شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 18





شمشیرِ بے نیام⚔ 


حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

( قسط نمبر-18)


جنوری ۶۳۰ء کی اس رات جب قبیلۂ ہوازن کے سردار قبیلہ ثقیف کی دعوت پر طائف آئے اور مالک بن عوف اور دُرید بن الصّمہ انہیں مکہ پر حملے کیلئے اکسا رہے تھے۔ ہوازن کے ایک سردار نے مشورہ دیا کہ کاہن کو بلا کر فال نکلوائی جائے کہ ہمارا حملہ کامیاب ہو گا کہ نہیں۔ یہ فال تیروں کے ذریعے نکالی جاتی تھی جسے ازلام کہتے تھے۔ بہت سے تیر اکھٹے رکھے ہوتے تھے۔ کسی پر ہاں لکھا ہوتا تھا۔ کسی پر نہیں۔ بت کا کوئی مجاور یا کاہن مذہبی پیشوا اس ترکش سے ایک تیر نکالتا اور دیکھتا تھا کہ اس پر ہاں لکھا ہے یا نہیں۔ یہ فال کا جواب ہوتا تھا۔ مجاور کی نسبت کاہن کو بہتر سمجھاجاتا تھا۔ کاہن دانش مند ہوتے تھے۔ ان کے پاس پُر اثر اور دل میں اتر جانے والے الفاظ کا ذخیرہ ہوتا تھا اور ان کے بولنے کا انداز تو ہر کسی کو متاثر کرلیتا تھا۔ کاہن فال نکالے بغیرغیب کی خبریں دیا کرتے اور لوگ انہیں سچ مانا کرتے تھے۔ اگلی صبح ہوازن اور ثقیف کے سردار ایک کاہن کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ان میں سے کسی نے ابھی بات بھی نہیں کی تھی کہ کاہن بول پڑا!’اگر میں غیب کی خبر دے سکتا ہوں اور آے یوالے وقت میں بھی جھانک کر بتا سکتا ہوں کہ کیسا ہوگا اور کیاہو گا تو کیا میں یہ نہیں بتا سکوں گا کہ تمہارے دلوں میں کیا ہے؟‘‘……اس نے کہا۔’’تم اپنی زبانوں کو ساکن رکھو اور میری زبان سے سنو کہ تم کیا کہنے آئے ہو……تم جس دشمن پر حملہ کرنے جا رہے ہو وہ یوں سمجھو کہ سویا ہوا ہے۔ اس نے مکہ پر قبضہ کیا ہے اور وہاں کے انتظامات سیدھے کررہا ہے۔ وہ اپنی بادشاہی کی بنیادیں پکی کررہا ہے۔ مکہ میں اس کے دشمن بھی موجود ہیں ۔ ہر کسی نے محمد ﷺ کا مذہب قبول نہیں کیا۔‘‘’’مقدس کاہن!‘‘ دُرید بن الصّمہ نے کہا۔’’ہمیں یہ بتا کہ ہم محمدﷺ کو خبر ہونے سے پہلے ان کو دبوچ سکتے ہیں ؟ کیا ہمارا اچانک حملہ مکہ کے مسلمانوں کو گھٹنوں بٹھا سکے گا؟‘‘کاہن نے آسمان کی طرف دیکھا۔ کچھ بڑبڑایا اور بولا۔’’آنے والے وقت کے پردوں کو چاک کرکے دیکھا ہے……تمہارا حملہ اچانک ہوگا۔ مسلمانوں کو اس وقت پتا چلے گا جب تمہاری تلواریں انہیں کاٹ رہی ہوں گی۔ کون ہے جو برستی تلواروں میں سنبھل کر اپنے آپ کو بچانے کی ترکیب کر سکتا ہے؟……یہی وقت ہے۔ یہی موقع ہے۔ مسلمان اگر سنبھل گئے تو تم اپنے ارادوں میں کامیاب نہیں ہو سکو گے۔ پھر مسلمان تمہارے گھروں تک تمہارا پیچھا کریں گے اور تمہارے خزانوں کو اور تمہاری عورتوں کو تمہاری لاشوں کے اوپر سے گزار کر اپنے ساتھ لے جائیں گے……ازلام کی ضرورت نہیں ۔لات نے اشارہ دے دیا ہے اور پوچھا ہے کہ مجھے پوجنے والوں کی تلواریں ابھی تک نیاموں میں کیوں ہیں؟‘‘’’کوئی قربانی؟‘‘ایک سردار نے پوچھا۔’’حام۔‘‘کاہن نے کہا۔’’ایک حام۔ اگر ہے تو دے دو۔ نہیں ہے تو اپنے قبیلے سے کہو کہ پیٹھ نہ دکھائیں۔ اپنے خون کی اور اپنی جانوں کی قربانی دیں……حام کی تلاش میں وقت ضائع نہ کریں……جاؤ،میں نے تمہیں خبر دے دی ہے۔ مکہ میں مسلمان دوسرے کاموں میں مصروف ہیں۔وہ لڑنے کیلئے تیار نہیں۔ یہ وقت پھر نہیں آئے گا۔‘‘

حام اس اونٹ کو کہتے تھے جس کی چوتھی نسل پیدا ہو جاتی تھی۔ اسے یہ لوگ اپنے بت کے نام پر کھلا چھوڑ دیتے تھے۔ اس اونٹ کو متبرک سمجھ کر اس پر نہ کوئی سواری کر سکتا تھا نہ اس سے کوئی اور کام لیا جاتا تھا۔ اس پر خاص نشان لگا دیا جاتا تھا۔ اسے جو کوئی دیکھتا تھا ،اس کا احترام کرتا اور اسے اپنے کھانے کی چیزیں کھلا دیتا تھا۔ جب ہوازن اور ثقیف کے سردار کاہن کی اشیرباد لے کر چلے گئے توکاہن اندرونی کمرے میں چلا گیا۔ وہاں وہ بوڑھا یہودی بیٹھا تھا جسے گذشتہ رات ضیافت کے دوران مالک بن عوف نے اشارے سے کہا تھا کہ وہ سب کو بتائے کہ محکومی اور غلامی کیا ہوتی ہے۔’’میں نے تمہارا کام کردیا ہے۔‘‘کاہن نے اسے کہا۔’’اب یہ لوگ مکہ کی طرف کوچ میں تاخیر نہیں کریں گے۔‘‘’’کیا انہیں کامیابی حاصل ہوگی؟‘‘بوڑھے یہودی نے کہا۔’’کامیابی کا انحصار ان کے لڑنے کے جذبے اور عقل پرہے۔‘‘کاہن نے کہا۔’’اگر انہوں نے صرف جوش اور جذبے سے کام لیا اور عقل کو استعمال نہ کیا تو محمدﷺ کی عسکری قابلیت انہیں بہت بری شکست دے گی……میرا انعام؟‘‘’’تمہارا انعام ساتھ لایا ہوں۔‘‘بوڑھے نے کہا اور آواز دی۔ دوسرے کمرے سے ایک حسین لڑکی آئی۔بوڑھے یہودی نے اپنے چغے کے اندر ہاتھ ڈال کر سو نے کے دو ٹکڑے نکالے اور کاہن کو دے دیئے۔’’میں کل صبح اس لڑکی کو لے جاؤں گا۔‘‘بوڑھے نے کہا۔’’میں تمہیں ایک بات بتا دینا چاہتا ہوں ۔‘کاہن نے کہا۔’’میں نے تمہارے کہنے پر ان لوگوں کو کہا ہے کہ فوراً حملہ کریں لیکن ان سرداروں میں سمجھ بوجھ ہے ۔ حالات کو سمجھ لیتے ہیں ۔ان کا بوڑھا سردار دُرید بن الصّمہ پہلے سے جانتا تھا کہ مسلمان مکہ میں ابھی جم کے نہیں بیٹھ سکے۔ ان کے سامنے اور بہت سے مسئلے ہیں۔ ان پر حملے کیلئے یہی وقت موزوں ہے۔ ہوازن اور ثقیف کے سردار اپنے ارادے کی تصدیق کیلئے میرے پاس آئے تھے۔ اچھا ہوا کہ ان سے پہلے تم چوری چھپے میرے پاس آ گئے تھے۔‘‘’’میرا مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کو ختم کیا جائے۔‘‘بوڑھے یہودی نے کہا۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ ہوازن اور ثقیف دو طاقتور قبیلے تھے۔ مسلمانوں نے مکہ فتح کرلیا تو ان دونوں قبیلوں کو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ دونوں کے لوگ الگ الگ بستیوں میں رہتے ہیں اور بستیوں کی تعداد زیادہ ہے اور یہ ایک دوسرے سے دور دور بھی ہیں ۔مسلمان ہر بستی پر قابض ہوکر دونوں قبیلوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔ انہوں نے سوچا کہ قبیلوں کو متحد کرکے مسلمانوں پر ہلّہ بول دیا جائے۔

دونوں قبیلے لڑنے والے آدمیوں کو ساتھ لے کر حنین کے قریب اوطاس کے مقام پر لے گئے۔ ان کے سرداروں نے چھوٹے چھوٹے کئی اور قبائل کو اس قسم کے پیغام بھیج کرکہ مسلمان ان کی بستیوں کو تباہ و برباد کرنے کیلئے آ رہے ہیں، اپنے اتحادی بنا لیا تھا۔ اس متحدہ لشکر کی تعداد بارہ ہزار ہو گئی تھی۔ اس کا سپہ سالار مالک بن عوف تھا۔ اس نے لشکر کے ہر آدمی کو اجازت دے دی تھی کہ وہ اپنے بیوی بچوں اور مویشیوں کو ساتھ لے آئے۔ اس نے اس اجازت کا جواز یہ پیش کیا تھا کہ مکہ کا محاصرہ بہت لمبا بھی ہو سکتا ہے۔اگر ایسا ہو ا تو لشکریوں کو اپنے بیوی بچوں اور مویشیوں کا غم نہ ہوگا کہ معلوم نہیں کیسے ہوں گے۔ اس اجازت سے تقریباً سب نے فائدہ اٹھایا تھا۔ اس طرح جتنا لشکر لڑنے والوں کا تھا،اس سے کہیں زیادہ تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی۔ اونٹ بھی بے شمار تھے۔ دُرید بن الصّمہ بہت بوڑھا تھا۔ وہ میدانِ جنگ میں جانے کے قابل نہیں تھا لیکن لڑنے اور لڑانے کا جو تجربہ اسے تھا وہ اور کسی کو نہیں تھا۔ سپہ سالار مالک بن عوف کو بنایا گیا تھا لیکن اس میں خوبی صرف یہ تھی کہ وہ بہت جوشیلا تھا۔ دُرید کو اس کے تجربے کی وجہ سے بلایاگیا تھا۔ دُرید بن الصّمہ اس وقت اس لشکر میں شامل ہوا جب لشکر اوطاس کے مقام پر خیمہ زن تھا۔ وہ شام کے وقت پہنچا،اسے بچوں کے رونے کی آوازیں سنائی دیں۔ اس نے بکریوں اور گدھوں کی آوازیں بھی سنیں۔ اس نے کسی سے پوچھا کہ لشکر کے ساتھ بچے ،بکریاں اور گدھے کون لایا ہے؟ اسے بتایا گیا کہ سپہ سالار نے بال بچے اور مویشی ساتھ لے جانے کی نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ انہیں ساتھ لانے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔’’مالک!‘‘ دُرید بن الصّمہ نے مالک بن عوف کے خیمے میں جاکر پوچھا۔’’یہ تو نے کیا کیا ہے؟میں نے ایسا لشکر پہلی بار دیکھا ہے جو لڑنے والے لشکر کی بجائے نقل مکانی کرنے والوں کا قافلہ معلوم ہوتا ہے۔‘‘’’مجھے تمہاری جنگی فہم و فراست پر ذرا سا بھی شک نہیں میرے بزرگ!‘‘ مالک بن عوف نے کہا۔’’لیکن میں نے جو سوچا ہے ،وہ تم ساری عمر نہیں سوچ سکے۔ میں نے لشکریوں سے  یہ کہا ہے کہ محاصرہ لمبا ہو جانے کی صورت میں انہیں اپنے اہل و عیال اور مال مویشی کے متعلق پریشانی پیدا ہو جائے گی۔ لیکن میں نے سوچا کچھ اور ہے۔ میں مکہ کو محاصرے میں نہیں لوں گا بلکہ یلغار کردوں گا۔ مسلمانوں کو ہم بے خبری میں جا لیں گے۔ تمہیں معلوم ہے کہ مسلمان لڑنے میں کتنے تیز اور عقل مند ہیں۔وہ پینترے بدل بدل کر لڑیں گے۔ ہو سکتا ہے ہمارے آدمی ان کی بے جگری کے آگے ٹھہر نہ سکیں۔
وہ جب دیکھیں گے کہ ان کی عورتیں اور جوان بیٹیاں اور بچے اور دودھ دینے والے مویشی بھی ساتھ ہیں تو وہ انہیں بچانے کیلئے جان کی بازی لگا کر لڑیں گے اور زیادہ بہادری سے لڑیں گے۔ بھاگیں گے نہیں۔‘‘’’تجربہ عمر سے حاصل ہوتا ہے مالک! ‘‘دُرید نے کہا۔’’تیرے پاس جذبہ ہے، غیرت ہے، جرات ہے لیکن عقل تیری ابھی خام ہے۔ لڑائی میں اُن لوگوں کا دھیان آگے نہیں پیچھے ہوگا۔ یہ یہی دیکھتے رہیں گے کہ دشمن پہلو سے یا عقب سے ان کے بال بچوں تک تو نہیں آ گیا۔ دشمن جب ان پر جوابی حملہ کرے گا تو یہ تیزی سے اپنے بیوی بچوں تک پہنچیں گے کہ یہ دشمن سے محفوظ رہیں……تو بہت بڑی کمزوری اپنے ساتھ لے آیا ہے۔ محمد کی جنگی قیادت کو تو نہیں جانتا میں جانتا ہوں۔ اس کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک قابل سالار ہے۔ وہ تیری اس کمزور رگ پر وار کریں گے۔ وہ کوشش کریں گے کہ تیرے لشکر کی عورتوں اور بچوں کو یرغمال میں لے لیں۔ انہیں دور پیچھے رہنے دو اور مکہ کو کوچ کرو۔‘‘’’احترام کے قابل بزرگ!‘‘مالک بن عوف نے کہا۔’’تم بہت پرانی باتیں کر رہے ہو ۔تم نے محسوس نہیں کیا کہ اتنی لمبی عمر نے تمہیں تجربوں سے تو مالا مال کر دیاہے لیکن عمر نے تمہاری عقل کمزور کر دی ہے۔ اگر میں سپہ سالار ہوں تو میرا حکم چلے گا ۔ میں جہاں ضرورت سمجھوں گا تم سے مشورہ لے لوں گا۔‘‘مؤرخوں نے لکھا ہے کہ دُرید بن الصّمہ یہ سوچ کر چپ ہو گیا کہ یہ موقع آپس میں الجھنے کا نہیں تھا۔’’تم لشکر سے کچھ اور کہنا چاہتے ہو تو کہہ دو۔‘‘مالک بن عوف نے کہا۔’’جو کام مجھے کرنا ہے وہ میں تمہیں بتائے بغیر کروں گا۔‘‘دُرید نے کہا۔’’مجھ میں لڑنے کی طاقت نہیں رہی۔ لڑا سکتا ہوں۔‘‘اس نے اپنے خیمے میں جا کر قبیلے کے سرداروں کو بلایا اور اتنا ہی کہا۔’’جب حملہ کرو گے تو تمہارا اتحاد نہ ٹوٹے۔ تمام لشکر سے کہہ دو کہ حملہ سے پہلے تلواروں کی نیامیں توڑ کر پھینک دیں۔‘‘عربوں میں یہ رسم تھی کہ لڑائی میں جب کوئی اپنی نیام توڑ دیتا تھا تو اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ یہ شخص لڑتا ہوا جان دے دے گا ،پیچھے نہیں ہٹے گا اور شکست نہیں کھائے گا۔ نیام توڑنے کو وہ فتح یا موت کا اعلان سمجھتے تھے۔ کسی بھی تاریخ میں ایسا اشارہ نہیں ملتا کہ دُرید بن الصّمہ نے قبیلوں کے سراروں سے کہا ہو کہ وہ اپنے اہل و عیال کو اوطاس میں ہی رہنے دیں لیکن دو مؤرخوں نے لکھا ہے کہ لڑائی کے وقت صرف ہوازن قبیلہ تھا جس نے اپنی عورتوں ،بچوں اور بکریوں وغیرہ کو اپنے ساتھ رکھا تھا۔ یہ دوسرا موقع تھا کہ اتنے زیادہ قبیلوں کی متحد ہ فوج مسلمانوں کو تہس نہس کرنے آرہی تھی۔ اس سے پہلے جنگِ خندق میں اتنے زیادہ قبیلے مسلمانوں کے خلاف متحد ہوئے تھے۔ اب مالک بن عوف اس امید پر متحدہ فوج کو لے کر جا رہا تھا کہ وہ مکہ پر اچانک ٹوٹ پڑے گا۔ اس لشکر کو اب اوطاس سے مکہ کو کوچ کرنا تھا اور اس کوچ کی رفتار بہت تیز رکھنی تھی۔ اوطاس میں لشکر کا قیام اس لیے زیادہ ہو گیا تھا کہ دوسرے قبیلوں کو وہاں اکھٹا ہونا تھا۔ اگر اس لشکر میں صرف لڑنے والے ہوتے تو لشکر فوراً مکہ کی طرف پیش قدمی کر جاتا۔ اس میں عورتیں اور بچے بھی تھے اور ان کا سامان بھی تھا۔ اس لیے وہاں سے کوچ میں خاصی تاخیر ہو گئی ۔ اس دوران مکہ کی گلیوں میں ایک للکارسنائی دی۔’’مسلمانو! ہوشیار……تیار ہو جاؤ……وہ ایک شتر سوار تھا۔‘‘ جو رسول اکرمﷺ کے گھر کی طرف جاتے ہوئے اعلان کرتا جا رہا تھا ۔’’ﷲ کی قسم! میں جو دیکھ کر آیا ہوں وہ تم میں سے کسی نے نہیں دیکھا۔‘‘’’کیا شور مچاتے جا رہے ہو؟‘‘کسی نے اسے کہا ۔’’رکو اور بتاؤ کیا دیکھ کر آئے ہو؟‘‘’’رسول ﷲﷺ کو بتاؤں گا۔‘‘وہ کہتا جا رہا تھا۔’’تیار ہو جاؤ……ہوازن اور ثقیف کا لشکر……‘‘’’رسول ِکریمﷺ کو اطلاع مل گئی کہ ہوازن اور ثقیف کے قبیلوں کے ساتھ دوسرے قبیلوں کے ہزاروں لوگ اوطاس کے قریب خیمہ زن ہیں اور ان کا ارادہ مکہ پر حملہ کرنے کا ہے اور وہ کوچ کرنے والے ہیں ۔تاریخوں میں اس شخص کا نام نہیں ملتا۔ جس نے اوطاس میں اس متحدہ لشکر کو دیکھا اور یہ بھی معلوم کر لیا تھا کہ لشکر کا ارادہ کیا ہے۔ مؤرخین نے اتنا ہی لکھا ہے کہ رسولِ کریمﷺ کو قبل از وقت غیر مسلم قبیلوں کے اجتماع کی خبر مل گئی۔ ان مؤرخین کے مطابق)اور بعد کے مبصروں کی تحریروں کے مطابق(رسولِ اکرمﷺ کی خواہش اور کوشش یہ تھی کہ جنگ و جدل سے گریز کیا جائے اور ان غیر مسلموں کو جو آپﷺ کو اور مسلمانوں کو دشمن سمجھتے اور آپﷺ کے خلاف سازشیں تیار کرتے رہتے تھے ،انہیں خیر سگالی اور بھائی چارے کے پیغام دیئے جائیں۔ اس خواہش اور کوشش کے علاوہ جنوری ۶۳۰ء میں حضورﷺ لڑنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ کیونکہ آپﷺ نے مکہ کو چند ہی دن پہلے اپنی تحویل میں لیا تھا اور شہر کے انتظامات میں مصروف تھے۔ حضورﷺ کو مشورے دیئے گئے کہ شہری انتظامات کو ملتوی کرکے دفاعی انتظامات کی طرف فوری توجہ دی جائے۔ اور دشمن کے حملے یا محاصرے کا انتظار کیا جائے۔ رسول ﷲﷺ نے مشورہ دینے والوں سے یہ کہہ کہ ان کا مشورہ مسترد کردیا کہ’’ ہم یہاں دفاعی مورچے بنا کر ان میں بیٹھ جائیں اور جب دشمن کو یہ خبر ملے کہ ہم بیدار ہیں اور قلعہ بند ہو کہ بیٹھ گئے ہیں تو دشمن مکہ سے کچھ دور خیمہ زن ہو کر اس انتظار میں تیار بیٹھ جائے کہ ہم دفاع میں ذرا سی کوتاہی کریں اور وہ شہر کو محاصرے میں لے لے ،یا سیدھی یلغار کردے۔ تو یہ دشمن کو دعوت دینے والی بات ہو گی کہ مسلسل خطرہ بن کر ہمارے سروں پر بیٹھا رہے۔‘‘

اس دور کی مختلف تحریروں سے صاف پتا چلتا ہے کہ رسولِ کریمﷺ نے یہ اصول وضع کیا اور مسلمانوں کو ذہن نشین کرایا تھا کہ دشمن اگر اپنے گھر بیٹھ کر ہی للکارے تو اس کی للکار کا جواب ٹھوس طریقے یعنی عملی طریقے سے دو۔ دوسرا یہ کہ دشمن کی نیت اور اس کے عزائم کا علم ہو جائے تو اپنی سرحدوں کے اندر بیٹھ کر اس کا انتظار نہ کرتے رہو ،اس پر حملہ کردو اور حضورﷺ نے اپنی امت کو تیسرا اصول یہ دیا کہ ہر وقت تیاری کی حالت میں رہو اور دشمن کو احساس دلا دو کہ وہ تمہیں للکارے گا یا تمہارے لیے خطرہ بننے کی کوشش کرے گا تو تم بجلی کی طرح اس پر کوندو گے۔.    نہیں! ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘مالک بن عوف اپنے خیمے میں غصے سے بار بار زمین پر پاؤں مارتا اور کہتا تھا۔’’وہ اتنی جلدی کس طرح یہاں تک پہنچ سکتے ہیں؟ کیا ہم اپنے ساتھ غداروں کو بھی لائے تھے جنہوں نے محمدﷺ کو بہت دن پہلے خبردار کر دیا تھا کہ ہم آ رہے ہیں؟‘‘’’خود جا کر دیکھ لے مالک!‘‘ بوڑھے دُرید بن الصّمہ نے کہا۔’’اپنی آنکھوں سے دیکھ  لے۔ اگر میں جھوٹ بول رہا ہوں تو اپنے دیوتا لات کو دھوکا دے رہا ہوں۔ اس آدمی نے کہا جو دیکھ کر آیا تھا کہ مسلمانوں کا ایک لشکر جس کی تعداد کم و بیش دس ہزار تھی ،حنین کے قریب آ کر پڑاؤ کیے ہوئے تھا۔ اس نے کہا۔ انہوں نے خیمے نہیں گاڑے ،وہ تیاری کی حالت میں ہیں……اور یہ بھی جھوٹ نہیں کہ اس لشکر کا سپہ سالار خود محمدﷺ ہیں ۔‘‘مالک بن عوف غصے سے باؤلا ہوا چلا جا رہاتھا۔ وہ مسلمانوں پر اچانک ٹوٹ پڑنے چلا تھا۔ اس نے اوطاس سے مکہ کی طرف پیش قدمی کا حکم دے دیا تھا مگر اسے اطلاع ملی کہ مسلمان اپنے رسولﷺ کی قیادت میں اس کی جمیعت سے تھوڑی ہی دور حنین کے گردونواح میں آ گئے ہیں اور مقابلے کیلئے تیار ہیں۔’’غصہ تیری عقل کو کمزور کر رہا ہے مالک!‘‘ دُرید نے اسے کہا۔’’اب محاصرے اور یلغار کو دماغ سے نکال اور اس زمین سے فائدہ اٹھا جس پر مسلمانوں سے تیرا مقابلہ ہو گا۔ تو اچھی چالیں سوچ سکتا ہے۔ تو دشمن کو دھوکا دے سکتا ہے۔ تجھ میں جرات ہے پھر تو کیوں پریشان ہو رہا ہے؟ میں تیرے ساتھ ہوں……میں تجھے ایک بار پھر کہتا ہوں کہ ہوازن کے لوگوں نے اپنی عورتوں اور بچوں اور اپنے مویشیوں کو ساتھ لا کر اچھا نہیں کیا……آ میرے ساتھ حنین کی وادی کو دیکھیں۔‘‘وہ دونوں اس علاقے کو دیکھنے چل پڑے جہاں لڑائی متوقع تھی۔

رسولِ کریمﷺ کے ساتھ مجاہدین کی جو فوج تھی اس کی تعداد بارہ ہزار تھی۔ اس نفری میں مکہ کے دو ہزار ایسے افراد تھے جنہیں اسلام قبول کیے ابھی چند ہو دن ہوئے تھے۔ بعض صحابہ کرامؓ ان نو مسلموں پر بھروسہ کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ لیکن ﷲ کے رسولﷺ کو اپنے ﷲ پر بھروسہ تھا۔ ابو سفیانؓ،عکرمہ ؓاور صفوانؓ بھی نو مسلم تھے۔ یہ تینوں سرداری اور سالاری کے رتبوں کے افراد تھے جن کا نو مسلم قریش پر اثرورسوخ بھی تھا۔ لیکن دیکھا یہ گیا کہ یہ سب اپنے مرضی سے اس لشکر میں شامل ہوئے تھے۔ ایک مؤرخ نے لکھا ہے کہ ان تینوں نے مجاہدین کیلئے کم و بیش ایک سو زِرہ بکتر دیے تھے۔ یہ لشکر ۲۷ جنوری ۶۳۰ء )۶شوال ۸ھ(کی صبح مکہ سے روانہ ہوا اور ۳۱ جنوری کی شام حنین کے گردونواح میں پہنچ گیا تھا ۔ کوچ برق رفتار تھا۔ رسولِ کریمﷺ کو معلوم تھا کہ قبیلہ ہوازن اور قبیلہ ثقیف لڑنے والے قبیلے ہیں اور ان کے قائد دُرید اور مالک جنگی فہم و فراست اور چالوں سے بخوبی واقف ہیں۔ اس لیے آپﷺ نے ہراول میں جن سات سو مجاہدین کو رکھا وہ بنو سلیم کے تھے اور ان کے کمانڈر خالدؓ بن ولید تھے۔ حنین ایک وادی ہے جو مکہ سے گیارہ میل دور ہے۔ بعض جگہوں پر یہ وادی سات میل چوڑی ہے،کہیں اس کی چوڑائی اس سے بھی کم ہے اور حنین کے قریب جاکر وادی کی چوڑائی کم ہوتے ہوتے بمشکل دو فرلانگ رہ جاتی ہے ۔ یہاں سے وادی کی سطح اوپر کو اٹھتی ہے یعنی یہ چڑھائی ہے۔ آگے ایک درّہ نما راستہ ہے جو دائیں بائیں مڑتا ایک اور وادی میں داخل ہوتا ہے ۔ اس وادی کا نام نخلۃ الیمانیہ ہے ۔ راستہ خاصا تنگ ہے۔ مسلمانوں نے اپنے جاسوسوں کی آنکھوں سے دیکھا کہ قبیلوں کی متحدہ فوج ابھی اوطاس کے قریب خیمہ زن ہے مگر جاسوس رات کی تاریکی میں نہ جھانک سکے یا انہوں نے ضرورت  محسوس نہ کی کہ رات کو بھی دیکھ لیتے کہ دشمن.  کوئی نقل و حرکت تو نہیں کر رہا۔ دن کے دوران متحدہ قبیلوں کے کیمپ میں کوچ کاپیش قدمی کی تیاری کے کوئی آثار نظر نہ آئے۔ کیمپ پر مردنی سی چھائی ہوئی تھی۔ کوئی سرگرمی نہیں تھی۔ یکم فروری ۶۳۰ء (۱۱شوال ۸ھ)کی سحر مجاہدین نے اوطاس کی طرف پیش قدمی کی ۔ اسکیم یہ تھی کہ دشمن کے کیمپ پر یلغار کی جائے گی۔ امید یہی تھی کہ دشمن کو بے خبری میں جالیں گے۔ پیش قدمی مکمل طور پرمنظم تھی۔ ہراول میں بنو سلیم کے مجاہدین تھے جن کے قائد خالدؓ بن ولید تھے۔ اس حیثیت میں خالد ؓ سب سے آگے تھے۔ اسلامی فوج کی نفری تو بارہ ہزار تھی۔ لیکن اس باقاعدہ فوج کے ساتھ ایک بے قاعدہ فوج بھی تھی جس کی نفری بیس ہزار تھی۔ یہ مکہ اور گردونواح کے لوگ تھے جو فوج کی مدد کیلئے ساتھ آئے تھے۔ ایک واقعہ قابلِ ذکر ہے ۔اتنا زیادہ لشکر دیکھ کر بعض صحابہ کرامؓ نے بڑے فخر سے کہا۔’’کون ہے جو ہمیں شکست دے سکتا ہے؟‘‘
دو مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اس فخرمیں تکبر کی جھلک بھی تھی۔

خالدؓ اسلامی لشکر کے آگے تھے۔ وہ وادی حنین کے تنگ راستے میں داخل ہوئے تو صبح طلوع ہو رہی تھی ،خالدؓ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور رفتار تیز کردی۔ خالدؓ جوشیلے جنگجو تھے اور جارحانہ قیادت میں یقین رکھتے تھے۔ وہ جب مسلمان نہیں ہوئے تھے تو قبیلۂ قریش کے سردارِ اعلیٰ ابو سفیان سے انہیں سب سے بڑی شکایت یہ تھی کہ وہ انہیں کھُل کر لڑنے نہیں دیتے تھے۔ ان کے قبولِ اسلام کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے رسولِ کریمﷺ کی عسکری قیادت میں وہ جذبہ دیکھا تھا جو انہیں پسند تھا۔ خالدؓ نے قبولِ اسلام سے پہلے عکرمہ سے کہا بھی تھا کہ میرے عسکری جذبے اور میدانِ جنگ میں جارحانہ انداز کی قدر صرف مسلمان ہی کر سکتے ہیں۔ رسول ﷲﷺ کی خالدؓ کی عسکری اہلیت اور قابلیت کی جو قدرکی تھی اس کا ثبوت یہ تھا کہ وہ اتنے بڑے لشکر کے ہراول کے کمانڈر تھے۔ صبح طلوع ہو رہی تھی جب خالدؓ بن ولید کا ہراول کا دستہ گھاٹی والے تنگ رستے میں داخل ہوا۔ اچانک زمین و آسمان جیسے پھٹ پڑے ہوں ۔ ہوازن ،ثقیف اور دیگر قبیلوں کی متحدہ فوج کے نعرے گھٹاؤں کی گرج اور بجلیوں کی کڑک کی طرح بلند ہوئے اور موسلا دھار بارش کی طرح تیروں کی بوچھاڑیں آنے لگیں۔ یہ تیر دائیں بائیں کی چٹانوں اور ٹیکریوں سے آ رہے تھے۔ یہ دشمن کی گھات تھی۔ مالک بن عوف اور دُرید بن الصّمہ نے دن کے وقت اپنے کیمپ میں کوئی سرگرمی ظاہر نہیں ہونے دی تھی۔ ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے یہ جنگی کیمپ نہیں کسی قافلے کا پڑاؤ ہے ۔شام کے بعد مالک بن عوف اپنی فوج کو حنین کے تنگ راستے پر لے گیا اور تیر اندازوں کو دونوں طرف چھپا کر بِٹھا دیا تھا۔ تیروں کی بوچھاڑیں اچانک بھی تھیں اور بہت زیادہ بھی۔ مجاہدین کے گھوڑے تیر کھا کے بے لگام ہو کر بھاگے۔ جو سوار تیروں سے محفوظ رہے ،و ہ بھی پیچھے کو بھاگ اٹھے۔ تیروں کی بوچھاڑیں اور تندوتیز ہو گئیں۔ گھوڑے بھی بے قابو اور سوار بھی بے قابو ہو گئے ۔ بھگدڑ مچ گئی۔’’مت بھاگو! ‘‘خالدؓ بن ولید تیروں کی بوچھاڑوں میں کھڑے چلّا رہے تھے۔’’پیٹھ نہ دکھاؤ……مقابلہ کرو……ہم دشمن کو……‘‘گھوڑوں اور سواروں کی بھگدڑ ایسی تھی کہ خالدؓ بن ولید کی پکار کسی کے کانوں تک پہنچتی ہی نہیں تھی۔ کوئی یہ دیکھنے کیلئے بھی نہیں رُکتا تھا کہ خالدؓ کے جسم میں کتنے تیر اُتر گئے ہیں اور وہ پیچھے ہٹنے کے بجائے وہیں کھڑے اپنے دستے کو مقابلے کیلئے للکار رہے ہیں۔ وہ آخر بھگدڑ کے ریلے کی زد میں آ گئے اور ان کے دھکوں سے یوں دور پیچھے آ گئے جیسے سیلاب میں بہہ گئے ہوں۔ جب بھگدڑ کا ریلا گزر گیا تو خالدؓ اتنے زخمی ہو چکے تھے کہ گھوڑے سے گر پڑے اور بے ہوش ہو گئے۔

ہراول کے پیچھے اسلامی فوج آ رہی تھی ۔ اس کے رضا کاروں کا بے قاعدہ لشکر بھی تھا، ہراول کا دستہ بھاگتا دوڑتا پیچھے کو آیا تو فوج میں بھی بھگدڑ مچ گئی،ہراول کے بہت سے آدمیوں کے جسموں میں تیر پیوست تھے،اور انکے کپڑے خون سے لال تھے۔ گھوڑوں کو بھی تیر لگے ہوئے تھے ۔ مالک بن عوف کی فوج کے نعرے جو پہلے سے زیادہ بلند ہو گئے تھے ،سنائی دے رہے تھے۔ یہ حال دیکھ کر اسلامی فوج بکھر کر پیچھے کو بھاگی۔ بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ وہ قریش جو بے دلی سے مسلمان ہوئے تھے اور اسلامی فوج کے ساتھ آ گئے تھے انہوں نے اس بھگدڑ کو یوں بڑھایا جیسے جلتی پر تیل ڈالا جاتا ہے۔ وہ نہ صرف بھاگے بلکہ انہوں نے خوف وہراس پھیلایا۔ اُنہیں ایک خوشی تو یہ تھی کہ لڑائی سے بچے اور دوسری یہ کہ مسلمان بھاگ نکلے ہیں اور انہیں شکست ہوئی ہے۔ مسلمانوں کی کچھ نفری وہیں جا پہنچی جہاں سے چلی تھی،اس جگہ کو فوجی اڈا(بیس)بنایا گیا تھا۔زیادہ تعداد ان مسلمانوں کی تھی جنہوں نے پیچھے ہٹ کر ایسی جگہوں پر پناہ لے لی جہاں چھپا جا سکتا تھا لیکن وہ چھپنے کیلئے بلکہ چھپ کر یہ دیکھنے کیلئے وہاں رُکے تھے کہ ہوا کیا ہے؟ اور وہ دشمن کہاں ہے جس سے ڈر کر پوری فوج بھاگ اٹھی ہے ۔ وہاں تو حالت یہ ہو گئی تھی کہ بھاگتے ہوئے اونٹ اور گھوڑے ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے اور پیادے ان کے درمیان آ کر کچلے جانے سے بچنے کیلئے ہر طرف بھاگ رہے تھے۔ رسولِ کریمﷺ نے اپنی فوج کی یہ حالت دیکھی تو آپﷺ بھاگنے والوں کے رستے میں کھڑے ہو گئے ،آپﷺ کے ساتھ نو صحابہ کرامؓ تھے ۔ان میں چار قابلِ ذکر ہیں:حضرت عمرؓ، حضرت عباسؓ ،حضرت علیؓ اور حضرت ابو بکرؓ۔’’مسلمانو ں ! ‘‘رسولِ کریمﷺ نے بلند آواز سے للکارنا شروع کر دیا۔’’کہاں جا رہے ہو؟میں اِدھر کھڑا ہوں۔ میں جو ﷲ کا رسول ہوں ۔ مجھے دیکھو میں محمد ابنِ عبدﷲ یہاں کھڑا ہوں ۔‘‘مسلمان ہجوم کے قریب سے بھاگتے ہوئے گزرتے جا رہے تھے۔ آپﷺ کی آواز شور میں دب کر رہ گئی تھی۔ خالدؓ بن ولید کہیں نظر نہیں آ رہے تھے۔ وہ آگے کہیں بے ہوش پڑے تھے۔ اتنے میں قبیلہ ہوازن کے کئی آدمی اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار بھاگتے ہوئے مسلمانوں کے تعاقب میں آئے۔ ان کے آگے ایک شتر سوار تھا جس نے جھنڈا اٹھا رکھا تھا۔ حضرت علیؓ نے ایک مسلمان کو ساتھ لیا اور اس شتر سوار علمبردار کے پیچھے دوڑ پڑے۔ قریب جا کر حضرت علیؓ نے اس کے اونٹ کی پچھلی ٹانگ پر تلوار کا وار کر کے ٹانگ کاٹ دی۔ اونٹ گرا تو سوار بھی گر پڑا۔حضرت علیؓ نے اس کے اٹھتے اٹھتے اس کی گردن صاف کاٹ دی۔ حضورﷺ ایک ٹھیکری پر جا کھڑے ہوئے ۔ دشمن کے کسی آدمی کی للکار سنائی دی۔’’ وہ رہا محمدﷺ……قتل کر دو۔‘‘


جاری ہے۔۔۔۔۔

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں