شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 17





شمشیرِ بے نیام

 حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ 

(قسط نمبر-17)

ان سے پوچھا گیا کہ مکہ میں لڑائی کی تیاریاں کس پیمانے پر ہو رہی ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ ابو سفیان لڑائی نہیں چاہتا اور مکہ والوں کی اکثریت اس کے ساتھ ہے۔ صرف عکرمہ اور صفوان لڑیں گے لیکن ان کے ساتھ بہت تھوڑے آدمی ہیں۔ ان دونوں آدمیوں کو ابو سفیان نے نہیں عکرمہ اور صفوان نے بھیجا تھا۔ رسولِ کریمﷺ نے اپنے سالاروں وغیرہ سے کہا کہ مکہ میں یہ فرض کرکے داخل ہو جائے گا کہ قریش شہر کے دفاع میں لڑیں گے ۔ آپﷺ نے اپنی فوج کو چار حصوں میں تقسیم کیا۔ اس زمانے میں مکہ کی طرف چار راستے جاتے تھے جو مکہ کے اردگرد کھڑی پہاڑیوں میں سے گزرتے تھے۔ فوج کے ہر حصے کو ایک ایک راستہ دے دیا گیا ۔انہیں اپنے اپنے راستے سے مکہ شہر کی طرف پیش قدمی کرنی تھی ۔ فوج کے ان حصوں میں ایک کی نفری سب سے زیادہ رکھی گئی۔ اس کی کمان ابو عبیدہؓ کو دی گئی ۔ حضورﷺ کو اس دستے کے ساتھ رہنا تھا ۔ ایک حصے کی کمان علیؓ کے پاس تھی۔ ایک کے کماندار زبیرؓ تھے اور چوتھے حصے کی کمان خالدؓ کے پاس تھی۔مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس اسکیم میں غیر معمولی دانش کار فرما تھی۔ چار سمتوں سے پیش قدمی کا مقصد یہ تھا کہ مکہ کے دفاعی دستوں کو چار حصوں میں بکھیر دیا جائے۔ اگر وہ مسلمانوں کی پیش قدمی کو کسی ایک یا دو راستوں پر روک بھی لیں تو دوسرے دستے آگے بڑھ کر شہر میں داخل ہو سکیں ۔اس کے علاوہ فوج کی اس تقسیم کا مقصد یہ بھی تھا کہ قریش اگر دفاع میں نہ لڑیں تو وہ کسی راستے سے بھاگ بھی نہ سکیں۔ رسولِ اکرمﷺ نے اس اسکیم کے علاوہ جو احکام دیئے وہ یہ تھے۔’’ قریش دفاع میں نہ لڑیں تو ان پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے۔ امن کا جواب پرامن طریقے سے دیا جائے۔ اگر کہیں جھڑپ ہو جائے تو زخمیوں کو قتل نہ کیا جائے بلکہ ان کی مرہم پٹی اور دیکھ بھال کی جائے۔ لڑنے والوں میں جو پکڑا جائے اس پر تشدد نہ کیا جائے نہ اسے قتل کیا جائے اور اسے جنگی قیدی بھی نہ سمجھا جائے،اور ان میں سے کوئی بھاگ نکلے تو اسے بھاگ جانے دیا جائے۔‘‘اسلامی لشکر کے چاروں حصوں کو پیش قدمی کا حکم دے دیا گیا۔ ۲۰ رمضان المبارک ۸ہجری )۱۱جنوری ۶۳۰عیسوی(کا دن تھا۔ اسلامی لشکر کے تین حصے اپنے راستوں سے گزر کر مکہ میں داخل ہو گئے ۔ کسی طرف سے ان پر ایک تیر بھی نہ آیا۔ شہر کا کوئی دفاع نہ تھا۔ قریش کی کوئی تلوار نیام سے باہر نہ نکلی ،لوگ گھروں میں بند رہے، کسی کسی مکان کی چھت پر کوئی عورت یا بچے کھڑے نظر آتے تھے ۔مسلمان چوکنّے تھے ،شہر کا سکوت مشکوک اور ڈراؤنا تھا۔ایسے لگتا تھا جیسے اس سکوت سے کوئی طوفان اٹھنے والا ہو-

شہر سے کوئی طوفان نہ اٹھا، طوفان اٹھانے والے دو آدمی تھے ایک عکرمہ اور دوسرا صفوان۔ دونوں شہر میں نہیں تھے، کئی اور آدمی شہر میں نہیں تھے۔ وہ قریب ہی کہیں چھپے ہوئے تھے۔ وہ رات کو باہر نکل گئے تھے۔ ان کے ساتھ تیر انداز بھی تھے ۔ یہ ایک جیش تھا جو اس پہاڑی راستے کے قریب جا پہنچا تھا جو خالد کے دستے کی پیش قدمی کا رستہ تھا۔ 
عکرمہ اور صفوان کو معلوم نہیں تھا کہ اس اسلامی دستے کے قائد خالدؓ ہیں۔ عکرمہ اور صفوان کا ایک آدمی کہیں بلندی پر تھا۔ اس نے خالدؓ کو پہچان لیا اور اوپر سے دوڑتا نیچے گیا۔’’اے صفوان! ‘‘اس آدمی نے صفوان سے کہا۔’’کیا تو ہمیں اجازت دے گا کہ تیری بیوی کے بھائی کو ہم قتل کر دیں؟ میری آنکھیں دھوکا نہیں کھا سکتیں۔ میں نے خالد کو دیکھا ہے ۔‘‘’’اپنے قبیلے کی عزت اور غیرت سے بڑھ کر مجھے کوئی اور عزیز نہیں ہے ۔‘‘صفوان نے کہا۔’’اگر خالد میری بہن کا خاوند ہوتا تو آج میں اپنی بہن کو بیوہ کر دیتا۔‘‘’’مت دیکھو کون کس کا بھائی ،کس کا باپ اور کس کا خاوند ہے۔‘‘عکرمہ نے کہا۔’’خالد میرا بھی کچھ لگتا ہے لیکن آج وہ میرا دشمن ہے ۔‘‘خالدؓ کا دستہ اور آگے آیا تو اس پر تیروں کی پہلی بوچھاڑ آئی۔ خالد ؓنے اپنے دستے کو روک لیا ۔’’اے اہلِ قریش! ‘‘خالدؓ نے بڑی بلند آواز سے کہا۔’’ہمیں راستہ دے دو گے تو محفوظ رہو گے۔ ہمارے رسولﷺ کا حکم ہے کہ اس پر ہاتھ نہ اٹھانا جو تم پر ہاتھ نہیں اٹھاتا ۔ کیا تمہیں اپنی جانیں عزیز نہیں ؟ میں تمہیں صرف ایک موقع دوں گا۔‘‘تیروں کی ایک اور بوچھا ڑ آئی۔’’ہم تیرے رسولﷺ کے حکم کے پابند نہیں خالد۔‘‘عکرمہ نے للکار کر کہا۔’’ہمت کر اور آگے آ۔ ہم ہیں تمہارے پرانے دوست صفوان اور عکرمہ،تو مکہ میں زندہ داخل نہیں ہو سکے گا۔‘‘خالدؓنے تیروں کی دوسری بوچھاڑ سے معلوم کر لیا تھا کہ دشمن کہاں ہے ۔ خالدؓ نے اپنے دستے کو روک کر پیچھے ہٹا لیا اور اپنے کچھ آدمیوں کو پہاڑیوں کے اوپر سے آگے بڑھنے اور تیر اندازوں پر حملہ کرنے کیلئے بھیج دیا۔عکرمہ اور صفوان خالدؓ کے ان آدمیوں کو نہ دیکھ سکے ، تھوڑی سی دیر میں یہ آدمی دشمن کے سر پر جا پہنچے۔ وادی سے خالد ؓنے ہلّہ بول دیا جو اس قدر تیز اورشدید تھا کہ قریش کے پاؤں اکھڑ گئے ۔ خالدؓ نے اوپر سے بھی حملہ کرایا تھا اور نیچے سے بھی۔

’’کہاں ہو عکرمہ ؟‘‘خالدؓ للکار رہے تھے۔’’کہاں ہو صفوان؟‘‘وہ دونوں کہیں بھی نہیں تھے۔ وہ خالد ؓکے حملے لّے کی تاب نہ لا سکے اور خالدؓ کو نظر آئے بغیر کہیں بھاگ گئے۔ ان کا جیش بھی لاپتا ہو گیا ۔ پیچھے قریش کی بارہ لاشیں رہ گئیں۔ مختصر سی اس جھڑپ میں دو مسلمان جبشؓ بن اشعر اور کوز بن جابر فہریؓ شہید ہوئے۔ اسلامی فوج کے تین حصے مکہ میں داخل ہو چکے تھے ۔ خالدؓ کا دستہ ابھی نہیں پہنچا تھا۔ سب حیران تھے کہ اہل ِمکہ نے مزاحمت نہیں کی پھر خالدؓ کے نہ آنے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ ایک قاصد کو دوڑایا گیا ۔وہ خبر لایا کہ خالدؓ دو مسلمانوں کی لاشیں لے کرآ رہا ہے اور اس کے دستے نے قریش کے بارہ آدمی مار ڈالے ہیں ۔ رسولِ کریمﷺ نے سنا تو آپﷺ بہت برہم ہوئے۔ آپﷺ اچھی طرح جانتے تھے کہ خالدؓ جنگ و جدل کا دلدادہ ہے۔ اس نے بغیر اشتعال کے لڑائی مول لے لی ہو گی۔ خالد ؓ کے مکہ میں آنے کی اطلاع ملی تو رسول ﷲﷺ نے انہیں بلا کر پوچھا کہ اس حکم کے باوجود کہ لڑائی سے گریز کیا جائے انہوں نے قریش کے بارہ آدمیوں کو کیوں مار ڈالا؟ خالدؓ نے حضورﷺ کو بتایا کہ عکرمہ اور صفوان کے ساتھ قریش کے متعدد آدمی تھے جنہوں نے ان پر تیر برسائے۔ خالدؓ نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے عکرمہ اور صفوان کو ایک موقع دیا تھا لیکن انہوں نے تیروں کی ایک اور بوچھاڑ پھینک دی۔ رسولِ ﷲﷺ نے ابو سفیانؓ سے پوچھا کہ عکرمہ اورصفوان کہاں ہیں؟ ابو سفیانؓ نے بتایا کہ وہ مکہ کے دفاع میں لڑنے کیلئے چلے گئے تھے ۔رسولِ ﷲﷺ کو یقین ہو گیا کہ لڑائی خالدؓ نے شروع نہیں کی تھی۔ مکہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔

رسولِ اکرمﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو آپﷺ کے ہمراہ اسامہؓ بن زیدؓ ،بلالؓ اور عثمان بن طلحہؓ تھے۔رسولِ کریمﷺ کو مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ کو گئے سات سال گزر چکے تھے ۔آپﷺ نے مکہ کے درودیوار کو دیکھا ۔ وہاں کے لوگوں کو دیکھا، دروازوں اور چھتوں پر کھڑی عوام کو دیکھا ۔ بہت سے چہرے شناسا تھے۔ آپﷺ گزرتے چلے گئے اور کعبہ میں داخل ہو گئے ۔ سات مرتبہ بیت ﷲ کا طواف کیا اور ﷲ کا شکر ادا کیا۔اب مکہ میں کسی کو اتنی ہمت نہیں پڑتی تھی کہ آپﷺ کو جادوگر کہے یا آپﷺ پر پھبتی کسے۔

اہلِ قریش چہروں پر خوف و ہراس کے تاثرات لیے اپنے انجام کے منتظر کھڑے تھے۔ عربوں کے ہاں اپنی بے عزتی اور قتل کے انتقام کا رواج بڑا بھیانک تھا۔ رسول ﷲﷺ نے حکم دے دیا تھا کہ جو امن قائم رکھیں گے ان کے ساتھ پر امن سلوک کیا جائے گا۔ اس کے باوجود قریش ڈرے سہمے ہوئے تھے ۔’’اہلِ قریش!‘‘ حضورﷺ نے لوگوں کے سامنے رک کر پوچھا۔’’خود بتاؤ تمہارے ساتھ کیا سلوک ہو؟‘‘لوگوں کی آوازیں بلند ہوئیں۔ وہ خیر اور بخشش کے طلبگار تھے۔’’اپنے گھروں کو جاؤ ۔‘‘حضورﷺ نے کہا ۔’’ہم نے تمہیں بخش دیا۔‘‘رسول ﷲﷺ کی حیات ِ مقدسہ کی عظیم گھڑی تو وہ تھی جب آپﷺ نے کعبہ میں رکھے ہوئے بتوں کی طرف توجہ دی۔ بتوں کی تعداد تین سو ساٹھ تھی۔ ان میں ایک بت حضرت ابراہیمؑ کا بھی تھا ۔اس بت کے ہاتھوں میں تیر تھے۔ ان تیروں سے بت خانے کے پیشوا فال نکالا کرتے تھے۔ حضورﷺ کے ہاتھ میں ایک موٹی اور مضبوط لاٹھی تھی۔آپﷺ نے اس لاٹھی سے بت توڑنے شروع کر دیے۔ آپﷺ اپنے جد امجد حضرت ابراہیمؑ کی سنت کو زندہ کر رہے تھے ۔ آپﷺ بت توڑتے جاتے اور بلند آواز سے کہتے جاتے:’’ حق آیا…… باطل چلا گیا……بے شک باطل کو چلے جانا تھا

‘‘مؤرخ لکھتے ہیں کہ ایسے لگتا تھا جیسے یہ صدائیں حضورﷺ کی لاٹھی کی ہر ضرب سے کعبہ کی دیواروں سے اٹھ رہی ہوں ۔ کعبہ سے بتوں کے ٹکڑے اٹھا کر باہر پھینک دیے گئے اور کعبہ عالمِ اسلام کی عبادت گاہ بن گیا۔ اس کے بعد آپﷺ نے مکہ کے انتظامی امور کی طرف توجہ دی۔ قریش اور دیگر قبائل کے لوگ قبولِ اسلام کیلئے آتے رہے۔ بت صرف کعبہ میں ہی نہیں تھے۔ مکہ کے گردونوح کی بستیوں میں مندر تھے ۔ وہاں بھی بت رکھے تھے۔ سب سے اہم بت عزیٰ کا تھا جو چند میل دور نخلہ کے مندر میں رکھا گیا تھا۔ رسولِ اکرمﷺ نے عزیٰ کا بت توڑنے کا کام خالدؓ کے سپرد کیا ۔ خالدؓ نے اپنے ساتھ تیس سوار لیے اور اس مہم پر روانہ ہو گئے۔ دوسرے مندروں کے بت توڑنے کیلئے مختلف جیش روانہ کیے گئے۔عزیٰ کا بت اکیلا نہیں تھا۔ چونکہ یہ دیوی تھی اس لیے اس کے ساتھ چھوٹی دیویوں کے بت بھی تھے۔ خالدؓ وہاں پہنچے تومندر کا پروہت ان کے سامنے آگیا ۔اس نے التجا کی کہ ان کے بت نہ توڑے جائیں ۔’’مجھے عزیٰ کا بت دکھاؤ۔‘‘خالدؓ نے نیام سے تلوار نکال کر پروہت سے پوچھا۔

پروہت موت کے خوف سے مندر کے ایک بغلی دروازے میں داخل ہو گیا۔ خالدؓ اس کے پیچھے گئے۔ ایک کمرے سے گزر کر اگلے کمرے میں گئے تو وہاں ایک دیوی کا بڑا ہی خوبصورت بت چبوترے پر رکھاتھا۔ پروہت نے بت کی طرف اشارہ کیا اور بت کے آگے فرش پرلیٹ گیا۔ مندر کی داسیاں بھی آ گئیں ۔ خالدؓ نے تلوار سے اس حسین دیوی کا بت توڑ ڈالا اور اپنے سواروں سے کہا کہ بت کے ٹکڑے باہر بکھیر دیں۔ پروہت دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا اور داسیاں بَین کر رہی تھیں۔ خالدؓ نے دیویوں کے بت بھی توڑ ڈالے اور گرج کر پروہت سے کہا۔’’کیا اب بھی تم اسے دیوی مانتے ہو جو اپنے آپ کو ایک انسان سے نہیں بچا سکی۔‘‘پروہت دھاڑیں مارتا رہا ۔ خالدؓ فاتحانہ انداز سے اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اوراپنے سواروں کو واپسی کا حکم دیا ۔جب خالدؓ اپنے تیس سواروں کے ساتھ مندر سے دور چلے گئے تو پروہت نے جو دھاڑیں مار رہا تھا بڑی زور سے قہقہہ لگایا ۔ پجارنیں جو بَین کر رہی تھیں وہ بھی ہنسنے لگیں۔’’ عزیٰ کی توہین کوئی نہیں کر سکتا ۔‘‘پروہت نے کہا۔’’خالد جو خود عزیٰ کا پجاری ہوا کرتا تھا بہت خوش ہو کے گیا ہے کہ اس نے عزیٰ کا بت توڑ ڈالا ہے۔ عزیٰ زندہ ہے…… زندہ رہے گی۔‘‘’’  یا رسول ﷲﷺ!‘‘ خالدؓ نے حضور ﷺ کو اطلاع۔’’ دی میں عزیٰ کا بت توڑ آیا ہوں ۔‘‘’’کہاں تھا یہ بت؟‘‘حضورﷺ نے پوچھا۔ خالدؓ نے وہ مندر اور اس کا وہ کمرہ بتایا جہاں انہوں نے وہ بت دیکھا اور توڑا تھا۔’’تم نے عزیٰ کا بت نہیں توڑا خالد!‘‘ رسولِ کریمﷺ نے کہا۔’’واپس جاؤ اور اصلی بت توڑکر آؤ۔‘‘مؤرخ لکھتے ہیں کہ عزیٰ کے دو بت تھے ایک اصلی جس کی پوجا ہوتی تھی دوسرا نقلی تھا۔ یہ غالباً مسلمانوں کو دھوکا دینے کیلئے بنایا گیا تھا۔ خالدؓکا خون کھولنے لگا،انہوں نے اپنے سواروں کو ساتھ لیااور نخلہ کو روانہ ہو گئے۔مندر کے پروہت نے دور سے گھڑ سواروں کو آتے دیکھا تو اس نے مندر کے محافظوں کو بلایا۔’’وہ پھر آ رہے ہیں ۔‘‘پروہت نے کہا۔’’انہیں کسی نے بتادیا ہو گا کہ اصلی بت ابھی مندر میں موجود ہے۔ کیا تم عزیٰ کی عزت کی حفاظت کرو گے؟اگر کرو گے تو عزیٰ دیوی تمہیں مالا مال کر دے گی۔‘‘’’کچھ سوچ کر بات کر مقدس پیشوا!‘‘ ایک محافظ نے کہا۔’’کیا ہم دو تین آدمی اتنے زیادہ گھوڑ سواروں کامقابلہ کر سکتے ہیں ؟‘‘

’’اگر عزیٰ دیوی ہے تو یہ اپنے آپ کو ضرور بچا لے گی۔‘‘ ایک اور محافظ نے کہا۔ اس کے لہجے میں طنز تھی۔ کہنے لگا۔’’ دیوی دیوتا انسانوں کی حفاظت کیا کرتے ہیں، انسان دیوتاؤں کی حفاظت نہیں کیا کرتے۔‘‘
’’پھر عزیٰ اپنی حفاظت خود کرے گی۔‘‘ پروہت نے کہا۔ خالدؓ کے گھوڑے قریب آ گئے تھے ۔ محافظ مندر کی پجارنوں کو ساتھ لے کر بھاگ گئے ۔ پروہت کو یقین تھا کہ اس کی دیوی اپنے آپ کو مسلمانوں سے بچا لے گی۔ اس نے ایک تلوار لی اور اسے عزیٰ کے گلے میں لٹکا دیا۔ پروہت مندر کے پچھلے دروازے سے نکلا اور بھاگ گیا۔ خالدؓ مندر میں آن پہنچے اور تمام کمروں میں عزیٰ کا بت ڈھونڈنے لگے ۔ انہیں ایک بڑا ہی خوشنما کمرہ نظر آیا ۔اس کے دروازے میں کھڑے ہو کر دیکھا ،عزیٰ کا بت سامنے چبوترے پر رکھا تھا۔ اس کے گلے میں تلوار لٹک رہی تھی ۔یہ بت ویسا ہی تھا جیسا خالدؓ پہلے توڑ گئے تھے۔ا س بت کے قدموں میں لوبان جل رہا تھا۔ کمرے کی سجاوٹ اورخوشبو سے پتا چلتا تھا کہ یہ عبادت کا کمرہ ہے۔ خالدؓ نے دہلیز سے آگے قدم رکھا تو ایک سانولے رنگ کی ایک جوان عورت جو بالکل برہنہ تھی خالدؓ کے سامنے آگئی ۔ وہ رو رہی تھی اور فریادیں کر رہی تھی کہ بت کو نہ توڑا جائے ۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ یہ عورت خالدؓ کے ارادے کو متزلزل کرنے کیلئے برہنہ ہوکر آئی تھی اور اس کے رونے کا مقصد خالدؓ کے جذبات پر اثر ڈالنے کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا۔ خالدؓ آگے بڑھے تو اس عورت نے بازو پھیلا کر خالدؓ کا راستہ روک لیا۔ خالدؓ نے نیام سے تلوار نکالی اور اس عورت پر ایسا زور دار وار کیا کہ اس کا ننگا جسم دو حصوں میں کٹ گیا۔ خالدؓ غصے سے بپھرے ہوئے بت تک گئے اور اس کے کئی ٹکڑے کر دیئے۔ طاقت اور خوشحالی کی دیوی اپنے آپ کو ایک انسا ن سے نہ بچا سکی۔ خالدؓ مندر سے نکل کر گھوڑے پر سوار ہوئے اور ایڑ لگائی۔ ان کے سوار ان کے پیچھے جارہے تھے ۔مکہ پہنچ کر خالدؓ رسولِ اکرمﷺ کے حضورپہنچے۔’’یا رسول اﷲﷺ!‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’ میں عزیٰ کا بت توڑ آیا ہوں ۔‘‘’’ہاں خالد ! ‘‘رسول اﷲﷺ نے کہا۔’’اب تم نے عزیٰ کا اصلی بت توڑا ہے۔اب اس خطے میں بت پرستی نہیں ہوگی۔‘

قریش کا مشہور اور جوشیلا سالار عکرمہ مکہ کے راستے میں خالدؓ کے خلاف آخری معرکہ لڑ کر روپوش ہو گیا تھا۔ اس نےاور صفوان نے اپنے قبیلے کے سردارکی حکم عدولی کی تھی۔ اسے اپنا انجام بہت برا نظر آرہا تھا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ رسولِ کریمﷺ بھی اس کی یہ خطا نہیں بخشیں گے کہ اس نے اسلامی فوج کے ایک دستے پر حملہ کیا اور اس دستے کے دو آدمی شہید کر دیئے تھے۔ عکرمہ کی بیوی مکہ میں تھی۔ تاریخوں میں واضح اشارہ ملتا ہے کہ رسولِ کریمﷺ نے فتحِ مکہ کے بعد قریش کی چار عورتوں اور چھ آدمیوں کے قتل کا حکم دیا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو بہت زیادہ تکلیفیں پہنچائی تھیں اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں تیار کی تھیں۔انہیں مرتد کہا گیا تھا۔ان میں ہند اور عکرمہ کے نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ۔ابو سفیان کی بیوی ہند ہر اس انسان کے خون کی پیاسی ہو جاتی تھی جو اسلام قبول کرلیتا تھا۔عکرمہ کی بیوی مکہ میں تھی۔ فتح مکہ کے دو تین روز بعد ایک آدمی عکرمہ کے گھر آیا۔’’میں تمہارے لیے اجنبی ہوں بہن! ‘‘اس شخص نے عکرمہ کی بیوی سے کہا
۔’’عکرمہ میرا دوست ہے ۔میں قبیلہ بنو بکر کا آدمی ہوں ……تمہیں معلوم ہو گا کہ عکرمہ اور صفوان نے مسلمانوں کا رستہ روکنے کی کوشش کی تھی لیکن اس کے ساتھ بہت تھوڑے آدمی تھے۔ اس کا مقابلہ خالد سے تھا جو تجربہ کار جنگجو ہے اور اس کے ساتھ آدمی بھی زیادہ تھے۔‘‘ ’’میں جانتی ہوں ۔‘‘عکرمہ کی بیوی نے کہا۔’’ میں پہلے سن چکی ہوں میرے اجنبی بھائی ۔مجھے بتاؤ وہ کہاں ہے؟ وہ زندہ تو ہے ؟‘‘’’وہ مجھے بتا گیا تھا کہ یمن جا رہا ہے ۔‘‘اجنبی نے کہا۔’’وہ کہہ گیا ہے کہ تجھے وہاں بلا لے گا۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ کس کے پاس گیا ہے ۔ تجھے یہی بتانے آیا تھا۔ وہ واپس نہیں آئے گا۔‘‘’’اسے یہاں آنا بھی نہیں چاہیے۔‘‘عکرمہ کی بیوی نے کہا۔’’ وہ آ گیا تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔‘‘’’تم تیار رہنا ۔‘‘اجنبی نے کہا۔’’اس کا پیغام آئے گا تو میں تمہیں اس کے پاس پہنچا دوں گا۔ تم اس کے پاس پہنچ جاؤ گی تو وہ تمہیں اپنے ساتھ لے کر حبشہ کو چلا جائے گا۔‘‘اجنبی اسے اپنی بستی کا اور اپنانام بتا کر چلا گیا۔

دوروز بعد عکرمہ کی بیوی بنو بکر کی بستی میں گئی اور اس آدمی سے ملی جس نے اسے عکرمہ کا پیغام دیا تھا ۔’’کیا تو عکرمہ کے پاس جانے کو آئی ہے؟‘‘عکرمہ کے دوست نے پوچھا۔’’میں اسے واپس لانے کیلئے جا رہی ہوں۔‘‘ عکرمہ کی بیوی نے کہا۔’’کیا تو نہیں جانتی کہ وہ آیا تو اسے قتل کر دیا جائے گا؟‘‘’’اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔‘‘عکرمہ کی بیوی نے کہا۔’’میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور رسول ﷲﷺ نے میری فریاد پر میرے شوہر کو معاف کردیا ہے ۔‘‘’’کیا تو نے محمدﷺ کو ﷲ کا رسول مان لیا ہے؟‘‘’’مان لیا ہے۔‘‘’’محمدﷺ نے تمہارے ساتھ سودا کیا ہو گا۔‘‘عکرمہ کے دوست نے کہا ۔’’اس نے تمہارے آگے یہ شرط رکھی ہو گی کہ تم اور عکرمہ اسلام قبول کرلو تو ……‘‘’’نہیں!‘‘عکرمہ کی بیوی نے کہا۔’’محمدﷺ نے ،جو ﷲ کے بھیجے ہوئے رسولﷺ ہیں، میرے ساتھ ایسا کوئی سودا نہیں کیا اور محمدﷺ ان میں سے نہیں جو سودا کرکے اپنی بات منوایا کرتے ہیں۔ میں وہاں اپنے شوہر کی جان بخشی کی فریاد لے کر گئی تھی۔ یہ وہی محمدﷺ ہیں جنہیں میں بڑی اچھی طرح جانتی تھی لیکن اب میں نے آپﷺ کو دیکھا تو میں نے دل سے کہا کہ یہ وہ محمدﷺ نہیں جو کبھی ہم میں سے تھے۔ یہ محمدﷺ جن کے پاس میں اب فریاد لے کر گئی۔ آپﷺ کی آنکھوں میں مجھے کوئی ایسی چیز نظر آئی۔ مجھے ڈر تھا کہ محمدﷺ جو ﷲ کے رسول ہیں کہیں گے کہ یہ عکرمہ کی بیوی ہے، اسے یرغمال بنا کررکھو۔ تاکہ عکرمہ آجائے اور اسے قتل کر دیا جائے ۔ لیکن آپﷺ نے مجھے ایک مجبور عورت جان کر عزت سے بٹھایا ۔ میں نے فریاد کی کہ فتح آپ کی ہے،میرے بچوں کو یتیم نہ کریں ،میرے شوہر کی بد عہدی کی سزا مجھے اور میرے بچوں کو نہ دیں ۔آپﷺ نے کہا میں نے عکرمہ کو معاف کیا اور معلوم نہیں وہ کون سی طاقت تھی جس نے مجھ سے کہلوایا کہ میں نے تسلیم کیا کہ محمدﷺ ﷲ کے رسول ہیں ۔اب میں اس ﷲ کو مانتی ہوں جس نے محمدﷺ کو رسالت دی ہے۔‘‘’’اور تو مسلمان ہو گئی؟‘‘عکرمہ کے دوست نے کہا۔

’’ہاں!‘‘ عکرمہ کی بیوی نے کہا۔’’میں مسلمان ہو گئی، مجھے اس کے پاس لے چل میرے شوہر کے دوست۔ میں اسے واپس لاؤں گی۔‘‘’’میں دوستی کا حق ادا کروں گا!‘‘ عکرمہ کے دوست نے کہا۔’’چل میں تیرے ساتھ یمن چلتا ہوں ۔‘‘
کافی دنوں بعد عکرمہ اپنی بیوی کے ساتھ مکہ میں داخل ہوا۔ اپنے گھر جانے کے بجائے حضورﷺ کے پاس گیا اور اس نے اپنے کیے کی معافی مانگ کر اسلام قبول کر لیا۔ اسی روز صفوان بھی واپس آ گیا، وہ بھاگ کر جدہ چلا گیا تھا ۔ایک دوست اس کے پیچھے گیا اور اسے کہا کہ وہ سالاری رتبے کا جنگجو ہے اور اس کی قدر رسولِ کریمﷺ ہی جان سکتے ہیں۔ اسے یہ بھی کہا گیا کہ قبیلہ قریش ختم ہو چکا ہے۔ صفوان تلوار کا دھنی اور نام ور سالار تھا وہ اپنے دوست کے ساتھ مکہ آ گیا اور اس نے رسول ِ کریمﷺ کے حضور پیش ہو کر اسلام قبول کرلیا۔ ابو سفیانؓ کی بیوی ہند ایسی عورت تھی جس کے متعلق سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ اسلام قبول کرلے گی ۔رسولِ کریمﷺ نے اس کے قتل کا حکم دے رکھا تھا اور وہ روپوش تھی۔ ابو سفیانؓ اسلام قبول کر چکے تھے۔ ہند کو جب پتا چلا کہ عکرمہؓ اور صفوانؓ نے بھی اسلام قبول کر لیا ہے تو وہ سامنے آگئی ،یہ جانتے ہوئے کہ اسے قتل کر دیا جائے گا۔ وہ رسولِ اکرمﷺ کے حضور جا پہنچی۔ آپﷺ نے اسے معاف کر دیا اور وہ مسلمان ہو گئی۔ مکہ کے اردگرد‘ دور اور نزدیک کچھ قبائل تھے ۔ان میں بعض بت پرست تھے اور بعض توہمات کو عقیدہ بنائے ہوئے تھے ۔ رسولِ کریمﷺ نے ان کی طرف پیغام بھیجے کہ وہ ﷲ کا سچا دین قبول کرلیں ۔ پیغام لے جانے والے فوجی تھے لیکن آپﷺ نے حکم دیا تھا کہ کسی پر تشدد نہ کیا جائے اور جنگی کارروائی سے گریزکیا جائے۔ مکہ کے جنوب میں تہامہ کا علاقہ ہے جہاں جنگجو قبائل بکھرے ہوئے تھے۔ ان کے متعلق خدشہ تھا کہ لڑنے پر اتر آئیں گے ۔اس لیے اس علاقے میں فوج کا ایک دستہ بھیجا گیا اور اس کی کمان خالدؓ کو دی گئی۔ تمام کا تمام دستہ گھڑ سوار تھا۔ اس میں بنو سلیم کے آدمی بھی تھے مدینہ کے بھی۔خالدؓ کو مکہ سے تقریباً پچاس میل دور ململیم کے مقام تک جانا تھا۔ خالدؓ اپنے سوار دستے کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ ان کی منزل پچاس میل دور تھی ۔ بمشکل پندرہ میل دور گئے ہوں گے کہ ایک مشہور جنگجو قبیلے بنو جزیمہ کے آدمیوں نے خالدؓ کے دستے کا راستہ روک لیا۔ خالدؓ نے اپنے دستے کو لڑائی کی ترتیب میں کر لیا۔ بنو جزیمہ باقائدہ لڑائی کیلئے نکل آئے۔’’ہم لڑنے نہیں آئے‘‘ ۔خالدؓ نے اعلان کیا۔’’ہم دعوت دینے آئے ہیں کہ اسلام قبول کرلو۔‘‘’’ہم اسلام قبول کر چکے ہیں۔‘‘ بنو جزیمہ کی طرف سے جواب آیا۔’’ہم نمازیں پڑھتے ہیں ۔‘‘’’ہم دھوکا کھانے نہیں آئے‘‘ ۔خالدؓ نے بلند آواز سے کہا۔’’اگر تم مسلمان ہو چکے ہو تو تلواریں اوربرچھیاں پھینک دو۔‘‘

خبردار بنو جزیمہ!‘‘ بنو جزیمہ کی طرف سے کسی نے للکار کر کہا۔’’اسے میں جانتا ہوں‘ یہ مکہ کے الولید کابیٹا خالد ہے ۔اس پر اعتبار نہ کرنا۔ ہتھیار ڈال دو گے تو یہ ہم سب کو قتل کرا دے گا ۔ہتھیار نہ ڈالنا۔‘‘’’خدا کی قسم! مجھے رسول ﷲﷺ کا حکم نہ ملا ہوتا کہ جنگ نہ کرنا تومیں دیکھتا کہ تم ہتھیار ڈالتے ہو یا نہیں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ہم دوست بن کر آئے ہیں ۔ ہم تم پر ﷲ کا دین زبردستی ٹھونسنے نہیں آئے۔ ہمیں دوست سمجھو اور ہمارے ساتھ آجاؤ۔‘‘’’اہلِ قریش کی کیا خبر ہے ؟‘‘بنو جزیمہ کی طرف سے آواز آئی۔’’مکہ چل کر دیکھو ۔‘‘خالدؓ نے کہا ۔’’ابو سفیان، عکرمہ اور صفوان اسلام قبول کر چکے ہیں ۔‘‘بنو جزیمہ نے ہتھیار ڈال دیئے ۔ خالدؓ گھوڑے سے اتر کر آگے بڑھے اور بنو جزیمہ کے سردار سے گلے ملے ۔ پورے قبیلے نے اسلام قبول کر لیا۔ مسلمانوں کو مکہ ایک مرکز کی حیثیت سے مل گیا ۔ یہ سورج کی مانند تھا ۔ جس کی کرنیں دور دور تک پھیلنے لگیں لیکن اسلام کی دشمن قوتیں یکجا ہو رہی تھیں۔ طائف ایک مقام ہے جو مکہ معظمہ سے چند میل دور ہے۔ جنوری ۶۳۰ء)شوال ۸ ہجری(کی ایک رات وہاں جشن کا سماں تھا۔ فضاء شراب کی بو سے بوجھل اور رات مخمور تھی۔ رقص کے لیے طائف کے اردگرد کے علاقے کی چنی ہوئی ناچنے والیاں آئی ہوئی تھیں ۔ان کے رقص اور حسن نے مہمانوں کو مدہوش کر دیا تھا۔ مہمان مکہ کے شمال مشرقی علاقے کے مشہور جنگجو قبیلے ہوازن کے سرکردہ افراد تھے۔ ان کے میزبان طائف اور گردونواح میں پھیلے ہوئے قبیلہ ثقیف کے سردار تھے۔ جنہوں نے اپنے مہمانوں پر اپنی امارت اور فیاضی اور کشادہ ظرفی کا رعب جمانے کیلئے اتنی شاہانہ ضیافت اور اتنے شاندار جشن کا اہتمام کیا تھا۔ دو لڑکیاں رقص کے کمال دکھا رہی تھیں کہ میزبان قبیلے کا سردار ’’مالک بن عوف ‘‘اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے تالی بجائی۔ساز خاموش ہو گئے ۔ ناچنے والیں بت بن گئیں اور ان کی نظریں مالک بن عوف پر جم گئیں۔ مہمانوں پر سناٹا طاری ہو گیا۔ ایسے لگتا تھا جیسے رات کے گزرتے لمحوں کا قافلہ رک گیا ہو۔ ہر کوئی مالک بن عوف کی طرف دیکھ رہا تھا۔ مالک بن عوف کی عمر تیس سال تھی۔ رقص اور مے نوشی کی محفلوں میں وہ عیاش شہزادہ تھا۔ لیکن میدانِ جنگ میں وہ آگ کا بگولہ تھا۔ وہ صرف تیغ زنی ،تیر اندازی اور گھوڑ سواری میں ہی مہارت نہیں رکھتا تھا بلکہ وہ فنِ حرب و ضرب کا بھی ماہرتھا۔ انہی اوصاف کی بدولت وہ قبیلے کا سالار تھا۔ جنگ کے معاملے میں وہ انتہا پسند تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے ٹھنڈے دل سے سوچنا اسے آتا ہی نہیں۔ اس کی جنگی چالیں اس کے دشمن کیلئے بڑی خطرناک ہوتی تھیں۔ قبیلۂ قریش میں جو حیثیت کبھی خالدؓ بن ولید کو حاصل تھی ویسا ہی دبدبہ مالک بن عوف کا اپنے قبیلے پر تھا۔

’’ہم نے بہت کھا لیا ہے۔‘‘مالک بن عوف نے رقص رکوا کر میزبانوں اور مہمانوں سے خطاب کیا۔’’ہم شراب کے مٹکے خالی کر چکے ہیں ۔ ہم تھرکتی ہوئی جوانیوں سے لطف اندوز ہو چکے ہیں ۔ کیا ہمارے مہمانوں نے یہ نہیں سوچا کہ اس ضیافت اور جشن کی تقریب کیا ہے؟……میں نے تمہیں کوئی خوشی منانے کیلئے اکھٹا نہیں کیا۔ اے اہلِ ہوازن! میں نے تمہاری غیرت کو جگانے کیلئے تمہیں اپنے ہاں بلایا ہے۔‘‘’’ہوازن کی غیرت سوئی کب تھی مالک بن عوف؟‘‘قبیلہ ہوازن کے ایک سردار نے کہا۔’’بتا ہماری غیرت کو کس نے للکارا ہے؟‘‘’’مسلمانوں نے !‘‘ مالک بن عوف نے کہا۔’’محمدﷺ نے……کیا تم محمدﷺ کو نہیں جانتے؟ کیا تم بھول گئے ہو اس محمدﷺ کو جو اپنے چند ایک ساتھیوں کے ساتھ مکہ سے بھاگ کر یثرب )مدینہ چلا گیا تھا؟‘‘’’جانتے ہیں!‘‘دو تین آوازیں اٹھیں۔’’اچھی طرح جانتے ہیں ۔وہ اپنے آپ کو خدا کا نبی کہتا ہے۔‘‘’’ہم اسے نبی نہیں مانتے۔‘‘ایک اور آواز اٹھی۔’’کوئی نبی ہوتا تو ہم میں سے ہوتا۔ جو اہلِ ثقیف ہیں۔ہوازن کے قبیلے سے ہوتا۔‘‘’’وہ نبی ہے یا نہیں۔‘‘مالک بن عوف نے کہا۔’’میں تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جس مکہ سے محمد ﷺ بھاگا تھا۔ اس مکہ کا اب وہ حاکم ہے۔ مکہ میں اس کا حکم چلتا ہے اور اس کی جنگی طاقت بڑھتی جا رہی ہے۔ قبیلۂ قریش اس کے آگے ہتھیار ڈال چکا ہے اور     اس کے مذہب کو قبول کرتا چلا جا رہا ہے۔ ابو سفیان ،عکرمہ اور صفوان جیسے جابر جنگجو محمدﷺ کا مذہب قبول کر چکے ہیں۔ خالدؓ بن ولید نے پہلے ہی یہ نیا مذہب قبول کرلیا تھا……مسلمانوں نے مکہ میں تمام بت توڑ ڈالے ہیں۔‘‘’’اہلِ قریش کو اپنی غیرت اور اپنے مذہب کا پاس ہوتا تو وہ اپنی تلواریں اپنے پیٹوں میں گھونپ لیتے۔‘‘کسی اور نے کہا۔’’اب ستاروں سے دھرا یہ آسمان دیکھے گا کہ ہوازن اور ثقیف کو اپنی غیرت کا کتنا پاس ہے۔‘‘مالک بن عوف نے کہا۔’’کیا تو یہ چاہتا ہے کہ ہم میں سے کوئی محمد ﷺ کو قتل کر دے؟‘‘قبیلہ ہوازن کے ایک سردار نے کہا ۔’’اگرتو یہی کہنا چاہتا ہے تو یہ کام میرے سپرد کر۔‘‘’’اب محمدﷺ کو قتل کر دینے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔‘‘مالک بن عوف نے کہا۔’’اسے قتل کر دو گے تو اس کے پیروکار اسے اپنے دلوں میں زندہ رکھیں گے۔ ان کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ اب وہ ایک آدمی کے قتل سے وہ اس راستے سے نہیں ہٹیں گے  جس پر انہیں ڈال دیا گیا ہے۔‘‘

’کہتے ہیں محمدﷺ کے ہاتھ میں کوئی جادو آگیا ہے۔‘‘ہوازن کے ایک سردار نے کہا۔’’ وہ جس پر نگاہ ڈالتا ہے وہ اس کا مطیع ہو جاتا ہے۔‘‘’’جہاں تلوار چلتی ہے وہاں کوئی جادو نہیں چل سکتا۔‘‘ہوازن قبیلے کے ایک اور سردار نے اپنی تلوار کے دستے پر ہاتھ رکھ کے کہا۔’’مالک…… آگے بول ……تو کیا کہتا ہے ؟ہم تیرے ساتھ ہیں۔‘‘ ’’میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ہم نے محمد ﷺکے اسلام کو نہ روکا تو یہ سیلاب کی طرح بڑھتا ہوا ہم سب کو بہالے جائے گا۔‘‘مالک بن عوف نے کہا۔’’نہ ہوازن رہیں گے نہ ثقیف کا وجود ہو گا۔قبیلہ قریش کو محکوم بنانے والوں کو ہم مکہ کے اندر ہی ختم کریں گے۔ کیا تم محکوم بن جانے کا مطلب سمجھتے ہو ؟ ‘‘مالک بن عوف نے سب کی طرف دیکھا اور بولا۔’’اگر نہیں سمجھتے تو میں تمہیں بتاتا ہوں ۔‘‘اس نے اپنے پیچھے دیکھا۔ مالک بن عوف کے پیچھے مہمانوں میں ایک معمر سفید ریش بیٹھا تھا۔ اس کارنگ دوسروں کی نسبت صاف اور سفیدی مائل تھا۔ وہ ضعیف اتنا تھا کہ اس کا سر ہلتا تھا اورکمر میں ہلکا سا خم تھا۔ اس کے ہاتھ میں اپنے قد جتنا لمبا عصا تھا۔کندھوں سے ٹخنوں تک چغہ بتاتا تھا کہ وہ کوئی عالم یا مذہبی پیشوا ہے۔ مالک بن عوف کے اشارے پر وہ اٹھا اور مالک کے پاس آ گیا۔’’تم پر اس کی رحمت ہو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔‘‘بوڑھے نے کہا۔’’اور وہ دیوتا تمہارے بچوں کے محافظ ہوں جن کی تم پوجا کرتے ہو۔ تم محکومی اور غلامی کا مطلب نہیں سمجھتے تو مجھ سے پوچھو۔ میری چار جوان بچیاں مسلمانوں کی لونڈیاں ہیں اور میرے دو جوان بیٹے مسلمانوں کے غلام ہیں۔ وہ تیغ زن اور شہ سوا رتھے۔ لیکن اب انہیں تلوار ہاتھ میں لینے کی اور گھوڑے پر سوار ہونے کی اجازت نہیں،ہمیں گھروں سے نکال دیا گیا ہے……کیا تمہیں یاد نہیں کہ قریش نے مدینہ کا محاصرہ کیا تھا تو مسلمانوں نے اردگرد خندق کھود لی تھی۔ قریش اس خندق کو پھلانگ نہیں سکے تھے ،پھر اس قدر تندوتیز طوفان آیا کہ قریش جو پہلے ہی بددل ہو چکے تھے۔ بکھر گئے اور مکہ کو واپس چلے گئے تھے۔جب مسلمانوں کے سر سے خطرہ ٹل گیا تو انہوں نے ان یہودیوں پر ہلہ بول دیا جو ان کے ساتھ مدینہ میں امن سے رہتے تھے ۔ ان یہودیوں کو انہوں نے قتل کر دیا اور ان کی عورتوں کو اور ان کے بچوں کو آپس میں بانٹ کر انہیں لونڈیاں اور غلام بنالیا۔‘‘’’اے بزرگ!‘‘قبیلہ ثقیف کے ایک سرکردہ آدمی نے بلند آواز سے کہا۔’’اگر تو یہودی ہے تو کیا ہم نے غلط سنا تھا کہ تیرے قبیلے نے مسلمانوں کو دھوکا دیا تھا؟‘‘

’’تم نے جو سنا درست سنا تھا۔‘‘بوڑھے نے کہا۔’’ہمارا دھوکا کامیاب نہیں ہوا تھا۔ ہم مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجر اتارنا چاہتے تھے لیکن قریش پیٹھ دِکھا گئے۔ مسلمانوں کو دھوکا دے کر کمزور کرنا ہمارا فرض تھا لیکن مسلمانوں کی تلواروں نے ہمیں کمزور کر دیا۔‘‘’’تو جو بنی اسرائیل سے ہے…… کیا ہمیں اُکسانے آیا ہے کہ ہم مسلمانوں سے تیرے قبیلے کے خون کا انتقام لیں؟ ‘‘ثقیف کے قبیلے ایک سردار نے کہا۔ ایک اور ضعیف العمر شخص اُٹھ کھڑا ہوا ۔اس کا نام’’ درید بن الصّمہ‘‘ تھا۔ اس کا نام تاریخ میں تو ملتا ہے لیکن یہ پتا نہیں ملتا کہ وہ قبیلہ ہوازن سے تھا یا قبیلہ ثقیف سے۔’’خاموش رہو۔‘‘درید بن الصّمہ نے گرج کر کہا ۔’’ہم بنی اسرائیل کے خون کا انتقام نہیں لیں گے۔ کیا تم ابھی تک شک میں ہو؟ کیا تم ابھی تک نہیں سمجھے کہ ہم نے مسلمانوں پر حملہ کرکے ان کا خون اپنی تلواروں کو نہ پلایا اور ان کے زخمیوں کو گھوڑوں تلے نہ روندا ،تو وہ ہمیں بھی قتل کرکے تمہاری بیٹیوں کو،تمہاری بہنوں کو اور تمہاری بیویوں کو اپنی لونڈیاں اور ہمارے بچوں کواپنا غلام بنالیں گے؟‘‘’’اس سے پہلے کے ان کے گھوڑے طائف کی گلیوں میں ہنہنائیں ،کیا یہ اچھا نہیں ہو گا کہ ہمارے گھوڑے ان کی لاشوں کو مکہ کی گلیوں میں کچلتے پھریں۔‘‘مالک بن عوف نے جوش سے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔’’بنی اسرائیل کا یہ بزرگ ہماری پناہ میں آیاہے۔ اس نے اپنے قبیلے کا جوانجام بتایا ہے میں تمہیں اس کا انجام سے بچانا چاہتا ہوں ……اٹھو اور لات کے نام پر حلف اٹھاؤ کہ ہم محمد ﷺ اور اسکے تمام پیروکاروں کو جنہوں نے مکہ کے تمام بت توڑ ڈالے ہیں ،ختم کرکے اپنی عورتوں کو اپنے منہ دکھائیں گے۔‘‘اس زمانے میں جب اسلام کی کرنیں مکہ سے پھیل رہی تھیں،عرب میں بت پرستی عام تھی۔ وہ خدا کو بھی مانتے تھے لیکن خدا تک رسائی حاصل کرنے کیلئے وہ بتوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے تھے۔ان کاعقیدہ تھا کہ بتوں کو راضی کیے بغیر خدا کو راضی نہیں کیا جا سکتا۔ بتوں کی خوشنودی کیلئے وہ کچھ رسمیں ادا کرتے تھے۔ طائف کے علاقے میں جس بت کوپوجا جاتا تھا ،اس کا نام لات تھا جو انسانی یا حیوانی شکل کا نہیں تھا۔ وہ بہت بڑا پتھر تھا جسے چٹان کہا جا سکتا ہے۔ یہ چٹا ن باقاعدہ مربع شکل کی تھی۔ بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ مربع شکل کا قدری طور پر بنا ہوا چبوترا تھا ،جس پر شاید کسی زمانے میں کوئی بت رکھا گیا ہو لیکن طلوعِ اسلام کے دور میں یہ صرف چبوترہ تھا اور اردگرد کے قبائل اسی کو پوجتے تھے۔



جاری ہے۔۔۔۔۔

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں