⚔شمشیرِ بے نیام⚔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
( قسط 20 )
مالک بن عوف کی بیوی نے مالک کے ہاتھ سے تلوار لے لی اور پلنگ پر پھینک دی۔’’ہوش میں آ عوف کے بیٹے! ‘‘بیوی نے اسے کہا۔’’اپنی قسمت اس شخص کے ہاتھ میں نہ دے جو ایک لڑکی کے خنجر سے قتل ہو گیا ہے۔‘‘اس نے غلام کو بلایا اور اسے کہا ۔’’یہ لڑکی ہماری مہمان ہے۔ اس کے غسل اور آرام کا انتظام کرو۔‘‘ مالک بن عوف کے چہرے سے خوف کا تاثر دھلنے لگا، بیوی نے اس کے خیالوں میں انقلاب برپا کر دیا۔ صبح طلوع ہو رہی تھی۔ جب شکست اور غم کے مارے ہوئے مالک بن عوف کو دو اطلاعیں ملیں ۔ ایک یہ کہ رات کو کاہن قتل ہو گیا ہے اور مجاوریہ کہہ رہے ہیں کہ رات مالک بن عوف کے سوا کاہن کے کمرے میں اور کوئی نہیں گیا تھا اور نہ رات کے وقت کسی کو وہاں تک جانے کی جرات ہو سکتی ہے۔ مجاوروں نے یہ مشہورکر دیا تھا کہ کاہن کو مالک بن عوف نے خود قتل کیا ہے یا قتل کروایا ہے۔ مالک بن عوف کو دوسری خبر یہ ملی کہ مسلمان جو طائف کی طرف بڑھے چلے آرہے تھے ،معلوم نہیں کدھرچلے گئے ہیں ۔ یہ خبر ایسی تھی جس نے مالک بن عوف کے حوصلے میں کچھ جان پیدا کردی۔ اس نے تیز رفتار گھوڑوں پر دو تین قاصد اس راستے کی طر ف دوڑا دیئے جو حنین سے طائف کی طرف آتا تھا۔ اس کے بعد وہ عبادت گاہ کی طرف چلا گیا ۔ اس نے لوگوں کو بڑی مشکل سے یقین دلایا کہ وہ مقدس کاہن کو قتل کرنے کی جرات نہیں کرسکتا ۔ لوگ پوچھتے تھے کہ پھرقاتل کون ہے؟ مالک بن عوف نے کہا کہ وہ قاتل کا سراغ جلد ہی لگا لے گا۔ وہ یہودی لڑکی کو سامنے نہیں لانا چاہتا تھا ۔ اس نے لوگوں کی توجہ ادھر سے ہٹا کر مسلمانوں کی طرف کر دی ۔ جو طائف کو محاصرے میں لینے کیلئے بڑھے آ رہے تھے ۔ وہ عبادت گاہ کے اندر چلا گیا ۔ اس نے مجاوروں کے ساتھ کسی طرح معاملہ طے کر لیا۔’’لات کے پجاریوں!‘‘ ایک بوڑھے مجاور نے باہرآکر لوگوں کے ہراساں ہجوم سے کہا۔’’ہمارے مقدس کاہن کو کسی نے قتل نہیں کیا۔ وہ دیوتا لات کے وجود میں گھل مل گیا ہے۔ دیوتا لات کے حکم سے اب میں کاہن ہوں ۔ جاؤ اپنی بستی کو اس دشمن سے بچاؤ جو بڑھا چلا آ رہا ہے۔ ‘‘مالک بن عوف جب اپنے گھر پہنچا تو کچھ دیر بعد اس کے بھیجے ہوئے قاصد واپس آ گئے۔ انہوں نے اسے بتایا کہ اس راستے پر جو طائف کی طرف آتا ہے اس پہ مسلمانوں کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ مالک بن عوف نے اپنے آپ کو دھوکے میں نہ رکھا اس نے اپنے قبیلے کے سرداروں سے کہا کہ’’ محمدﷺ اپنے دشمن کو بخشنے والا نہیں ۔وہ کسی نہ کسی طرف سے جوابی وار ضرور کرے گا۔ ‘‘اس نے اعلان کیا کہ شہر کے دفاعی انتظامات میں کوئی کمی نہ رہنے دی جائے۔
قاصدوں نے مالک بن عوف کو بالکل صحیح اطلاع دی تھی کہ طائف کے راستے پر مسلمانوں کا نام و نشان نظر نہیں آتا۔ لیکن مسلمان سیلاب کی طرح طائف کی طرف بڑھے چلے آ رہے تھے۔ انہوں نے رسولِ اکرمﷺکے حکم سے راستہ بدل لیا تھا ۔ بدلا ہوا راستہ بہت لمبا تھا لیکن رسولِ کریمﷺ نے اتنا لمبا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا تھا کہ چھوٹا راستہ پہاڑیوں اور چٹانوں میں سے گزرتا تھا۔ کھڈ نالے بھی تھے ۔ رسولِ کریمﷺ نے اپنے سالاروں سے کہا تھا کہ حنین کے پہلے تجربے کو نہ بھولو، مالک بن عوف بڑا جنگجو ہے ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ طائف تک کا تمام علاقہ گھات کیلئے موزوں ہے ۔ مالک بن عوف ایسی ہی گھات لگا سکتا ہے جیسی گھات میں اس نے خالدؓ بن ولید کو تیروں سے چھلنی کر دیا تھا۔ سولِ اکرمﷺ نے جو راستہ طائف تک پہنچنے کیلئے اختیار کیا تھا وہ وادی الملیح سے گزرتا تھااور وادی القرن میں داخل ہو جاتا تھا۔ آپﷺ اپنے لشکر کو وادی القرن میں سے گزارنے کی بجائے طائف کے شمال مغرب میں سات میل دور نکل گئے اور نخِب اور صاویرا کے علاقے میں داخل ہو گئے۔ یہ علاقہ نشیب و فراز کا تھا۔ اس میں پہاڑیاں اور چٹانیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ مجاہدین کا یہ لشکر ۵ فروری ۶۳۰ء (۱۵ شوال ۸ ہجری) کے روز طائف کے گردونواح میں اس سمت سے پہنچا جو طائف والوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔ مجاہدینِ اسلام کا کوچ بڑا ہی تیز تھا ۔ہراول میں بنو سلیم تھے جن کے کماندار خالدؓ بن ولید تھے۔ توقعات کے عین مطابق طائف تک دشمن کہیں بھی نظر نہ آیا۔ ا س کی وجہ یہ تھی کہ (جیساکہ مؤرخین نے لکھا ہے) کہ مالک بن عوف اب کھلے میدان میں لڑنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔ حنین کے معرکے میں زیادہ تر نقصان بنو ہوازن کا ہوا تھا۔ ققبیلہ ثقیف لڑا تھا لیکن جو ٹکر بنو ہوازن نے لی تھی وہ بنو ثقیف کو لینے کا موقع نہیں ملاتھا۔ پھر بھی ثقیف پسپا ہو آئے تھے۔ رسولِ کریمﷺ اس خطرے سے بے خبر نہیں تھے کہ اہلِ ثقیف تازہ دم ہیں اور وہ اپنے شہر کے دفاع میں لمبے عرصے تک لڑیں گے۔ معلوم نہیں یہ کس کی غلطی تھی کہ مسلمان شہر کی دیوار کے خطرناک حد تک قریب جا رکے۔ وہاں وہ پڑاؤ کرنا چاہتے تھے۔ اچانک اہلِ ثقیف دیواروں پر نمودار ہوئے اور انہوں نے مسلمانوں پر تیروں کا مینہ برسا دیا۔ بہت سے مسلمان زخمی اور بہت سے شہید ہو گئے۔ مسلمان پیچھے ہٹ آئے۔ رسولِ کریمﷺ نے ابو بکر صدیقؓ کو محاصرے کا کمانڈر مقررکیا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے بڑی تیزی سے شہر کا محاصرہ مکمل کر لیا۔ انہوں نے ان راستوں پر زیادہ نفری کے دستے رکھے جن راستوں سے دشمن کا فرار ممکن تھا۔
شہر کا دفاع بڑا مضبوط تھا۔ قبیلۂ ثقیف پوری طرح تیارتھا۔ مسلمان تیر اندازی کے سوا اور کوئی کارروائی نہیں کر سکتے تھے۔مجاہدین نے یہاں تک بے خوفی کے مظاہرے کیے کہ شہر کی دیوار کے قریب جا کر اہلِ ثقیف کے ان تیر اندازوں پر تیر پھینکے جو دیواروں پر تھے۔ چونکہ وہ دیواروں پر تھے اور انہیں اوٹ بھی میسر تھی۔ اس لیے ان کے تیر مسلمانوں کا زیادہ نقصان کرتے تھے۔ مسلمان تیر اندازوں کے جَیش آگے بڑھتے اور پیچھے ہٹ آتے تھے۔ مسلمانوں کے زخمیوں میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہاتھا۔ محاصرے کے کمانڈرابو بکر صدیقؓ کے اپنے بیٹے عبداﷲ ؓ بنو ثقیف کے تیروں سے شہید ہو گئے۔ پانچ دن اسی طرح گزر گئے ۔ تاریخ ِ اسلام کی مشہور و معروف شخصیت سلمان فارسیؓ لشکر کے ساتھ تھے۔ جنگِ خندق میں مدینہ کے دفاع کیلئے جو خندق کھودی گئی تھی وہ سلمان فارسیؓ کی جنگی دانش کا کمال تھا۔ اس سے پہلے عرب خندق کے طریقۂ دفاع سے ناواقف تھے۔ اب سلمان فارسیؓ نے دیکھا کہ محاصرہ کامیاب نہیں ہو رہا تو انہوں نے شہر پر پتھر پھینکنے کیلئے ایک منجنیق تیار کروائی لیکن یہ کامیاب نہ ہو سکی۔ سلمان فارسیؓ نے ایک دبابہ تیار کروائی ۔یہ لکڑی یا چمڑے کی بہت بڑی ڈھال ہوتی تھی جسے چند آدمی پکڑ کر آگے آگے چلتے تھے۔ خود اس کی اوٹ میں رہتے تھے اور اس کی اوٹ میں بہت سے آدمی قلعے کے اندر چلے جاتے تھے۔ سلمان فارسیؓ نے جو دبابہ تیار کروائی وہ گائے کی کھال کی بنی ہوئی تھی۔ ایک جَیش اس دبابہ کی اوٹ میں شہر کے بڑے دروازے تک پہنچا،اوپر سے آنے والے تیروں کی تمام بوچھاڑیں دبابہ میں لگتی رہیں لیکن دبابہ جب اپنی اوٹ میں جَیش کو لے کر دروازے کے قریب پہنچی تو دشمن نے اوپر سے دہکتے ہوئے انگارے اور لوہے کے لال سرخ ٹکڑے دبابہ پر اتنے پھینکے کہ کھال کی دبابہ تیر روکنے کے قابل نہ رہی، کیونکہ یہ کئی جگہوں سے جل گئی تھی۔ دبابہ چونکہ عربوں کیلئے ایک نئی چیز تھی جو پہلے ہی استعمال میں بے کار ہو گئی تھی۔ اس لیے وہ اسے وہیں پھینک کر پیچھے دوڑے۔ اہلِ ثقیف نے ان کے اوپر تیر برسائے جس سے کئی ایک مجاہدین زخمی ہو گئے۔ دس دن اور گزر گئے ۔ محاصرے اور دفاع کی صورت یہی رہی کہ مسلمان تیر برساتے ہوئے آگے بڑھتے تھے اور تیر کھا کر پیچھے ہٹ آتے تھے۔ بنو ثقیف پر ا س کا اثر یہ ہو اکہ ان پر مسلمانوں کی بے جگری اور بے خوفی کی دہشت طاری ہو گئی۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے کسی طرف سے باہر آکر مسلمانوں پر حملہ کرنے کی کوشش نہ کی۔ آخر ایک روز رسول اﷲﷺ نے اپنے سالاروں کو اکھٹا کیا اور بتایا کہ محاصرے کی کامیابی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ آپﷺ نے سالاروں سے مشورہ طلب کیا کہ کیا کیا جائے؟
حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمرؓنے کہا کہ محاصرہ اٹھالیا جائے اور مکہ کو کوچ کاحکم دیا جائے۔ خود رسولِ کریمﷺ محاصرہ اٹھانے کے حق میں تھے ، جس کی وجہ یہ تھی کہ مکہ کے انتظامات آپﷺ کی توجہ کے محتاج تھے۔ مکہ چند ہی دن پہلے فتح کیا گیا تھا۔ خطرہ تھا کہ طائف کا محاصرہ طول پکڑ گیا تو مکہ میں دشمن کو سر اٹھا نے کا موقع مل جائے گا۔۲۳ فروری ۶۳۰ء (۴ذیعقد ۸ ہجری)کے روز محاصرہ اٹھا لیا گیا۔ محاصرہ اٹھانے کا اثر اہلِ ثقیف پر کچھ اور ہونا چاہیے تھا لیکن ان پر اس قسم کا خوف طاری ہو گیا کہ مسلمان جو‘اب جا رہے ہیں ،معلوم نہیں کہ کس وقت لوٹ آئیں اور شہر پر یلغار کرکے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں ۔ خود مالک بن عوف کی سوچ میں انقلاب آ چکا تھا۔ کاہن کی جھوٹی پیش گوئی اور معرکۂ حنین میں مسلمانوں کی ضرب کاری نے اسے اپنے عقیدوں پر نظرِ ثانی کیلئے مجبور کر دیا تھا۔ مسلمان ۲۶ فروری کے روز جعرانہ کے مقام پر پہنچے جہاں رسول ِکریمﷺ نے مالِ غنیمت اکھٹا کرنے کا حکم دیاتھا۔ اس مالِ غنیمت میں چھ ہزار عورتیں اور بچے تھے،اورہزار ہا اونٹ اور بھیڑ بکریاں بھی تھیں۔ فوجی سازوسامان کاانبار تھا۔ رسولِ کریمﷺ نے دشمن کی عورتوں ،بچوں اور جانوروں کو اپنے لشکر میں تقسیم کر دیا۔ مجاہدین کا لشکر جُعرانہ سے ابھی چلا نہ تھا کہ قبیلہ ہوازن کے چند ایک سردار رسولِ کریمﷺ کے حضور پہنچے اور یہ اعلان کیا کہ ہوازن کے تمام تر قبیلے نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان سرداروں نے رسولِ کریمﷺ سے درخواست کی کہ ان کا مالِ غنیمت انہیں واپس کر دیا جائے۔ رسولِ کریمﷺ نے ان سے پوچھا کہ انہیں مالِ غنیمت میں سے کون سی چیز سب سے زیادہ عزیز ہے؟ اہل وعیال یا اموال؟ سرداروں نے کہا کہ ان کی عورتیں اور بچے انہیں واپس کردیئے جائیں اور باقی مالِ غنیمت مسلمان اپنے پاس رکھ لیں۔ رسولِ کریمﷺ نے مجاہدین کے لشکر سے کہاکہ بنو ہوازن کو ان کی عورتیں اور بچے واپس کر دیئے جائیں۔ تمام لشکر نے عورتیں اور بچے واپس کر دیئے۔ بنو ہوازن کو توقع نہیں تھی کہ رسولِ کریمﷺ اس قدر فیاضی کا مظاہرہ کریں گے یا مجاہدین کا لشکر اپنے حصے میں آیا ہوا مالِ غنیمت واپس کر دیں گے۔ مسلمانوں کی اس فیاضی کا اثر یہ ہوا کہ قبیلۂ ہوازن نے اسلام کو دل و جان سے قبول کر لیا۔ ہوازن کے سردار اپنے اہل و عیال کواپنے ساتھ لے کر چلے گئے۔ مسلمانوں کی فیاضی کے اثرات طائف تک پہنچ گئے ۔ مسلمان ابھی جُعرانہ میں ہی تھے کہ ایک روز مالک بن عوف مسلمانوں کی خیمہ گاہ میں آیا اور رسولِ کریمﷺ کے حضور پہنچ کر اسلام قبو ل کرلیا۔دیوتا لات کی خدائی ہمیشہ کیلئے ختم ہو گئی-
مسلمان ایک عظیم جنگی طاقت بن گئے تھے لیکن اسلام کا فروغ اس جنگی طاقت کی وجہ سے نہ تھا بلکہ اسلام میں ایسی کشش تھی کہ جو کوئی بھی اﷲ کا یہ پیغام سنتا تھا وہ اسلام قبول کرلیتا تھا۔ مسلمانوں نے اپنے جاسوس دوردور تک پھیلا رکھے تھے ۔۶۳۰ء میں جاسوسوں نے مدینہ آ کر رسولِ اکرمﷺ کو اطلاع دی کہ رومی شام میں فوج کا بہت بڑا اجتماع کر رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں سے ٹکر لینا چاہ رہے ہیں ۔ اس کے بعد یہ اطلاع ملی کہ رومیوں نے اپنی فوج کے کچھ دستے اردن بھیج دیئے ہیں۔ اکتوبر۶۳۰ء بڑا ہی گرم مہینہ تھا۔ جھلسا دینے والی لُو ہر وقت چلتی رہتی تھی اور دن کے وقت دھوپ میں ذرا سی دیر ٹھہرنا بھی محال تھا۔ اس موسم میں رسولِ کریمﷺ نے حکم دیا کہ پیش تر اس کے کہ رومی ہم پر یلغار کریں ہم ان کے کوچ سے پہلے ہی ان کاراستہ روک لیں ۔ رسولِ کریمﷺ کے اس حکم پر مدینہ کے اسلام دشمن عناصر حرکت میں آگئے۔ ان میں وہ مسلمان بھی شامل تھے جنہوں نے اسلام تو قبول کر لیا تھا لیکن اندر سے وہ کافر تھے۔ ان منافقین نے درپردہ ان مسلمانوں کو جو جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے تھے ورغلانہ اور ڈرانا شروع کر دیا کہ اس موسم میں انہوں نے کوچ کیا تو گرمی کی شدت اور پانی کی قلت سے وہ راستے میں ہی مر جائیں گے ،ان مخالفانہ سرگرمیوں میں یہودی پیش پیش تھے۔ اس کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت نے رسولِ اکرمﷺ کے حکم پر لبیک کہی۔ رسولِ خدا ﷺ نے تیاریوں میں زیادہ وقت ضائع نہ کیا۔ اکتوبر کے آخر میں جو فوج رسولِ خداﷺ کی قیادت میں کوچ کیلئے تیار ہوئی اس کی تعداد تیس ہزار تھی۔ جس میں دس ہزار سوار شامل تھے۔ مجاہدین کے اس لشکر میں مدینہ کے علاوہ مکہ کے اور ان قبائل کے افراد بھی شامل تھے جنہوں نے سچے دل سے اسلام قبول کیا تھا۔ مجاہدین کا مقابلہ اس زمانے کے مشہور جنگجو بازنطینی شہنشاہ ہرقل کے ساتھ تھا۔ مجاہدین اسلام کا یہ عظیم لشکر اکتوبر۶۳۰ ء کے آخری ہفتے میں رسولِ کریمﷺ کی قیادت میں شام کی طرف کوچ کر گیا۔ تمازتِ آفتاب کا یہ عالم جیسے زمین شعلے اگل رہی ہو۔ ریت اتنی گرم کہ گھوڑے اور اونٹوں کے پاؤں جلتے تھے۔ اس سال قحط کی کیفیت بھی پیدا ہو گئی تھی۔ اس لیے مجاہدین کے پاس خوراک کی کمی تھی ۔ مجاہدین اس جھلسا دینے والی گرمی میں پانی نہیں پیتے تھے کہ معلوم نہیں آگے کتنی دور جا کر پانی ملے، تھوڑی ہی دور جا کر مجاہدین کے ہونٹ خشک ہو گئے اور ان کے حلق میں کانٹے سے چبھنے لگے۔ لیکن ان کی زبان پر اﷲ کا نام تھا اور وہ ایسے عزم سے سرشار تھے جس کا اجر خدا کے سوا اور کوئی نہیں دے سکتا تھا۔
ایک لگن تھی ایک جذبہ تھا کہ مجاہدین زمین و آسمان کے اگلے ہوئے شعلوں کا منہ چڑاتے چلے جارہے تھے۔ تقریباً چودہ روز بعد یہ لشکر شام کی سرحدکے ساتھ تبوک کے مقام پر پہنچ گیا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ اچھے اور خوش گوار موسم میں مدینہ سے تبوک کا سفر چودہ دنوں کا تھا جسے اس وقت کے مسافروں کی زبان میں چودہ منزل کہا جاتا تھا۔ بعض مؤرخین نے چودہ منزل کو چودہ دن کہا ہے۔ تبوک میں ایک جاسوس نے اطلاع دی کہ رومیوں کے جو دستے اردن میں آئے تھے وہ اس وقت دمشق میں ہیں۔ رسولِ کریمﷺ نے لشکر کو تبوک میں خیمہ زن ہونے کا حکم دیا اور تمام سالاروں کو صلاح و مشورے کیلئے طلب کیا ۔سب کو یہی توقع تھی کہ تبوک سے کوچ کا حکم ملے گا اور دمشق میں یا دمشق سے کچھ ادھررومیوں کے ساتھ فیصلہ کن معرکہ ہو گا۔ رسولِ کریمﷺ نے اپنے اصول کے مطابق سب سے مشورے طلب کیے ۔ ہر سالار نے یہ ذہن میں رکھ کے کہ رومیوں سے جنگ ہو گی مشورے دیئے لیکن رسول ِکریمﷺ نے یہ کہہ کر سب کو حیرت میں ڈال دیا کہ تبوک سے آگے کوچ نہیں ہو گا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ رسولِ خداﷺ کے اس فیصلے میں کہ آگے نہیں بڑھا جائے گا بہت بڑی جنگی دانش تھی۔آپﷺ نے مدینہ میں ہی کہہ دیا تھا کہ رومیوں کا راستہ روکا جائے گا۔ آپﷺ مستقر سے اتنی دور اور اتنی شدید گرمی میں لڑنا نہیں چاہتے تھے ،اس کی بجائے آپﷺ ہرقل کو اشتعال دلا رہے تھے کہ وہ اپنی مستقر سے دور تبوک میں آ کر لڑے۔ مجاہدین لڑنے کیلئے گئے تھے ان کے دلوں میں کوئی وہم اور کوئی خوف نہیں تھا لیکن جنگ میں ایک خاص قسم کی عقل و دانش کی ضرورت ہوتی ہے ۔ رسولِ کریمﷺ نے عقل و دانش کو استعمال کیا اور مدینہ کی طرف رومیوں کا راستہ روکنے کا یہ اہتمام کیا کہ اس علاقے میں جو قبائل رومیوں کے زیرِ اثر تھے انہیں اپنے اثر میں لانے کی مہمات تیار کیں۔ ان میں چار مقامات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں جہاں ان مہمات کو بھیجا جانا تھا ان میں ایک تو عقبہ تھا ۔جو اس دور میں ایلہ کہلاتا تھا۔ دوسرا مقام مقننہ تیسرا ازرُح اور چوتھا جربہ تھا۔ رسولِ کریمﷺ نے ان تمام قبائل کے ساتھ جنگ کرنے کے بجائے دوستی کے معاہدے کی شرائط بھیجیں جن میں ایک یہ تھیں کہ ان قبائل کے جو لوگ اسلام قبول نہیں کریں گے انہیں ان کی مرضی کے خلاف جنگ میں نہیں لے جایا جائے گا۔ دوسری شرط یہ تھی کہ ان پر کوئی بھی حملہ کرے گا تو مسلمان ان کے دفاع کو اپنی ذمہ داری سمجھیں گے۔ اس کے بدلے میں اسلا می حکومت ان سے جذیہ وصول کرے گی۔
سب سے پہلے ایلہ کے فرمانرواں یوحنّا نے خود آ کر رسولِ کریمﷺ کی دوستی کی پیش کش قبول کی اور جزیہ کی باقاعدہ ادائیگی کی شرط بھی قبول کرلی ۔ اس کے فوراً بعد دو اور طاقتور قبیلوں نے بھی مسلمانوں کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کر لیا۔ اور جزیہ کی شرط بھی مان لی۔ الجوف ایک مقام ہے جو اس دور میں دومۃ الجندل کہلاتا تھا ۔ یہ بڑے ہی خوفناک صحرا میں واقع تھا، اس زمانے کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ اس مقام کے اردگرد ایسے ریتیلے ٹیلے اور نشیب تھے کہ انہیں ناقابلِ تسخیر سمجھا جاتا تھا۔ دومۃ الجندل کا حکمران اُکیدر بن مالک تھا۔ چونکہ اس کی بادشاہی انتہائی دشوار گزار علاقے میں تھی اس لیے وہ اپنے علاقے کو ناقابلِ تسخیر سمجھتا تھا ۔ رسولِ کریمﷺ نے جو وفد اُکیدر بن مالک کے پاس بھیجا تھا وہ یہ جواب لے کر آیاکہ اُکیدر نے نہ دوستی قبو ل کی ہے نہ وہ جزیہ دینے پا آمادہ ہوا ہے۔ بلکہ اس نے اعلانیہ کہا ہے کہ مسلمانوں کو وہ اپنا دشمن سمجھتا ہے اور وہ اسلام کی بیخ کنی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے گا۔ رسولِ کریمﷺ نے خالد ؓ بن ولید کو بلایا اور انہیں کہا کہ وہ چار سو سوار اپنے ساتھ لیں اور اُکیدر بن مالک کو زندہ پکڑ لائیں۔ اُکیدر بن مالک اپنے دربار میں اونچی مسند پر بیٹھا تھا ۔ اس کے پیچھے دو نیم برہنہ لڑکیاں کھڑی مور چھل ہلا رہی تھیں ۔ اُکیدر بن مالک کے چہرے پر وہی رعونت تھی جو روائتی بادشاہوں کے چہروں پر ہوا کرتی ہیں۔’’اے ابنِ مالک!‘‘ اس کے بوڑھے وزیر نے جو اس کی فوج کاسالار بھی تھا اٹھ کر کہا۔’’تیری بادشاہی کو کبھی زوال نہ آئے۔ کیا تجھے پتا نہیں چلا کہ ایلہ ،جربہ ازرُح اور مقننہ کے قبیلوں نے مدینہ کے مسلمانوں کی دوستی قبول کرلی ہے ،آج دوستی قبول کی ہے تو کل قبیلۂ قریش کے محمدﷺ کے مذہب کو بھی قبول کر لیں گے۔‘‘’’کیا ہمارا بزرگ وزیر ہمیں یہ مشورہ دینا چاہتا ہے کہ ہم بھی مسلمانوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیں ؟‘‘اُکیدر بن مالک نے کہا۔’’ہم ایسا کوئی مشورہ قبول نہیں کریں گے۔‘‘’’نہیں ابن ِمالک! ‘‘بوڑھے وزیر نے کہا۔’’میری عمر نے جو مجھے دکھایا ہے وہ تو نے ابھی نہیں دیکھا ہے ۔ میں مانتاہوں کہ تو مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن ہے لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ تو اپنے دشمن کو اتنا حقیر سمجھ رہا ہے کہ تو یہ بھی نہیں سوچ رہا کہ مسلمانوں نے حملہ کر دیا تو ہم تمہاری بادشاہی کو کس طرح بچائیں گے؟‘‘’’ صلیبِ مقدس کی قسم!‘‘ اکیدر بن مالک نے کہا ۔’’ہمارے اردگرد کا جو علاقہ ہے وہ ہماری بادشاہی کو بچائے گا ۔میرے اس خوفناک صحرا کی ریت مسلمانوں کا خون چوس لے گی۔ ریت اور مٹی کے جو ٹیلے دومۃ الجندل کے اردگرد کھڑے ہیں یہ خدا نے میرے سنتری کھڑے کررکھے ہیں۔ہم پر کوئی فتح نہیں پا سکتا ۔‘‘
اس وقت خالدؓ بن ولید اپنے چارسو سواروں کے ساتھ آدھا راستہ طے کر چکے تھے ۔ اگلے روز وہ اس صحرا میں داخل ہو گئے جسے مؤرخوں نے بھی ناقابلِ تسخیر لکھا ہے۔ مجاہدین کے چہرے ریت کی مانند خشک ہو گئے تھے ۔ گھوڑوں کی چال بتا رہی تھی کہ یہ مسافت اور پیاس ان کی برداشت سے باہر ہوئی جا رہی ہے۔ لیکن خالدؓ بن ولید کی قیادت مجاہدین کے دلوں میں نئی روح پھونک رہی تھی۔ دومۃ الجندل اچھا خاصہ شہر تھا۔ اس کے ارد گرد دیوار تھی ۔خالد ؓ بن ولید اس کے قریب پہنچ گئے اور اپنے سواروں کو ایک وسیع نشیب میں چھپا دیا ، مجاہدین کی جسمانی کیفیت ایسی تھی کہ انہیں کم از کم ایک دن اور ایک رات آرام کرنے کی ضرورت تھی۔ لیکن خالدؓ نے اپنے سواروں کو تیاری کی حالت میں رکھا۔ سورج غروب ہو گیا پھر رات گہری ہونے لگی ۔ چاند پوری آب و تاب سے چمکنے لگا۔ صحرا کی چاندنی بڑی شفاف ہو گئی۔ خالدؓ بن ولید اپنے ایک آدمی کو ساتھ لے کر شہر کی دیوار کی طرف چل پڑے ۔وہ جائزہ لینا چاہتے تھے کہ شہر کا محاصرہ کیا جائے جس کیلئے چار سو سوار کافی نہیں تھے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا تھا کہ شہر کی ناکہ بندی کر دی جائے۔ دوسری صورت یلغار کی تھی ۔ خالدؓ دیوار کے دروازے سے خاصہ پیچھے ایک اوٹ میں بیٹھ گئے ۔ چاندنی اتنی صاف تھی کہ دیوار کے اوپر سے خالد ؓ نظر آ سکتے تھے ۔شہرکا بڑا دروازہ کھلا ۔ خالدؓ سمجھے کہ اُکیدر فوج لے کر باہرآ رہا ہے اور وہ ان پر حملہ کرے گا لیکن اکیدر کے پیچھے پیچھے چند سوار باہر نکلے اور دروازہ بند ہو گیا۔ خالد کو یاد آیا کہ تبوک سے روانگی کے وقت رسولِ کریمﷺ نے انہیں کہا تھا اکیدر تمہیں شاید شکار کھیلتا ہوا ملے گا۔ اُکیدر بن مالک کے متعلق مشہور تھا کہ وہ جیسے شکار کھیلنے کیلئے ہی پیدا ہوا تھا۔ صحرا میں شکار رات کو ملتا تھا کیونکہ دن کے وقت جانور دبکے چھپے رہتے تھے۔ پورے چاند کی رات بڑے شکار کیلئے موزوں سمجھی جاتی تھی۔ یہ رسولِ اکرمﷺ کی انٹیلی جنس کا کمال تھا کہ آپﷺ نے دشمن کی عادات کو اورخصلتوں کا بھی پتا چلا لیا تھا اور آپﷺ نے خالدؓکو اکیدر کے متعلق پوری معلومات دے دی تھیں ۔
خالدؓ نے جب دیکھا کہ اکیدر بن مالک چند ایک سواروں کے ساتھ باہر آیا ہے تو انہوں نے اس کے انداز کا پوری طرح جائزہ لیا ۔خالد ؓسمجھ گئے کہ اکیدر کو معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ چار سو مسلمان سوار اس کے شہر کے قریب پہنچ گئے ہیں اور وہ شکار کھیلنے جا رہا ہے۔ خالدؓ اپنے آدمی کے ساتھ رینگتے سرکتے پیچھے آئے۔ جب اکیدر اپنے سواروں کے ساتھ نظروں سے اوجھل ہو گیا تو خالدؓ دوڑ کر اپنے سواروں تک پہنچ گئے ۔ انہی نے کچھ سوار منتخب کیے اپنے تمام سواروں کو انہوں نے تیاری کی حالت میں رکھا ہوا تھا ۔ وہ سواروں کے ایک جیش کو اپنی قیادت میں اس طرف لے گئے جدھر اکیدر گیا تھا۔ خالد ؓنے یہ خیال رکھا کہ اکیدر شہر سے اتنا آگے چلا جائے کہ جب اس پر حملہ ہوتو شہر تک اس کی آواز بھی نہ پہنچ سکے۔
رات کے سنّاٹے میں اتنے زیادہ گھوڑوں کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا تھا۔ اکیدر اور اس کے ساتھیوں کو پتا چل گیا تھا کہ ان کے پیچھے گھوڑ سوار آ رہے ہیں ۔ اکیدر کا بھائی حسان بھی اس کے ساتھ تھا۔ اس نے کہا کہ وہ جا کہ دیکھتا ہے کہ یہ کون ہیں ۔اس نے اپنا گھوڑا پیچھے کو موڑا ہی تھا کہ خالد ؓنے اپنے سواروں کو ہلّہ بولنے کا حکم دے دیا۔ اکیدر کو خالدؓ اور ان کے سواروں کی للکار سے پتا چلا کہ یہ مسلمان ہیں ۔ حسان نے برچھی سے مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن مارا گیا۔ اکیدر اپنے سواروں سے ذر االگ تھا۔ خالدؓ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اوررخ اکیدر کی طرف کر لیا۔ اکیدر ایسا بوکھلایا کہ خالدؓ پر وار کرنے کے بجائے اس نے راستے سے ہٹنے کی کوشش کی۔ خالدؓ نے اس پر کسی ہتھیار سے وار نہ کیا نہ گھوڑے کی رفتار کم کی۔ انہوں نے گھوڑا اکیدر کے گھوڑے کے قریب سے گزارااور بازو اکیدر کی کمر میں ڈال کر اسے اس کے گھوڑے سے اٹھا کر اپنے ساتھ ہی لے گئے۔ اکیدر بن مالک کے شکاری ساتھیوں اور محافظوں نے دیکھا کہ ان کا فرماں روا پکڑا گیا اور اس کا بھائی مارا گیا ہے تو انہوں نے خالد ؓکے سواروں کا مقابلہ کرنے کے بجائے بھاگ نکلنے کا راستہ دیکھا۔ وہ زمین ایسی تھی کہ چھپ کرنکل جانے کیلئے نشیب کھڈ اور ٹیلے بہت تھے۔ ان میں سے کچھ زخمی ہوئے لیکن نکل گئے ۔شہر میں داخل ہو کر انہوں نے دروازہ بند کر لیا۔ خالدؓ بن ولید نے اکیدر کو پکڑے رکھا اور کچھ دور جا کر گھوڑا روکا ۔ اکیدر سے کہا کہ اس کے بھاگ نکلنے کی کوئی صورت نہیں۔ انہوں نے اسے گھوڑے سے اتارا اور خود بھی اترے۔’’کیا تم اپنے آپ کو ناقابلِ تسخیر سمجھتے تھے؟‘‘خالدؓنے پوچھا۔’’ہاں!میں اپنے آپ کو ناقابلِ تسخیر سمجھتا تھا۔‘‘اکیدر بن مالک نے کہا۔’’لیکن تو نے مجھے اپنا نام نہیں بتایا۔‘‘’’خالد۔ خالد بن ولید!‘‘’’ہاں!‘‘اکیدر نے کہا ۔’’میں نے یہ نام سنا ہے……یہاں تک خالد ہی پہنچ سکتا تھا۔‘‘’’نہیں اکیدر!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’یہاں تک ہر وہ انسان پہنچ سکتا ہے جس کے دل میں اﷲ کا نام ہے اوروہ محمدﷺ کو اﷲ کا رسول مانتا ہے۔‘‘’’میرے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟‘‘اکیدر نے پوچھا۔’’تیرے ساتھ وہ سلوک نہیں ہو گا جو تو نے ہمارے رسولﷺ کے ایلچی کے ساتھ کیا تھا۔‘‘خالد ؓنے کہا۔’’ہم سے اچھے سلوک کی توقع رکھ ابنِ مالک! اگر ہم رومی ہوتے اور ہرقل کے بھیجے ہوئے ہوتے تو ہم کہتے کہ اپنا خزانہ اور اپنے شہر کی بہت ہی خوبصورت لڑکیاں اور شراب کے مٹکے ہمارے حوالے کردے۔ پہلے ہم عیش و عشرت کرتے پھر ہرقل کے حکم کی تعمیل کرتے۔‘‘
’’ہاں!‘‘ اکیدر نے کہا۔’’رومی ہوتے تو ایسا ہی کرتے اور وہ ایسا کر رہے ہیں۔ وہ کون سا تحفہ ہے جو میں ہرقل کو نہیں بھیجتا۔ولید کے بیٹے! مجھ پر لازم ہے کہ رومیوں کو خوش رکھوں۔‘‘’’کہاں ہیں رومی؟‘‘خالدؓ نے کہا۔’’کیا تو انہیں مدد کیلئے بلا سکتا ہے ؟ ہم تیری مدد کو آئیں گے۔ میں تجھے قیدی بنا کر نہیں معزز مہمان بنا کر اﷲ کے رسولﷺ کے پاس لے جا رہا ہوں۔ تجھ پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ جبر نہیں ہوگا۔ ہم دشمنی کا نہیں دوستی کا پیغام لے کر آئے ہیں۔ ہمارے رسولﷺ کے سامنے جاکر تجھے تاسف ہو گا کہ جس کا تو دشمن رہا ہے وہ تو دوستی کے قابل ہے۔‘‘اکیدر بن مالک کی جیسے زبان گنگ ہو گئی ہو۔ اس نے کچھ بھی نہ کہا۔ اس کا گھوڑا وہیں کہیں آوارہ پھر رہاتھا۔ خالدؓ نے اپنے سواروں سے کہا کہ اکیدر کے گھوڑے کو پکڑ لائیں ۔سوار گھوڑے کو پکڑ لائے ۔ خالدؓ نے اکیدر کو گھوڑے پر سوار کیا اور تبوک واپسی کا حکم دے دیا۔ تبوک پہنچ کر خالدؓ نے اکیدر بن مالک کو رسولِ خداﷺ کے حضورپیش کیا۔ آپﷺ نے اس کے آگے اپنی شرطیں رکھیں لیکن ایسی شرط کا اشارہ تک نہ کیا کہ وہ اسلام قبول کرلے۔ اس کے ساتھ مہمانوں جیسا سلوک کیا گیا۔ اس پر کوئی خوف طاری نہ کیا گیا۔ اسے یہی ایک شرط بہت اچھی لگی کہ مسلمان اس کی حفاظت کریں گے ۔ اس نے جزیہ دینے کی شرط مان لی اور دوستی کا معاہدہ کر لیا۔’’بے شک صرف مسلمان ہیں جو میری مدد کو پہنچ سکتے ہیں ۔‘‘معاہدہ کر کے اس نے کہا تھا ۔جب اکیدر بن مالک نے بھی دوستی کا معاہدہ کرکے مسلمانوں کو جزیہ دینا قبول کر لیا تو کئی اور چھوٹے چھوٹے قبیلوں کے سردار تبوک میں رسولِ کریمﷺکے پاس آ گئے اور اطاعت قبول کرلی۔ اس طرح دور دور تک کے علاقے مسلمانوں کے زیرِ اثر آ گئے۔ اور تمام قبائلی مسلمانوں کے اتحادی بن گئے۔ ان میں متعدد قبائل نے اسلام قبول کرلیا۔ اب رومیوں سے جنگ کی ضرورت نہیں رہی تھی ۔ ان کی پیش قدمی کا رستہ رک گیا تھا بلکہ ہرقل کیلئے خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ وہ مسلمانوں سے ٹکر لینے کو آگے بڑھا تو راستے کے تمام قبائل اسے اپنے علاقے میں ہی ختم کردیں گے۔ رسولِ اکرمﷺ نے مجاہدین کے لشکر کو مدینہ کو واپسی کا حکم دے دیا۔ یہ لشکر دسمبر ۶۳۰ء میں مدینہ پہنچ گیا۔ اسلام عقیدے کے لحاظ سے اور عسکری لحاظ سے بھی ایک ایسی طاقت بن چکا تھا کہ رسولِ کریمﷺ کے بھیجے ہوئے ایلچی کہیں بھی چلے جاتے انہیں شاہی مہمان سمجھا جاتا اور ان کا پیغام احترام سے سنا جاتا ۔ رسولِ کریمﷺ نے دور دراز کے قبیلوں اور چھوٹی بڑی حکومتوں کو قبولِ اسلام کے دعوت نامے بھیجنے شروع کر دیئے۔ ان میں بعض سردار سرکش ،خود سر اور کم فہم تھے۔ ان کی طرف رسولِ کریمﷺ کا پیغام اس قسم کا ہوتا تھا کہ قبولِ اسلام کے بجائے اگر وہ اپنی جنگی طاقت آزمانا چاہتے ہیں تو آزما لیں، اور یہ سوچ لیں کہ شکست کی صورت میں انہیں مسلمانوں کا مکمل طور پر مطیع ہونا پڑے گا اور ان کی کوئی شرط قبول نہیں کی جائے گی-
(جاری ھے)
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں