکے دستے کو درّے میں ہی رہنے دیا اور حکم دیا کہ اب درّہ جنگی اڈا ہوگا۔ٓ آپﷺ نے دوسرا سوار دستہ آگے کیا جس کے کمانڈر ابو عامر ؓ تھے۔حضورﷺ نے ابو عامر ؓ کے سپرد کام کیا کہ اوطاس کے قریب متحدہ قبائل کا جو کیمپ ہے اس پر حملہ کرو۔ 

’’خالد……خالد یہاں ہے ……‘‘کسی نے بڑی دور سے للکار کر کہا۔’’یہ پڑا ہے۔‘‘
رسولِ اکرمﷺ دوڑے گئے اور خالدؓ تک پہنچے ۔ خالد ؓابھی تک بے ہوش پڑے تھے ۔ آپﷺ خالدؓ کے پاس بیٹھ گئے اورانتہائی شفقت سے ان کے سر سے پاؤں تک پھونک ماری۔ خالد ؓنے آنکھیں کھول دیں ۔ رسول ﷲﷺ کے قلب اطہر سے نکلی دُعا کا اعجاز تھا کہ خالدؓ اُٹھ کھڑے ہوئے۔ انہیں جو تیر لگے تھے وہ گہرے نہیں اترے تھے۔ تیر نکال لیے گئے اور بڑی تیزی سے مرہم پٹی کر دی گئی۔’’یا رسول ﷲﷺ!‘‘ خالدؓ نے کہا ۔’’میں لڑوں گا۔ میں لڑنے کے قابل ہوں۔‘‘
آ پﷺ نے خالد ؓ سے کہا کہ’’ زبیر کے سوار دستے میں شامل ہو جاؤ۔ تم ابھی کمان نہیں لے سکو گے۔‘‘خالدؓ ایک گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ ان کے کپڑے خون سے لال تھے۔ انہوں نے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور زبیرؓ کے سوار دستے میں شامل ہو گئے۔انہوں نے زبیر ؓسے پوچھا۔’’کیا حکم ہے؟‘‘زبیرؓ نے انہیں بتایا کہ ہوازن کی خیمہ گاہ پر حملہ کرنا ہے جو اوطاس کے قریب ہے لیکن یہ حملہ ابو عامرؓ کریں گے۔ اوطاس وہاں سے کچھ دور تھا ۔ مالک بن عوف نے ہوازن دستے کو وہاں تک ہٹا لیا اور اپنی خیمہ گاہ کے اردگرد پھیلا دیا تھا ۔ یہ دفاعی حصار تھا، جس کی ہوازن کے کیمپ کے گرد ضرورت اس لیے تھی کہ وہاں وہ ہزاروں عورتیں بچے اور مویشی تھے جنہیں قبیلۂ ہوازن کے سپاہی اپنے ساتھ لائے تھے۔ مالک بن عوف نے تو یہ سوچا تھا کہ ہوازن اپنی عورتوں اور بچوں کو اپنے ساتھ دیکھ کر زیادہ غیرت مندی اور بے جگری سے لڑیں گے مگر اب یہ صورت پیدا ہو گئی کہ دُرید بن الصّمہ ،مالک بن عوف کو برا بھلا کہہ رہا تھا کہ اس کے منع کرنے کے باوجود مالک عورتوں کو ساتھ لے آیا تھا۔ ان کیلئے اب اپنے اہل و عیال اور مویشیوں کو مسلمانوں سے بچانا محال دکھائی دے رہا تھا۔ ابو عامر ؓ کا سوار دستہ اوطا س کی طرف بڑھا۔ قریب گئے تو ہوازن نے جم کر مقابلہ کیا اب وہ جنگ جیتنے کیلئے یا مسلمانوں کو تہس نہس کرکے مکہ پر قبضہ کرنے کیلئے نہیں بلکہ مسلمانوں سے اپنے اہل و عیال اور مویشیوں کو بچانے کیلئے لڑ رہے تھے۔ یہ بھی دست بدست معرکہ تھا ،جس میں جنگی چالوں کے نہیں ذاتی شجاعت کے مظاہرے ہو رہے تھے، سوار اور پیادے لڑتے ہوئے وادی میں پھیلتے جا رہے تھے۔ ابو عامرؓ نے دشمن کے نو سواروں کو ہلاک کر دیا مگر دسویں ہوازن کو للکارا تو اس کے ہاتھوں خود شہید ہو گئے۔ رسولِ اکرمﷺ نے پہلے ہی ان کا جانشین مقررکر دیا تھا ۔ وہ تھے ان کے چچا زاد بھائی ابو موسیٰؓ۔ا نہوں نے فوراً کمان سنبھال لی اور اپنے سواروں کو للکارنے لگے۔ ہوازن زخمی ہو ہو کر گر رہے تھے، صاف نظر آ رہا تھا کہ ان کے پاؤں اکھڑ رہے ہیں۔ رسولِ اکرمﷺ نے زبیرؓ بن العوام کو جنہیں آپﷺ نے درّے میں روک لیا تھا۔ حکم دیا کہ اپنے دستے کو ابو موسیٰؓ کی مدد کیلئے لے جائیں ۔ حضورﷺ نے یہ اس لیے ضروری سمجھا تھا کہ دونوں دستے مل کر ہوازن کا کام جلدی تمام کر سکیں گے۔ زبیرؓ نے اپنے سواروں کو حملے کا حکم دیا۔ جب گھوڑے دوڑے اس وقت خالدؓ بن ولید کا گھوڑا دستے کے آگے تھا۔ ہوازن پہلے ہی ہمت ہار چکے تھے۔ مسلمانوں کے دوسرے سوار دستے کے حملے کی وہ تاب نہ لاسکے ان کے زخمیوں کی تعداد معمولی نہیں تھی۔
وہ اپنی عورتوں اور بچوں کو چھوڑ کر بھاگ نکلے ۔مسلمانوں نے کیمپ کو گھیرے میں لے لیا۔ چھوٹے چھوٹے قبیلوں کے لڑاکوں نے جب ہوازن اور ثقیف جیسے طاقتور قبیلوں کو بھاگتے دیکھا تو وہ وہاں سے بالکل غائب ہو گئے اور اپنی اپنی بستیوں میں جا پہنچے۔ مالک بن عوف میدانِ جنگ میں کہیں نظر نہیں آ رہا تھا ۔ وہ نظر آ ہی نہیں سکتا تھا ۔ اسے اپنے شہر طائف کی فکر پیدا ہو گئی تھی۔ اس نے اپنے قبیلے کے سرداروں سے کہا کہ’’ مسلمان جس رفتار اور جس جذبے سے آ رہے ہیں، اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ وہ طائف تک پہنچیں گے اور اس بستی کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔‘‘خطرے کے پیشِ نظر اس نے قبیلہ ثقیف کے تمام دستوں کو لڑائی سے نکالا اور طائف جا دم لیا۔ پیچھے حنین کی وادی میں کیفیت یہ تھی کہ ہوازن کی عورتیں اور بچے چیخ و پکار کر رہے تھے ۔ تمام وسیع و عریض وادی مجاہدینِ اسلام کی تحویل میں تھی۔ مکہ کے جو غیر فوجی مجاہدین کے ساتھ آئے تھے وہ زخمی مجاہدین کو اٹھارہے تھے، دشمن کے زخمی کرّاہ رہے تھے، مر رہے تھے۔ مرنے والوں میں بوڑھا دُرید بن الصّمہ بھی تھا۔ وہ لڑتا ہوا مارا گیا تھا ۔مسلمانوں کو دشمن کے زخمیوں اور قیدیوں سے جو ہتھیار اور گھوڑے ملے ان کے علاوہ چھ ہزار عورتیں اور بچے، چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار بکریاں اور بے شمارچاندی ہاتھ لگی۔مسلمانوں نے جنگ جیت لی تھی لیکن رسول ﷲﷺ نے فیصلہ کیا کہ مالک بن عوف کو مہلت نہیں دی جائے گی کہ وہ سستا سکے اور اپنی فوج کو منظم کر سکے۔ آپﷺ نے دراصل سانپ کا سر کچلنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ آپﷺ کے حکم سے مالِ غنیمت آئی ہوئی عورتیں ،بچوں ، مویشیوں اور دیگر مال کو ایک دستے کے ساتھ جعرانہ بھیج دیا گیا ۔ اگلے حکم تک انہیں جعرانہ میں ہی رہنا تھا۔ دوسرے دن رسولِ ﷲﷺ کے حکم سے اسلامی فوج طائف کی طرف پیش قدمی کر گئی جہاں بڑی خونریز جنگ کی توقع تھی۔ معرکۂ حنین کا ذکر قرآن حکیم میں سورۂ توبہ میں آیا ہے ۔ بعض صحابہ کرامؓ نے معرکہ شروع ہونے سے پہلے کہا تھا کہ ہمیں کون شکست دے سکتا ہے ۔ اتنی بڑی طاقت کا مقابلہ کون کر سکتا ہے ؟ سورۂ توبہ میں آیا ہے:’’ﷲ نے بہت سے موقعوں پر تمہاری مدد کی اور حنین کے دن بھی جب تم کو اپنی کثرت پر ناز تھا حالانکہ وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین باوجود اپنی وسعت کے تم پر تنگ ہو گئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگے پھر ﷲ نے اپنے رسول اور مسلمانوں پر تسلی نازل کی اور وہ فوجیں اتاریں جن کو تم نے نہیں دیکھا اور کافروں کو سزا دی اور کافروں کا بدلہ یہی ہے۔‘‘

 طائف بڑی خوبصورت بستی ہوا کرتی تھی۔ باغوں کی بستی تھی، پھولوں اور پھلوں کی مہک سے ہوائیں مخمور رہتی تھیں ۔طائف میں جا کر دکھی دل کھل اٹھتے تھے ۔ یہ جنگجو    سردارو ں کی بستی تھی۔ یہ ثقیف جیسے طاقتور قبیلے کا مرکز تھا۔ اس بستی کے قریب اس قبیلے کی عبادت گاہ تھی جس میں ثقیف ، ہوازن اور چند اور قبائل کے دیوتا لات کا بت رکھا تھا۔ جو بت نہیں ایک چبوترا تھا ۔ یہ قبائل اس چبوترے کو دیوتا کہتے اور اس کی پوجا کرتے تھے۔ اس عبادت گاہ میں ان کا کاہن رہتا تھا جسے خدا کا اوردیوتا لات کا ایلچی سمجھا جاتا تھا۔ کاہن فال نکال کر لوگوں کو آنے والے خطروں سے آگاہ کر دیا کرتا تھا ۔ کاہن کسی خوش نصیب کو ہی نظر آیا کرتا تھا۔عام لوگوں کو کاہن نہیں عبادت گاہ کے صرف مجاور ملا کرتے تھے۔کاہن کو جو دیکھ لیتا وہ ایسے خوش ہوتا تھا جیسے اس نے خدا کو دیکھ لیا ہو۔ طائف کیونکہ ان کے دیوتا کا مسکن تھا اس لیے یہ قبائل کا مقدس مقام تھا۔ ایک ہی مہینہ پہلے طائف میں جشن کا سماں تھا۔ یہاں کے سردارِ اعلیٰ مالک بن عوف نے پنے قبیلے جیسے ایک طاقتور قبیلے ہوازن اور کچھ اور قبیلوں کے سرداروں کو بہت بڑی ضرافت میں مدعو کیا تھا۔ علاقے کی چنی ہوئی خوبصورت ناچنے اور گانے والیاں بلائی گئی تھیں۔ ان کے رقص نے تماشائیوں پر وجد طاری کر دیا تھا۔ اس رات شراب کے مٹکے خالی ہو رہے تھے۔ اس رات اہلِ ثقیف اور اہلِ ہوازن نے عہد کیا تھا کہ وہ مکہ پر اچانک حملہ کرکے رسول ِﷲﷺ اور مکہ کے تمام مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دیں گے ،ان قبائل کے ایک ضعیف العمر سردار دُرید بن الصّمہ نے کہا تھا:’’اٹھو اور لات کے نام پر حلف اٹھاؤ کہ ہم محمدﷺ اور اس کے تمام پیروکاروں کو جنہوں نے مکہ کے تمام بت توڑ ڈالے ہیں، ختم کرکے اپنی عورتوں کومنہ دکھائیں گے۔‘‘مالک بن عوف جس کی عمر ابھی تیس سال تھی، جوش سے پھٹا جارہا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ ’’قبائل کا متحدہ لشکر مکہ میں مسلمانوں کو بے خبری میں جا دبوچے گا۔‘‘ا س رات مالک بن عوف ،دُرید بن الصّمہ اور دوسرے قبیلوں کے سردار کاہن کے پاس گئے تھے۔ کاہن سے انہوں نے پوچھا تھا کہ وہ مکہ کے مسلمانوں کو بے خبری میں دبوچ سکیں گے ؟اور کیا ان کا اچانک اورغیر متوقع حملہ مسلمانوں کو گھٹنوں بٹھا سکے گا؟ کاہن نے انہیں یقین دلایا تھا کہ دیوتا لات نے انہیں اشیرباد دے دی ہے۔کاہن نے بڑے وسوق سے کہا تھا مسلمانوں کو اس وقت پتا چلے گا جب تمہاری تلواریں انہیں کاٹ رہی ہوں گی۔اب ایک ہی ماہ بعد طائف کا حسن اداس تھا ۔بستی کے ماحول پر خوف و ہراس طاری تھا۔ اپنے دیوتا لات کی آشیرباد سے اور کاہن کی یقین دہانی سے ثقیف ،ہوازن اور دیگر قبائل کا جو لشکر مکہ پر حملہ کرنے گیا تھا وہ مکہ سے دور حنین کے مقام پر مسلمانوں کے ہاتھوں پٹ کر اور تتر بتر ہوکر واپس آ رہاتھا۔ بھاگ کے آنے والوں میں پیش پیش اس متحدہ لشکر کا سالارِ اعلیٰ جواں سال اور جوشیلا سردار مالک بن عوف تھا۔ وہ سب سے پہلے اسی لیے طائف پہنچا تھا کہ شہر کے دفاع کو مضبوط بنا سکے ۔ مسلمان رسولِ ﷲﷺ کی قیادت میں طائف کی طرف بڑھے آ رہے تھے۔ ’’طائف کے لوگو!‘‘ طائف کی گلیوں میں گھبرائی گھبرائی سی آوازیں اٹھ رہی تھیں ۔’’مسلمان آ رہے ہیں ۔
شہر کا محاصرہ ہو گا ، تیار ہو جاؤ۔ اناج اور کھجوریں اکھٹی کرلو۔ پانی جمع کر لو۔‘‘سب سے زیادہ گھبراہٹ مالک بن عوف پر طاری تھی۔ اسے طائف ہاتھ سے جاتا نظر آ رہا تھا۔ اسے شکست اور پسپائی کی چوٹ تو پڑی ہی تھی، سب سے بڑی چوٹ اس پر یہ پڑی کہ وہ جب شہر میں داخل ہوا تو عورتوں نے اس کی بہادری اور فتح کے گیت گانے کی بجائے اسے نفرت کی نگاہوں سے دیکھا تھا اور اس کے لشکریوں کو بعض عورتوں نے طعنے بھی دیئے تھے۔’’بیویاں اور بیٹیاں کہاں ہیں جنہیں تم ساتھ لے گئے تھے؟‘‘عورتیں ،لشکریوں سے طنزیہ لہجے میں پوچھ رہی تھیں۔’’بچے بھی مسلمانوں کو دے آئے ہو؟‘‘یہ بھی ایک طعنہ تھا جو عورتیں انہیں دے رہی تھیں ۔مالک بن عوف نے اپنے سامنے اپنے نائب سالاروں اور کمانداروں کو بٹھارکھا تھا اور انہیں بڑی تیز تیز بولتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ’’ دوسرے قبیلوں کو بھی شہر میں لے آؤ۔ مسلمان آ رہے ہیں ۔‘‘مالک بن عوف نے ذرا سا بھی آرام نہ کیا۔ آتے ہی طائف کا دفاع مضبوط کرنے میں لگ گیا۔ اس کے نائب کماندار اور قاصد پسپا ہو کر آنے والوں کو اکھٹا کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ آدھی رات تک وہ تھک کر چور ہو چکا تھا ۔ اس نے اپنی سب سے زیادہ حسین اور چہیتی بیوی کو اپنے پاس بلایا ،وہ آگئی۔’’ کیاآپ نے حلف نہیں اٹھایا تھا کہ محمد ﷺ اور ا س کے تمام پیروکاروں کو جنہوں نے مکہ کے بت توڑ ڈالے ہیں ختم کرکے اپنی عورتوں کو منہ دکھائیں گے۔‘‘بیوی نے اسے کہا۔’’آپ فتح کی بجائے ماتھے پر شکست کا داغ لے کر آئے ہیں۔ آپ کے حلف اور عہد کے مطابق میرا وجود آپ پر حرام ہے۔‘‘’’تم میری بیوی ہو۔‘‘مالک بن عوف نے غصے سے کہا۔’’میری حکم عدولی کی جرات نہ کرو۔میں بہت تھکا ہوا ہوں اور میں بہت پریشان ہوں۔ مجھے اس وقت تمہاری ضرورت ہے۔ تم میری سب سے پیاری بیوی ہو۔‘‘
’’آپ کو میری ضرورت ہے ۔‘‘بیوی نے کہا۔’’لیکن مجھے ایک غیرت مند مرد کی ضرورت ہے۔ مجھے اس مالک بن عوف کی ضرورت ہے جو یہاں سے عہد کرکے نکلا تھا کہ مسلمانوں کو مکہ کے اندر ہی ختم کرکے واپس آئے گا۔ کہاں ہے وہ مالک بن عوف؟ وہ میرے لیے مر گیا ہے ۔ اس مالک بن عوف کو میں نہیں جانتی جو اپنے قبیلے اور اپنے دوست قبیلوں کی ہزاروں عورتوں اور ہزاروں بچے اپنے دشمن کے حوالے کرکے اپنی خواب گاہ میں آ بیٹھا ہے۔ وہ ایک عورت سے کہہ رہا ہے کہ مجھے تمہاری ضرورت ہے۔‘‘اس حسین عورت کی آواز بلند ہو کر جذبات کی شدت سے کانپنے لگی۔ وہ مالک بن عوف کے پلنگ سے ا ٹھ کھڑی ہوئی اور کہنے لگی ۔’’آج رات تمہاری کوئی بیوی تمہارے پاس نہیں آئے گی۔ آج رات تمہاری کسی بیوی کو ان عورتوں کی آہیں اور فریادیں چَین سے سونے نہیں دیں گی جو مسلمانوں کے قبضے میں ہیں ۔ ذرا سوچ، تصور میں لا ان عورتوں کو ۔ ان نو خیز لڑکیوں کو جنہیں تو مسلمانوں کے حوالے کرآیا ہے ۔ وہ اب مسلمانوں کے بچے پیدا کریں گی ، بچے جو ان کے قبضے میں ہیں وہ مسلمان ہو جائیں گے۔‘‘مالک بن عوف توخطروں میں کود جانے والا خود سر آدمی تھا، اس نے اپنے بزرگ اور میدانِ جنگ کے منجھے ہوئے استاد دُرید بن الصّمہ کی پند ونصیحت کو ٹھکرا دیا تھا کہ وہ عقل و ہوش سے کام لے اور جوانی کے جوش و خروش پر قابو پائے۔ اب وہی مالک بن عوف اپنی بیوی کے سامنے یوں سر جھکائے بیٹھا تھا جیسے دہکتے ہوئے انگاروں پر کسی نے پانی چھڑک دیا ہو۔ اس کی مردانگی ختم ہو چکی تھی ۔’’تمام مسلمانوں کو ختم کرنے گئے تھے مالک؟ ‘‘بیوی اب اس طرح بولنے لگی جیسے اس کی نگاہوں میں اتنے جرّی اور بہادر شوہر کا احترام ختم ہو چکا ہو۔ وہ کہہ رہی تھی ’’مسلمانوں کو ختم کرتے کرتے تم مسلمانوں کی تعدا دمیں اضافہ کرآئے ہو۔‘‘ ’’کاہن نے کہا تھا کہ……‘‘’’کون کاہن؟‘‘بیوی نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔’’وہ جو مندر میں بیٹھا فالیں نکالتا رہتا ہے؟ تم جیسے آدمی اپنی قسمت اپنے ہاتھ میں رکھا کرتے ہیں اور اپنی قسمت اپنے ہاتھوں بنایا اور بگاڑا کرتے ہیں۔ تم نے کاہن سے پوچھا نہیں کہ اس کی فال نے جھوٹ کیوں بولا ہے؟‘‘مالک بن عوف اٹھ کھڑا ہوا۔اس کی سانسیں تیزی سے چلنے لگیں ۔ اس کی آنکھوں میں خون اترنے لگا۔ اس نے دیوارکے ساتھ لٹکتی ہوئی تلوار اتاری اور بیوی سے کچھ کہے بغیر باہر نکل گیا۔ طائف میں رات توآئی تھی لیکن وہاں کی سرگرمیاں اور بھاگ دوڑ دیکھ کر دن کا گمان ہوتا تھا ۔ باہرسے خبریں آ رہی تھیں کہ مسلمان طائف کی طرف بڑی تیزی سے بڑھے چلے آ رہے ہیں ۔ لوگ دفاعی تیاریوں میں مصروف تھے ۔ سب سے بڑا مسئلہ خوراک اور پانی کا تھا ۔ بہت سے لوگ پانی جمع کرنے کیلئے حوض بنا رہے تھے۔ مالک بن عوف ان سرگرمیوں کے شوروغل میں سے گزرتا چلا جا رہا تھا۔ لوگ اتنے مصروف تھے کہ کسی کو پتا ہی نہ چلا کہ ان کے درمیان سے ان کا سالارِ اعلیٰ گزر گیا ہے۔ عبادت گاہ میں وہ کاہن جس نے کہا تھا کہ ثقیف اورہوازن مسلمانوں کو مکہ میں بے خبری میں جالیں گے۔ گہری نیند سویا ہوا تھا۔ اسے جگانے کی کوئی جرات نہیں کر سکتا تھا۔ وہ عبادت گاہ کے کسی اندرونی حصے میں سویا ہوا تھا۔ عبادت گاہ کے مجاور بیرونی کمرے میں سوئے ہوئے تھے۔ انہیں کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ یہ ان کے فرائض میں شامل تھا کہ کاہن کے کمرے تک کسی کو نہ پہنچنے دیں۔ دو تین مجاور اٹھ کر باہر آ گئے۔ ایک کے ہاتھ میں مشعل تھی ۔’’مالک بن عوف ۔‘‘ایک مجاور نے مالک کے راستے میں آ کر کہا۔’’کیا قبیلے کا سردار نہیں جانتا کہ اس سے آگے کوئی نہیں جا سکتا ؟ ہم سے بات کر مالک بن عوف۔‘‘’’اور کیا تم نہیں جانتے ایک سردار کا راستہ روکنے کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے؟‘‘ مالک بن عوف نے تلوار کے دستے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔’’میں کاہن کے پاس جا رہا ہوں۔‘‘’’کاہن کے قہر کو سمجھ مالک۔‘‘ ایک اور مجاور نے کہا۔’’کاہن جو اس وقت تمہیں سویا ہوا نظر آئے گا ، وہ لات کے حضور گیا ہوا ہے۔ اس حالت میں اس کے پاس جاؤ گے تو……‘‘مالک بن عوف ایسی ذہنی کیفیت میں تھا جس نے اس کے دل سے کاہن کا تقدس اور خوف نکال دیا تھا۔ ایک تو وہ بہت بری شکست کھا کر آیا تھا دوسرے اس کی اس بیوی نے اسے دھتکار دیا تھا جسے وہ دل وجان سے چاہتا تھا ۔ اس نے مجاور کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے مشعل کے ڈنڈے پر ہاتھ مارا اور اس کے ہاتھ سے مشعل چھین کر کاہن کے کمرے کی طرف چلا گیا ۔ مجاور اس کے پیچھے دوڑا لیکن وہ کاہن کے کمرے میں داخل ہو گیا۔ کاہن مجاوروں کے شور سے جاگ اٹھا تھا۔ اپنے کمرے میں مشعل کی روشنی دیکھ کر اُٹھ بیٹھا۔ مالک بن عوف نے مشعل دیوار میں اس جگہ لگا دی جو اسی مقصد کیلئے دیوار میں بنائی گئی تھی۔’’مقدس کاہن! ‘‘مالک بن عوف نے کہا۔’’میں پوچھنے آیا ہوں کہ ……‘‘’’کہ تمہاری شکست کا سبب کیا ہوا؟‘‘ کاہن نے اس کی بات پوری کرتے ہوئے کہا۔’’کیا میں نے کہا نہیں تھا کہ ایک حام کی قربانی دو۔‘‘
’’اورمقدس کاہن۔‘‘مالک بن عوف نے کہا۔’’تم نے یہ بھی کہا تھا کہ حام نہ ملے تو اپنے قبیلے سے کہو کہ اپنے خون کی اور اپنی جانوں کی قربانی دیں۔ تم نے کہا تھا کہ حام کی تلاش میں وقت ضائع نہ کرنا ۔تم نے کہا تھا کہ مسلمان لڑنے کیلئے تیار نہیں ہوں گے۔‘‘
’’کیا تو اپنے دیوتا سے باز پرس کرنے آیا ہے کہ دشمن نے تمہیں شکست کیوں دی ہے؟‘‘کاہن نے پوچھا۔’’میں نے کہا تھا کہ پیٹھ نہ دکھانا ۔ کیا تیرے لشکر نے پیٹھ نہیں دکھائی ۔ تیرے لشکر میں تو اتنی سی بھی غیرت نہیں تھی کہ اپنی عورتوں ا ور بچوں کی حفاظت کرتا۔‘‘ ’’میں پوچھتا ہوں تم نے کیا کیا؟‘‘مالک بن عوف نے پوچھا۔’’اگر سب کچھ ہمیں ہی کرنا تھا تو تم نے کیا کمال دکھایا؟ تم نے کیوں کہا تھا کہ مسلمانوں کو اس وقت پتا چلے گا جب تمہاری تلواریں انہیں کاٹ رہی ہوں گی۔ کیا تم نے ہمیں دھوکا نہیں دیا؟ کیا یہ درست نہیں کہ محمدﷺ سچا ہے؟ جس نے تمہاری فال کو جھٹلا دیا ہے۔ اگر تم کاہن نہ ہوتے تو میں تمہیں قتل کر دیتا۔ اب طائف پر بہت بڑا خطرہ آ رہا ہے۔ کیا تم اپنے دیوتا کی بستی کو بچا سکتے ہو ؟ کیا تم مسلمانوں پر قہر نازل کرسکتے ہو؟‘‘’’پہلی بات یہ سن لے عوف کے بیٹے ! ‘‘کاہن نے کہا۔’’کاہن کو دنیا کی کوئی طاقت قتل نہیں کر سکتی۔کاہن کی جب عمر ختم ہوتی ہے تو وہ دیوتا لات کے وجود میں تحلیل ہو جاتا ہے۔ تو مجھ پر تلوار اٹھا کر دیکھ لے اور دوسری بات یہ ہے کہ مسلمان طائف تک پہنچ سکتے ہیں ۔ یہاں سے زندہ واپس نہیں جا سکتے۔‘‘جس وقت مالک بن عوف کاہن کے کمرے میں داخل ہوا تھا، اس وقت کسی انسان کی شکل کا ایک سایہ عبادت گاہ کی عقبی دیوار پر رینگ رہا تھا۔ وہ جو کوئی بھی تھا وہ اپنی جان کا خطرہ مول لے رہا تھا۔ مالک بن عوف ہی تھا جو سرداری کے رعب میں رات کے وقت کاہن کے کمرے تک پہنچ گیا تھا۔ یہ عبادت گاہ صدیوں پرانی تھی۔ عقبی دیوار میں چھوٹا سا شگاف تھا ۔وہ انسان جس کا سایہ دیوارپر رینگ رہا تھا اس شگاف میں داخل ہو گیا ۔آگے اونچی گھاس اور جھاڑیاں تھیں۔ وہ انسان گھاس اورجھاڑیوں میں سے یوں گزرنے لگا کہ اس کے قدموں کی آہٹ یا ہلکی سی سرسراہٹ بھی سنائی نہیں دیتی تھی۔
وہ گھاس اور جھاڑیوں میں سے گزر کر اس چبوترے پر جا چڑھا، جس پر عبادت گاہ کی عمارت کھڑی تھی۔اس طرف کے دروازے کے کواڑ دیمک خوردہ تھے۔ وہ انسان کھائے ہوئے ان کواڑوں میں سے گزر کر عبادت گاہ میں داخل ہو گیا۔ آگے تاریک غلام گردش تھی۔ اس انسان نے جوتے اتار دیئے اور دبے پاؤں آگے بڑھتا گیا۔ اس گھپ اندھیرے میں وہ یوں چلا جا رہا تھا جیسے پہلے بھی یہاں آیا ہو۔ وہ غلام گردش کی بھول بھلیوں میں سے گزرتا کاہن کے کمرے کے نزدیک پہنچ گیا۔ اسے کاہن کی اور کسی اور کی باتیں سنائی دیں۔ وہ مالک بن عوف تھا جو کاہن کے ساتھ باتیں کر رہاتھا، یہ انسان رک گیا اسے کاہن کے کمرے سے آتی ہوئی مشعل کی روشنی نظر آرہی تھی۔
مالک بن عوف کاہن سے اتنا مرعوب ہوا کہ وہ سر جھکائے ہوئے وہاں سے نکل گیا۔ یہ انسان جو قریب ہی کہیں چھپ گیا تھا آگے بڑھا۔ کاہن دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا ۔اس کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں کیونکہ اس کے سامنے یک جوان سال لڑکی کھڑی تھی۔ اس لڑکی کو وہ پہچانتا تھا۔ یہ وہی یہودی لڑکی تھی جسے ایک ضعیف العمر یہودی کاہن کے پاس تحفے کے طور پر لایا تھااور اس لڑکی کے ساتھ اس نے سونے کے دو ٹکڑے کاہن کی نظر کیے تھے۔ یہ کاہن کا انعام یا معاوضہ تھا۔ کاہن نے اسے یقین دلایا تھا کہ ثقیف اور ہوازن کے قبیلے مسلمانوں کو مکہ میں ہمیشہ کیلئے ختم کر دیں گے۔ اس نے اس بوڑھے یہودی سے کہا تھا ۔’’دیوتا لات کا اشارہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔‘‘بوڑھا یہودی اس یہودی لڑکی کو کاہن کے پاس ایک رات کیلئے چھوڑ کر چلا گیا تھا  ۔طائف میں وہ اس خوش خبری کامنتظر بیٹھا تھا کہ ثقیف ہوازن اور ان کے دوست قبیلوں نے اسلام کو مسلمانوں کے خون میں ڈبو دیا ہے لیکن ہوا یہ کہ مالک بن عوف سر جھکائے ہوئے طائف میں داخل ہوا۔ پھر اس کے لشکری قدم گھسیٹتے ہوئے دو دو چار چار کی ٹولیوں میں طائف میں آنے لگے۔ بوڑھے یہودی کی کمر عمر نے پہلے ہی دوہری کر رکھی تھی۔ مالک بن عوف کو شکست خوردگی کی حالت میں واپس آتے دیکھ کر اس کی کمر جیسے ٹوٹ ہی گئی ہو۔ اس کی کمر پر آخری تنکا اس یہودی لڑکی نے رکھ دیا۔ جسے وہ انعام کے طورپر کاہن کے حوالے کر آیا تھا۔’’میں حیران ہوں کہ تم جیسے جہاندیدہ بزرگ نے دھوکا کھایا۔‘‘ لڑکی نے اسے کہا تھا۔’’مجھے اس مکروہ کاہن کے کسی ایک لفظ پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ میں نے تمہارے حکم سے اپنی عصمت قربان کردی۔‘‘’’میرے حکم سے نہیں۔‘‘بوڑھے یہودی نے کہاتھا ۔’’خدائے یہودہ کے حکم سے۔ تمہاری عصمت کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔‘‘یہودیوں میں یہ رواج عام تھا جو ابھی تک چلا آ رہا ہے کہ میدانِ جنگ میں آنے سے گریز کرتے تھے ۔ وہ ایسی چال چلتے تھے کہ اپنے دشمنوں کو آپس میں لڑا دیا کرتے تھے۔ اس کیلئے وہ دولت کے ساتھ ساتھ اپنی بیٹیوں کی عصمت بھی ایک کامیاب حربے کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ یہودیوں کے معاشرے اور مذہب میں عصمت اور آبروکی کوئی قدروقیمت نہیں تھی۔ لیکن یہ لڑکی اپنی قوم سے بہت ہی مختلف ثابت ہوئی ۔ وہ بوڑھے یہودی پر ٹوٹ ٹوٹ پڑتی تھی اور کہتی تھی کہ مسلمانوں کا قلع قمع ہوجاتا تووہ فخر سے کہتی کہ اس نے اس مقصد کیلئے اپنی عصمت کی قربانی دی ہے اور وہ یہ بھی کہتی تھی کہ کاہن نے انہیں دھوکا دیا ہے۔ رات کو جب بوڑھا یہودی گہری نیند سویا ہوا تھا ،یہ لڑکی اٹھی۔ اس نے خنجر اپنے تکیے کے نیچے رکھا ہوا تھا۔ اس نے خنجر نکالا اوراپنے کپڑوں کے اندر چھپا لیا۔وہ دبے پاؤں باہر نکل گئی۔*
*’’ہم جانتے تھے کہ ہمارا جادو تمہیں ایک بار پھر ہمارے پاس لے آئے گا۔‘‘کاہن اس لڑکی سے کہہ رہا تھا۔’’ آؤ…… دروازے پر کھڑی کیا کر رہی ہو؟‘‘لڑکی آہستہ آہستہ آگے بڑھی اور کاہن کے قریب جا رکی۔’’جادو نہیں انتقام کہو۔‘‘لڑکی نے اپنی دھیمی آواز میں کہا۔ اس میں قہر اورغضب چھپا ہواتھا ۔’’مجھے انتقام کا جادو یہاں تک لے آیا ہے۔‘‘’’کیا کہہ رہی ہو لڑکی؟‘‘کاہن نے حیرت ذدہ مسکراہٹ سے کہا۔’’تم مالک بن عوف سے انتقام لینا چاہتی ہو ؟ وہ جاچکا ہے۔ وہ مجھے قتل کرنے آیا تھا۔ کیا کوئی انسان اتنی جرات کرسکتا ہے کہ لات کے کاہن کو قتل کردے؟‘‘’’ہاں!‘‘لڑکی نے کہا۔’’ ایک انسان ہے جو لات کے کاہن کو قتل کر سکتا ہے ۔ وہ لات کا پجاری نہیں ،وہ میں ہوں ۔خدائے یہودہ کی پجارن۔‘‘لڑکی نے پلک جھپکتے کپڑوں کے اندر سے خنجر نکالا اور کاہن کے دل میں اتار دیا۔ اس کے ساتھ ہی لڑکی نے کاہن کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا کہ اس کی اونچی آواز نہ نکل سکے۔لڑکی نے خنجر نکالا اور کاہن کی شہہ رگ کاٹ دی۔ وہ بڑے اطمینان سے کاہن کے کمرے سے نکل آئی اور اس رستے جس رستے سے وہ آئی تھی عبادت گاہ کے احاطے سے نکل گئی۔ مالک بن عوف اپنی خواب گاہ میں سر جھکائے بیٹھا تھا ۔ اس کی چہیتی بیوی اس کے پاس بیٹھی تھی ۔غلام نے اطلاع دی کہ ایک اجنبی جوان عورت آئی ہے جس کے کپڑے خون سے لال ہیں اور اس کے ہاتھ میں خون آلود خنجر ہے۔ مالک بن عوف جو نیم مردہ نظر آرہا تھا، اچھل پڑا اوربولا کہ اسے اندر لے آؤ۔ اس کی اور اس کی بیوی کی نظریں دروازے پر جم گئیں۔ وہ جوان عورت دروازے میں آن کھڑی ہوئی اور بولی۔’’جوکام تم نہیں کر سکے تھے وہ میں کر آئی ہوں۔ میں نے کاہن کو قتل کر دیا ہے۔‘‘ مالک بن عوف پر سناٹا طاری ہو گیا۔ اس کے چہرے پر خوف کی پرچھائیاں نظر آنے لگیں۔ اس نے لپک کر تلوار اٹھائی اور نیام پرے پھینک کرلڑکی کی طرف بڑھا۔ اس کی بیوی راستے میں آگئی۔’’اس لڑکی نے جو کچھ کیا ہے ٹھیک کیا ہے ۔‘‘بیوی نے اسے کہا۔’’تمہیں جھوٹے سہارے اور جھوٹے اشارے دینے والا مر گیا ہے۔ اچھا ہوا ہے۔‘‘’’تم نہیں جانتیں ہم پرکیا قہر نازل ہونے والا ہے ۔‘‘مالک بن عوف نے کہا۔’’تم پر کوئی قہر نازل نہیں ہوگا۔‘‘یہودی لڑکی نے کہا۔’’کیا کاہن نے تمہیں کہا نہیں تھا کہ کاہن کو کوئی قتل نہیں کر سکتا اور کاہن کی جب عمر پوری ہو جاتی ہے تو وہ دیوتا لات کے وجود میں تحلیل ہو جاتا ہے ۔ اگر تم میں جرات ہے تو لات کے مجاوروں سے کہو کہ اپنے کاہن کی لاش لات کے وجود میں تحلیل کردیں۔ اس کی لاش کو باہر رکھ دو پھر دیکھو گدھ اور کتے کس طرح کھاتے ہیں ۔‘‘


جاری ہے..........


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں