شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 28






⚔ شمشیرِ بے نیام ⚔

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

( قسط نمبر-28)



شاید حضورﷺ اسے اچھی طرح پہچان نہ سکے۔’’کیا تم وہ وحشی ہو ؟‘‘رسولِ کریمﷺ نے اس سے پوچھا۔’’وہی وحشی ہوں۔‘‘ وحشی نے جواب دیا ۔’’اور اب آپﷺ کو ﷲ کا رسول مانتا ہوں۔‘‘۔رسولِ کریمﷺ نے اس کی جان بخشی کردی۔ وحشیؓ بن حرب رسولِ کریمﷺ کا گرویدہ ہو چکا تھا۔ اُس کے سر پر حمزہؓ کا قتل تھا جس کا وحشی کو بہت دکھ تھا۔ وہ مکہ سے چلا گیا اور اس نے دو سال طائف کے علاقے میں کبھی یہاں کبھی وہاں گزارے۔ اس پر خاموشی طاری رہتی اور وہ سوچوں میں گم رہتا تھا۔ اس نے اسلام کو دل سے قبول کر لیا تھا وہ سچا مسلمان رہا۔ دو سال بعد اپنے بے چین ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے وہ اسلامی لشکر میں شامل ہو گیا اور اس نے خالدؓ کے دستوں میں رہنا پسند کیا۔ یمامہ کی جنگ میں اسے پتا چل گیا تھا کہ خالدؓ مسیلمہ کو ہلاک کرنے کی کوشش میں ہیں ۔ یہ فرض اس نے اپنے ذمہ لیا اور فرض پوراکر دیا۔ اس کے بعد وحشی خالدؓ کے دستوں میں رہا اور کئی لڑائیوں میں اس نے بہادری کے جوہر دکھائے ۔ شام کی فتح کے بعد وہ اسلامی لشکر سے الگ ہوکر حمص میں گوشہ نشین ہو گیا۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے حمزہ ؓ کا قتل بہت بڑا گناہ بن کر اس کے ضمیر پر سوار ہو گیا ہو۔ اس نے شراب نوشی شروع کر دی جو عیاشی نہیں تھی بلکہ وہ اپنے آپ کو فراموش کرکے الگ پڑا رہتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں اسے شراب نوشی کے جر م میں اسّی کوڑوں کی سزا دی تھی جس کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا،وہ شراب پیتا رہا۔ زندگی کے آخری دنوں میں اسے ایسی شہرت ملی کہ لوگ اسے عقیدت سے ملتے تھے مگر وہ ہوش میں کم ہی ہوتا ۔جب کبھی ہوش میں ہوتا تو لوگوں کو حمزہؓ اور مسیلمہ کے قتل کے واقعات سناتا۔لوگ اس سے یہی واقعات سننے کیلئے جاتے تھے۔اس نے کئی بار اپنی برچھی ہاتھ میں لے کر کہا۔’’ میں جب مسلمان نہیں تھا تو اس برچھی سے میں نے ایک بہت ہی اچھے آدمی کو قتل کیا تھا اور میں مسلمان ہوا تو اس برچھی سے ایک بہت ہی برے آدمی کو قتل کیا۔‘‘(قربان جائیے ﷲ کی حکمت پہ۔۔۔رسولِ کریم ﷺ کی رحمت پہ۔۔۔اور وحشیؓ کے عشق و ایمان کی عظمت پہ۔۔۔) اُم عمارہ ؓایک عظیم خاتون تھیں ۔جنگِ احد میں ان مسلمان عورتوں کے ساتھ تھیں جو زخمیوں کی مرہم پٹی اور دیکھ بھال کیلئے اپنے لشکر کے ساتھ گئی تھیں۔اس لڑائی میں ایسی صورت پیدا ہو گئی کہ میدان پر قریش چھا گئے انہوں نے رسول ِکریمﷺ پر ہلّے بولنے شروع کر دیئے ۔صحابہ کرامؓ نے رسول ﷲﷺ کے گرد گھیرا ڈال رکھا تھا۔ مگر دشمن کے ہلّے اتنے شدید تھے کہ آپﷺ کے محافظوں کا گھیرا ٹوٹ گیا۔ قریش کا ایک آدمی ابنِ قمہ رسول کریمﷺ تک پہنچ گیا۔ رسولِ کریمﷺ کے دائیں مصعب ؓبن عمیر تھے اور اس وقت اُم عمارہؓ بھی قریب ہی تھیں ۔ انہوں نے جب رسول ِ کریم ﷺ کو خطرے میں دیکھا تو زخمیوں کو پانی پلانے اور انہیں اٹھانے کا کام چھوڑ کر رسولِ اکرمﷺ کی طرف دوڑیں،انہوں نے ایک لاش یا شدید زخمی کی تلوار لے لی۔ ابنِ قمہ حضورﷺ پر حملہ کرنے کے بجائے آپﷺ کے محافظ مصعبؓ کی طرف گیا۔ مصعبؓ نے اس کے ساتھ مقابلہ کیا ۔اُم عمارہؓ نے ابنِ قمہ پر تلوارکا وار کیا جو اس کے کندھے پر پڑا مگر ابنِ قمہ نے ذرہ بکتر پہن رکھی تھی۔ اس لئے تلوار اس کا کچھ نہ بگاڑ سکی ۔ابن قمہ نے گھوم کر اُم عمارہ ؓپر جوابی وار کیا جو اس خاتون کے کندھے پر پڑا اور اتنا گہرا زخم آیا کہ وہ گر پڑیں ۔ابنِ قمہ نے دوسرا وار نہ کیا کیونکہ وہ رسول ِ اکرمﷺ پرحملہ کرنا چاہتا تھا۔ اب جنگِ یمامہ میں ام عمارہؓ اپنے بیٹے کے ساتھ آئی تھیں، یہاں ان کی دلیری کا یہ عالم کہ مسیلمہ کو قتل کرنے کا خطرہ مول لے لیا مگر ان کا ایک ہاتھ کٹ گیا۔ وہ دسمبر ۶۳۲ء کے آخری دنوں میں سے ایک دن تھا۔ حدیقۃ الرحمٰن سر سبز اور ہرا بھرا باغ ہوا کرتا تھا۔ جو لوگوں کو پھل دیا کرتا تھا ۔ وہاں تھکے ماندے مسافر آ کر سستایا کرتے تھے ۔ وہاں پھولوں کی مہک تھی مگر اب وہ حدیقۃ الموت بن چکا تھا۔ اس کا حسن خون میں ڈوب گیا تھا۔ اس کی رعنائیاں لاشوں تلے دب گئی تھیں۔ جہاں پرندے چہچہاتے تھے وہاں زخمیوں کی چیخ و پکار تھی ۔ زخمی گھوڑے بے لگام بھاگ دوڑ رہے تھے ۔ ان کے ٹاپ یوں سنائی دے رہے تھے جیسے موت بے ہنگم قہقہے لگا رہی ہو۔ جب شور اٹھا کہ مسیلمہ مارا گیا ہے تو مرتدین نکل بھاگنے کا راستہ دیکھنے لگے وہ تو پہلے ہی بھاگے ہوئے اس باغ میں آئے تھے ۔ ان پر پہلے ہی مسلمان دہشت بن کر طاری ہو چکے تھے۔ باغ میں وہ ہزاروں کی تعداد میں مارے گئے تھے۔ وہ ایسی جنگ لڑ رہے تھے جو وہ پہلے ہی ہار چکے تھے۔ اب ان کے کانوں میں یہ صدائیں پڑیں کہ ان کا نبی مارا گیا ہے تو ان کی رہی سہی سکت بھی ختم ہو گئی۔ ان میں جو ابھی تک لڑ رہے تھے ان کی باغ سے نکل بھاگنے کی کوشش تھی ۔شکست ان کے ذہنوں پر مسلط ہو چکی تھی۔وہاں سے کچھ دور مسلمانوں کی لٹی ہوئی تباہ حال خیمہ گاہ میں صرف ایک خیمہ صحیح سلامت کھڑا تھا، یہ خالدؓ کا خیمہ تھا ۔بنو حنیفہ باقی تمام خیمے پھاڑ کر پرزے پرزے کر گئے تھے۔ وہ خالدؓ کے خیمے میں بھی گئے تھے لیکن وہاں ان کا اپنا سردار مجاعہ بن مرارہ زنجیروں میں جکڑا بیٹھا تھا۔ وہ لیلیٰ کو قتل کرنا یا اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے لیکن مجاعہ نے انہیں یہ کہہ کر روک دیا تھا کہ پہلے مردوں کی طرف جاؤ ابھی عورتوں کو پکڑنے کا وقت نہیں۔ وہ سب اپنے سردار کے حکم سے چلے گئے تھے۔ اس طرح خالدؓ کا خیمہ محفوظ رہا تھا ۔ خالدؓ کی بیوی لیلیٰ خیمے کے باہر ایک اونٹ پر بیٹھی تھی۔ اسے کہیں جانا نہیں تھا۔ وہ اونچی ہوکر میدانِ جنگ کو دیکھ رہی تھی ۔ میدان خالی ہو چکا تھا ۔اسے باغ کی دیوار اور درختوں کے بالائی حصے نظر آ رہے تھے لیکن یہ نظر نہیں آ رہا تھا کہ اندر کیا ہو رہا ہے ۔وہ اونٹ سے کود آئی اورخیمہ میں چلی گئی۔’’ابنِ مرارہ!‘‘لیلیٰ نے مجاعہ سے کہا۔’’تمہارا نبی میدان خالی کر گیا ہے۔خدا کی قسم !بنو حنیفہ بھاگ گئے ہیں ۔‘‘ ’’میں نے کبھی نہیں سنا کہ تیرہ ہزار نے چالیس ہزار کو شکست دی ہے۔‘‘ مجاعہ نے کہا ۔’’میدان چھوڑ جانا مسیلمہ کی چال ہو سکتی ہے پسپائی نہیں۔‘‘ ’’سب باغ کے اندر ہیں۔‘‘ لیلیٰ نے کہا۔ ’’اگر سب باغ میں ہیں تو وہاں سے زندہ صرف بنو حنیفہ نکلیں گے ۔‘‘مجاعہ بن مرارہ نے کہا۔’’اگر مسلمان باغ میں میرے قبیلے کے پیچھے چلے گئے ہیں تو سمجھ لو کہ انہیں موت باغ میں لے گئی ہے۔ بنو حنیفہ ناقابلِ تسخیر ہیں ۔‘‘ ’’آج فیصلہ ہو جائے گا ۔‘‘ لیلیٰ نے کہا۔’’ٹھہرو…… مجھے گھوڑے کے ٹاپ سنائی دے رہے ہیں ،میرے خاوند کا قاصد ہو گا۔‘‘وہ خیمے سے نکل کے کھڑی ہو گئی اور بولی۔’’ وہ فتح کی خبرلایا ہو گا۔ وہ آ رہاہے ۔‘‘گھوڑا جو سر پٹ دوڑا آرہا تھا لیلیٰ کے قریب آ رکا اور سوار گھوڑے سے کود آیا۔ وہ خالدؓ تھے، لیلیٰ انہیں اکیلا دیکھ کر گھبرائی ۔سالار کے اکیلے آنے کا مطلب یہی ہو سکتا تھا کہ اس کی سپاہ تتر بتر ہو گئی ہے ۔ ’’میدانِ جنگ کی کیا خبر ہے ؟‘‘ لیلیٰ نے پوچھا۔ ’’آپ اکیلے کیوں آئے ہیں؟‘‘ ’’ ﷲ کی قسم! میں نے بنو حنیفہ کو کاٹ دیا ہے۔‘‘خالدؓ نے جوشیلی آواز میں کہا۔’’مسیلمہ کذاب مارا گیا ہے اور وہ قیدی کہاں ہے؟‘‘لیلیٰ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا اور سکون کی آہ بھر کر بولی ۔’’مجاعہ کہتا ہے کہ بنو حنیفہ ناقابلِ تسخیر ہیں ۔‘‘’’میں پوچھتا ہوں وہ کہاں ہے؟‘‘خالدؓ نے ہانپتی ہوئی آواز میں پوچھا۔’’کیا وہ اسے چھڑا کر لے گئے ہیں ؟‘‘’’میں یہیں ہوں ولید کے بیٹے! ‘‘خیمے کے اندر سے مجاعہ کی آواز آئی۔’’میں تیری اس بات کو سچ نہیں مانوں گا کہ مسیلمہ مارا گیا ہے۔‘‘’’میرے ساتھ چل مجاعہ۔‘‘خالدؓ نے خیمے کے اندر جاکر کہا۔’’ہو سکتا ہے تیری بات سچ ہو۔میں مسیلمہ کو نہیں پہچانتا۔ تیرا قبیلہ یہ شور مچاتا بھاگ گیا ہے کہ مسیلمہ مارا گیا ہے ۔ میرے ساتھ آ اور لاشوں میں اس کی لاش دیکھ کر بتا کہ یہ ہے اس کی لاش ۔‘‘ ’’پھر کیا ہو گا؟‘‘مجاعہ نے پوچھا۔’’مجھے آزاد کر دو گے؟‘‘’ﷲ کی قسم!‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’میں اس قبیلے کے ایک سردار کو آزاد نہیں کروں گا جو میرے دین کا دشمن ہے۔ رسالت میں شرکت کا دعویٰ کرنے والے اور اس دعویٰ کو ماننے والوں کو میں کیسے بخش دوں؟ﷲکے سوا تجھے کوئی نہیں بخش سکتا ۔‘‘ ’’ او ولید کے بیٹے!‘‘مجاعہ بن مرارہ نے کہا۔’’میں نے اسے کب نبی مانا تھا؟ وہ چرب زبانی اور شعبدہ بازیوں سے نبی بن گیا تھا اور تو نے دیکھ لیا ہے کہ کتنا بڑا لشکر اس کا مرید ہو گیا تھا۔ اگر میں اسے نبی نہ مانتا تو وہ میرے سارے خاندان کو زندہ جلا دیتا اور یہ وجہ بھی تھی کہ میں اپنے قبیلے سے اپنے آپ کو کاٹ نہیں سکتا تھا۔ اگر تو میرے قتل کا حکم دے گا تو یہ ایک بے گناہ کا قتل ہو گا۔‘‘ ’’اِس نے مجھے اپنے اُن لوگوں سے بچایا ہے جو ہماری خیمہ گاہ کو لوٹنے اور تباہ بربادکرنے آئے تھے ۔‘‘لیلیٰ نے خالدؓ سے کہا۔’’اِس نے اُنہیں کہا تھا کہ عورتوں کے پیچھے مت پڑو۔ پہلے آدمیوں کے پیچھے جاؤ۔وہ چلے گئے۔ اس نے انہیں یہ بھی نہ کہا کہ وہ اس کی بیڑیاں کھول دیں۔‘‘’’تو نے اس عورت پر رحم کیوں کیا ہے مجاعہ؟‘‘ خالدؓ نے پوچھا۔ ’’کیونکہ ا س نے مجھے قید میں بھی وہی عزت دی ہے جومجھے اپنے قبیلے میں ملا کرتی ہے۔‘‘مجاعہ نے کہا۔’’میں نے اسے اس سلوک کا صلہ دیا ہے جو اس نے میرے ساتھ کیا۔ کیا میں ایسا نہیں کر سکتا تھا کہ اپنے آدمیوں سے کہتا کہ میری بیڑیاں کاٹ دیں پھر میں تیری اتنی حسین بیوی کو اپنی لونڈی بنالیتا۔‘‘’’بے شک! تو عزت کے لائق ہے مجاعہ۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’میں تیری بیڑیاں اپنے ہاتھوں سے کاٹتا ہوں ۔پھر میرے ساتھ چلنا اور بتانا کہ مسیلمہ کی لاش کون سی ہے۔‘‘مجاعہ بن مرارہ خالدؓ کے ساتھ خیمہ سے نکلا تو اس کے پاؤں میں بیڑیاں نہیں تھیں ۔باہر خالدؓ کے دو محافظ کھڑے تھے ۔خالدؓ اکیلے ادھر آئے تھے۔ ان کے محافظ دستے کو پتا چلا کہ سپہ سالار کسی اور طرف نکل گئے ہیں تو دو محافظ ان کی تلاش میں ادھر ادھر گھوم پھر کر ان کی خیمہ تک جا پہنچے ۔ وہ انہیں تنہا نہیں چھوڑ سکتے تھے ۔مجاعہ نے اپنی آنکھوں سے میدانِ جنگ کی حالت دیکھی ۔اسے اپنے قبیلے کی لاشوں کی سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔’’مجھے یقین نہیں آرہا۔‘‘مجاعہ نے کہا۔’’دیکھ کر بھی یقین نہیں آ رہا۔ کیا اتنے تھوڑے مسلمان اتنے بڑے لشکرکو شکست دے سکتے ہیں۔‘‘’’یہ فتح انسانوں نے نہیں پائی۔‘‘ خالدؓ نے کہا ۔’’یہ سچے عقیدے اور ﷲ کے سچے رسولﷺ کی فتح ہے۔ بنو حنیفہ باطل عقیدے کیلئے میدان میں اترے تھے ،ہماری تلواروں نے اس عقیدے کو کاٹ دیا ہے اور اتنا بڑا لشکر میدان چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔‘‘وہ لاشوں اور تڑپتے زخمیوں میں سے گزرتے باغ تک چلے گئے۔ اندر گئے تووہاں لاشوں پر لاشیں پڑی تھیں ۔ مسلمان لاشوں کے ہتھیار اکھٹے کر رہے تھے ۔بنو حنیفہ میں سے جوزندہ تھے ،وہ ادھر ادھر بھاگ گئے تھے۔ خالدؓ نے وحشی بن حرب کو بلایا اور اس سے پوچھا۔’’کہ اس شخص کی لاش کہاں ہے جسے اس نے مسیلمہ سمجھ کر ہلاک کیا ہے؟‘‘وحشی خالدؓ کو وہاں لے گیا جہاں مسیلمہ کی لاش پڑی تھی۔ اس نے لاش کی طرف اشارہ کیا۔’’نہیں!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’یہ ٹھنگنا اور بدصورت آدمی مسیلمہ نہیں ہو سکتا۔ اس کے چہرے پر کراہیت ہے۔‘‘’’یہی ہے۔‘‘مجاعہ نے کہا۔’’یہ مسیلمہ کی لاش ہے۔‘‘’’یہ اس شخص کی لاش ہے جس نے ہزاروں لوگوں کو گمراہ کیا تھا ۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’یہ شخص اک فتنہ تھا ۔‘‘’’ابن ِولید!‘‘مجاعہ نے خالدؓ سے کہا۔’’فتح پر خوش نہ ہو۔تیرے لیے اصل مقابلہ تو ابھی باقی ہے۔‘‘’’کس کے ساتھ؟‘‘

’’بنو حنیفہ کے ساتھ۔‘‘مجاعہ نے جواب دیا۔’’یہ تو وہ لشکر تھا جو میدان میں آکر لڑا تھا۔ یہ تو چھوٹا سا ایک حصہ تھا ،اس سے بھی بڑا لشکر یمامہ میں قلعے کے اندر تیار کھڑاہے۔ اپنی جانی نقصان کو دیکھ اور سوچ کہ تیری یہ سپاہ جو بہت کم ہو گئی ہے اتنے بڑے تازہ دم لشکر کا مقابلہ کرسکے گی؟ تیرے سپاہی تھک کر چور ہو چکے ہیں ۔‘‘خالدؓ نے لاشوں سے اٹے ہوئے باغ میں نگاہ دوڑائی۔ ان کا لشکر واقعی لڑنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ جانی نقصان برداشت کے قابل نہیں تھا۔ زخمیوں کی تعدا دبھی زیادہ تھی۔ باقی لشکر کی جسمانی کیفیت یہ ہو چکی تھی کہ ﷲ کے سپاہی اتنے تھک گئے تھے کہ جہاں جگہ دیکھتے وہاں لیٹ جاتے اور سو جاتے تھے ۔ وہ اپنے سے تین گنا زیادہ لشکر سے لڑے تھے ۔ انہیں آرام کی ضرورت تھی۔’’اگر تو میری ایک تجویز مان لے تو میں قلعے میں جاکر صلح کی بات کرتا ہوں۔‘‘مجاعہ نے کہا۔’’میرا قبیلہ میری بات مان لے گا۔‘‘خالدؓ بڑے قابل سپہ سالار تھے۔ جنگی قیادت میں اپنی مثال آپ تھے۔ رسول ﷲﷺ کے سچے عاشق تھے لیکن خود سر تھے اور زندہ دل بھی۔ وہ دشمن کو صرف شکست دے کر اسے فتح نہیں سمجھتے تھے بلکہ اپنی فتح کو اس وقت مکمل سمجھتے تھے جب بھاگتے ہوئے دشمن کا تعاقب کرکے اس کی بستیوں کو اپنے قبضے میں لے لیتے تھے۔ ان کا اصول تھا کہ دشمن کو سانپ سمجھو اور اس کا سر کچل کربھی دیکھو کہ اس میں ذرا سی بھی حرکت باقی نہ رہ جائے ۔خود سری کو خالدؓ خوبی سمجھتے تھے ۔ان میں ڈسپلن بڑا ہی سخت تھا اس کے باوجود جہاں صورتِ حال پیچیدہ ہو جاتی خالدؓ اپنے نائب سالاروں سے مشورے اور تجاویز لیتے تھے۔ اب مجاعہ بن مرارہ نے صلح کی بات کی تو خالدؓ نے یہ جانتے ہوئے کہ دشمن پسپا ہو چکا ہے اس حقیقت کو بھی سامنے رکھا کہ ان کے مجاہدین لڑنے کے قابل نہیں رہے۔ خالدؓ نے اپنے نائب سالاروں کو بلایا اورانہیں بتایا کہ بنو حنیفہ کا ایک سردار مجاعہ بن مرارہ صلح کی پیش کش کر رہا ہے۔’’اصل فتنہ تو ختم ہو چکاہے ۔‘‘عبداﷲؓ بن عمرؓ نے کہا ۔’’مسیلمہ کذاب کے مر جانے سے بنو حنیفہ کا دم خم ٹوٹ چکا ہے ۔میں تو یہ بہتر سمجھتا ہوں کہ یمامہ کا محاصرہ فوراً کر لیا جائے اور دشمن کو سستانے کی مہلت نہ دی جائے۔‘‘’’صرف یمامہ نہیں ۔‘‘عبدالرحمٰنؓ بن ابی بکر ؓنے کہا۔’’بنو حنیفہ میدانِ جنگ سے بھاگ کر ایسی جگہوں میں چھپ گئے ہیں جو چھوٹے چھوٹے قلعے ہیں ۔پہلے انہیں پکڑنا ضروری ہے۔اس کے بعد صلح کی بات ہو سکتی ہے۔‘‘ ’’صلح کی شرائط ہماری ہوں گی۔‘‘عبداﷲؓ بن عمرؓ نے کہا۔’’کیا تمہاری نظر اپنے لشکر کی جسمانی حالت پر بھی ہے؟‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ابھی شہیدوں اور زخمیوں کی گنتی ہو رہی ہے ۔

ﷲ کی قسم! کسی جنگ نے ہمارا اتنا خون نہیں پیا،جتنا یہ جنگ پی گئی ہے اور شاید ہمیں ابھی اور خون دینا پڑے گا۔ کیا تم بہتر سمجھو گے کہ دشمن کے جو آدمی اِدھر اُدھر چھپ گئے ہیں انہیں پکڑا جائے تاکہ یہ یمامہ کے قلعے میں جاکر ہمارے مقابلے میں نہ آ سکیں؟‘‘ ’’ہم یقیناً اسی کو بہتر سمجھتے ہیں۔‘‘عبدالرحمٰنؓ نے کہا۔’’اگر ہم انہیں پکڑ لیں تو صلح کی کیا ضرورت رہ جائے گی۔‘‘ ’’مجاعہ نے بتایا ہے کہ ان کے جس لشکر سے ہم لڑ چکے ہیں اس سے کچھ زیادہ لشکر یمامہ کے اندر موجود ہے۔‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’تم میری اس رائے کو صحیح مانو گے کہ ہماری سپاہ لڑنے کے قابل نہیں رہی ،تم دیکھ رہے ہو کہ ہمارے مجاہدین تھکن سے بے حال ہوکر جہاں بیٹھتے ہیں وہاں سو جاتے ہیں ۔ہمارے لیے کمک بھی نہیں رہی۔ اگر کمک منگوائی بھی جائے تو بہت دن لگ جائیں گے ۔اتنے دنوں میں دشمن منظم ہو جائے گا اور اس پر ہماری جو دہشت غالب آئی ہوئی ہے وہ اتر جائے گی۔‘‘’’ابنِ ولید!‘‘ عبداﷲؓ نے کہا۔’’تم نے خود بھی تو کچھ سوچا ہو گا؟‘‘’’ہاں ابنِ عمر!‘‘خالدؓ نے جواب دیا۔’’میں نے سوچا ہے کہ اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے دشمن کو پکڑا جائے پھر یمامہ کا محاصرہ کرلیا جائے اور اس دوران مجاعہ یمامہ میں جاکر اپنے سرداروں کے ساتھ صلح کی بات کرے۔صلح کیلئے ہم یہ شرط ضرور رکھیں گے کہ بنو حنیفہ شکست تسلیم کرکے ہتھیار ڈال دیں۔‘‘ ’’یہی بہتر ہے۔‘‘عبدالرحمٰنؓ نے کہا۔’’میں بھی اسی کو بہتر سمجھتا ہوں۔‘‘عبداﷲؓ نے کہا۔’’پھر یہ کام ابھی شروع کر دو۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’دستوں کو مختلف سمتو ں میں روانہ کردو اور انہیں کہو کہ بنو حنیفہ کا کوئی آدمی عورت یا بچہ کہیں نظر آجائے تو اسے پکڑ کر لے آؤ۔‘‘دستوں کو روانہ کر دیا گیا اور خالدؓ نے مجاعہ کو اپنے پاس بٹھا لیا۔’’ابنِ مرارہ!‘‘ خالدؓ نے مجاعہ سے کہا۔’’مجھے تجھ پراعتماد ہے اور میں تجھے اس اعتماد کے قابل سمجھتا ہوں۔ جا اور اپنے سرداروں سے کہہ کہ ہم صلح کیلئے تیار ہیں لیکن شرط یہ ہو گی کہ تمہارے ہتھیار ہمارے سامنے زمین پر پڑے ہوئے ہوں گے۔‘‘ ’’میں اسی شرط پر صلح کرانے کی کوشش کروں گا۔‘‘مجاعہ نے کہا۔’’لیکن ابنِ ولید! اپنی فوج کی حالت دیکھ لے۔‘‘’’میں مزید خون خرابے سے ہاتھ روکنا چاہتا ہوں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’کیا تو نہیں چاہے گا کہ تمہارے اور ہمارے جو آدمی زندہ ہیں وہ زندہ ہی رہیں؟اپنے قبیلے میں جاکر دیکھ ۔آج کتنے ہزار عورتیں بیوہ اور کتنے ہزار بچے یتیم ہو چکے ہیں اور یہ بھی سوچ کہ بنو حنیفہ کی کتنی عورتیں ہماری لونڈیاں بن جائیں گی۔‘‘اس وقت کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ خالدؓ کی یہ بات سن کر مجاعہ کے ہونٹوں پر ایسی مسکراہٹ آگئی جس میں تمسخر یا طنز کی جھلک تھی ۔وہ اٹھ کھڑا ہوا۔’’میں جاتا ہوں۔‘‘مجاعہ نے کہا۔’’ابنِ ولید!تیری خواہش پوری کرنے کی میں پوری کوشش کروں گا۔

‘‘ خالدؓ اپنے خیمے کی طرف چل پڑے۔ وہ لاشوں اور زخمیوں کو دیکھتے چلے جا رہے تھے۔ لیلیٰ نے خالدؓ کو دور سے دیکھا اور دوڑی آئی۔ ’’کیا تم نے اسے چھوڑ دیا ہے؟‘‘لیلیٰ نے خالدؓ سے پوچھا۔ خالدؓ نے اسے بتایا کہ انہوں نے مجاعہ کو کس مقصد کیلئے چھوڑا ہے۔’’ابنِ ولید! ‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’اتنے انسانوں کا خون کس کی گردن پر ہوگا؟ میں نے اتنی زیادہ لاشیں کبھی نہیں دیکھی تھیں۔‘‘ ’’جب تک انسانوں میں انسانوں کو اپنی خواہشات کا غلام بنانے کی ذہنیت موجود رہے گی ،انسانوں کا خون بہتا رہے گا۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’میں نے بھی اتنی لاشیں کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ آنے والا زمانہ اس سے زیادہ لاشیں دیکھے گا۔ حق اور باطل آپس میں ٹکراتے رہیں گے……میں اسی لیے صلح کی کوشش کررہا ہوں کہ اور خون نہ بہے……اس سے آگے نہ جانا۔تم جو دیکھو گی اسے تم برداشت نہیں کر سکو گی۔‘‘آسمان سے گدھ اترنے لگے تھے اور انہوں نے لاشوں کو نوچنا شروع کر دیا تھا۔ کچھ مسلمان لاشوں کے درمیان اپنے زخمی ساتھیوں کو تلاش کرتے پھر رہے تھے ۔انہیں اٹھا اٹھا کر خیمہ گاہ کی طرف لا رہے تھے۔ باقی سپاہ بنو حنیفہ کے چھپے ہوئے آدمیوں کو پکڑنے کیلئے چلی گئی تھی۔ رات کو خالدؓ کو اطلاعات ملنے لگیں کہ بنو حنیفہ کے آدمیوں کو لارہے ہیں۔ بعض کے ساتھ عورتیں اور بچے بھی تھے ،خالدؓ نے حکم دیا کہ عورتو ں اور بچوں کو سردی اور بھوک سے بچایا جائے، لیکن خیمہ گاہ لٹ چکی تھی، خوراک کی قلت تھی۔ خالدؓ نے کہا کہ خود بھوکے رہو ،قیدی عورتوں اور بچوں کے پیٹ بھرو۔اس کاحل یہ نکالا گیا کہ مسلمان مجاہدین لاشوں سے کھجوروں وغیرہ کی تھیلیاں کھول کر لے آئے۔ہر سپاہی اپنے ساتھ کھانے پینے کا کچھ سامان رکھتا تھا۔ یہ عورتوں اوربچوں کو دیا گیا۔ علی الصبح مجاعہ یمامہ سے واپس آیا اور خالدؓ کے خیمے میں گیا۔ ’’کیا خبر لائے ہو ابنِ مرارہ؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔’’خبر بری نہیں۔‘‘ مجاعہ نے جواب دیا۔’’ لیکن تم اسے اچھا نہیں سمجھو گے ۔بنو حنیفہ تمہاری شرط پر صلح کرنے کو تیار نہیں ۔وہ تمہاری غلامی قبول نہیں کریں گے۔‘‘’’ ﷲ کی قسم! میں انہیں اپنا غلام نہیں بنانا چاہتا۔‘‘خالدؓ نے­ کہا ۔’’ہم سب ﷲ کے رسول کے غلام ہیں۔ میں انہیں اس سچے رسولﷺ کے عقیدے کا غلام بناؤں گا۔‘‘’’وہ اس شرط کو بھی نہیں مانیں گے ۔‘‘ مجاعہ نے کہا۔’’ اور یہ بھی دیکھ کہ تیرے پاس رہ کیا گیا ہے ابن ِ ولید۔ میں نے یمامہ کے اندر جاکر دیکھا ہے۔ ایک لشکر ہے جو ذرہ پہنے تیری چھوٹی سی فوج کو لہو لہان کردینے کیلئے تیار ہے ۔ کبھی یہ حماقت نہ کر بیٹھنا کہ یمامہ کو آکہ محاصرے میں لے لے۔ تو کچلا جائے گا ابن ِولید۔ جوش کو چھوڑ اور ہوش کی بات کر ۔اپنی شرط کو نرم کر۔ میں نے بنو حنیفہ کو ٹھنڈا کر لیا ہے، اس لشکرکی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے۔‘‘*
*خالدؓ گہری سوچ میں کھو گئے ۔مجاعہ نے انہیں کوئی نئی بات نہیں بتائی تھی ۔ یہ تو خالدؓ دیکھ ہی چکے تھے کہ ان کے پاس جو سپاہ رہ گئی ہے وہ لڑنے کے قابل نہیں رہی۔ اس سپاہ کو آرام کی ضرورت تھی لیکن وہ رات بھر دشمن کے چھپے ہوئے آدمیوں کو تلاش اور گرفتار کرتی رہی تھی ۔اب تو ان مجاہدین کے سر ڈول رہے تھے۔ ’’ابنِ مرارہ!‘‘ خالدؓ نے گہری سوچ سے نکل کر کہا۔’’تجھے شاید معلوم نہ ہو، اپنے ان سرداروں سے پوچھ لینا جو اس جنگ میں شریک تھے کہ ہمارے پاس بنو حنیفہ کا کتنا مال اور سازوسامان ہے اورکتنے باغ اور کتنے قیدی ہمارے قبضے میں ہیں ۔واپس جا اور اپنے سرداروں سے کہہ کہ مسلمان آدھا مالِ غنیمت، آدھے باغ اور آدھے قیدی واپس کر دیں گے۔انہیں سمجھا کہ یمامہ اور اس کی آبادی کو تباہی میں نہ ڈالیں۔‘‘ ابنِ مرارہ چلا گیا ،اس دوران مزید قیدی لائے گئے۔ مجاعہ شام سے کچھ پہلے واپس آیا اور اس نے بتایا کہ بنو حنیفہ کا کوئی سردار اس شرط کو ماننے کیلئے تیار نہیں ۔ مجاعہ نے یہ بھی کہا کہ بنو حنیفہ اپنی شکست اور اپنے ہزاروں مقتولین کے خون کا انتقام لیں گے ۔’’میری بات کان کھول کر سن ابنِ مرارہ!‘‘ خالدؓ نے جھنجھلا کر کہا۔’’اگر بنو حنیفہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم قلیل تعداد ہونے کی وجہ سے ڈر جائیں گے تو انہیں جا کر کہہ دے کہ مسلمان کٹ مریں گے۔ تمہیں انتقام کی مہلت نہیں دیں گے ۔‘‘ ’’غصے میں نہ آ ولید کے بیٹے !‘‘مجاعہ نے مسکرا کر کہا۔’’ہمارا جو مالِ غنیمت ،باغ اورقیدی تمہارے پاس ہیں ۔ان کا چوتھائی حصہ اپنے پاس رکھ لے باقی ہمیں دے دے اور آ صلح کرلیں۔ صلح نامہ تحریر ہو گا۔‘‘ خالدؓ ایک بار پھر سوچ میں کھو گئے۔’’میں تجھے ایک بار پھر خبردار کرتا ہوں ولید کے بیٹے!‘‘ مجاعہ نے کہا۔’’ یہ میرا کمال ہے کہ میں نے بنو حنیفہ کو صلح پر راضی کر لیا ہے ۔ میں نے ان کی لعنت ملامت برداشت کی ہے۔ انہو ں نے مجھے غدار بھی کہا ہے وہ کہتے ہیں کہ تم مسلمانوں سے انعام لے کر ہمیں ان کا غلام بنانا چاہتے ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری تعداد اگر کم بھی ہوتی تو بھی ہم صلح نہ کرتے۔ہمارے پاس نہ سازوسامان کی کمی ہے نہ خوراک کی۔ ان چیزوں کی کمی ہے تو مسلمانوں کو ہو گی ۔وہ کہتے ہیں کہ اتنی سخت سردی میں مسلمان کب تک محاصرے میں بیٹھے رہیں گے۔ راتو ں کی سردی کو وہ کھلے آسمان تلے برداشت نہیں کر سکیں گے ۔وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ تیری اس چھوٹی سی فوج کے پاس خیمے بھی نہیں رہے ۔سوچ لے ابنِ ولید ۔اچھی طرح سوچ لے ۔اگر تجھے شک ہے تو ذرا آگے جا کر یمامہ کی دیواروں پر ایک نظر ڈال اور دیکھ کہ ایک دیوار تو قلعے کی ہے اور اس کے اوپر ایک دیوار انسانی جسموں کی ہے۔‘‘خالدؓ بے شک اپنی کمزوریوں سے آگاہ تھے لیکن وہ دشمن کی ہر شرط ماننے کو تیار نہیں ہو سکتے تھے۔وہ اپنے خیمے سے باہر نکل گئے۔ ان کے نائب سالار باہر کھڑے تھے۔سالاروں نے بے تابی سے خالدؓ سے پوچھا کہ صلح کی بات کہاں تک پہنچی ہے؟’’ میرے ساتھ آؤ۔‘‘خالدؓ نے ان سے کہا۔ نائب سالار خالدؓ کے ساتھ چل پڑے۔ خالدؓ انہیں بتاتے گئے کہ مجاعہ صلح نامے کی کیا شرط لایا ہے ۔وہ چلتے گئے اور ایسی جگہ جا رکے جہاں سے یمامہ شہر کی دیوار نظر آتی تھی۔

انہوں نے دیکھا کہ دیوار پر آدمی ہی آدمی تھے۔ مجاعہ نے ٹھیک کہا تھا کہ شہر کی دیوار کے اوپر انسانی جسموں کی دیوار کھڑی ہے۔اس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ شہر میں بہت بڑا لشکر موجود ہے۔’’میرا خیال ہے کہ ہم نے محاصرہ کیا تو ہم نقصان اٹھائیں گے۔‘‘خالدؓ نے اپنے نائب سالاروں سے کہا۔’’دیوار پر جو مخلوق کھڑی ہے اس کے تیر ہمیں دیوارکے قریب نہیں جانیں دیں گے۔ہمارے پاس مروانے کیلئے اتنے زیادہ آدمی نہیں۔‘‘ ’’میں تو صلح کی رائے دوں گا۔‘‘ایک نائب سالار نے کہا۔’’جس فتنے کو ہم ختم کرنا چاہتے تھے وہ ختم ہو چکا ہے۔‘‘ایک اور نائب سالار نے کہا۔’’اب ہم صلح کر لیں تو ہم پر کون انگلی اٹھا سکتا ہے؟‘‘ خالدؓ واپس اپنے خیمے میں آئے اور مجاعہ کو بتایا کہ وہ صلح کیلئے تیار ہیں ۔اسی وقت صلح نامہ تحریر ہوا جس پر خالدؓ نے خلافت کی طرف سے مجاعہ بن مرارہ نے بنو حنیفہ کی طرف سے دستخط کیے۔ اس میں ایک شرط یہ تھی کہ مسلمان یمامہ کے کسی آدمی کو جنگی مجرم قرار دے کر قتل نہیں کریں گے۔ مجاعہ واپس چلا گیا ۔اسی روزاس نے یمامہ کے دروازے کھول دیئے اور خالدؓ کو شہر میں مدعو کیا۔ خالدؓ اپنے سالاروں اور کمانداروں کے ساتھ یمامہ شہر کے دروازے تک پہنچے ۔انہوں نے اوپر دیکھا ۔ دیواروں پر اب ایک بھی آدمی نہیں کھڑا تھا۔ بُرج بھی خالی تھے۔ خالدؓ کو توقع تھی کہ قلعے کے اندر انہیں بنو حنیفہ کا وہ لشکر نظر آئے گا جس کے متعلق مجاعہ نے انہیں بتایا تھا کہ مسلمانوں کو کچل ڈالے گا مگروہاں کسی لشکر کا نام و نشان نہ تھا۔وہاں عورتیں تھیں ،بچے اور بوڑھے تھے۔جو ان آدمی ایک بھی نظر نہیں آتا تھا۔عورتیں اپنے گھروں کے سامنے کھڑی تھیں،بعض منڈیروں پر بیٹھی تھیں۔ ان مین زیادہ تر عورتیں رو رہی تھیں،ان کے خاوند ،باپ بھائی یا بیٹے جنگ میں مارے گئے تھے۔’’ابنِ مرارہ!‘‘ خالدؓ نے مجاعہ سے پوچھا۔’’وہ لشکر کہاں ہے؟‘‘ ’’دیکھ نہیں رہے ہو ابنِ ولید! ‘‘مجاعہ نے دروازوں کے سامنے اور چھتوں پر کھڑی عورتوں کی طرف اشارہ کرکے کہا۔’’یہ ہے وہ لشکر جو شہر کی دیوارپر تیروکمان اور برچھیاں اٹھائے کھڑا تھا۔‘‘ ’’یہ عورتیں؟‘‘خالدؓنے حیران پوچھا۔’’ہاں ولید کے بیٹے! ‘‘مجاعہ نے کہا۔’’شہر میں کوئی لشکر نہیں۔یہاں صرف بوڑھے آدمی ہیں جو لڑنے کے قابل نہیں ۔عورتیں ہیں اور بچے ہیں۔‘‘’’کیا یہ ہمارے حملے کو روک سکتے تھے؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔’’کیا عورتیں مقابلے میں آئی تھیں؟‘‘



جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں