شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 16





⚔ شمشیرِ بے نیام⚔

  حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

قسط نمبر-15

’’یہ باتیں پھر کر لیں گے۔‘‘ زاریہ نے کہا ۔ لیکن آج میرے دل پر بوجھ آ پڑا ہے ۔‘‘’’کیسا بوجھ؟‘‘’’مسلمان­ مکہ پر حملہ کرنے جا رہے ہیں ۔‘‘زاریہ نے کہا۔’’تم نہ جاؤ عبید۔ تمہیں اپنے مذہب کی قسم ہے نہ جانا۔ کہیں ایسا نہ ہو……‘‘’’مکہ والوں میں اتنی جان نہیں رہی کہ ہمارے مقابلے میں جم سکیں۔‘‘عبید نے کہا۔’’لیکن زاریہ! ان میں جان ہو نہ ہو، مجھے اگر میرے رسول ﷺ آگ میں کود جانے کا حکم دیں گے تو میں آپﷺ کا حکم مانوں گا۔ دل پر بوجھ نہ ڈالو زاریہ! ہمارا حملہ ایسا ہو گا کہ انہیں اس وقت ہماری خبر ہو گی جب ہماری تلواریں ان کے سروں پر چمک رہی ہوں گی۔‘‘’’ایسا نہیں ہو گا عبید۔‘‘’’ایسا نہیں ہو گا۔ وہ گھات میں بیٹھے ہوں گے۔ آج رات کے پچھلے پہر یا کل صبح ابو سفیان کو پیغام مل جائے گا کہ مسلمان تمہیں بے خبری میں دبوچنے کے لئے آ رہے ہیں ……تم نہ جانا عبید! قریش اور ان کے دوست قبیلے تیار ہوں گے۔‘‘’’کیا کہہ رہی ہو زاریہ ؟‘‘عبید نے بدک کر پوچھا۔’’ابو سفیان کو کس نے پیغام بھیجا ہے؟‘‘’’ایک یہودی نے۔‘‘زاریہ نے کہا۔’’اور پیغام میرے بڑے بھائی کی بیوی لے کر گئی ہے……میری محبت کا اندازہ کرو عبید! میں نے تمہیں وہ راز دے دیا ہے جو مجھے نہیں دینا چاہیے تھا ۔یہ صرف اس لیے دیا ہے کہ تم کسی بہانے رک جاؤ ، قریش اور دوسرے قبیلے مسلمانوں کا کشت وخون کریں گے کہ کوئی قسمت والا مسلمان زندہ واپس آئے گا۔‘‘عبید نے اس سے پوچھ لیا کہ اس کے بھائی کی بیوی کس طرح اور کس وقت روانہ ہوئی ہے؟عبید اٹھ کھڑا ہوا اور زاریہ جیسی حسین اور نوجوان لڑکی اور اس کی والہانہ محبت کو نظر انداز کرکے شہر کی طرف دوڑ پڑا، اسے زاریہ کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔’’ عبید ……رک جاؤ عبید……‘‘اور عبید زاریہ کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ رسولِ کریمﷺ کو پوری تفصیل سے بتایا گیا کہ ایک عورت بڑی تیز رفتار اونٹنی پرا بو سفیان کے نام پیغام اپنے بالوں میں چھپا کر لے گئی ہے ۔ اسے ابھی راستے میں ہونا چاہیے تھا۔ رسولِ کریمﷺ نے اسی وقت حضرت علیؓ اور حضرت زبیرؓ کو بلا کر اس عورت کی اور اس کی اونٹنی کی نشانیاں بتائیں اور انہیں اس عورت کو راستے میں پکڑنے کو بھیج دیا ۔حضرت علیؓ اور حضرت ؓزبیر کے گھوڑے عربی نسل کے تھے اور انہوں نے اسی وقت گھوڑے تیار کیے اور ایڑیں لگا دیں۔ اس وقت سورج غروب ہو رہا تھا۔ دونوں عظیم شہسوار مدینہ سے دور نکل گئے تو سورج غروب ہو گیا۔

اگلے دن کا سورج طلوع ہوا تو حضرت علیؓ اور حضرت زبیرؓ کے گھوڑے مدینہ میں داخل ہوئے ان کے درمیان ایک اونٹنی تھی جس پر ایک عورت سوارتھی۔ مدینہ کے کئی لوگوں نے اس عورت کو پہچان لیا۔ اسے رسولِ کریمﷺ کے پاس لے گئے اس کے بالوں سے جو پیغام نکالا گیا تھا وہ حضورﷺ کے حوالے کیا گیا۔ آپﷺ نے پیغام پڑھا تو چہرہ لال ہو گیا ۔ یہ بڑا ہی خطرناک پیغام تھا ۔ اس عورت نے اقبالِ جرم کر لیا اور پیغام دینے والے یہودی کا نام بھی بتا دیا ۔ رسول ِ اکرمﷺ نے اس عورت کو سزائے موت دے دی  لیکن یہودی اس کے گھر سے غائب ہو گیا تھا اگر یہ پیغام مکہ پہنچ جاتا تو مسلمانوں کا انجام بہت برا ہوتا، مکہ پر فوج کشی کی قیادت رسول ﷲﷺ فرما رہے تھے۔ رسول ﷲﷺ نے تیاریوں کا جائزہ لیا اور کوچ کا حکم دے دیا۔ اس اسلامی لشکر کی تعداد دس ہزار پیادہ اور سوار تھی۔ اس لشکر میں مدینہ کے ارد گرد کے وہ قبیلے بھی شامل تھے جو اسلام قبول کرچکے تھے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ لشکر مکہ جا رہا تھا تو راستے میں دو تین قبیلے اس لشکر میں شامل ہو گئے۔ تقریباً تمام مسلم اور غیر مسلم مؤرخوں نے لکھا ہے کہ رسولِ خدا ﷺ کی قیادت میں اس لشکر کی پیش قدمی غیر معمولی طور پر تیز تھی اور یہ مسلمانوں کا پہلا لشکر تھا جس کی نفری دس ہزار تک پہنچی تھی۔ یہ لشکر مکہ کے شمال مغرب میں ایک وادی مرّالظہر میں پہنچ گیا جو مکہ سے تقریباً دس میل دور ہے ۔ اس وادی کا ایک حصہ وادیٔ فاطمہ کہلاتا ہے ۔ رسولِ ﷲﷺ اس مقصد میں کامیاب ہو چکے تھے کہ اہلِ مکہ کو اسلامی لشکر کی آمد کی اطلاع نہ ہو ۔ اب خبر ہو بھی جاتی تو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ اب قریش دوسرے قبیلوں کو مدد کے لئے بلانے نہیں جا سکتے تھے ۔ رسولِ ﷲﷺ نے کسی نہ کسی بہروپ میں اپنے آدمی مکہ کے قریب گردونواح میں بھیج دیئے تھے ۔ تھوڑی دیر آرام کرکے اسلامی لشکر مکہ کی طرف چل پڑا۔ جعفہ ایک مقام ہے جہاں لشکر کا ہراول دستہ پہنچا تو مکہ کی طرف سے چھوٹا سا ایک قافلہ آتا دکھائی دیا۔ اسے قریب آنے دیا گیا ۔دیکھا وہ قریش کا ایک سرکردہ آدمی عباس تھا۔ جو اپنے پورے خاندان کو ساتھ لیے مدینہ کو جا رہا تھا۔ یہ وہ شخص تھا جس نے حضرت عباسؓ کے نام سے تاریخِ اسلام میں شہرت حاصل کی۔ یہ آپ ﷺ کے چچا حضرت عباس ؓبن عبدالمطلب تھے(ا نہیں رسولِ ﷲﷺ کے حضور لے جایا گیا

 ’کیوں عباسؓ!‘‘رسولِ اکرمﷺ نے کہا ۔’’کیا تو اس لیے مکہ سے بھاگ نکلا ہے کہ مکہ پر قیامت ٹوٹنے والی ہے ؟‘‘’’

 ﷲ کی قسم! مکہ والوں کو خبر ہی نہیں کہ محمد ﷺ کا لشکر ان کے سر پر آگیا ہے ۔‘‘عباس ؓنے کہا۔’’اور میں تیری اطاعت قبول کرنے کو مدینہ جا رہا تھا۔‘‘’’میری نہیں عباسؓ!‘‘ رسولِ ﷲﷺ نے کہا۔’’اطاعت اس ﷲ کی قبول کرو جو وحدہٗ لا شریک ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے۔ میں اس کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔‘‘حضرت عباس ؓ نے اسلام قبول کر لیا۔ رسولِ کریمﷺ نے انہیں گلے لگا لیا۔
(نوٹ: عباس ؓ بن عبدالمطلب آپ ﷺ سے تقریباً تین سال بڑے تھے اور آپﷺ بچپن میں اُن کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ حضرت عباس ؓ بن عبدالمطلب کے قبولِ اسلام کے وقت کے حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے۔ مشہور قول یہ ہے کہ آپؓ غزوہ خیبر کے بعد اسلام قبول کر چکے تھے اور حضورﷺ کی ہدایت پر ہی اب تک مکہ میں مقیم تھے۔)
 آپﷺ کو مسرت اس سے ہوئی کہ اہلِ قریش مکہ میں بے فکر اور بے غم بیٹھے تھے ۔حضرت عباس ؓنے جب یہ صورتِ حال دیکھی تو انہوں نے رسول ﷲﷺ سے کہا کہ ’’اہلِ قریش آخر ہمارا اپنا خون ہیں ۔ دس ہزار کے اس لشکر کے قدموں میں قریش کے بچے اور عورتیں بھی کچلی جائیں گی۔‘‘عباسؓ نے رسول ﷲﷺ کو یہ بھی بتایا کہ’’ قریش میں اسلام کی قبولیت کی ایک لہر پیدا ہو گئی ہے ۔ کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ انہیں صلح کا ایک اور موقع دیا جائے؟‘‘رسولِ ﷲﷺ نے عباسؓ سے کہا کہ وہ ہی مکہ جائیں اور ابو سفیان سے کہیں کہ مسلمان مکہ پر قبضہ کرنے آ رہے ہیں اگر اہلِ مکہ نے مقابلہ کیا تو کسی کو زندہ نہیں چھوڑا جائے گا ، مکہ شہر مسلمانوں کے حوالے کر دیا جائے۔‘‘رسولِ اکرمﷺ نے عباسؓ کو نہ صرف مکہ جانے کی اجازت دی بلکہ انہیں اپنا خچر بھی دیا جو آپﷺ گھوڑے کے علاوہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ ابو سفیان مدینہ سے جو تاثر لے کر گیا تھا وہ اس کے لیے بڑا ہی ڈراؤنا اور خطرناک تھا۔ وہ تجربہ کار آدمی تھا ۔ وہ مسلمانوں کی شجاعت اور عزم کی پختگی سے بھی واقف تھا۔ اسے ہر لمحہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ مسلمان مکہ پر حملہ کریں گے۔ اس کی بیوی ہند اس کے سالار عکرمہ اور صفوان اس کا حوصلہ بڑھاتے رہتے تھے ۔ لیکن اسے اپنے ذاتی وقار کی اور اپنے قبیلے کی تباہی نظر آرہی تھی۔ وہ ہر وقت بے چین رہنے لگا تھا ۔ ایک روز وہ اس قدر بے چین ہوا کہ گھوڑے پر سوار ہو کر مکہ سے باہر چلا گیا ۔اس کی کوئی حس اسے بتا رہی تھی کہ کچھ ہونے والا ہے ۔ اس کے دل پر گھبراہٹ طاری ہوتی چلی گئی ۔ اس نے اپنے آپ سے کہا کہ ’’ہو گا یہی کہ مسلمان مکہ پر حملہ کرنے آجائیں گے۔‘‘ یہ سوچ کروہ یہ دیکھنے کے لئے مدینہ کے راستے پر ہو لیا کہ مدینہ کی فوج آ ہی تو نہیں گئی؟ اسے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے ہوا کی بو بھی بدلی بدلی سی ہے۔ وہ ان سوچوں میں گم مکہ سے چند میل دور نکل گیا۔اسے عباسؓ ایک خچر پر سوار اپنی طرف آتے دکھائی دیئے ۔وہ رک گیا 

’’عباس!‘‘ اس نے پوچھا۔’’کیا تم اپنے پورے خاندان کے ساتھ نہیں گئے تھے؟ واپس کیوں آ گئے ہو؟‘‘’’میرے خاندان کی مت پوچھ ابو سفیان !‘‘ عباسؓ نے کہا۔’’مسلمانوں کے دس ہزار پیادوں ،گھوڑ سواروں اور شتر سواروں کا لشکر مکہ کے اتنا قریب پہنچ چکا ہے جہاں سے چھوڑے ہوئے تیر مکہ کے دروازوں میں لگ سکتے ہیں۔ کیا تومکہ کو اس لشکرسے بچا سکتا ہے؟ کسی کو مدد کے لئے بلا سکتا ہے؟ صلح کا معاہدہ تیرے سالاروں نے توڑا ہے ۔ محمدﷺ جسے میں ﷲ کا رسولﷺ مان چکا ہوں سب سے پہلے تجھے قتل کرے گا۔ اگر تو میرے ساتھ رسول ﷲﷺ کے پاس چلا چلے تو میں تیری جان بچا سکتا ہوں۔‘‘’’ﷲ کی قسم! میں جانتا تھا مجھ پر یہ وقت بھی آئے گا۔‘‘ ابو سفیان نے کہا۔’’چل! میں تیرے ساتھ چلتا ہوں ۔‘‘شام کے بعد عباسؓ ابو سفیان کو ساتھ لیے ہوئے مسلمانوں کے پڑاؤ میں داخل ہوئے ۔حضرت عمرؓ کیمپ کے پہرے داروں کو دیکھتے پھر رہے تھے ۔انہوں نے ابو سفیان کو دیکھا تو آگ بگولہ ہو گئے ۔ کہنے لگے کہ ’’ﷲ کے دین کا یہ دشمن ہمارے پڑاؤ میں رسول ﷲﷺ کی اجازت کے بغیر آیا ہے ۔‘‘عمرؓ رسول ﷲﷺ کے خیمے کی طرف دوڑ پڑے۔ وہ ابو سفیان کے قتل کی اجازت لینے گئے تھے۔ لیکن عباسؓ بھی پہنچ گئے۔ رسولِ ﷲﷺ نے انہیں صبح آنے کو کہا۔ عباسؓ نے ابو سفیان کو رات اپنے پاس رکھا ۔’’ابو سفیان! ‘‘صبح رسولِ کریمﷺ نے ابو سفیان سے پوچھا۔’’کیا تو جانتا ہے کہ ﷲ وحدہٗ لاشریک ہے اور وہی معبود ہے اور وہی ہم سب کا مدد گار ہے۔‘‘’’میں نے یہ ضرور مان لیا ہے کہ جن بتوں کی عبادت میں کرتا رہا ہوں وہ بتوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔‘‘ابو سفیان نے کہا ۔’’وہ میری کوئی مدد نہیں کرسکتے۔‘‘’’پھر یہ کیوں نہیں مان لیتا کہ میں اس ﷲ کا رسول ہوں جومعبود ہے ۔‘‘رسولِ کریمﷺ نے پوچھا۔’’میں شاید یہ نہ مانوں کہ تم ﷲ کے رسول ہو۔‘‘ ابو سفیان ہاری ہوئی سی آواز میں بولا۔ ’’ابو سفیان! ‘‘عباسؓ نے قہر بھری آواز میں کہا۔’’کیا تو میری تلوار سے اپنا سر تن سے جدا کرانا چاہتا ہے ؟‘‘عباسؓ نے رسولِ کریمﷺ سے کہا ۔’’یا رسول ﷲﷺ! ابو سفیان ایک قبیلے کا سردار ہے ، باوقار اور خوددار بھی ہے۔ یہ ملتجی ہو کہ آیا ہے۔‘‘ابو سفیان پر کچھ ایسا اثر ہوا کہ اس نے بے اختیار کہا۔’’محمد ﷲ کے رسول ہیں، میں نے تسلیم کر لیا ،میں نے مان لیا۔‘‘
’’جاؤ!‘‘ رسولِ کریمﷺ نے کہا ۔’’مکہ میں اعلان کردو کہ مکہ کے وہ لوگ مسلمانوں کی تلواروں سے محفوظ رہیں گے جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائیں گے اور وہ لوگ محفوظ رہیں گے جو مسجد میں داخل ہو جائیں گے اور وہ لوگ محفوظ رہیں گے جو اپنے دروازے بند کر کے اپنے گھروں میں رہیں گے۔‘‘ابو سفیانؓ اسی وقت مکہ کو روانہ ہو گئے اور رسول ﷲ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کے ساتھ اس مسئلے پر تبادلۂ خیال شروع کر دیا کہ مکہ میں عکرمہ اور صفوان جیسے ماہر او ردلیر سالار موجود ہیں ۔ وہ مقابلہ کیے بغیر مکہ پر قبضہ نہیں ہونے دیں گے۔

اونٹ بہت تیز دوڑا چلا آ رہا تھا۔ جب وہ مکہ کے قریب پہنچا تو اس کے سوار نے چلانا شروع کر دیا ۔’’عزیٰ او رہبل کی قسم! مدینہ والوں کا لشکر مرالظہر میں پڑاؤ کیے ہوئے ہے اور میں نے اپنے سردار ابو سفیان کو وہاں جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اہلِ قریش ہو شیار ہو جاؤ! محمد ﷺ کا لشکر آ رہا ہے۔‘‘ اس نے اونٹ کو روکا اور اسے بٹھا کر اترنے کے بجائے اس کی پیٹھ سے کود کر اترا۔ اس کی پکار جس نے سنی وہ دوڑا آیا ۔وہ گھبراہٹ کے عالم میں یہی کہے جا رہا تھا کہ مدینہ کا لشکر مرالظہر تک آن پہنچا ہے اور ابو سفیان کو اس لشکر کے پڑاؤ کی طرف جاتے دیکھا ہے ۔مکہ کے لوگ اس کے اردگرد اکھٹے ہوتے چلے گئے۔
’’ابو حسنہ!‘‘ ایک معمر آدمی نے اس سے پوچھا۔’’تیرا دماغ صحیح نہیں یا تو جھوٹ بول رہا ہے ۔‘‘’’میری بات کو جھوٹ سمجھو گے تواپنے انجام کو بہت جلد پہنچ جاؤ گے ۔‘‘شترسوار ابو حسنہ نے کہا۔’’کسی سے پوچھو ہمارا سردار ادھر کیوں گیا ہے؟‘‘ اس نے پھر چلانا شروع کر دیا۔’’اے قبیلۂ قریش !مسلمان اچھی نیت سے نہیں آئے۔‘‘ابو حسنہ کا واویلا مکہ کی گلیوں سے ہوتا ہوا ابو سفیانؓ کی بیوی ہند کے کانوں تک پہنچا۔ وہ آگ بگولہ ہوکر باہر آئی اور اس ہجوم کو چیر نے لگی جس نے ابو حسنہ کو گھیر رکھا تھا۔ ’’ابو حسنہ !‘‘اس نے ابو حسنہ کا گریبان پکڑ کر کہا۔’’میری تلوار محمد کے خون کی پیاسی ہے۔ تومیری تلوار سے اپنی گردن کٹوانے کیوں آگیا ہے ؟ کیا تو نہیں جانتا کہ جس پر تو جھوٹا الزام تھوپ رہا ہے وہ میرا شوہر اور قبیلے کا سردار ہے۔‘‘’’اپنی تلوار گھر سے لے آ خاتون!‘‘ ابو حسنہ نے کہا۔’’لیکن تیرا شوہر آجائے تو اس سے پوچھنا کہ وہ کہاں سے آیا ہے؟‘‘’’اور تو کہتا ہے کہ محمدﷺ لشکر لے کر آیا ہے۔‘‘ ہند نے پوچھا۔’’خدا کی قسم!‘‘ ابو حسنہ نے کہا۔’’میں وہ کہتا ہوں جومیں نے دیکھا ہے ۔‘‘’’اگر تو سچ کہتا ہے تو مسلمانوں کو موت ادھر لے آئی ہے ۔‘‘ہند نے کہا۔ابو سفیانؓ واپس آ رہے تھے ۔اہل ِمکہ ایک میدان میں جمع ہو چکے تھے ۔رسولِ کریمﷺ کی پیش قدمی اب راز نہیں رہ گئی تھی لیکن اب کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ اہلِ قریش اب کسی کو مدد کے لئے نہیں بلا سکتے تھے۔ ابو سفیان ؓآ رہے تھے۔ لوگوں پر خاموشی طاری ہو گئی۔ ابو سفیانؓ کی بیوی ہند لوگوں کو دائیں بائیں دھکیلتی آگے چلی گئی۔ اس کے چہرے پر غضب اور قہر تھا اور اس کی آنکھوں سے جیسے شعلے نکل رہے تھے ۔ ابو سفیانؓ نے لوگوں کے سامنے آ کر گھوڑا روکا۔ انہوں نے اپنی بیوی کی طرف توجہ نہ دی۔

اہلِ قریش! ‘‘ابو سفیان ؓ نے بلند آواز سے کہا۔’’پہلے میری بات ٹھنڈے دل سے سن لینا۔ پھر کوئی اوربات کہنا۔ میں تمہارا سردار ہوں، مجھے تمہارا وقار عزیز ہے ۔ محمد ﷺ اتنا زیادہ لا و لشکر لے کر آیا ہے جس کے مقابلے میں تم قتل ہونے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے ۔ اپنی عورتوں کو بچاؤ، اپنے بچوں کو بچاؤ ،قبول کرلو اس حقیقت کو جو تمہارے سر پر آ گئی ہے۔ تمہارے لیے بھاگ جانے کا بھی کوئی راستہ نہیں رہا۔‘‘’’ہمیں یہ بتا ہمارے سردار!ہم کیا کریں؟‘‘لوگوں میں سے کسی کی آواز آئی۔’’محمدﷺ کی اطاعت قبول کرلینے کے سوااور کوئی راستہ نہیں۔‘‘ابو سفیانؓ نے کہا۔’’خداکی قسم! مسلمان ہمیں پھر بھی نہیں بخشیں گے۔‘‘ایک اور آواز اٹھی۔’’وہ اپنے مقتولوں کا بدلہ لیں گے ۔وہ سب سے پہلے تمہیں قتل کریں گے۔ اُحد میں تمہاری بیوی نے ان کی لاشوں کو چیرا پھاڑا تھا ۔‘‘ہند الگ کھڑی پھنکار رہی تھی۔’’میں تم سب کی سلامتی کی ضمانت لے آیا ہوں ۔‘‘ابو سفیانؓ نے کہا۔’’میں محمدﷺ سے مل کر آ رہا ہوں۔ اس نے کہا ہے کہ تم میں سے جو میرے گھر آجائیں گے وہ مسلمانوں کے جبر و تشد د سے محفوظ رہیں گے۔‘‘’’کیا مکہ کے سب لوگ تمہارے گھر میں سما سکتے ہیں ؟‘‘کسی نے پوچھا۔’’نہیں!‘‘ابو سفیانؓ نے کہا۔’’محمدﷺ نے کہا ہے کہ جو لوگ اپنے گھروں سے باہر نہیں نکلیں گے اور ان کے دروازے بند رہیں گے ان پر بھی مسلمان ہاتھ نہیں اٹھائیں گے،اور جولوگ خانۂ خدا کے اندر چلے جائیں گے ان کو بھی مسلمان اپنا دوست سمجھیں گے۔ وہ دشمن صرف اسے جانیں گے جو ہتھیار لے کر باہر آئے گا۔‘‘ابو سفیانؓ گھوڑے سے اتر آئے اور بولے۔’’تمہاری سلامتی اسی میں ہے، تمہاری عزت اسی میں ہے کہ تم دوستوں اور بھائیوں کی طرح ان کا استقبال کرو۔‘‘’’ابو سفیان! ‘‘قریش کے مشہور سالار عکرمہ نے للکار کر کہا۔’’ہم اپنے قبیلے کے قاتلوں کا استقبال تلواروں اور برچھیوں سے کریں گے۔‘‘’’ہمارے تیر ان کا استقبال مکہ سے دور کریں گے۔‘‘قریش کے دوسرے دلیر اور تجربہ کار سالار صفوان نے کہا۔’’ہمیں اپنے دیوتاؤں کی قسم! ہم دروازے بند کرکے اپنے گھروں میں بند نہیں رہیں گے۔‘‘’’حالات کو دیکھو عکرمہ ۔‘‘ابو سفیانؓ نے کہا۔’’ ہوش کی بات کرو صفوان، وہ ہم میں سے ہیں ۔ آج خالد محمدﷺ کے ساتھ جا ملا ہے تو مت بھول کہ اس کی بہن فاختہ تمہاری بیوی ہے ، کیا تو اپنی بیوی کے بھائی کو قتل کرے گا؟ کیا تجھے یاد نہیں رہا کہ میری بیٹی اُمّ ِ حبیبہؓ محمد ﷺ کی بیوی ہے۔ کیا تو یقین نہیں کرے گا کہ میں اپنے قبیلے کی عزت اور ناموس کی خاطر مدینہ گیا تو میری اپنی بیٹی نے میری بات سننے سے انکار کر دیا تھا۔ میں محمدﷺ کے گھر میں چارپائی پر بیٹھنے لگا تو اُمّ ِ حبیبہؓ نے میرے نیچے سے چارپائی پر بچھی ہوئی چادر کھینچ لی تھی کہ اس مقدس چادر پر رسول ﷲ ﷺ کا دشمن نہیں بیٹھ سکتا، باپ اپنی بیٹی کا دشمن نہیں ہو سکتا صفوان۔‘‘

مکہ کے لوگوں میں عکرمہ اور صفوان اور دو تین اور آدمیوں کے سوا اور کسی کی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی ۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ قبیلہ قریش کی خاموشی ظاہرکرتی تھی کہ ان لوگوں نے ابو سفیانؓ کا مشورہ قبول کرلیا ہے۔ ابو سفیانؓ کے چہرے پر اطمینان کا تاثر آگیا مگر اس کی بیوی ہند جو الگ کھڑی پھنکار رہی تھی ،تیزی سے ابو سفیانؓ کی طرف بڑھی اور اس کی مونچھیں جو خاصی بڑی تھیں اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیں۔
’’میں سب سے پہلے تجھے قتل کروں گی۔‘‘ہند نے ابو سفیان کی مونچھیں زور زور سے کھینچتے ہوئے کہا۔’’ بزدل بوڑھے! تو نے قبیلے کی عزت خاک میں ملا دی ہے۔‘‘اس نے ابو سفیانؓ کی مونچھیں چھوڑ کر اس کے منہ پر بڑی زور سے تھپڑ مارا اور لوگوں سے مخاطب ہوکر بولی۔’’ تم لوگ اس بوڑھے کو قتل کیوں نہیں کر دیتے ہو جو تمہیں مسلمانوں کے ہاتھوں ذلیل وخوار کرنے کی باتیں کر رہا ہے ۔‘‘مؤرخ مغازی اور ابنِ سعد لکھتے ہیں کہ ہند نے اپنے خاوند کے ساتھ اتنا توہین آمیز سلوک کیا تو لوگوں پر سناٹا طاری ہو گیا ۔ ابو سفیانؓ جیسے بت بن گیا ہو ۔عکرمہ اور صفوان ان کے درمیان آ گئے ۔’’ہم لڑیں گے ہند !‘‘صفوان نے کہا۔’’ اسے جانے دے۔ اس پر محمدﷺ کا جادو چل گیا ہے ۔‘‘ابو سفیانؓ خاموش رہے۔ شام تک اہلِ قریش دو حصوں میں بٹ چکے تھے ۔ زیادہ تر لوگ لڑنے کے حق میں نہیں تھے ۔ باقی سب عکرمہ ،صفوان اور ہند کا ساتھ دے رہے تھے۔ شام کے بعد صفوان اپنے گھر گیا۔ اس کی بیوی جس کا نام فاختہ تھا خالدؓ بن ولید کی بہن تھی۔وہ بھی ابو سفیانؓ کی باتیں سن چکی تھی ۔’’کیا میں نے ٹھیک سنا ہے کہ تم اپنے قبیلے کے سردار کی نافرمانی کر رہے ہو؟‘‘فاختہ نے صفوان سے پوچھا۔’’اگر فرمانبرداری کرتا ہوں تو پورے قبیلے کا وقارتباہ ہوتا ہے ۔ قبیلے کا سرداربزدل ہو جائے تو قبیلے والوں کو بزدل نہیں ہونا چاہیے  ۔سرداراپنے قبیلے کے دشمن کو دوست بنا لے تو وہ قبیلے کا دوست نہیں ہو سکتا۔‘‘’’کیا تم مسلمانوں کا مقابلہ کرو گے؟‘‘فاختہ نے پوچھا۔’’تو کیا تم یہ پسند کرو گی کہ تمہارا شوہر اپنے گھر کے دروازے بند کرکے اپنی بیوی کے پاس بیٹھ جائے اوردشمن اس کے دروازے کے سامنے دندناتا پھرے۔ کیا میرے بازو ٹوٹ گئے ہیں ؟ کیا میری تلوار ٹوٹ گئی ہے؟ کیا تم اس لاش کو پسند نہیں کرو گی جو تمہاری گھر میں لائی جائے گی اور سارا قبیلہ کہے گا کہ یہ ہے تمہارے خاوند کی لاش۔ جو بڑی بہادری سے لڑتاہوا مارا گیا ہے۔ یاتم اس شوہر کو پسند کرو گی جو تمہارے پاس بیٹھا رہے گا اور لوگ تمہیں کہیں گے کہ یہ ہے ایک بزدل اور بے وقار آدمی کی بیوی…… جس نے اپنی بستی اور عبادت گاہ اپنے دشمن کے حوالے کردی۔ تم مجھے کس حال میں دیکھنا پسند کرو گی؟‘‘

’’میں نے تم پر ہمیشہ فخر کیا ہے صفوان۔‘‘فاختہ نے کہا۔’’عورتیں مجھے کہتی ہیں کہ تمہارا خاوند قبیلے کی آنکھ کا تارا ہے لیکن اب حالات کچھ او رہیں۔ تمہارا ساتھ دینے والے بہت تھوڑے…… بہت تھوڑے ہیں۔ سنا ہے مدینہ والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اب میرا بھائی خالد بھی ان کے ساتھ ہے۔ تم جانتے ہو وہ لڑنے مرنے والا آدمی ہے ۔‘‘’’کیا تم مجھے اپنے بھائی سے ڈرا رہی ہو فاختہ؟‘‘’’نہیں!­‘‘فاختہ نے کہا ۔’’مجھے خالد مل جاتا تو میں اسے بھی یہی کہتی جومیں تمہیں کہہ رہی ہوں ۔ وہ میرا بھائی ہے ۔ وہ تمہارے ہاتھ سے مارا جا سکتا ہے ۔ تم اس کے ہاتھ سے مارے جا سکتے ہو۔ تم ایک دوسرے کے مقابلے میں نہ آؤ۔ میں اس کی بہن اور تمہاری بیوی ہوں۔ لاش تمہاری ہوئی یا خالد کی ،میرا غم ایک جیسا ہو گا۔‘‘’’یہ کوئی عجیب بات نہیں فاختہ !‘‘صفوان نے کہا۔’’ دشمنی ایسی پیدا ہو گئی ہے کہ باپ بیٹے کا اور بھائی بھائی کا دشمن ہو گیا ہے۔ اگر میں تمہارے رشتے کا خیال رکھوں تو……‘‘’’تم میرے رشتے کا خیال نہ رکھو۔‘‘فاختہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔’’قبیلے کا سردار تمہیں کہہ رہا ہے لڑائی نہیں ہو گی ۔ محمد کی اطاعت قبول کر لیں گے ۔ پھر تم لڑائی کا ارادہ ترک کیوں نہیں کر دیتے ؟تمہارے ساتھ بہت تھوڑے آدمی ہوں گے۔‘‘ ’’میں اطاعت قبول کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ۔‘‘صفوان نے کہا۔’’پھرمیری ایک بات مان لو! ‘‘فاختہ نے کہا۔’’خالد کے آمنے سامنے نہ آنا۔ اسے میری ماں نے جنم دیا ہے۔ ہم دونوں نے ایک ماں کا دودھ پیا ہے ۔ وہ جہاں کہیں بھی ہے ،بہن یہی سننا چاہتی ہے کہ اس کا بھائی زندہ ہے۔ میں بیوہ بھی نہیں ہونا چاہتی صفوان……‘‘’’پھر اپنے بھائی سے جا کہ کہو کہ مکہ کے قریب نہ آئے۔‘‘صفوان نے کہا۔’’ وہ میرے سامنے آئے گا تو ہمارے رشتے ختم ہو جائیں گے۔‘‘فاختہ کے آنسو صفوان کے ارادوں کو ذرا بھی متزلزل نہ کر سکے۔ رسولِ کریمﷺ نے ایک اور انتظام کیا۔ انہوں نے چند ایک آدمی مختلف بہروپوں میں مکہ کے اردگرد چھوڑ رکھے تھے۔ ان کا کام یہ تھا کہ مکہ سے کوئی آدمی باہر نکل کر کہیں جاتا نظر آئے تو اسے پکڑ لیں۔ جاسوسی کا یہ اہتمام اس لیے کیا گیا تھا کہ قریش اپنے دوست قبائل کو مدد کے لئے نہ بلا سکیں۔دوسرے ہی دن دو شتر سواروں کو پکڑا گیا جو عام سے مسافر معلوم ہوتے تھے۔ انہیں مسلمانوں کے پڑاؤ میں لے جایا گیا ،ایک دو دھمکیوں سے ڈر کر انہوں نے اپنی اصلیت ظاہر کر دی۔ ان میں سے ایک یہودی تھا اور دوسرا قبیلہ قریش کا۔وہ مکہ سے چند میل دور رہنے والے قبیلہ بنو بکر کے ہاں یہ اطلاع لے کے جا رہے تھے کہ مسلمان مرّالظہر میں پڑاؤ کیے ہوئے ہیں ۔بنو بکر کو یہ بھی پیغام بھیجا جا رہا تھا کہ وہ مسلمانوں پر شب خون ماریں اور دو اور قبیلوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیں۔ پیغام میں یہ بھی تھا کہ مسلمان مکہ کو محاصرے میں لیں تو بنو بکر اور دوسرے قبیلے عقب سے ان پر حملہ کردیں۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں