اجازت ملی ہوئی ہے

 


شاعر: نا معلوم


زمیں کوعجلت، ہوا کوفرصت، خلا کو لُکنت ملی ہوئی ہے  

ہم احتجاجاً ہی جی رہے ہیں، یا پھر اجازت ملی ہوئی ہے


میں اپنی مرضی کے تارے چُن کر فلک پہ چہرے بنا رہا ہوں

بغیر چھت کے جو سو گیا ہوں تو یہ سہولت مِلی ہوئی ہے


ہماری اوقات کے مطابق  ہمارے درجے بنے ہوئے ہیں  

کسی کو قدرت، کسی کو حسرت، کسی کو قسمت ملی ہوئی ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں