’’ابھی نہیں۔‘‘طلیحہ نے کہا۔’’تم لڑائی جاری رکھو۔‘‘’’وحی کب نازل ہو گی؟‘‘عینیہ نے جھنجھلا کر پوچھا۔’’تم کہا کرتے ہو کہ مشکل کے وقت وحی نازل ہوتی ہے۔‘‘’’خدا تک میری دعا پہنچ گئی ہے۔‘‘طلیحہ نے کہا۔’’وحی کا انتظار ہے۔‘‘عینیہ اپنے لشکر میں چلا گیا مگر اب اس کا لشکر خالد ؓکے گھیرے میں آ گیا تھا۔عینیہ گھبراہٹ کے عالم میں ایک بار پھر طلیحہ کے پاس گیا اور اسے اپنے لشکر کی کیفیت بتا کر پوچھا کہ وحی نازل ہوئی ہے یا نہیں۔’’ہاں!‘‘طلیحہ نے جواب دیا۔’’وحی نازل ہو چکی ہے۔‘‘’’کیا؟‘‘’’یہ کہ……‘‘طلیحہ نے جواب دیا۔’’مسلمان بھی جنگ لڑ رہے ہیں تم بھی جنگ لڑ رہے ہو ۔تم اس وقت کو کبھی نہ بھول سکو گے۔‘‘عینیہ کوکچھ اور توقع تھی ۔لیکن طلیحہ نے اسے مایو س کر دیا ۔اسے یہ بھی پتا چل گیا کہ طلیحہ جھوٹ بول رہا ہے ۔’’لا ریب ایسا ہی ہو گا۔‘‘عینیہ نے غصے سے کہا۔’’وہ وقت جلد ہی آ رہا ہے جسے تم ساری عمر نہیں بھول سکو گے۔‘‘عینیہ دوڑتا باہر گیا اور چلا چلا کر اپنے قبیلے سے کہنے لگا ۔’’اے بنو فرازہ! طلیحہ کذاب ہے ۔جھوٹے نبی کے پیچھے جانیں مت گنواؤ ۔بھاگو، اپنی جانیں بچاؤ۔‘‘بنو فرازہ تو بھاگ اٹھے ۔طلیحہ کے اپنے قبیلے کے لڑنے والے لوگ طلیحہ کے خیمہ کے اردگرد جمع ہو گئے۔ خالدؓ تماشہ دیکھنے لگے۔طلیحہ کے خیمے کے ساتھ ایک گھوڑا اور ایک اونٹ تیار کھڑے تھے۔قبیلہ طلیحہ سے پوچھ رہا تھا کہ پھر اب کیا حکم ہے؟طلیحہ کی بیوی جس کا نام نوار تھا، اس کے ساتھ تھی۔طلیحہ گھوڑے پر سوار ہو گیا اور اس کی بیوی اونٹ پر چڑھ بیٹھی۔. ’’لوگو! ‘‘طلیحہ نے اپنے قبیلے سے کہا۔’’میری طرح جس کے پاس بھاگنے کا انتظام ہے۔وہ اپنے بیوی بچوں کو لے کر بھاگ جائے۔‘‘ اس طرح اس کذاب کا فتنہ ختم ہو گیا ۔عمرؓ کے دورِ خلافت میں طلیحہ نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور مسلمان ہو گیاتھا۔خالدؓ نے اور کئی قبیلوں کو مطیع کیا اور انہیں ارتداد کی کڑی سزا دی۔ان پر اپنی شرائط عائد کیں،اسلام سے جو منحرف ہو گئے تھے انہیں دوبارہ حلقہ بگوش اسلام کیا۔طلیحہ کی نبوت کو بھی خالدؓ نے ختم کر دیا اور عینیہ جو یہودیوں سے بڑھ کر مسلمانوں کا دشمن تھا،ایسا بھاگا کہ اس نے عراق جا دم لیا،مگر اس کا زہر ابھی پیچھے رہ گیا تھا۔ یہ زہر ایک عورت کی شکل میں تھا جو سلمیٰ کہلاتی تھی۔اس کا پورا نام امِ زمل سلمیٰ بنت مالک تھا۔سلمیٰ بنو فرازہ کے سرداروں کے خاندان کی ایک مشہور عورت ام قرفہ کی بیٹی تھی۔رسولِ کریمﷺ کی زندگی کا واقعہ ہے کہ زید بن حارثہؓ(اسامہؓ کے والد)بنی فرازہ کے علاقے میں جا نکلے ۔
یہ قبیلہ مسلمانوں کا جانی دشمن تھا۔ وادی القراء میں زید ؓکا سامنا بنی فرازہ کے چند آدمیوں سے ہو گیا۔ زیدؓ کے ساتھ بہت تھوڑے آدمی تھے۔ بنی فرازہ کے ان آدمیوں نے ان سب کو قتل کر دیا اور زیدؓ کو گہرے زخم آئے۔ وہ گرتے پڑتے مدینہ پہنچ گئے ۔جب ان کے زخم ٹھیک ہو گئے تو رسولِ ﷲﷺ نے انہیں باقاعدہ فوجی دستے دے کر بنو فرازہ پر حملہ کیلئے بھیجا تھا۔مسلمانوں نے بنی فرازہ کے بہت سے آدمیوں کو ہلاک اور کچھ کو قید کر لیا۔جھڑپ بڑی خونریز تھی ۔ان قیدیوں میں ام قرفہ فاطمہ بنت بدر بھی تھی۔اس عورت کی شہرت یہ تھی کہ اپنے قبیلے کے علاوہ دوسرے قبیلوں کو بھی مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتی رہتی تھی۔اسے مدینہ لا کر سزائے موت دے دی گئے۔اس کے ساتھ اس کی کم سن بیٹی ام زمل سلمیٰ بھی تھی۔رسولِ کریمﷺ نے یہ لڑکی ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کے حوالے کر دی۔اسے پیار سے رکھا گیا مگر وہ ہر وقت اداس رہتی تھی۔عائشہ صدیقہؓ نے اس پر رحم کرتے ہوئے اس کو آزاد کر دیا۔بجائے اس کے کہ سلمیٰ مسلمانوں کی شکر گزار ہوتی کہ اسے لونڈی نہ رہنے دیا گیا اور اسے آزاد کر کے اونچی حیثیت میں واپس بھیج دیا گیا اس نے اپنے دل میں اپنی ماں کے قتل کا انتقام رکھ لیا اور جنگی تربیت حاصل کرنے لگی۔وہ سرداروں کے خاندان کی لڑکی تھی ۔اس میں قیادت کے جوہر بھی پیدا ہو گئے۔اس نے مسلمانوں کے خلاف ایک لشکر تیارکر لیا اور مدینہ پر حملے کیلئے پر تولنے لگی۔مگر مسلمان ایک جنگی قوت بن چکے تھے اس لیے سلمیٰ مدینہ کے قریب آنے کی جرات نہ کر سکی۔اب طلیحہ اور عینیہ کو شکست ہوئی تو سلمیٰ میدان میں آ گئی۔ اس کی ماں عینیہ کی چچازاد بہن تھی ،جن قبیلوں نے خالدؓ سے ٹکر لی تھی انہیں یہ لڑائی بڑی مہنگی پڑی تھی۔جو بچ گئے تھے وہ اِدھر اُدھر بھاگ گئے تھے۔ ان میں غطفان ،طئی ،بنو سلیم اور ہوازن کے بعض سرکردہ لوگ سلمیٰ کے ہاں جا پہنچے اور عہد کیا کہ سلمیٰ اگر ان کا ساتھ دے تو وہ مسلمانوں سے انتقام لینے کیلئے جانیں قربان کر دیں گے۔سلمیٰ تو موقع کی تلاش میں تھی وہ تیار ہو گئی اور چند دنوں میں اپنا لشکر تیار کرکے روانہ ہو گئی۔ اس وقت خالدؓ بزاخہ میں تھے جہاں انہوں نے طلیحہ کو شکست دی تھی۔ اُنہیں اطلاع ملی کہ بنو فرازہ کا لشکر آ رہا ہے ۔خالدؓ نے اپنے دستوں کو تیار کر لیا۔ جس طرح سلمیٰ کی ماں اپنے جنگی اونٹ پر سوار ہو کر لشکر کے آگے آگے چلا کرتی تھی ،اسی طرح سلمیٰ بھی اپنے لشکر کے آگے آگے تھی۔اس کے ارد گرد ایک سو شتر سواروں کا گھیرا تھا جو تلواروں اور برچھیوں سے مسلح تھے۔یہ لشکر جوش و خروش بلکہ قہر اور غضب کے نعرے لگاتا آ رہا تھا ۔خالدؓ نے انتظار نہ کیاکہ دشمن اور قریب آئے۔ان کے ساتھ نفری تھوڑی تھی ،وہ دشمن کواتنی مہلت نہیں دینا چاہتے تھے کہ وہ حملہ کی ترتیب یا قلیل تعداد مسلمانوں کو نفری کی افراط کے بل بوتے پرگھیرے میں لینے کی پوزیشن میں آئے۔
خالدؓ نے ہلہ بولنے کے انداز سے حملہ کر دیا، انہیں معلوم تھا کہ دشمن کا لشکر سفر کا تھکا ہوا ہے۔ خالدؓ نے دشمن کی اس جسمانی کیفیت سے بھی فائدہ اٹھایا ۔سلمیٰ جو ایک سو جانباز شتر سواروں کے حفاظتی نرغے میں تھی ۔اشتعال انگیز الفاظ سے اپنے لشکر کے جوش و خروش میں جان ڈال رہی تھی۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ بنو فرازہ نے خالدؓ کو بڑا ہی سخت مقابلہ دیا۔نفری تھوڑی ہونے کی وجہ سے خالدؓ مجبور ہوتے جا رہے تھے اور دشمن کے حوصلے بڑھتے جا رہے تھے۔سلمیٰ کی للکار اور الفاظ جلتی پر تیل کا کام کر رہے تھے ۔خالدؓ نے سوچا کہ صرف یہ عورت ماری جائے تو بنو فرازہ کے قدم اُکھڑ جائیں گے۔ انہوں نے اپنے چند ایک منتخب جانبازوں سے کہا کہ وہ سلمیٰ کا حفاظتی حصار توڑ کر اسے اونٹ سے گرا دیں ۔ سلمیٰ کے محافظ بھی جانباز ہی تھے، وہ خالدؓ کے جانبازوں کو قریب نہیں آنے دیتے تھے۔ ان جانبازوں نے یہ طریقہ اختیار کیاکہ ایک ایک محافظ شتر سواروں کو دوسروں سے الگ کر کے مارنا شروع کر دیا۔اس طرح جانبازوں نے گھیرا توڑ دیا لیکن کوئی جانباز سلمیٰ تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔زخمی ہو کر پیچھے آ جاتا تھا۔ آخر پورے ایک سو محافظ مارے گئے ۔خالدؓ کو اس کی بہت قیمت دینی پڑی ۔جانبازوں نے تلواروں سے سلمیٰ کے کچاوے کی رسیاں کاٹ دیں ۔کچاوہ سلمیٰ سمیت نیچے آ پڑا ۔جانبازوں نے خالدؓ کی طرف دیکھا کہ کیا حکم ہے، قیدی بنانا ہے یا قتل کرنا ہے؟خالدؓ نے ہاتھ سے اشارہ کیا ۔ایک جانباز نے تلوار کے ایک ہی وار سے سلمیٰ کا سر تن سے جدا کر دیا۔بنو فرازہ نے یہ منظر دیکھا تو ان میں بھگدڑ مچ گئی اور وہ اپنی لاشوں اور زخمیوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔مدینہ سے تقریباً دو سو پچھتر میل شمال مشرق میں بطاح نام کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جس میں بدؤوں کے چند ایک کنبے آباد ہیں ۔اس گاؤں کو کوئی اہمیت کوئی حیثیت حاصل نہیں۔اگر وہاں اِدھر اُدھر غور سے دیکھیں تو ایسے آثار ملتے ہیں جیسے یہاں کبھی شہر آباد رہا ہو۔ چودہ صدیاں گزریں،یہاں ایک شہر آباد تھا ،اس کا نام بطاح تھا۔جو آج تک زندہ ہے مگر شہر سکڑ سمٹ کر چھوٹا سا گاؤں رہ گیا ہے۔ اس شہر میں خوبصورت لوگ آباد تھے ،وہ بہادر تھے نڈر تھے اور باتیں ایسے انداز سے کرتے تھے جیسے کوئی نظم سنا رہے ہوں۔ عورتیں حسین تھیں اور مرد وجیہہ تھے۔یہ ایک طاقت ور قبیلہ تھا جسے ’’بنی تمیم ‘‘کہتے تھے۔بنو یربوع بھی ایک قبیلہ تھا لیکن الگ تھلگ نہیں بلکہ بنی تمیم کا سب سے بڑا حصہ تھا۔اس کا سردار ’’مالک بن نویرہ‘‘ تھا۔بنی تمیم کا مذہب مشترک نہیں تھا ۔ان میں آتش پرست بھی تھے، قبر پرست بھی لیکن اکثریت بت پرست تھی۔بعض عیسائی ہو گئے تھے ،یہ لوگ سخاوت، مہمان نوازی اور شجاعت میں مشہور تھے ۔رسولِ ﷲﷺ نے ہر طرف قبولِ اسلام کے پیغام جن قبیلوں کو بھیجے تھے ان میں بنو تمیم خاص طور پر شامل تھے۔
اسلام کے فروغ اور استحکام کیلئے بنو تمیم جیسے طاقتور اور با اثر قبیلے کو ساتھ ملانا ضروری تھا۔ یہ ایک الگ کہانی ہے کہ اس قبیلے نے اسلام کس طرح قبول کیا تھا، مختصر یہ کہ بنی تمیم کی غالب اکثریت نے اسلام قبول کرلیا ۔مالک بن نویرہ منفرد شخصیت اور حیثیت کا حامل تھا۔ وہ آسانی سے اپنے عقیدے بدلنے والا آدمی نہیں تھا۔لیکن اس نے دیکھا کہ بنو تمیم کے بیشتر قبائل مسلمان ہو گئے ہیں تو اس نے اپنی مقبولیت اور اپنی سرداری کو قائم رکھنے کیلئے اسلام قبول کرلیا ۔چونکہ یہی شخص زیادہ با رعب اور اثر و رسوخ والا تھا اس لئے رسولِ کریمﷺ نے اسے بطاح کا امیر مقرر کر دیا تھا۔زکوٰۃ ،عشر دیگر محصول اور واجبات وصول کرکے مدینہ بھجوانا اس کی ذمہ داری تھی ۔مشہور مؤرخ بلاذری اور محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں کہ مالک بن نویرہ بڑا وجیہہ اور خوبصورت آدمی تھا ۔اس کے قد کاٹھ میں عجیب سی کشش تھی ۔اسکے سر کے بال لمبے اور خوبصورت تھے ۔شہسوار ایسا کہ کوئی اس کے مقابلے میں ٹھہر نہیں سکتا تھا ۔اچھا خاصا شاعر تھا ۔آواز میں مٹھاس اور ترنم تھا اور اس میں سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ہنس مکھ تھا۔ غم کے مارے ہوؤں کو ہنسا دیتا تھا۔ اس میں خرابی یہ تھی کہ اس میں غرور اور تکبر بہت تھا ۔اس کی ایک وجہ تو اس کی وہ حیثیت تھی جو اسے بنو تمیم میں اور خصوصاً اپنے قبیلے میں حاصل تھی دوسری وجہ اس کا مردانہ حسن اور دیگر مردانہ اوصاف تھے۔جو ایک طلسم کی طرح دوسروں پر حاوی ہو جاتے تھے ۔اس کا تعلق متعدد عورتوں کے ساتھ تھا۔ قبیلے کی جوان لڑکیاں اس کا قرب حاصل کرنے کی خواہاں اور کوشاں رہتی تھیں ۔لیکن وہ وقتی تعلق رکھتا اور کسی کو بیوی نہیں بناتا تھا۔کہتا تھا کہ اس طرح ایک عورت اس کے ہم پلہ ہو جائے گی حالانکہ اس وقت بیویوں کو یہ مقام حاصل نہیں تھا۔وہ قبیلے کی عورتوں کے دلوں میں بستا تھا۔اُس کے دِل کو مسخر کرنے والی عورت کا نام لیلیٰ تھا۔مالک بن نویرہ نے لیلیٰ سے شادی کر لی لیلیٰ کو قبیلے نے اُمّ تمیم کا نام دیا تھا۔ رسولِ کریمﷺ کے وصال کی خبر ملتے ہی مالک بن نویرہ نے مدینہ والوں سے نظریں پھیر لیں اور ظاہر کر دیا کہ اس نے اسلام قبول کیا تھا ایمان نہیں۔اس نے زکوٰ ۃ اور محصولات وصول کرکے اپنے گھر میں رکھے ہوئے تھے ۔چند دنوں تک اس نے یہ مال مدینہ کو بھیجنا تھا۔ اس نے قبیلے کے لوگوں کو اکھٹا کرکے انہیں زکوٰ ۃ اور محصولات واپس کردیئے۔’’اب تم آزاد ہو۔‘‘مالک نے کہا۔’’میں نے مدینہ کی زنجیر توڑ ڈالی ہے۔اب جو کچھ تم کماؤ گے وہ سب تمہارا ہو گا۔‘‘. لوگوں نے دادوتحسین کے نعرے بلندکیے ۔مالک بہت خوش تھا کہ مدینہ سے تعلق توڑ کر وہ اپنے قبیلے کا پھر خود مختار سردار بن گیا ہے مگر اس کی خوشی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی۔دو تین قبیلوں کے سرکردہ آدمیوں نے مالک سے کہا کہ اس نے مدینہ سے تعلق توڑ کر اچھا نہیں کیا۔ مالک نے انہیں مدینہ کے خلاف کرنے کی بہت کوشش کی لیکن اس کی زبان کا جادو نا چل سکا۔زکوٰۃ اور محصولات کی ادائیگی کے مسئلے پر بنو تمیم تین حصوں میں بٹ گئے۔ ایک وہ تھے جو زکوٰۃ وغیر ہ کی ادائیگی کرنا چاہتے تھے ۔دوسرے وہ جو مدینہ والوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے تھے اور تیسرے وہ تھے جن کیلئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا تھا کہ وہ کیا کریں۔ان سب کے اختلافات اتنے بڑھ گئے کہ قبیلوں کی آپس میں خونریز لڑائیاں شروع ہو گئیں۔اتنے میں سجاع اپنا لشکر لے کر آ گئی ۔سجاع کا ذکر پہلے آ چکا ہے اس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا ۔الحارث کی بیٹی سجاع اپنے لشکر کے ساتھ مالک بن نویرہ کے قبیلے بنو یربوع کے علاقے میں جا خیمہ زن ہوئی ۔اس نے مالک بن نویرہ کو بلاکر کہا کہ وہ مدینہ پر حملہ کرنا چاہتی ہے۔’’اگر تم اپنے قبیلے کو میرے لشکر میں شامل کر دو توہم مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کر سکتے ہیں ۔‘‘سجاع نے کہا۔’’تمہیں معلوم ہو گا کہ میں بنو یربوع میں سے ہوں ۔‘‘’’خدا کی قسم!‘‘ مالک بن نویرہ نے کہا۔’’میں تمہارا دستِ راست بن جاؤں گا لیکن ایک شرط ہے جو دراصل ہماری ضرورت ہے۔ تم دیکھ رہی ہوکہ بنو تمیم کے قبیلوں میں دشمنی پیدا ہو چکی ہے۔ ان سب کو مصالحت کی دعوت دے کر انہیں مدینہ پر حملہ کیلئے تیار کریں گے ۔اگر یہ مصالحت پر آمادہ نہ ہوئے تو ہم انہیں تباہ و بربادکر دیں گے۔اگر تم نے انہیں ختم نہ کیا تو یہ سب مل کر تمہارے خلاف ہو جائیں گے۔ ان میں مدینہ کے وفادار بھی ہیں، انہوں نے سچے دل سے اسلام قبول کرلیا ہے۔‘‘مالک بن نویرہ کی خواہش یہ تھی کہ سجاع کے لشکر کو ساتھ ملا کر بنی تمیم کے مسلمانوں کو اور اپنے دیگر مخالفین کو ختم کیاجائے ۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ سجاع ،مالک بن نویرہ کے مردانہ حسن و جلال سے متاثر ہو گئی تھی ۔اس نے مالک کی بات فوراً مان لی ۔دونوں نے تمام قبیلوں کے سرداروں کو مصالحت کے پیغامات بھیجے۔پیغام میں یہ بھی شامل تھا کہ مدینہ پر حملہ کیا جائے گا۔ صرف ایک قبیلے کا سردار’’ وکیع بن مالک‘‘ تھا جس نے ان سے مصالحت قبول کرلی۔باقی تمام قبیلوں نے انکار کر دیا۔اس کے نتیجے میں سجاع ،مالک اور وکیع کے متحدہ لشکر نے دوسرے قبیلوں پر حملہ کردیا۔بڑی خونریز لڑائیاں لڑی جانے لگیں۔بنو تمیم جو سخاوت، مہمان نوازی اور زبان کی چاشنی کیلئے مشہور تھے ۔
ایک دوسرے کیلئے وحشی اور درندے بن گئے ۔بستیاں اجڑ گئیں ،خون بہہ گیا ،لاشیں بکھر گئیں ۔لیلیٰ کو اپنے دروازے پر عورتوں کی آہ و بکا سنائی دی۔کچھ عورتیں بَین کر رہی تھیں۔’’کیا میں بیوہ ہو گئی ہوں ؟‘‘لیلیٰ ننگے پاؤں باہر کو دوڑی ۔وہ کہہ رہی تھی۔’’ مالک بن نویرہ کی لاش لائے ہیں۔‘‘اس نے دروازہ کھولا تو باہر دس بارہ عورتیں کھڑی بَین کر رہی تھیں۔لیلیٰ کو دیکھ کر ان کی آہ و زاری اور زیادہ بلند ہو گئی ۔تین عورتوں نے اپنے بازوؤں پر ننھے ننھے بچوں کی لاشیں اٹھا رکھی تھیں ۔لاشوں پر جو کپڑے تھے وہ خون سے لال تھے۔’’لیلیٰ کیا تو عورت ہے؟‘‘ایک عورت اپنے بچے کی خون آلود لاش لیلیٰ کے آگے کرتے ہوئے چلائی ۔’’تو عورت ہوتی تو اپنے خاوند کا ہاتھ روکتی کہ بچوں کا خون نہ کر۔‘‘’’یہ دیکھ۔‘‘ایک اور عورت نے اپنے بچے کی لاش لیلیٰ کے آگے کرتے ہوئے کہا۔’’یہ بھی دیکھ۔‘‘ایک اور بچے کی لاش لیلیٰ کے آگے آگئی۔’’یہ دیکھ میرے بچے ۔‘‘ایک عورت نے اپنے دو بچے لیلیٰ کے سامنے کھڑے کرکے کہا۔’’یہ یتیم ہو گئے ہیں ۔‘‘لیلیٰ کو چکر آنے لگا۔عورتوں نے اسے گھیر لیا اور چیخنے چلانے لگیں۔’’تو ڈائن ہے۔‘‘’’تیرا خاوند جلاد ہے۔‘‘’’سجاع کو نبوت کس نے دی ہے؟‘‘’’سجاع تیرے خاوند کی داشتہ ہے۔‘‘’’سجاع تیری سوکن ہے۔‘‘’’تیرے گھر میں ہمارے گھروں کا لوٹا ہوا مال آ رہا ہے۔‘‘’’مالک بن نویرہ تجھے ہمارے بچوں کا خون پلا رہا ہے۔‘‘’’ہمارے تمام بچوں کو کاٹ کر پھینک دے ،ہم سجاع کی نبوت نہیں مانیں گی۔‘‘’’ہمارے نبی محمدﷺ ہیں ۔محمدﷺ ﷲ کے رسول ہیں۔‘‘بستی کے لوگ اکھٹے ہوگئے ۔ان میں عورتیں زیادہ تھیں۔ لیلیٰ نے اپنا حسین چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا۔اس کا جسم ڈولنے لگا۔دو عورتوں نے اسے تھام لیا۔اس نے اپنے سر کو زور زور سے جھٹکا اور وہ سنبھل گئی۔ اس نے عورتوں کی طرف دیکھا ۔’’میں تمہارے بچوں کے خون کی قیمت نہیں دے سکتی۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’میرا بچہ لے جاؤ اور اسے کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دو۔‘‘’’ہم چڑیلیں نہیں۔‘‘ایک شور اٹھا ۔’’ہم ڈائنیں نہیں۔لڑائی بند کراؤ۔لوٹ مار اور قتل و غارت بند کراؤ۔تمہارا خاوند وکیع بن مالک اور سجاع کے ساتھ مل کر لوٹ مار کر رہا ہے ۔‘‘’’لڑائی بند ہو جائے گی۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’بچوں کی لاشیں اندر لے آؤ۔‘‘مائیں اپنے بچوں کی لاشیں اندر لے گئیں۔ لیلیٰ نے تینوں لاشیں اس پلنگ پر رکھ دیں جس پر وہ اور مالک بن نویرہ سویا کرتے تھے۔
مالک بن نویرہ لیلیٰ کا پجاری تھا۔اس پر لیلیٰ کا حسن جادو کی طرح سوار تھا۔اس زمانے میں سردار اپنی بیویوں کو لڑائیوں میں اپنے ساتھ رکھتے تھے۔لیکن یہ لڑائی اس قسم کی تھی کہ مالک لیلیٰ کو اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا تھا۔لیلیٰ سے وہ زیادہ دیرتک دور بھی نہیں رہ سکتا تھا۔اگر کہیں قریب ہوتا تو رات کو لیلیٰ کے پاس آجایا کرتا تھا۔وہ اس رات آ گیا۔ پلنگ پر کوئی سویا ہوا ہے؟‘‘مالک بن نویرہ نے پوچھا۔’’نہیں۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’تمہارے لیے ایک تحفہ ڈھانپ کر رکھا ہوا ہے……تین پھول ہیں لیکن مرجھا گئے ہیں۔‘‘مالک نے لپک کر چادر ہٹائی اور یوں پیچھے ہٹ گیا جیسے پلنگ پہ سانپ کنڈلی مارے بیٹھاہو۔اس نے لیلیٰ کی طرف دیکھا۔’’خون پینے والے درندے کیلئے اس سے اچھا تحفہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔‘‘لیلیٰ نے کہا اور اسے سنایا کہ ان کی مائیں کس طرح آئی تھیں اور کیا کچھ کہہ گئی ہیں۔اس نے اپنا دودھ پیتا بچہ مالک کے آگے کر کے کہا۔’’جا!لے جا اسے اور اس کا بھی خون پی لے۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’کیا تو وہ مالک بن نویرہ ہے جسے لوگ ہنس مکھ کہتے ہیں؟کیایہ ہے تیری سخاوت اور شجاعت کہ تو ایک عورت کے جال میں آکر لوٹ مار کرتا پھر رہا ہے ؟اگر تو بہادر ہے تو مدینہ پر چڑھائی کر۔یہاں نہتے مسلمانوں کو قتل کرتا پھر رہا ہے۔‘‘مالک بن نویرہ معمولی آدمی نہیں تھا۔اس کی شخصیت میں انفرادیت تھی جودوسروں پر تاثر پیدا کرتی تھی۔اس نے طعنے کبھی نہیں سنے تھے۔اس کا سر کبھی جھکا نہیں تھا۔’’کیایہ ہے تیرا غرور؟‘‘لیلیٰ نے اسے خاموش کھڑا دیکھ کر کہا۔’’کیا تو ان معصوم بچوں کی لاشوں پر تکبر کرے گا؟……ایک عورت کی خاطر……ایک عورت نے تیرا غرور اور تکبر توڑ کر تجھے قاتل اور ڈاکو بنا دیا ہے۔میں اپنے بچے کو تیرے پاس چھوڑ کر جا رہی ہوں۔پیچھے سے ایک تیر میری پیٹھ میں اتار دینا۔‘‘ ’’لیلیٰ!‘‘مالک بن نویرہ گرج کربولا مگر بجھ کہ رہ گیااور مجرم سی آواز میں کہنے لگا۔’’میں کسی عورت کے جال میں نہیں آیا۔‘‘’’جھوٹ نہ بول مالک!‘‘ لیلیٰ نے کہا۔’’میں جا رہی ہوں۔سجاع کو لے آ یہاں ……یہ یاد رکھ لے۔تیری سرداری ،تیری خوبصورتی ،تیری شاعری اور تیری خونخواری تجھے ان مرے ہوئے بچوں کی ماؤں کی آہوں اور فریادوں سے بچا نہیں سکیں گی۔یہ تو صرف تین لاشیں ہیں ۔بستیوں کولوٹتے معلوم نہیں کتنے بچے تیرے گھوڑوں کے قدموں تلے کچلے گئے ہوں گے۔تو سزا سے نہیں بچ سکے گا ۔تیرا بھی خون بہے گا اور میں کسی اور کی بیوی ہوں گی۔‘‘ مالک بن نویرہ نے یوں چونک کر لیلیٰ کی طرف دیکھا جیسے اس نے اس کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا ہو ۔وہ آہستہ آہستہ چلتا باہر نکل گیا۔مالک رات بھر واپس نہ آیا۔صبح طلوع ہوئی ۔بطاح جو بارونق بستی تھی ،ایک ایسے مریض کی طرح دکھائی دے رہی تھی جو کبھی خوبرو جوان ہوا کرتا تھا۔اب اس کا چہرہ بے نور اور آنکھوں میں موت کا خوف رچا ہوا تھا۔بطاح کی عورتوں کے چہروں پر مُردنی چھائی ہوئی تھی۔یہ اس مار دھاڑ کا نتیجہ تھا جو بنو تمیم میں ہو رہی تھی۔سورج کی پہلی کرنیں آئیں تو بطاح کی گلیوں میں ڈری ڈری سی داخل ہوئیں۔اس وقت سورج کچھ اور اوپر اٹھ آیا تھا۔
جب بطاح میں ہڑ بونگ مچ گئی۔ بعض عورتیں بچوں کو اٹھا کر گھروں کو دوڑی گئیں اور اندر سے دروازے بند کر لیے۔ کچھ عورتیں اپنی جوان بیٹیوں کو ساتھ لیے بستی سے نکل گئیں۔ وہ کہیں چھپ جانے کو جا رہی تھیں۔ بوڑھے آدمی کمانیں اور ترکش اٹھائے چھتوں پر چڑھ گئے۔ بوڑھوں کے علاوہ جو آدمی بستی میں تھے۔ انہوں نے برچھیاں اور تلواریں نکال لیں۔ کسی نے بڑی بلند آواز سے کہہ دیا تھا کہ دشمن کا لشکر آ رہا ہے۔ دور زمین سے جو گرد اٹھ رہی تھی وہ کسی لشکر کی ہی ہو سکتی تھی۔ بطاح میں جوان آدمی کم ہی رہ گئے تھے۔ سب مالک بن نویرہ کے ساتھ دوسرے قبیلوں کی لڑائی میں چلے گئے تھے ۔ بطاح میں جو رہ گئے تھے ان پر خوف وہراس طاری ہو گیا تھا۔ لیلیٰ کے گھر میں پلنگ پر تین بچوں کی لاشیں پڑی تھیں اور وہ اپنے بچے کو سینے سے لگائے اپنے قلعہ نما مکان کی چھت پر کھڑی تھی۔ وہ بار بار اپنے بچے کو دیکھتی اور چومتی تھی۔ وہ شاید یہ سوچ رہی تھی کہ بچوں کے خون کا انتقام اس کے بچے سے لیا جائے گا۔ زمین سے اٹھتی ہوئی گرد بہت قریب آ گئی تھی اور اس میں گھوڑے اور اونٹ ذرا ذرا دکھائی دینے لگے تھے۔’’ہوشیار بنو یربوع خبردار!‘‘بطاح میں کسی کی واز سنائی دی۔’’جانیں لڑا دو۔ ڈرنا نہیں۔‘‘ لشکر گرد سے نکل آیا اور قریب آ گیا۔ بستی کے کئی ایک آدمی گھوڑوں پر سوار ،ہاتھوں میں برچھیاں اور تلواریں لیے آگے چلے گئے۔ ان کا انجام ظاہر تھا لیکن انہیں اپنی طرف آتے دیکھ کر لشکر کی ترتیب میں کوئی فرق نہ آیا۔ آگے جا کر وہ لشکر کا حصہ بن گئے۔ ’’اپنے ہیں۔‘‘ انہوں نے نعرے لگائے۔ ’’اپنے ہیں……مالک بن نویرہ ہے ……لڑائی ختم ہو گئی ہے۔‘‘ بطاح میں سے بھی نعرے گرجنے لگے۔ لوگوں نے آگے بڑھ کر اپنے لشکر کااستقبال کیا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں