شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 13






شمشیرِ بے نیام

  حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

قسط نمبر-13

سورج غروب ہو چکا تھا جب خالد کا شتر سوار جاسوس واپس آیا۔’’وہ وہاں نہیں ہیں۔‘‘جاسوس نے خالدکو بتایا۔’’ کیا تمہاری آنکھیں اب انسانوں کو نہیں دیکھ سکتیں؟‘‘خالد نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔
’’صرف ان انسانوں کو دیکھ سکتی ہیں جوموجود ہوں۔‘‘شتر سوار نے کہا۔’’جو نہیں ہیں وہ نہیں ہیں۔ وہ کوچ کر گئے ہیں۔کدھر گئے ہیں ؟ میں نہیں بتا سکتا۔‘‘خالد اور زیادہ پریشان ہو گیا۔ صحرا کی شام گہری ہو گئی تو اس نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کے ہراول کے سوار بھی وہاں نہیں ہیں ۔ اسے ان کے کسی گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ صبح طلوع ہوئی تو خالد نے اسی درّے سے نکل کے دیکھا۔ بیس سوار غائب تھے۔ اسے اپنی ناکامی کا احساس ہونے لگا۔ اس کے ارادے اور اس کے جنگی منصوبے خاک میں ملتے نظر آئے۔ اس نے سوچا کہ وہ خود عسفان تک چلا جائے لیکن پہچانے جانے کے ڈر سے رکا رہا۔ا س نے دو تین آدمی اونچی پہاڑیوں پر بھیج دیئے کہ وہ ہر طرف نظر رکھیں۔ دن آدھا گزر گیا تھا۔ اسے کوئی اطلاع نہ ملی۔مسلمانوں کے ہراول کے بیس سواربھی نظر نہ آئے۔ اسے توقع تھی کہ وہ آئیں گے۔ دوپہر کے لگ بھگ اس کا ایک سوار گھوڑا سر پٹ دوڑتا اس کے پاس آ کر رکا۔’’میرے ساتھ چلو۔‘‘سوار نے تیز تیز بولتے ہوئے کہا۔’’جو میں نے دیکھا ہے وہ تم بھی دیکھو۔‘‘’’کیا دیکھا ہے تم نے؟‘‘
’’گَرد۔‘‘سوار نے کہا۔’’خدا کی قسم! وہ گرد کسی قافلے کی نہیں ہو سکتی۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ مسلمانوں کا لشکر ہو؟‘‘خالد نے گھوڑے کو ایڑلگائی اور مکہ کی سمت پہاڑی علاقے سے نکل گیا۔ اسے زمین سے گرد کے بادل اٹھتے دکھائی دیئے۔’’خدا کی قسم! ‘‘خالد نے کہا۔’’قبیلۂ قریش میں کوئی ایسا نہیں جو محمدﷺ جیسا دانشمند ہو۔ وہ میری گھات سے نکل گیا ہے۔‘‘مسلمان رسول ﷲﷺ کی قیادت میں کراع الغمیم کی دوسری طرف سے مکہ کی طرف نکل گئے تھے۔ رات کو ان کے بیس سوار بھی دور کے راستے سے ان کے پیچھے گئے اور ان سے جا ملے تھے۔خالد نے گھوڑا موڑا اور ایڑ لگائی۔ وہ کراع الغمیم کے اندر چِلّاتا اور گھوڑے کو سر پٹ دوڑاتا پھر رہا تھا۔’’باہر آجاؤ۔مدینہ والے مکہ کو چلے گئے ہیں۔تمام سوار سامنے آؤ۔‘‘تھوڑی سی دیر میں اس کے تین سو گھڑ سوار اس کے پاس آ گئے۔
’’وہ ہمیں دھوکا دے گئے ہیں۔‘‘خالد نے اپنے سواروں سے کہا۔’’تم نہیں مانو گے۔ وہ گزر گئے ہیں۔گزرنے کا کوئی دوسرا رستہ نہیں ہے۔ ہمیں اب زندگی اور موت کی دوڑ لگانی پڑے گی۔ سست ہو جاؤ گے تو وہ مکہ کا محاصرہ کر لیں گے وہ بازی جیت جائیں گے۔‘‘آج مدینہ کے رستہ پر جب مدینہ قریب رہ گیا تھا۔ خالد کو یاد آ رہا تھا کہ اسے مکہ پر مسلمانوں کے قبضے کا ڈر تو تھا لیکن وہ رسولِ کریمﷺ کی اس چال پر عش عش کر اٹھا تھا۔ وہ خود فن ِ حرب و ضرب اور عسکری چالوں کا ماہر اور دلدادہ تھا۔وہ سمجھ گیا کہ رسول ﷲﷺ نے اپنے ہراول کے بیس سوار دھوکا دینے کیلئے بھیجے تھے۔

سواروں اسے کامیابی سے دھوکا دیا۔اس کی توجہ کو گرفتار کیے رکھا۔اور مسلمان دوسری طرف سے نکل گئے۔’’یہ جادو نہیں۔‘‘خالد نے اپنے آپ سے کہا۔’’اگر اپنے قبیلے کی سرداری مجھے مل جائے تو جادو کے یہ کرتب میں بھی دِکھا سکتا ہوں۔‘‘یہ صحیح تھا کہ اس کے باپ نے اسے ایسی عسکری تعلیم و تربیت دی تھی کہ وہ میدانِ جنگ کا جادوگر کہلا سکتا تھا مگر اس کے اوپر ایک سردار تھا۔ ابو سفیان۔وہ قبیلے کا سالارِ اعلیٰ بھی تھا۔ اس کے ماتحت خالد اپنی کوئی چال نہیں چل سکتا تھا۔ اپنی اس مجبوری نے اس کے دل میں ابو سفیان کی لیے نفرت پیدا کر دی تھی۔ اسے چند دن پہلے کا یہ واقعہ یاد آ رہا تھا۔ایک ہزار چار سو مسلمان اس کی گھات کو دھوکا دے کر مکہ کی طرف نکل گئے تھے۔اس نے یہ سوچا ہی نہیں کہ تین سو سواروں سے مسلمانوں پر عقب سے حملہ کر دے۔ اسے احساس تھا کہ جو مسلمان قلیل تعداد میں کثیر تعداد کے دشمن کو شکست دے سکتے ہیں انہیں تین سو سواروں سے شکست نہیں دی جا سکتی۔ کیونکہ وہ کثیر تعداد میں ہیں۔اسے مکہ ہاتھ سے جاتا نظر آنے لگا تھا اور اسے یہ خفّت بھی محسوس ہونے لگی تھی کہ اس کی گھات کی ناکامی پر ابو سفیان اسے طعنہ دے گا اور ہنسی اڑائے گا۔پھر اسے قریش کی شکست اور مکہ کے سقوط کا مجرم کہا جائے گا۔ اس نے اپنے سواروں کو ایک رستہ سمجھا کر کہا کہ مسلمانوں سے پہلے مکہ پہنچنا ہے۔یہ دور کا رستہ تھا لیکن وہ مسلمانوں کی نظروں سے بچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کے تین سو سواروں نے گھوڑوں کو ایڑیں لگا دیں۔ رستہ لمبا ہونے کی وجہ سے تین میل کا فاصلہ ڈیڑھ گنا ہو گیا تھا جسے خالد رفتار سے کم کرنے کے جتن کر رہا تھا۔عربی نسل کے اعلیٰ گھوڑے شام سے بہت پہلے مکہ پہنچ گئے۔وہاں مسلمانوں کی ابھی ہوا بھی نہیں پہنچی تھی۔مکہ کے لوگ گھوڑوں کے شور روغل پر گھروں سے نکل آئے۔ابو سفیان بھی باہر آ گیا۔’’کیا تمہاری گھات کامیاب رہی؟‘‘ابو سفیان نے پوچھا۔
’’وہ گھات میں آئے ہی نہیں۔‘‘خالد نے گھوڑے سے کود کر اترتے ہوئے کہا۔’’کیا تم مکہ کے ارد گرد ایسی خندق کھُدوا سکتے ہو جیسی محمد ﷺ نے مدینہ کے اردگرد کھُدوائی تھی؟‘‘’’وہ کہاں ہیں؟‘‘ابو سفیان نے گھبرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔’’کیایہ بہتر نہیں ہو گا کہ مجھے ان کی کچھ خبر دو۔‘‘’’جتنی دیر میں تم خبر سنتے اور سوچتے ہو ،اتنی دیر میں وہ مکہ کو محاصرہ میں لے لیں گے۔‘‘خالد نے کہا۔’’ہبل اور عزیٰ کی عظمت کی قسم!وہ پہاڑوں اور چٹانوں کو روندتے آ رہے ہیں۔اگر وہ کراع الغمیم میں سے کسی اور رستہ سے گزرے ہیں تو وہ انسان نہیں۔کوئی پیادہ وہاں سے اتنی تیزی سے نہیں گزرسکتا جتنی تیزی سے وہ گزر آئے ہیں۔‘‘

’’خالد !‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’ذرا ٹھنڈے ہوکر سوچو۔ خداکی قسم!گھبراہٹ سے تمہاری آواز کانپ رہی ہے۔‘‘’’ابو سفیان!‘‘ خالد نے جل کر کہا۔’’تم میں صرف یہ خوبی ہے کہ تم میرے قبیلے کے سردار ہو ۔میں تمہیں یہ بتا رہا ہوں کہ ان کیلئے مکہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دینا کوئی مشکل نہیں۔‘‘خالد نے دیکھا کہ اس کے دو ساتھی سالار عکرمہ اور صفوان قریب ہی کھڑے تھے۔خالد نے ان سے کہا۔’’آج بھول جاؤ کہ تمہارا سردار کون ہے۔ صرف یہ یاد رکھو کہ مکہ پر طوفان آ رہا ہے ۔اپنی آن کو بچاؤ، یہاں کھڑے ایک دوسرے کا منہ نہ دیکھو۔ اپنے شہر کو بچاؤ،اپنے دیوتاؤں کو بچاؤ۔‘‘سارے شہر میں بھگدڑ بپا ہو گئی تھی۔ لڑنے والے لوگ برچھیاں تلواریں اور تیر کمان اٹھائے مکہ کے دفاع کو نکل آئے۔عورتوں اور بچوں کو ایسے بڑے مکانوں میں منتقل کیا جانے لگاجو قلعوں جیسے تھے۔جوان عورتیں بھی لڑنے کیلئے تیار ہو گئیں۔یہ ان کے شہر اور جان و مال کا ہی نہیں ان کے مذہب کا بھی مسئلہ تھا۔یہ دو نظریوں کی ٹکر تھی۔لیکن خالد اسے اپنے ذاتی وقار کا اوراپنے خاندانی وقار کا بھی مسئلہ سمجھتا تھا۔اس کا خاندان جنگ و جدل کیلئے مشہور تھا۔اس کے باپ کو لوگ عسکری قائد کہا کرتے تھے۔خالد اپنے خاندان کے نام اور خاندانی روایات کو زندہ رکھنے کی سر توڑ کوشش کر رہاتھا۔اس نے ابو سفیان کو نظر انداز کر دیا۔عکرمہ اور صفوان کو ساتھ لیااور ایسی چالیں سوچ لیں جن سے وہ مسلمانوں کو شہر سے دور رکھ سکتا تھا۔اس نے سواروں کی کچھ تعداد اس کام کیلئے منتخب کر لی کہ یہ سوار شہر سے دور چلے جائیں اور مسلمان اگر محاصرہ کر لیں تو یہ گھوڑ سوار عقب سے محاصرے پر حملہ کر دیں مگر وہاں جم کر لڑیں نہیں۔بلکہ محاصرے میں کہیں شگاف ڈال کر بھاگ جائیں۔شہر میں افراتفری اور لڑنے والوں کی بھاگ دوڑ اور للکار میں چند ایک عورتوں کی مترنم آوازیں سنائی دینے لگیں۔ان کی آوازیں ایک آواز بن گئی تھی۔وہ رزمیہ گیت گا رہی تھیں۔جس میں رسول ﷲﷺ کے قتل کا ذکر تھا۔بڑا جوشیلا اور بھڑکا دینے والا گیت تھا۔یہ عورتیں گلیوں میں یہ گیت گاتی پھر رہی تھیں۔چند ایک مسلّح شتر سواروں کی مدینہ کی طرف سے آنے والے رستے پر اور دو تین اورسمتوں کو دوڑا دیا گیاکہ وہ مسلمانوں کی پیش قدمی کی خبریں پیچھے پہنچاتے رہیں۔عورتیں اونچے مکانوں کی چھتوں پر چڑھ کر مدینہ کی طرف دیکھ رہی تھیں۔سورج افق میں اترتا جا رہا تھا۔ صحرا کی شفق بڑی دلفریب ہوا کرتی ہے مگر اس شام مکہ والوں کو شفق میں لہو کے رنگ دِکھائی دے رہے تھے۔کہیں سے،کسی بھی طرف سے گرد اٹھتی نظر نہیں آ رہی تھی۔

’’انہیں اب تک آ جانا چاہیے تھا۔‘‘خالدنے عکرمہ اور صفوان سے کہا۔’’ہم اتنی جلدی خندق نہیں کھود سکتے۔‘‘’’ہم خندق کا سہارا لے کر نہیں لڑیں گے۔‘‘عکرمہ نے کہا۔’’ہم ان کے محاصرے پر حملے کریں گے۔‘‘صفوان نے کہا ۔’’ان کے پاؤں جمنے نہیں دیں گے۔‘‘سورج غروب ہو گیا۔ رات گہری ہونے لگی۔ کچھ بھی نہ ہوا۔ مکہ میں زندگی بیدار اور سرگرم رہی۔ جیسے وہاں رات آئی ہی نہ ہو۔عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قلعوں جیسے مکانوں میں منتقل کر دیا گیا تھا اور جو لڑنے کے قابل تھے وہ اپنے سالاروں کی ہدایات پر شہر کے اردگرد اپنے مورچے مضبوط کررہے تھے۔رات آدھی گزر گئی۔ مدینہ والوں کی آمد کے کوئی آثا ر نہ آئے۔ پھر رات گزر گئی۔’’خالد!‘‘ابو سفیان نے پوچھا۔’’کہاں ہیں وہ؟‘‘’’اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ وہ نہیں آئیں گے تو یہ بہت خطرناک فریب ہے جو تم اپنے آپ کو دے رہے ہو۔‘‘ خالد نے کہا ۔’’محمدﷺ کی عقل تک تم نہیں پہنچ سکتے ،جو وہ سوچ سکتا ہے وہ تم نہیں سوچ سکتے۔ وہ آئیں گے۔‘‘اس وقت تک مسلمان چند ایک معرکے دوسرے قبیلوں کے خلاف لڑکر اپنی دھاک بِٹھا رہے تھے۔ ان میں غزوۂ خیبر ایک بڑا معرکہ تھا انہیں جنگ کا تجربہ ہو چکا تھا۔’’ابو سفیان !‘‘خالد نے کہا۔’’ میں تمہیں خبردار کرتا ہوں کہ مسلمان اب وہ نہیں رہے جو تم نے اُحد میں دیکھے تھے۔ اب وہ لڑنے کے ماہر بن چکے ہیں ان کا ابھی تک سامنے نہ آنا بھی ایک چال ہے۔‘‘ابو سفیان کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ ایک شتر سوار نظر آیا۔ جس کا اونٹ بہت تیز رفتار سے دوڑتا آیا تھا ۔ابو سفیان اور خالدکے قریب آکر اس نے اونٹ روکا اور کود کر نیچے آیا۔
’’میری آنکھوں نے جو دیکھا ہے وہ تم نہیں مانو گے۔‘‘شتر سوار نے کہا۔’’میں نے مسلمانوں کو حدیبیہ میں خیمہ زن ہوتے دیکھا ہے۔‘‘’’وہ محمدﷺ اور ا س کا لشکر نہیں ہو سکتا ۔‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’خدا کی قسم! میں محمد ﷺ کو اس طرح پہچانتا ہوں جس طرح تم دونوں مجھے پہچانتے ہو۔‘‘شتر سوار نے کہا۔’’اور میں نے ایسے اور آدمیوں کو بھی پہچانا ہے جو ہم میں سے تھے لیکن ان کے ساتھ جا ملے تھے۔‘‘حدیبیہ مکہ سے تیرہ میل دور مغرب میں ایک مقام تھا ۔رسولِ کریمﷺ خونریزی سے بچنا چاہتے تھے اس لیے آپﷺ مکہ سے دور حدیبیہ میں جا خیمہ زن ہوئے تھے۔

’’ہم ان پر شب خون ماریں گے۔‘‘ خالدنے کہا۔’’ انہیں سستانے نہیں دیں گے۔وہ جس راستہ سے حدیبیہ پہنچے ہیں اس راستے نے انہیں تھکا دیا ہو گا۔ ان کی ہڈیاں ٹوٹ رہی ہوں گی۔ وہ تازہ دم ہو کر مکہ پر حملہ کریں گے۔ ہم انہیں آرام نہیں کرنے دیں گے۔‘‘ ’’ہم انہیں وہاں سے بھگا سکتے ہیں۔‘‘ ابو سفیان نے کہا ۔’’چھاپہ مار جَیش تیار کرو۔‘‘رسولِ اکرمﷺ نے اپنی خیمہ گاہ کی حفاظت کا انتظام کر رکھاتھا ۔گھڑ سوار جیش رات کو خیمہ گاہ کے اردگرد گشتی پہرہ دیتے تھے ۔دن کو بھی پہرے کا انتظام تھا۔ ایک اور گھوڑ سوار جیش نے اپنے جیسا ایک گھڑ سوار جیش دیکھا جو خیمہ گاہ سے دور آہستہ آہستہ چلا جا رہا تھا۔ مسلمان سوار ان سواروں کی طرف چلے گئے ۔وہ قریش کے سوار تھے جو وہاں نہ رکے اور دور چلے گئے کچھ دیر بعد وہ ایک اور طرف سے آتے نظر آئے اور مسلمانوں کی خیمہ گاہ سے تھوڑی دور رک کر چلے گئے۔دوسرے روز وہ سوار خیمہ گاہ کے قریب آ گئے ۔اب کے مسلمان سواروں کا ایک جیش جو خیمہ گاہ سے دور نکل گیا تھا واپس آ گیا۔ اس جیش نے ان سواروں کو گھیر لیا ،انہوں نے گھیرے سے نکلنے کیلئے ہتھیار نکال لیے۔ان میں جھڑپ ہو گئی لیکن مسلمان سواروں کے کماندار نے اپنے سواروں کو روک لیا ۔’’انہیں نکل جانے دو۔‘‘جیش کے کماندار نے کہا۔’’ہم لڑنے آئے ہوتے تو ان میں سے ایک کو بھی زندہ نہ جانے دیتے۔‘‘
وہ مکہ کے لڑاکا سوار تھے۔ انہوں نے واپس جا کرا بوسفیان کو بتایا۔’’چند اور سواروں کو بھیجو۔‘‘ ابو سفیان نے کہا۔’’ایک شب خون مارو۔‘‘’’میرے قبیلے کے سردار!‘‘ ایک سوار نے کہا۔’’ہم نے شب خون مارنے کی بہت کوشش کی ہے لیکن ان کی خیمہ گاہ کے اردگرد دن رات گھڑ سوار گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ قریش کے چند اور سواروں کو بھیجا گیا۔انہوں نے شام کے ذرا بعد شب خون مارنے کی کوشش کی لیکن مسلمان سواروں نے ان کے کچھ سواروں کو زخمی کرکے وہاں سے بھگا دیا ۔‘‘مکہ والوں پر تذبذب کی کیفیت طاری تھی۔ وہ راتوں کو سوتے بھی نہیں تھے ۔محاصرہ کے ڈر سے وہ ہر وقت بیدار اور چو کس رہتے تھے اور دن گزرتے جا رہے تھے۔ آخر ایک روز مکہ میں ایک مسلمان سوار داخل ہوا۔ یہ حضرت عثمانؓ تھے۔انھوں نے ابوسفیان کے متعلق پوچھا۔ابو سفیان نے دور سے دیکھا اور دوڑا آیا۔ خالد بھی آ گیا ۔
’’میں محمد رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام لے کر آیا ہوں ۔‘‘حضرت عثمانؓ نے کہا۔’’ہم لڑنے نہیں آئے ۔ہم عمرہ کرنے آئے ہیں ۔عمرہ کر کے چلے جائیں گے۔‘‘’’اگر ہم اجازت نہ دیں تو……?‘‘ ابو سفیان نے پوچھا۔

’’ہم مکہ والوں کا نہیں خدا کا حکم ماننے والے ہیں۔‘‘حضرت عثمانؓ نے جواب دیا ۔’’ہم اپنے اور اپنی عبادت گاہ کے درمیان کسی کو حائل نہیں ہونے دیا کرتے۔ اگر مکہ کے مکان ہمارے لیے رکاوٹ بنیں گے تو خدا کی قسم! مکہ ملبے اور کھنڈر وں کی بستی بن جائے گی۔اگر یہاں کے لوگ ہمیں روکیں گے تومکہ کی گلیوں میں خون بہے گا۔ ابو سفیان ہم امن کا پیغام لے کر آئے ہیں اور یہاں کے لوگوں سے امن کا تحفہ لے کر جائیں گے۔‘‘خالد کو وہ لمحے یاد تھے جب یہ مسلمان سوار پروقار لہجے میں دھمکی دے رہا تھا ۔خالد کا خون کھول اٹھنا چاہیے تھا لیکن اسے یہ آدمی بڑا اچھا لگا تھا ۔ابوسفیان نے عثمانؓ کو عمرے کی پیشکش بھی کی تھی لیکن اُنھوں نے اپنے نبیﷺ کے بغیر اکیلے عمرہ کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ادھر مذاکرات میں جب زیادہ وقت گزرا تو ہوا کے دوش پر یہ افواہ حدیبیہ پہنچی کے عثمانؓ کو قتل کر دیا گیا ہے۔جس کے جواب میں رسولِ کریمﷺ نے قتلِ عثمانؓ کے انتقام کے لئے اپنے ۱۴ سو جانثاروں سے بیعت لی تھی۔اسی بیعت کو تاریخ میں بیعت رضوان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اور اسی بیعت کی وجہ سے ابو سفیان سمجھوتے پر راضی ہوا تھا۔ پھر ایک صلح نامہ تحریر ہوا تھا اسے ’’صلح حدیبیہ ‘‘کا نام دیا گیا۔مسلمانوں کی طرف سے اس پر رسولِ اکرمﷺ نے اور قریش کی طرف سے سہیل بن عمرو نے دستخط کیے تھے ،اس صلح نامے میں طے پایا تھا کہ مسلمان اور اہلِ قریش دس سال تک نہیں لڑیں گے اور مسلمان آئندہ سال عمرہ کرنے آئیں گے اور مکہ میں تین دن ٹھہر سکیں گے۔ رسولِ کریمﷺ قریش میں سے تھے ۔خالد آپﷺ کو بہت اچھی طرح سے جانتا تھا لیکن اب اس نے آپﷺ کو دیکھا تو اس نے محسوس کیا کہ یہ کوئی اور محمدﷺ ہے ۔وہ ایسا متاثر ہوا کہ اس کے ذہن سے اتر گیا کہ یہ وہی محمد ﷺ ہے جسے وہ اپنے ہاتھوں قتل کرنے کے منصوبے بناتا رہتا تھا۔ خالد نبی کریمﷺ کو ایک سالار کی حیثیت سے زیادہ دیکھ رہا تھا وہ آپﷺ کی عسکری اہلیت کا قائل ہو گیا تھا ۔ صلح حدیبیہ تک مسلمان رسولِ کریمﷺ کی قیادت میں چھوٹے بڑے اٹھائیس معرکے لڑ چکے اور فتح و نصرت کی دھاک بِٹھا چکے تھے۔مسلمان عمرہ کرکے چلے گئے۔ دو مہینے گزر گئے ،ان دو مہینوں میں خالد پر خاموشی طاری رہی لیکن اس خاموشی میں ایک طوفان ا ور ایک انقلاب پرورش پا رہا تھا۔خالد نے مذہب میں کبھی بھی دلچسپی نہیں لی تھی۔ اسے نہ کبھی اپنے بتوں کا خیال آیا تھا نہ کبھی اس نے رسولِ کریمﷺ کی رسالت کو سمجھنے کی کوشش کی تھی ۔مگر اب از خود اس کا دھیان مذہب کی طرف چلا گیا اور وہ اس سوچ میں کھو گیا کہ مذہب کون سا سچا ہے اور انسان کی زندگی میں مذہب کی اہمیت اور ضرورت کیا ہے۔’’عکرمہ !‘‘ایک روز خالد نے اپنے ساتھی سالار عکرمہ سے جو اس کا بھتیجا بھی تھا کہا۔’’ میں نے فیصلہ کر لیا ہے…… میں سمجھ گیا ہوں۔‘‘ ’’کیا سمجھ گئے ہو خالد؟‘‘عکرمہ نے پوچھا۔’’محمد جادو گر نہیں۔‘‘ خالدنے کہا ۔’’اور محمدﷺ شاعر بھی نہیں ۔میں نے محمدﷺ کو اپنا دشمن سمجھنا چھوڑ دیا ہے اور میں نے محمدﷺ کو خدا کا رسول تسلیم کرلیا ہے۔‘‘’’ہبل اور عزیٰ کی قسم! تم مزاق کر رہے ہو۔‘‘ عکرمہ نے کہا۔’’کوئی نہیں مانے گا کہ ولید کا بیٹا اپنا مذہب چھوڑ رہا ہے ۔‘‘

’’ولید کا بیٹا اپنا مذہب چھوڑ چکا ہے۔‘‘ خالد نے کہا۔’’کیا تم بھول گئے ہو کہ محمدﷺ ہمارے کتنے آدمیوں کو قتل کرا چکا ہے ؟‘‘عکرمہ نے کہا۔’’تم ان کے مذہب کو قبول کر رہے ہو جن کے خون کے ہم پیاسے ہیں؟‘‘’’میں نے فیصلہ کر لیا ہے عکرمہ! ‘‘خالد نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔’’میں نے سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے۔‘‘اسی شام ابو سفیان نے خالد کو اپنے ہاں بلایا۔عکرمہ بھی وہاں موجود تھا۔ ’’کیا تم بھی محمدﷺ کی باتوں میں آگئے ہو؟‘‘ابوسفیان نے اس سے پوچھا۔’’تم نے ٹھیک سنا ہے ابو سفیان !‘‘خالد نے کہا ۔’’محمدﷺ کی باتیں ہی کچھ ایسی ہیں۔‘‘مشہور مؤرخ واقدی نے لکھا ہے کہ ابو سفیان قبیلے کا سردار تھا۔ اس نے خالد کا فیصلہ بدلنے کیلئے اسے قتل کی دھمکی دی۔ خالد اس دھمکی پر مسکرا دیا مگر عکرمہ برداشت نہ کر سکا۔حالانکہ وہ خود خالد کے اس فیصلے کے خلاف تھا۔’’ابو سفیان!‘‘عکرمہ نے کہا۔’’میں تمہیں اپنے قبیلے کا سردار مانتا ہوں لیکن خالد کو جو تم نے دھمکی دی ہے وہ میں برداشت نہیں کر سکتا ۔تم خالد کو اپنا مذہب بدلنے سے نہیں روک سکتے۔اگر تم خالد کے خلاف کوئی کارروائی کرو گے تو ہوسکتا ہے کہ میں بھی خالد کے ساتھ مدینہ چلا جاؤں۔‘‘اگلے ہی روز مکہ میں ہر کسی کی زبان پر یہ الفاظ تھے۔’’خالد بن ولید محمد ﷺ کے پاس چلا گیا ہے ……‘‘خالد یادوں کے ریلے میں بہتا مدینہ کو چلا جا رہا تھا ۔اسے اپنا ماضی اس طرح یاد آیا تھا جیسے وہ گھوڑے پر سوار مدینہ کو نہیں بلکہ پیادہ اپنی ماضی میں چلا جا رہا تھا۔ اسے مدینہ کے اونچے مکانوں کی منڈیریں نظر آنے لگی تھیں۔’’خالد!‘‘ اسے کسی نے پکارا لیکن اسے گزرے ہوئے وقت کی آواز سمجھ کر اس نے نظر انداز کر دیا۔اسے گھوڑوں کے ٹاپ سنائی دیئے ،تب اس نے دیکھا۔ اسے دو گھوڑے اپنی طرف آتے دِکھائی دیئے ۔وہ رک گیا۔ گھوڑے اس کے قریب آ کر رک گئے۔ ایک سوار اس کے قبیلے کے مشہور جنگجو ’’عمرو بن العاص‘‘ تھے اور دوسرے عثمان بن طلحہ۔دونوں نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا ۔’’کیا تم دونوں مجھے واپس مکہ لے جانے کیلئے آئے ہو ؟‘‘خالد نے ان سے پوچھا۔ ’’تم جا کہاں رہے ہو؟‘‘عمرو بن العاص نے پوچھا۔’’اور تم دونوں کہاں جا رہے ہو؟‘‘خالد نے پوچھا۔’’خدا کی قسم! ہم تمہیں بتائیں گے تو تم خوش نہیں ہو گے ۔‘‘عثمان بن طلحہ نے کہا۔’’ہم مدینہ جا رہے ہیں۔‘‘
’’بات پوری کرو عثمان ۔‘‘عمرو بن العاص نے کہا۔’’خالد! ہم محمدﷺ کا مذہب قبول کرنے جا رہے ہیں ۔ہم نے محمد ﷺکو خدا کا سچا نبی مان لیا ہے ۔‘‘’’پھر ہم ایک ہی منزل کے مسافر ہیں ۔‘‘خالدنے کہا ۔’’آؤ اکھٹے چلیں۔‘‘
وہ ۳۱ مئی ۶۲۸ء کا دن تھا۔جب تاریخِ اسلام کے دو عظیم جرنیل خالد ؓبن ولید اور عمرو ؓبن العاص مدینہ میں داخل ہوئے۔ ان کے ساتھ عثمانؓ بن طلحہ تھے ۔تینوں رسولِ کریمﷺ کے حضور پہنچے ۔سب سے پہلے خالدؓ بن ولید اندر گئے۔ ان کے پیچھے عمرو ؓبن العاص اور عثمانؓ بن طلحہ گئے ۔تینوں نے قبولِ اسلام کی خواہش ظاہر کی ۔رسول ﷲﷺ اٹھ کھڑے ہوئے اور تینوں کو باری باری گلے لگایا۔

شہیدوں کو دل سے اتار دیں، ذہن سے ان کا نام و نشان مٹا دیں۔ان کی یادوں کو شراب میں ڈبو دیں۔اس زمین پر جو خدا نے ہمیں شہیدوں کے صدقے عطا کی ہے۔ بادشاہ بن کر گردن اکڑا لیں،اور کہیں کہ میں ہوں اس زمین کا شہنشاہ، شہیدوں کے نام پر مٹی ڈال دیں، کسی شہید کی کہیں قبر نظر آئے تو اسے زمین سے ملا دیں ۔مگر زندگی کے ہر موڑ اور ہر دوراہے پر آپ کو شہید کھڑے نظر آئیں گے……آپ کے ذہن کے کسی گوشے سے شہید اٹھیں گے اور شراب اور شہنشاہیّت کا نشہ اتاردیں گے۔جس نے تخت و تاج کے نشے میں شہیدوں سے بے وفائی کی وہ شاہ سے گدا اور ذلیل و خوار ہوا کیونکہ اس نے قرآن کے اس فرمان کی حکم عدولی کی کہ شہید زندہ ہیں، انہیں مردہ مت کہو۔
عرب کے ملک اردن میں گمنام سا ایک مقام ہے جس کا نام مُوتہ ہے ۔اس کے قریب سے گزر جانے والوں کو بھی شاید پتا نہ چلتا ہو گا کہ وہاں ایک بستی ہے ۔اس کی حیثیت چھوٹے سے ایک گاؤں سے بڑھ کر اورکچھ بھی نہیں۔ لیکن شہیدوں نے اردن کے بادشاہ کو اپنی موجودگی کا اور اپنی زندگی کا، جو اُنہیں ﷲ تعالیٰ نے عطا کی ہے، احساس دلادیا ہے۔وہ جس معرکے میں شہید ہوئے تھے ،وہ ساڑھے تیرہ صدیاں پہلے اس مقام پر لڑا گیا تھا۔پھریہ مقام گزرتے زمانے کی اڑتی ریت میں دبتا چلا گیا۔کچھ عرصے سے موتہ کے رہنے والے ایک عجیب صورتِ حال سے دوچار ہونے لگے ۔آج بھی وہاں چلے جائیں اور وہاں رہنے والوں سے پوچھیں تو وہ بتائیں گے کہ ان میں سے کوئی نہ کوئی آدمی رات کو خواب میں دیکھتا ہے کہ ساڑھے تیرہ صدیاں پہلے کے مجاہدینِ اسلام چل پھر رہے ہیں ۔کفّار کا ایک لشکر آتا ہے اور مجاہدین اس کے مقابلے میں جم جاتے ہیں۔ان کی تعداد تھوڑی ہے اور لشکرِ کفار مانندِ سیلاب ہے۔معرکہ بڑا خونریز ہے۔

یہ خواب ایک دو آدمیوں نے نہیں ،وہاں کے بہت سے آدمیوں نے دیکھا ہے اور کسی نہ کسی کو یہ خواب ابھی تک نظر آتا ہے۔یہ لوگ پڑھے لکھے نہیں،انہیں معلوم نہیں تھا کہ ساڑھے تیرہ صدیاں پہلے یہاں حق و باطل کا معرکہ لڑا گیا تھا۔ مگر ان کے خوابوں میں شہید آنے لگے۔یہ خبر اُردن کے ایوانوں تک پہنچی،تب یاد آیا کہ یہ وہ موتہ ہے جہاں مسلمانوں اور عیسائیوں کی ایک لڑائی ہوئی تھی۔یہ عیسائی عرب کے باشندے تھے۔شہیدوں نے اپنے زندہ ہونے کا ایسا احساس دلایا کہ ُاردن کی حکومت نے جنگِ موتہ اور اس جنگ کے شہیدوں کی یادگار کے طور پر ایک نہایت خوبصورت مسجد تعمیر کرنے کے احکام جاری کردیئے۔مسجد کی تعمیر ۱۸۶۸ء میں شروع ہوئی تھی۔اس جنگ میں تین سپہ سالار۔زیدؓ بن حارثہ، جعفر ؓ بن ابی طالب، اور عبد اﷲ ؓ بن رواحہ یکے بعد دیگرے شہید ہو گئے تھے۔ ان تینوں کی قبریں موتہ سے تقریباً دو میل دور ہیں جو ابھی تک محفوظ ہیں۔مدینہ میں آ کر خالدؓ بن ولید نے اسلام قبول کیا تو ان کی ذات میں عظیم انقلاب آ گیا۔ تین مہینے گزر گئے تھے ۔خالد ؓ زیادہ تر وقت رسولِ کریمﷺ کے حضور بیٹھے فیض حاصل کرتے رہتے مگر انہیں ابھی عسکری جوہر دکھانے کا موقع نہیں ملا تھا۔وہ فنِ حرب و ضرب کے ماہر جنگجو تھے۔ان کا حسب و نسب بھی عام عربوں سے اونچا تھا لیکن انہوں نے ایسا دعویٰ نہ کیا کہ انہیں سالار کا رتبہ ملنا چاہیے۔انہوں نے اپنے آپ کوسپاہی سمجھا اور اسی حیثیت میں خوش رہے۔آج کے شام اور اُردن کے علاقے میں اس زمانے میں قبیلۂ غسّان آباد تھا۔ جو اس علاقے میں دور تک پھیلا ہوا تھا۔یہ قبیلہ طاقت کے لحاظ سے زبردست مانا جاتا تھا۔کیونکہ جنگجو ہونے کے علاوہ اس کی تعداد بہت زیادہ تھی ۔اس قبیلے میں عیسائی بھی شامل تھے۔اس وقت روم کا شہنشاہ ہرقل تھا۔جس کی جنگ پسندی اور جنگی دہشت دور دور تک پہنچی ہوئی تھی۔اسلام تیزی سے پھل پھول رہاتھا۔قبیلۂ قریش کے ہزار ہا لوگ اسلام قبول کر چکے تھے۔ان کے مانے منجھے ہوے سردار اور سالار بھی مدینہ جا کر رسول ﷲﷺ کے دستِ مبارک پر بیعت کر چکے تھے اور مسلمان ایک جنگی طاقت بنتے جا رہے تھے۔کئی ایک چھوٹے چھوٹے قبائل حلقۂ بگوشِ اسلام ہو گئے تھے۔

مدینہ اطلاعات پہنچ رہی تھیں کہ قبیلۂ غسان مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت اور اسلام کی مقبولیت کو روکنے کیلئے مسلمانوں کو للکارنا چاہتاہے اور جنگی تیاریوں میں مصروف ہے۔ یہ بھی سنا گیا کہ غسان کا سردارِ اعلیٰ روم کے بادشاہ ہرقل کے ساتھ دوستی کرکے اس کی جنگی طاقت بھی مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کررہا ہے۔رسولِ کریمﷺ نے اپنا ایک ایلچی )جس کا نام تاریخ میں محفوظ نہیں(غسان کے ایک سردارِ اعلیٰ کے ہاں اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ’’ ﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ وحدہٗ لا شریک ہے اور اسلام ایک مذہب اور ایک دین ہے ،باقی تمام عقیدے جو مختلف مذاہب کی صورت اختیار کر گئے ہیں،توہمات ہیں ا ور یہ انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں۔‘‘رسولِ کریمﷺ نے غسان کے سردارِ اعلیٰ کو قبولِ اسلام کی دعوت دی۔نبیِ کریمﷺ نے یہ پیغام اس خیال سے بھیجا تھا کہ پیشتر اس کے کہ قبیلہ غسان روم کے شہنشاہ ہرقل کی جنگی قوت سے مرعوب ہو کر عیسائیت کی آغوش میں چلا جائے ،یہ قبیلہ اسلام قبول کرلے اور اسے اپنا اتحادی بنا کر ہرقل سے بچایا جائے۔’’خدا کی قسم! اس سے بہتر فیصلہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔‘‘خالدؓ نے ایک محفل میں کہا۔’’ہرقل نے فوج کشی کی تو یوں سمجھو کہ باطل کا طوفان آ گیا ،جو سب کو اڑا لے جائے گا۔‘‘’’غسان کی خیریت اسی میں ہے کہ رسول ﷲﷺ کی دعوت قبول کرلے۔‘‘کسی اور نے کہا۔’’نہیں کرے گا تو ہمیشہ کیلئے ہرقل کا غلام ہو جائے گا۔‘‘ایک اور نے کہا۔اس وقت ہرقل قبیلہ غسان میں داخل ہو چکا تھا۔اس کے ساتھ جو فوج تھی،اس کی تعداد ایک لاکھ تھی۔غسان کے سردارِ اعلیٰ کو اطلاع مل چکی تھی مگر وہ پریشان نہیں تھا۔وہ ہرقل کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھانے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ نبی ِ کریمﷺ کا ایلچی بصرہ کو جا رہا تھا۔غسان کا دارالحکومت بصرہ تھا۔ایلچی کے ساتھ ایک اونٹ پر لدے ہوئے زادِ راہ کے علاوہ تین محافظ بھی تھے۔بڑی لمبی مسافت کے بعد ایلچی موتہ پہنچااور اس نے ذرا سستانے کیلئے اپنا مختصر ساقافلہ روک لیا۔قریب ہی قبیلہ غسان کی ایک بستی تھی۔اس کے سردار کو اطلاع ملی کہ چار اجنبی بستی کے قریب پڑاؤ کیے ہوئے ہیں۔سردار نے جس کا نام شرجیل بن عمرو تھا،مدینہ کے ایلچی کو اپنے ہاں بلایا اور پوچھا کہ وہ کون ہے اور کہاں جا رہا ہے؟

(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں