شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 15





⚔ شمشیرِ بے نیام⚔

  حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

قسط نمبر-15

مجاہدین لشکرِ کفار میں گم ہو گئے تھے ۔ لیکن ان کا جذبہ قائم تھا۔ ان کی للکار اور ان کے نعرے سنائی دے رہے تھے۔ سالار سپاہیوں کی طرح لڑ رہے تھے ۔ ان کاعَلَم بلند تھا ۔تھوڑی ہی دیر بعد عَلَم گرنے لگا…… عَلَم گرتا تھا اور اٹھتا تھا ۔عبدﷲ ؓبن رواحہ نے دیکھ لیا۔ سمجھ گئے کہ عَلَم بردار زخمی ہے اور اب وہ عَلَم کو سنبھال نہیں سکتا ۔عَلَم بردار سپہ سالار خود تھا۔ یہ جعفرؓ بن ابی طالب تھے۔ عبداﷲؓ بن رواحہ ان کی طرف دوڑے ۔ان تک پہنچنا ممکن نظر نہیں آتا تھا۔عبداﷲؓ جعفر ؓتک پہنچے ہی تھے کہ جعفرؓ گر پڑے۔ ان کا جسم خون میں نہا گیا تھا ۔ جسم پر شاید ہی کوئی ایسی جگہ تھی جہاں تلوار یا برچھی کا کوئی زخم نہ تھا۔جعفر ؓگرتے ہی شہید ہو گئے۔عبدﷲ ؓنے پرچم اٹھا کر بلند کیا اور نعرہ لگا کر مجاہدین کو بتایا کہ انہوں نے عَلَم اور سپہ سالاری سنبھال لی ہے۔ 

یہ دشمن کی فوج کاایک حصہ تھا جس کی تعداد دس سے پندرہ ہزار تک تھی۔یہ تمام ترنفری غسانی عیسائیوں کی تھی جو اس معرکے کو مذہبی جنگ سمجھ کر لڑ رہے تھے۔ اتنی زیادہ تعداد کے خلاف تین ہزار مجاہدین کیا کر سکتے تھے۔ لیکن ان کی قیادت اتنی دانش مند اور عسکری لحاظ سے اتنی قابل تھی کہ اس کے تحت مجاہدین جنگی طریقے اور سلیقے سے لڑ رہے تھے۔ ان کا انداز لٹھ بازوں والا نہیں تھا۔ مگر دشمن کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ مجاہدین بکھرنے لگے یہاں تک کہ بعض اس انتشار اور دشمن کے دباؤ اور زور سے گھبرا کر معرکے سے نکل گئے ۔لیکن وہ بھاگ کر کہیں گئے نہیں ۔قریب ہی کہیں موجود رہے۔باقی مجاہدین انتشار کا شکار ہونے سے یوں بچے کہ وہ چار چار ‘پانچ پانچ اکھٹے ہوکر لڑتے رہے۔جنگی مبصرین نے لکھا ہے کہ غسانی مسلمانوں کی اس افراتفری کی کیفیت سے کچھ بھی فائدہ نہ اٹھا سکے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان اتنی بے جگری سے اور ایسی مہارت سے لڑ رہے تھے کہ غسانیوں پر ان کارعب طاری ہو گیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کا بکھر جانا بھی ان کی کوئی چال ہے ۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے سالاروں اور کمانداروں نے اس صورتِ حال کو یوں سنبھالا کہ اپنے آدمیوں کو معرکے سے نکالنے لگے۔ تاکہ انہیں منظم کیا جا سکے۔اس دوران عَلَم ایک بار پھر گر پڑا۔ تیسرے سپہ سالار عبدﷲ ؓبن رواحہ بھی شہید ہو گئے۔ اب کے مجاہدین میں بد دلی نظر آنے لگی۔    

 رسولِ کریمﷺ نے یہی تین سالار مقرر کیے تھے۔ اب مجاہدین کو سپہ سالار خود مقررکرنا تھا۔عَلَم گرا ہوا تھا جو شکست کی نشانی تھی۔ ایک سرکردہ مجاہد ثابتؓ بن اَرقم نے عَلَم اٹھاکر بلند کیا اور نعرہ لگانے کے انداز سے کہا۔’’اپنا سپہ سالار کسی کو بنا لو،عَلَم کو میں بلند رکھوں گا۔میں ……ثابت بن ارقم…… ‘‘مؤرخ ابنِ سعد نے لکھا ہے کہ ثابتؓ اپنے آپ کو سپہ سالاری کے قابل نہیں سمجھتے تھے اور وہ مجاہدین کی رائے کے بغیر سپہ سالار بننا بھی نہیں چاہتے تھے،کیونکہ نبی کریمﷺ کا حکم تھا کہ تین سالار اگر شہید ہو جائیں تو چوتھے سپہ سالار کا انتخاب مجاہدین خود کریں۔ ثابتؓ کی نظر خالد ؓبن ولید پر پڑی جو قریب ہی تھے۔ مگر خالدؓ بن ولید کو مسلمان ہوئے ابھی تین ہی مہینے ہوئے تھے۔اس لیے انہیں اسلامی معاشرت میں ابھی کوئی حیثیت حاصل نہیں ہوئی تھی۔ ثابت ؓبن ارقم خالدؓ کے عسکری جوہر اور جذبے سے واقف تھے۔انہوں نے عَلَم خالدؓ کی طرف بڑھایا۔’’بے شک! اس رتبے کے قابل تم ہو خالدؓ۔‘‘
’’خالد……خالد……خالد……‘‘ہر طرف سے آوازیں بلند ہونے لگیں۔’’خالد ہمارا سپہ سالار ہے۔‘‘خالدؓ نے لپک کر عَلَم ثابتؓ سے لے لیا۔غسانی لڑ تو رہے تھے لیکن ذرا پیچھے ہٹ گئے تھے۔خالدؓ کو پہلی بار آزادی سے قیادت کے جوہر دِکھانے کا موقع ملا ۔انہوں نے چند ایک مجاہدین کو اپنے ساتھ رکھ لیا اور ان سے قاصدوں کا کام لینے لگے۔خود بھی بھاگ دوڑ کر نے لگے۔لڑتے بھی رہے۔اس طرح انہوں نے مجاہدین کو جو لڑنے کے قابل رہ گئے تھے۔ یکجا کرکے منظم کرلیا اور انہیں پیچھے ہٹالیا ۔غسانی بھی پیچھے ہٹ گئے اور دونوں طرف سے تیروں کی بوچھاڑیں برسنے لگیں۔ فضاء میں ہر طرف تیراُڑ رہے تھے۔

خالدؓ نے صورتِ حال کا جائزہ لیا ۔اپنی نفری اور اس کی کیفیت دیکھی ۔تو ان کے سامنے یہی ایک صورت رہ گئی تھی کہ معرکہ ختم کردیں۔ دشمن کو کمک بھی مل رہی تھی ۔ لیکن خالدؓ پسپا نہیں ہونا چاہتے تھے۔ پسپائی بجا تھی ،لیکن خطرہ یہ تھا کہ دشمن تعاقب میں آئے گا۔ جس کا نتیجہ مجاہدین کی تباہی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ خالدؓ نے سوچ سوچ کر ایک دلیرانہ فیصلہ کیا ۔وہ مجاہدین کے آگے ہو گئے اور غسانیوں پر ہلّہ بول دیا۔ مجاہدین نے جب اپنے سپہ سالار اور اپنے عَلَم کو آگے دیکھا تو ان کے حوصلے تروتازہ ہو گئے ۔ یہ ہلّہ اتنا دلیرانہ اور اتنا تیز تھا کہ کثیر تعداد غسانی عیسائیوں کے قدم اکھڑ گئے۔ مجاہدین کے ہلّے اور ان کی ضربوں میں قہر تھا۔ مؤرخ لکھتے ہیں اور حدیث بھی ہے کہ اس وقت تک خالدؓ کے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹ چکی تھیں۔ خالدؓ دراصل غسانیوں کو بکھیر کر مجاہدین کو پیچھے ہٹانا چاہتے تھے۔اس میں وہ کامیاب رہے۔انہوں نے اپنے اور مجاہدین کے جذبے اوراسلام کے عشق کے بل بوتے پر یہ دلیرانہ حملہ کیا تھا۔ حملہ اور ہلّہ کی شدت نے تو پورا کام کیا لیکن غسانی مجاہدین کی غیر معمولی دلیری سے مرعوب ہو گئے اور پیچھے ہٹ گئے۔ ان میں انتشار پیدا ہو گیا تھا۔اس کے ساتھ ہی مجاہدین کے دائیں پہلو کے سالار قطبہؓ بن قتاوہ نے غسانیوں کے قلب میں گھس کر ان کے سپہ سالار’’ مالک‘‘ کو قتل کر دیا۔اس سے غسانیوں کے حوصلے جواب دے گئے اور وہ تعداد کی افراط کے باوجود بہت پیچھے چلے گئے اور منظم نہ رہ سکے۔خالد ؓنے اسی لیے یہ دلیرانہ حملہ کرایا تھا کہ مجاہدین کو تباہی سے بچایا جا سکے۔ وہ انہوں نے کر لیا اور مجاہدین کو واپسی کا حکم دے دیا۔ اس طرح یہ جنگ ہار جیت کے بغیر ہی ختم ہو گئی۔ جب مجاہدین خالدؓ بن ولید کی قیادت میں مدینہ میں داخل ہوئے تو مدینہ میں پہلے ہی خبرپہنچ چکی تھی کہ مجاہدین پسپا ہو کر آرہے ہیں۔ مدینہ کے لوگوں نے مجاہدین کو طعنے دینے شروع کردیئے کہ وہ بھاگ کر آئے ہیں۔ خالدؓ نے رسولِ اکرمﷺ کے حضور معرکے کی تمام تر روئیداد پیش کی۔ لوگوں کے طعنے بلند ہوتے جا رہے تھے۔
’’خاموش ہو جاؤ!‘‘ رسولِ کریمﷺ نے بلند آواز سے فرمایا’’ یہ میدانِ جنگ کے بھگوڑے نہیں ……یہ لڑ کر آئے ہیں اور آئندہ بھی لڑیں گے۔ خالد ﷲ کی تلوار ہے ۔‘‘ابنِ ہشام، واقدی اور مغازی لکھتے ہیں کہ رسولِ کریمﷺ کے یہ الفاظ خالدؓبن ولید کا خطاب بن گئے۔’’سیف ﷲ ۔ ﷲ کی شمشیر ۔‘‘اس کے بعد یہ شمشیر، ﷲ کی راہ میں ہمیشہ بے نیام رہی۔

تاریخ میں یہ بھی آیا ہے کہ جنگ موتہ چھ دن تک جاری رہی مسلمانوں کے پانچ سو اور بنو غسان کے دو ہزار جنگو مارے گۓ. اور یہ بھی آیا ہے کہ جب حضرت خالد مسلمانوں کا امیر بنا تو حضرت خالد نے امیر بنتے ہی جنگ روک دی تھی اور حضرت خالد سارا دن غور کرتے رہے کہ اپنے فوج کو کس طرح عزت سے اور صحیح سلامت نکال کے لے جاؤں جب رات ہوئی تو حضرت خالد کو اک ترکیب سوجھی اس نے اپنے فوج کی ہیئت تبدیل کی کہ جو میمنہ(دائیں) پہ تھے ان کو میسرا(بائیں) پہ لے آئے جو مقدم پہ تھے ان کو موخر پہ لے آیا اور سب کے پرچم بھی بدل دیے صبح جب رومیوں نے مسلمانوں کے لشکر کو دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ تو اور لوگ آگئے ہیں یہ تو ہم نے کل نہیں دیکھے تھے اور یہ پرچم بھی نئے ہیں تو دل میں گھبرا گۓ کہ ہم تو پہلے تین ہزار سے لڑ نہیں پارہے اور یہ تو مدینے سے اور فوج آگئی کہتے ہیں کہ حملے سے پہلے حضرت خالد نے اتنی زور سے اللہ اکبر کا نارہ لگایا کہ کچھ رومی گھوڑے سے نیچے گرگئے. اور اتنی شدت سے حملہ کیا کہ دوپہر سے پہلے ہی وہ بھاگ کھڑے ہوئے. اور تاریخ یہ بھی کہتی ہے کہ اسلام میں صرف دو شخس اک خالد اور دوسرا حضرت زبیر یہ گھوڑے پہ بھی دونوں ہاتھوں سے تلوار پکڑ کے لڑتے تھے دنیا کا اور کوئی بھی بہادر دونوں ہاتھوں سے لڑنہیں سکتا تھا صرف یہ دونوں تھے.

قبیلۂ قریش کا سردارِ اعلیٰ ابو سفیان جو کسی وقت للکار کر بات کیا کرتا تھا اور مسلمانوں کے گروہ کو ’’محمد کا گروہ‘‘ کہہ کر انہیں پلّے ہی نہیں باندھتا تھا ،اب بجھ کے رہ گیا تھا۔ خالدؓ بن ولید کے قبولِ اسلام کے بعد تو ابوسفیان صرف سردار رہ گیا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے جنگ و جدل کے ساتھ اس کا کبھی کوئی تعلق رہاہی نہیں تھا۔ عثمانؓ بن طلحہ اور عمروؓ بن العاص جیسے ماہر جنگجو بھی اس کا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔ اس کے پاس ابھی عکرمہ اور صفوان جیسے سالار موجود تھے لیکن ابو سفیان صاف طور پر محسوس کرنے لگا تھا کہ اس کی یعنی قریش کی جنگی طاقت بہت کمزور ہو گئی ہے۔’’تم بزدل ہو گئے ہو ابو سفیان!‘‘اس کی بیوی ہند نے ایک روز اسے کہا۔’’تم مدینہ والوں کو مہلت اور موقع دے رہے ہو کہ وہ لشکر اکھٹا کرتے چلے جائیں اور ایک روز آ کر مکہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔‘‘’’میرے ساتھ رہ ہی کون گیا ہے ہند؟‘‘ابو سفیان نے مایوسی کے عالم میں کہا۔’’مجھے اس شخص کی بیوی کہلاتے شرم آتی ہے جو اپنے خاندان اور اپنے قبیلے کے مقتولین کے خون کا انتقام لینے سے ڈرتا ہے۔‘‘ہند نے کہا۔’’میں قتل کر سکتا ہوں ۔‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’میں قتل ہو سکتا ہوں۔ میں بزدل نہیں،ڈرپوک بھی نہیں لیکن میں اپنے وعدے سے نہیں پھر سکتا۔ کیا تم بھول گئی ہو کہ حدیبیہ میں محمدﷺ کے ساتھ میرا کیا معاہدہ ہوا تھا؟اہلِ قریش اور مسلمان دس سال تک آپس میں نہیں لڑیں گے۔اگر میں معاہدہ توڑ دوں اور میدانِ جنگ میں مسلمان ہم پر غالب آ جائیں تو……‘‘’’تم مت لڑو۔‘‘ہند نے کہا۔’’قریش نہیں لڑیں گے۔ ہم کسی اور قبیلے کو مسلمانوں کے خلاف لڑا سکتے ہیں۔ ہمارا مقصد مسلمانوں کی تباہی ہے۔ ہم مسلمانوں کے خلاف لڑنے والوں کو درپردہ مدد دے سکتے ہیں۔‘‘’’قریش کے سوا کون ہے جو مسلمانوں کے خلاف لڑنے کی جرات کرے گا؟‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’موتہ میں ہرقل اور غسان کے ایک لاکھ کے لشکر نے مسلمانوں کا کیا بگاڑ لیا تھا؟ کیا تم نے سنا نہیں تھا کہ ایک لاکھ کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعداد صرف تین ہزار تھی؟میں اپنے قبیلے کے کسی آدمی کو مسلمانوں کے خلاف لڑنے والے کسی قبیلے کی مدد کے لئے جانے کی اجازت نہیں دوں گا۔‘‘’’مت بھول ابو سفیان!‘‘ہند نے غضب ناک لہجے میں کہا۔’’میں وہ عورت ہوں جس نے اُحد کی لڑائی میں حمزہ کا پیٹ چاک کر کے اس کا کلیجہ نکالا اور اسے چبایا تھا ۔تم میرے خون کو کس طرح ٹھنڈا کر سکتے ہو؟‘‘’’تم نے حمزہ کا نہیں اس کی لاش کا پیٹ چاک کیا تھا۔‘‘ابو سفیان نے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ لاکرکہا۔’’مسلمان لاشیں نہیں اور وہ جو کچھ بھی ہیں ،خدا کی قسم! میں معاہدہ نہیں توڑوں گا۔‘‘’’معاہدہ تو میں بھی نہیں توڑوں گی۔‘‘ہند نے کہا۔’’لیکن مسلمانوں سے انتقام ضرور لوں گی اور یہ انتقام بھیانک ہوگا۔ قبیلۂ قریش میں غیرت والے جنگجو موجود ہیں۔‘‘’’آخر تم کرنا کیا چاہتی ہو؟‘‘ابو سفیان نے پوچھا۔’’تمہیں جلدی پتا چل جائے گا۔‘‘ہند نے کہا۔

مکہ کے گردونواح میں خزاعہ اور بنو بکر دو قبیلے آباد تھے۔ان کی آپس میں بڑی پرانی عداوت تھی۔ حدیبیہ میں جب مسلمانوں اور قریش میں صلح ہو گئی اور دس سال تک عدمِ جارحیت کا معاہدہ ہو گیا تو یہ دونوں قبیلے اس طرح اس معاہدے کے فریق بن گئے کہ قبیلۂ خزاعہ نے مسلمانوں کا اور قبیلہ بنو بکر نے قریش کا اتحادی بننے کا اعلان کر دیا تھا۔معاہدہ جو تاریخ میں صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہوا،خزاعہ اور بنو بکر کے لئے یوں فائدہ مند ثابت ہوا کہ دونوں قبیلوں کی آئے دن کی لڑائیاں بند ہو گئیں۔ اچانک یوں ہوا کہ بنو بکر نے ایک رات خزاعہ کی ایک بستی پر حملہ کر دیا۔ یہ کوئی بھی نہ جان سکا کہ بنو بکر نے معاہدہ کیوں توڑ دیا ہے۔ ایک روایت ہے کہ اس کے پیچھے ہند کا ہاتھ تھا۔ خزاعہ چونکہ مسلمانوں کے اتحادی تھے،اس لیے ہند نے اس توقع پر خزاعہ پر بنو بکر سے حملہ کرایا تھا کہ خزاعہ مسلمانوں سے مدد مانگیں گے اور مسلمان ان کی مدد کو ضرور آئیں گے اور وہ جب بنو بکر پر حملہ کریں گے تو قریش مسلمانوں پر حملہ کردیں گے۔ایک روایت یہ ہے کہ یہ غسانی عیسائیوں اور یہودیوں کی سازش تھی۔انہوں نے سوچا تھا کہ قریش اور مسلمانوں کے اتحادیوں کو آپس میں لڑا دیا جائے تو قریش اور مسلمانوں کے درمیان لڑائی ہو جائے گی۔ بنو بکر خزاعہ کے مقابلے میں طاقتور قبیلہ تھا۔ غسّانیوں اور یہودیوں نے بنو بکر کی ایک لڑکی اغواکرکے قبیلہ خزاعہ کی ایک بستی میں پہنچا دی اور بنو بکر کے سرداروں سے کہا کہ خزاعہ نے ان کی لڑکی کو اغواء کر لائے ہیں،بنو بکر نے جاسوسی کی اور پتا چلا کہ ان کی لڑکی واقعی خزاعہ کی ایک بستی میں ہے۔ہند نے اپنے خاوند ابو سفیان کو بتائے بغیر قریش کے کچھ آدمی بنو بکر کو دے دیئے۔ان میں قریش کے مشہور سالار عکرمہ اور صفوان بھی تھے۔چونکہ حملہ رات کو کیا گیا تھا،اس لیے خزاعہ کے بیس آدمی مارے گئے۔ یہ راز ہر کسی کو معلوم ہو گیا کہ بنو بکر کے حملے میں قریش کے آدمی مدد کے لئے گئے تھے۔ خزاعہ کا سردار اپنے ساتھ دو تین آدمی لے کر مدینہ چلا گیا۔خزاعہ غیر مسلم قبیلہ تھا ۔خزاعہ کے یہ آدمی حضورﷺ کے پاس پہنچے اور آپﷺ کو بتایا کہ بنو بکر نے قریش کی پشت پناہی سے حملہ کیا اور قریش کے کچھ جنگجو بھی اس حملے میں شریک تھے۔خزاعہ کے ایلچی نے حضورﷺ کو بتایا کہ عکرمہ اور صفوان بھی اس حملے میں شامل تھے۔رسولِ اکرمﷺ غصے میں آگئے۔یہ معاہدے کی خلاف ورزی تھی ۔آپﷺ نے مجاہدین کو تیاری کا حکم دے دیا۔

مؤرخ لکھتے ہیں کہ رسول ﷲﷺ کارد ِ عمل بڑا ہی شدید تھا۔ اگر معاملہ صرف بنو بکراور خزاعہ کی آپس میں لڑائی کا ہوتا تو حضورﷺ شاید کچھ اور فیصلہ کرتے لیکن بنو بکر کے حملے میں قریش کے نامی گرامی سالار عکرمہ اور صفوان بھی شامل تھے۔ اس لیے آپﷺ نے فرمایا کہ معاہدے کی خلاف ورزی کی ذمہ داری اہلِ قریش پر عائد ہوتی ہے۔’’ابو سفیان نے صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کی ہے۔‘‘مدینہ کی گلیوں اور گھروں میں آوازیں سنائی دینے لگیں۔’’رسول ﷲﷺ کے حکم پر ہم مکہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ اب قریش کو ہم اپنے قدموں میں بٹھا کر دم لیں گے۔‘‘رسول ﷲﷺ نے مکہ پر حملے کی تیاری کا حکم دے دیا۔ابو سفیان کو اتنا ہی پتا چلا تھا کہ بنو بکر نے خزاعہ پر شب خون کی طرز کا حملہ کیا ہے اور خزاعہ کے کچھ آدمی مارے گئے ہیں ۔اسے یاد آیا کہ عکرمہ اور صفوان صبح سویرے گھوڑوں پر سوار کہیں سے آ رہے تھے،اس نے ان سے پوچھا تھا کہ وہ کہاں سے آ رہے ہیں ؟تو انہو ں نے جھوٹ بولا تھا کہ وہ گھڑ دوڑ کے لئے گئے تھے۔ دوپہر کے وقت جب اسے پتا چلا کہ بنو بکر نے خزاعہ پر حملہ کیاہے تو اس نے عکرمہ اور صفوان کو بلایا۔’’تم دونوں مجھے کس طرح یقین دلا سکتے ہو کہ خزاعہ کی بستی پر بنوبکر کے حملے میں تم شریک نہیں تھے؟‘‘ابو سفیان نے ان سے پوچھا۔’’کیا تم بھول گئے ہو کہ بنو بکر ہمارے دوست ہیں؟‘‘صفوان نے کہا ۔’’اگر دوست مدد کے لئے پکاریں تو کیا تم دوستوں کو پیٹھ دکھاؤ گے؟‘‘’’میں کچھ بھی نہیں بھولا۔‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’خدا کی قسم! تم بھول گئے ہو کہ قبیلۂ قریش کا سردار کون ہے……میں ہوں تمہارا سردار……میری اجازت کے بغیر تم کسی اور کا ساتھ نہیں دے سکتے۔‘‘’’ابو سفیان! ‘‘عکرمہ نے کہا۔’’میں تمہیں اپنے قبیلے کا سردار مانتا ہوں ۔ تمہاری کمان میں لڑائیاں لڑی ہیں۔ تمہارا ہر حکم مانا ہے لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ تم قبیلے کے وقار کو مجروح کرتے چلے جا رہے ہو۔تم نے اپنے دل پر مدینہ والوں کا خوف طاری کر لیا ہے۔‘‘’’اگر میں قبیلے کا سردار ہوں تو میں کسی کو ایسا جرم بخشوں گا نہیں جو تم نے کیا ہے۔‘‘ابو سفیان نے کہا-
’’ابو سفیان!‘‘ عکرمہ نے کہا۔’’وہ وقت تمہیں یاد ہو گا جب خالد مدینہ کو رخصت ہوا تھا۔ تم نے اسے بھی دھمکی دی تھی اور میں نے تمہیں کہا تھا کہ ہر کسی کو حق حاصل ہے کہ وہ اُس عقیدے کا پیروکار ہو جائے جسے وہ اچھا سمجھتا ہے اور میں نے تمہیں یہ بھی کہا تھا کہ تم نے اپنا رویہ نہ بدلا تو میں بھی تمہارا ساتھ چھوڑنے اور محمدﷺ کی اطاعت قبول کرنے پر مجبور ہو جاؤں گا۔‘‘

’’کیا تم نہیں سمجھتے کہ باوقار لوگ اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کیا کرتے؟‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’تم نے بنو بکر کا ساتھ دے کر اور مسلمانوں کے اتحادی قبیلے پر حملہ کرکے اپنے قبیلے کا وقار تباہ کر دیا ہے۔ اگر تم یہ سوچ رہے ہو کہ محمدﷺ نے مکہ پر حملہ کر دیا تو تم حملہ پسپا کردو گے۔ تو تم خوش فہمی میں مبتلا ہو۔ کون سے میدان میں تم نے مسلمانوں کو شکست دی ہے؟ کتنا لشکر لے کر تم نے مدینہ کو محاصرے میں لیا تھا؟‘‘’’وہاں سے پسپائی کا حکم تم نے دیا تھا۔‘‘صفوان نے کہا۔’’تم نے ہار مان لی تھی۔‘‘’’میں تم جیسے ضدی ا ور کوتاہ بیں آدمیوں کے پیچھے پورے قبیلے کو ذلیل و خوار نہیں کرواؤں گا۔‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’میں مسلمانوں کے ساتھ ابھی چھیڑ خانی نہیں کر سکتا۔ میں محمدﷺ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے ایک دوست قبیلے نے مسلمانوں کے ایک دوست قبیلے پر حملہ کیا ہے اور اس میں قریش کے چند ایک آدمی شامل ہو گئے تھے،تو اس سے یہ مطلب نہ لیا جائے کہ میں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ میں محمدﷺ کو بتاؤں گا کہ قبیلۂ قریش حدیبیہ کے معاہدے پر قائم ہے۔‘‘وہ عکرمہ اور صفوان کو وہیں کھڑا چھوڑ کروہاں سے چلا گیا۔ ابو سفیان اسی روز مدینہ کو روانہ ہو گیا۔اہلِ مکہ حیران تھے کہ ابو سفیان اپنے دشمن کے پاس چلا گیا ہے۔اس کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں ۔اس کی بیوی ہند پھنکارتی پھر رہی تھی۔مدینہ پہنچ کر ابو سفیان نے جس دروازے پردستک دی وہ اس کی اپنی بیٹی اُمّ ِ حبیبہؓ کاگھر تھا۔ دروازہ کھلا۔ بیٹی نے اپنے باپ کو دیکھا تو بیٹی کے چہرے پر مسرت کے بجائے بے رُخی کا تاثر آگیا۔ بیٹی اسلام قبول کر چکی تھی اور باپ اسلام کا دشمن تھا۔’’کیا باپ اپنی بیٹی کے گھر میں داخل نہیں ہو سکتا؟‘‘ابو سفیان نے اُمّ ِ حبیبہؓ سے پوچھا۔’’اگر باپ وہ سچا مذہب قبول کرلے جو اس کی بیٹی نے قبول کیا ہے تو بیٹی باپ کی راہ میں آنکھیں بچھائے گی۔‘‘اُمّ ِ حبیبہؓ نے کہا۔’’بیٹی!‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’میں پریشانی کے عالم میں آیا ہوں ۔میں دوستی کا پیغام لے کر آیا ہوں ۔‘‘
’’بیٹی کیا کر سکتی ہے؟ ‘‘اُمّ ِ حبیبہ ؓ نے کہا۔’’آپ رسول ِ ﷲﷺ کے پاس جائیں۔‘‘بیٹی کی اس بے رخی پر ابو سفیان سٹپٹا اٹھا۔وہ رسولِ کریمﷺ کے گھر کی طرف چل پڑا۔ راستے میں اس نے وہ شناسا چہرے دیکھے جو کبھی اہلِ قریش کہلاتے اور اسے اپنا سردار مانتے تھے۔اب اس سے بے گانے ہو گئے تھے۔وہ اسے چپ چاپ دیکھ رہے تھے۔وہ ان کا دشمن تھا۔ اس نے ان کے خلاف لڑائیاں لڑی تھیں۔ اُحد کی جنگ میں ابو سفیان کی بیوی ہند نے مسلمانوں کی لاشوں کے پیٹ چاک کیے اور ان کے کان اور ناکیں کاٹ کر ان کاہار بنایا اور اپنے گلے میں ڈالا تھا۔

ابو سفیان اہل ِمدینہ کی گھورتی ہوئی نظروں سے گزرتا رسولِ کریمﷺ کے ہاں جا پہنچا۔اس نے ہاتھ بڑھایا۔رسولِ کریمﷺنے مصافحہ کیا لیکن آپﷺ کی بے رخی نمایاں تھی۔ رسولِ کریمﷺ کو اطلاع مل چکی تھی کہ بنو بکر نے اہلِ قریش کی مدد سے خزاعہ پر حملہ کیا ہے۔ آپﷺ اہلِ قریش کو فریب کار سمجھ رہے تھے۔ایسے دشمن کا آپﷺ کے پاس ایک ہی علاج تھا کہ فوج کشی کرو تاکہ وہ یہ نہ سمجھے کہ ہم کمزور ہیں۔
ہم ان کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا کرتے کہ اس کی بات بھی نہ سنیں۔میں دوستی کا پیغام لے کر آیا ہوں۔‘‘’’اگر محمد نے جو ﷲ کے رسولﷺ ہیں،تمہاری بات نہیں سنی تو ہم تمہاری کسی بات کا جواب نہیں دے سکتے۔‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’ہم اس مہمان کی بات سنا کرتے ہیں جو ہماری بات سنتا ہے۔ابو سفیان! کیا تم نے محمد ﷺ کی بات سنی ہے کہ وہ ﷲ کا بھیجا ہوا رسولﷺ ہے؟کیا تم نے ﷲ کے رسولﷺ کی یہ بات نہیں سنی تھی کہ ﷲ ایک ہے اورا س کے سوا کوئی معبود نہیں۔ سنی تھی تو تم رسولﷺ کے دشمن کیوں ہو گئے تھے؟‘‘’’کیا تم میری کوئی مدد نہیں کرو گے ابو بکر؟‘‘ابو سفیان نے التجا کی۔
’’نہیں ۔‘‘ابو بکر ؓنے کہا۔’’ہم اپنے رسول کے حکم کے پابند ہیں۔‘‘ابو سفیان مایوسی کے عالم میں سرجھکائے ہوئے چلا گیا اورکسی سے حضرت عمرؓ کا گھر پوچھ کر ان کے سامنے جا بیٹھا۔

’’اسلام کے سب سے بڑے دشمن کو مدینہ میں دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی ہے۔‘‘عمرؓ نے کہا۔’’خداکی قسم! تم اسلام قبول کرنے والوں میں سے نہیں۔‘‘ابو سفیان نے عمرؓ کو مدینہ میں آنے کا مقصد بتایا اور یہ بھی کہ رسولِ کریمﷺ نے اس کے ساتھ بات تک نہیں کی اور ابو بکرؓ نے بھی اس کی مدد نہیں کی۔’’ میرے پاس اگر چیونٹیوں جیسی کمزور فوج بھی ہو تو بھی تمہارے خلاف لڑوں گا۔‘‘عمرؓ نے کہا۔’’تم میرے نہیں،میرے رسولﷺ اور میرے مذہب کے دشمن ہو۔ میرا رویہ وہی ہو گا جو ﷲ کے رسولﷺ کا ہے۔‘‘ابو سفیان فاطمہؓ سے ملا۔ حضرت علیؓ سے ملا لیکن کسی نے بھی ا س کی بات نہ سنی۔ وہ مایوس اور نامراد مدینہ سے نکلا۔ اس کے گھوڑے کی چال اب وہ نہیں تھی جو مدینہ کی طرف آتے وقت تھی۔ گھوڑے کا بھی جیسے سر جھکا ہوا تھا،وہ مکہ کو جا رہا تھا۔رسولِ خداﷺ نے اس کے جانے کے بعد ان الفاظ میں حکم دیا کہ مکہ پر حملہ کے لئے زیادہ سے زیادہ تعداد میں فوج تیار کی جائے ۔آپﷺ کے حکم میں خاص طور پرشامل تھا کہ جنگی تیاری اتنے بڑے پیمانے کی ہو کہ مکہ والوں کو فیصلہ کن شکست دے کر قریش کو ہمیشہ کے لئے تہہ و تیغ کر لیا جائے۔اس کے علاوہ حضورﷺ نے فرمایا کہ کوچ بہت تیز ہو گا اور اسے ایسا خفیہ رکھا جائے گا کہ مکہ والوں کو بے خبری میں دبوچ لیا جائے یا مکہ کے قریب اتنی تیزی سے پہنچا جائے کہ قریش کو مہلت نہ مل سکے کہ وہ اپنے اتحادی قبائل کو مدد کے لئے بلا سکیں ۔ مدینہ میں مسلمانوں نے راتوں کوبھی سونا چھوڑ دیا۔ جدھر دیکھو تیر تیار ہو رہے تھے ۔ تیروں سے بھری ہوئی ترکشوں کے انبار لگتے جا رہے تھے۔ برچھیاں بن رہی تھیں۔گھوڑے اور اونٹ تیار ہو رہے تھے۔ تلواریں تیز ہو رہی تھیں۔عورتیں اور بچے بھی جنگی تیاریوں میں مصروف تھے۔رسولِ اکرمﷺ اور صحابہ کرامؓ بھاگتے دوڑتے نظر آتے تھے۔مدینہ میں ایک گھر تھا جس کے اندر کوئی اور ہی سرگرمی تھی۔وہ غیر مسلم گھرانہ تھا۔ وہاں ایک اجنبی آیا بیٹھا تھا ۔گھر میں ایک بوڑھا تھا ،ایک ادھیڑ عمر آدمی،ایک جوان لڑکی ،ایک ادھیڑ عمر عورت اور دو تین بچے تھے۔’’میں مسلمانوں کے ارادے دیکھ آیا ہوں۔‘‘اجنبی نے کہا۔’’ان کا ارادہ ہے کہ مکہ والوں کو بے خبری میں جا لیں ۔بلا شک و شبہ محمد ﷺ جنگی چالوں کا ماہر ہے۔ اس نے جو کہا ہے وہ کر کے دکھا دے گا۔‘‘’’ہم کیا کر سکتے ہیں ؟‘‘بوڑھے نے پوچھا۔’’میرے بزرگ!‘‘ اجنبی نے کہا۔’’ہم اور کچھ نہیں کر سکتے لیکن ہم مکہ والوں کو خبر دار کر سکتے ہیں کہ تیار رہو اور اِدھراُدھر کے قبیلوں کو اپنے ساتھ ملا لواور مکہ کے راستے میں کہیں گھات لگا کر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑو۔ مکہ پہنچنے تک ان پر شب خون مارتے رہو۔مسلمان جب مکہ پہنچیں گے تو ان کا دم خم ٹوٹ چکا ہو گا۔‘‘

’’قسم اس کی جسے میں پوجتا ہوں۔‘‘بوڑھے نے جوشیلی آواز میں کہا۔’’تم عقل والے ہو۔ تم خدائے یہودہ کے سچے پجاری ہو۔خدائے یہودہ نے تمہیں عقل و دانش عطا کی ہے۔کیا تم مکہ نہیں جا سکتے؟‘‘’’نہیں ۔‘‘اجنبی نے کہا۔’’مسلمان ہر غیر مسلم کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ۔یہ جانتے ہیں کہ میں یہودی ہوں، وہ مجھ پر شک کریں گے۔ میں اپنی جان پر کھیل جاؤں گا۔ مجھے ان یہودیوں کے خون کا انتقام لینا ہے جنہیں مسلمانوں نے قتل کیا تھا۔ میری رگوں میں بنو قریظہ کا خون دوڑ رہا ہے۔ یہ میرا فرض ہے کہ میں مسلمانوں کو ضربیں لگاتا رہوں اور میں اپنا یہ فرض ادا نہ کروں تو خدائے یہودہ مجھے اس کتے کی موت مارے جس کے جسم پر خارش اور پھوڑے ہوتے ہیں اور وہ تڑپ تڑپ کر مرتا ہے ۔لیکن میں نہیں چاہتا کہ میں پکڑا جاؤں۔ میں مسلمانوں کو ڈنک مارنے کے لئے زندہ رہنا چاہتا ہوں ۔‘‘’’میں بوڑھا ہوں ۔‘‘بوڑھے نے کہا۔’’مکہ دور ہے ،گھوڑے یا اونٹ پراتنا تیز سفر نہیں کر سکوں گا کہ مسلمانوں سے پہلے مکہ پہنچ جاؤں ۔یہ کام بچوں اور عورتوں کا بھی نہیں ۔میرا بیٹا ہے مگر بیمار ہے ۔‘‘’’اس انعام کو دیکھو جو ہم تمہیں دے رہے ہیں ۔‘‘اجنبی یہودی نے کہا ۔’’یہ کام کر دو ۔انعام کے علاوہ ہم تمہیں اپنے مذہب میں شامل کرکے اپنی حفاظت میں لے لیں گے۔‘‘ ’’کیا یہ کام میں کر سکتی ہوں ؟‘‘ادھیڑ عمر عورت نے کہا۔’’تم نے میری اونٹنی نہیں دیکھی ،تم نے مجھے اونٹنی کی پیٹھ پر کبھی نہیں دیکھا ۔اتنی تیز اونٹنی مدینہ میں کسی کے پاس نہیں ہے۔‘‘’’ہاں! ‘‘یہودی نے کہا۔’’تم یہ کام کر سکتی ہو ۔اونٹوں اور بکریوں کو باہر لے جاؤ۔تمہاری طرف کوئی دھیان نہیں دے گا۔تم انہیں چرانے کیلئے ہر روز لے جاتی ہو، آج بھی لے جاؤ اورمدینہ سے کچھ دور جاکر اپنی اونٹنی پر سوار ہو جاؤ ۔اس نے ایک کاغذ ایک عورت کو دیتے ہوئے کہا اسے اپنے سر کے بالوں میں چھپا لو۔اونٹنی کو دوڑاتی لے جاؤ اور مکہ میں ابو سفیان کے گھر جاؤ اور بالوں میں سے یہ کاغذ نکال کر اسے دے دو۔‘‘’’لاؤ۔‘‘عورت نے کاغذ لیتے ہوئے کہا۔’’میرا انعام میرے دوسرے ہاتھ پر رکھ دو اور اس یقین کے ساتھ میرے گھر سے جاؤ کہ مسلمان مکہ سے واپس آئیں گے تو ان کی تعداد آدھی بھی نہیں ہو گی۔ اور ان کے سر جھکے ہوئے ہوں گے اور شکست ان کے چہروں پر لکھی ہوئی ہو گی۔‘‘یہودی نے سونے کے تین ٹکڑے عورت کو دیئے اور بولا۔’’یہ اس انعام کا نصف حصہ ہے جو ہم تمہیں اس وقت دیں گے جب تم یہ پیغام ابو سفیان کے ہاتھ میں دے کر واپس آ جاؤ گی۔‘‘’’اگر میں نے کام کر دیا اور زندہ واپس نہ آسکی تو؟‘‘’’باقی انعام تمہارے بیمار خاوند کو ملے گا۔‘‘یہودی نے کہا۔

یہ عورت) کسی بھی تاریخ میں نام نہیں دیا گیا(اپنے اونٹ اور بکریاں چرانے کیلئے لے گئی۔ انہیں وہ ہانکتی جا رہی تھی کسی نے بھی نہ دیکھا کہ اونٹوں کی پیٹھیں ننگی تھیں لیکن ایک اونٹنی سواری کیلئے تیار کی گئی تھی ۔اس کے ساتھ پانی کا مشکیزہ اور ایک تھیلا بھی بندھا ہو اتھا۔ عورت اس ریوڑ کو شہر سے دور لے گئی۔ بہت دیر گزر گئی تو یہودی نے اس جوان لڑکی کو جو گھر میں تھی ،کہا۔’’ وہ جا چکی ہو گی۔ تم جاؤاور اونٹوں اور بکریوں کو شام کے وقت واپس لے آنا۔‘‘وہ لڑکی ہاتھ میں گدڑیوں والی لاٹھی لے کر باہر نکل گئی۔ لیکن وہ شہر سے باہر جانے کی بجائے شہر کے اندر چلی گئی۔وہ اس طرح اِدھر اُدھر دیکھتی جا رہی تھی جیسے کسی کو ڈھونڈ رہی ہو۔وہ گلیوں میں سے گزر ی اور ایک میدان میں جا رکی ۔وہاں بہت سے مسلمان ڈھالیں اور تلواریں لیے تیغ زنی کی مشق کر رہے تھے۔ایک طرف شتر دوڑ ہو رہی تھی اور تماشائیوں کابھی ہجوم تھا ۔لڑکی اس ہجوم کے اردگرد گھومنے لگی یہ کسی کو ڈھونڈ رہی تھی ۔اسکے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے جو بڑھتے جا رہے تھے ۔اسکے قدم تیزی سے اٹھنے لگے۔ایک جوان سال آدمی نے اسے دیکھ لیا اور بڑی تیزچلتا اس کے پیچھے گیا۔ قریب پہنچ کر اس نے دھیمی آواز سے کہا:’’زاریہ!‘‘لڑکی نے چونک کر پیچھے دیکھا اور ا سکے چہرے سے پریشانی کا تاثر اُڑ گیا۔’’وہیں آجاؤ !‘‘زاریہ نے کہا اور وہ دوسری طرف چلی گئی۔ زاریہ کو وہاں پہنچتے خاصا وقت لگ گیا جہاں وہ عورت اونٹوں اور بکریوں کو لے جایا کرتی تھی۔ اونٹ اور بکریاں وہیں تھیں۔ وہ عورت اور ا س کی اونٹنی وہاں نہیں تھیں ۔زاریہ وہاں اس انداز سے بیٹھ گئی جیسے بکریاں چرانے آئی ہو ۔وہ بار بار اٹھتی اور شہر کی طرف دیکھتی تھی۔اسے اپنی طرف کوئی آتا نظر نہیں آ رہا تھا ۔وہ ایک بار پھرپریشان ہونے لگی ۔سورج ڈوبنے کے لئے افق کی طرف جا رہا تھا جب وہ آتا دکھائی دیا ۔زاریہ نے سکون کی آہ بھری اور بیٹھ گئی ۔’’او ہ عبید!‘‘ زاریہ نے اسے اپنے پاس بٹھا کر کہا۔’’تم اتنی دیر سے کیوں آئے ہو ؟میں پریشان ہو رہی ہوں۔‘‘’’کیا میں نے تمہیں پریشانی کا علاج بتایا نہیں؟‘‘عبید نے کہا۔’’میرے مذہب میں آجاؤاور تمہاری پریشانی ختم ہو جائے گی۔جب تک تم اسلام قبول نہیں کرتیں ،میں تمہیں اپنی بیوی نہیں بنا سکتا۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں