⚔ شمشیر بے نیام ⚔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
( قسط نمبر-27 )
’’کم فہم خاتون!‘‘مجاعہ نے فاتحانہ مسکراہٹ سے کہا۔’’کیا تجھے ابھی تک احساس نہیں ہوا کہ خدا مسیلمہ کے ساتھ ہے جو اس کا سچا نبی ہے؟ محمد ﷺکی رسالت سچی ہوتی……‘‘’’مجاعہ!‘‘ لیلیٰ نے گرج کر اس کی بات وہیں ختم کر دی اور بولی۔’’اگر تو نے محمد کی رسالت کے خلاف کوئی بات کی تو مجھ پر تیرا قتل فرض ہو جائے گا۔ میں دیکھ رہی ہوں کہ میرا لشکرمجھے اس خیمہ گاہ میں اکیلا چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔ جہاں میرے دین کے دشمن لوٹ مار کر رہے ہیں۔ لیکن میرے دل پر ذرا سا بھی خوف نہیں۔ خوف اس لئے نہیں کہ مجھے ﷲ پر پورا بھروسہ ہے۔‘‘مجاعہ خاموش رہا اور وہ کچھ دیر نظریں لیلیٰ کے چہرے پر گاڑے رہا۔ باہر فاتح لشکر کا فاتحانہ غل غپاڑہ تھا۔وہ مسلمانوں کے خیموں کو پھاڑ پھاڑ کر ان کے ٹکڑے بکھیر رہے تھے۔مجاعہ اور لیلیٰ کو توقع تھی کہ ابھی مسیلمہ کے آدمی آئیں گے اوردونوں کو ساتھ لے جائیں گے لیکن اچانک غل غپاڑہ ختم ہو گیا اور لوٹ مار کرنے والے لوگ بھاگتے دوڑتے خیمہ گاہ سے نکل گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسیلمہ کی طرف سے حکم آیا تھا کہ فوراً واپس میدانِ عقربا میں پہنچو کیونکہ مسیلمہ نے دیکھ لیا تھا کہ مسلمان بڑی تیزی سے اکھٹے ہو کر منظم ہو رہے تھے۔ مسیلمہ کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا۔وہ مسلمانوں کی شجاعت اور ان کے جذبے سے مرعوب تھا۔ مجاعہ اور لیلیٰ خیمے میں اکیلے رہ گئے۔ مجاعہ کے چہرے پہ جو رونق آئی تھی وہ پھر بجھ گئی۔خالدؓ اتنی جلدی ہارماننے والے نہیں تھے ۔ضائع کرنے کیلئے ان کے پاس ایک لمحہ بھی نہیں تھا۔انہوں نے اپنے سالاروں اور کمانداروں کو اکھٹا کیا اور انہیں اس پسپائی پر شرم دلائی ،اتنے میں ایک گھوڑا سر پٹ دوڑتا آیا اور سالاروں وغیرہ کے اجتماع میں آ رکا۔ وہ عمرؓ کے بھائی زیدؓ بن خطاب تھے۔ ’’خداکی قسم ابنِ ولید!‘‘زیدؓ بن خطاب نے گھوڑے سے کود کر اترتے ہوئے جوشیلی آواز میں کہا۔’’میں نے مسیلمہ کا دایاں ہاتھ کاٹ دیا ہے……میں نے نہارالرجال کواپنے ہاتھوں قتل کیا ہے۔ یہ ﷲ کا اشارہ ہے کہ فتح ہماری ہوگی۔‘‘نہارالرجال کا ہلاک ہو جانا مسیلمہ کیلئے کوئی معمولی نقصان نہیں تھا۔ بتایا جا چکا ہے کہ وہ مسیلمہ کا معتمدِ خاص واحد مشیر اور صحیح معنوں میں دستِ راست تھا۔ خالدؓ اور ان کے سالاروں نے یہ خبر سنی تو ان کے چہروں پر تازہ حوصلوں کی سرخی آ گئی۔’’کیا تم جانتے ہو کہ ہمیں کس جرم کی سزا ملی ہے؟ ‘‘خالدؓ نے غصیلی آواز میں کہا۔’’مجھے بتایا گیا ہے کہ ہمارے لشکر میں دل پھٹ گئے تھے ۔ لڑائی سے پہلے ہی ہمارے لشکر کے مہاجر کہنے لگے تھے کہ بہادری میں انصار اور بدّو ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ انصار کہتے تھے کہ مسلمانوں میں ان جیسا بہادر کوئی نہیں اور بدوؤں نے کہا کہ مکہ اور مدینہ کے لوگ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ جنگ ہوتی کیا ہے……تم جانتے ہو کہ ہم میں مکہ کے مہاجر بھی ہیں ،مدینہ کے انصار بھی ہیں اور اردگرد کے علاقوں سے آئے ہوئے بدو بھی ہمارے ساتھ ہیں،ان لوگوں نے ایک دوسرے پر طعنہ زنی شروع کر دی تھی۔‘‘ ’’اس کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں۔‘‘ایک سالار نے کہا۔ ’’میرے پاس اس کا علاج ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ہم نے لشکر میں ان سب کو اکھٹا رکھا ہوا ہے۔ مزید وقت ضائع کیے بغیر تم سب جاؤ اور مہاجرین کو الگ انصار کو الگ اور بدوؤں کو الگ کرلو۔‘‘تھوڑے سے وقت میں خالدؓ کے حکم کی تعمیل ہو گئی،لشکر تین حصوں میں تقسیم ہو چکاتھا۔ایک حصہ مہاجروں کا،دوسرا انصار کا اورتیسرا بدوؤں کا تھا۔
خالدؓ گھوڑے پر سوار ان کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔’’ﷲ کے سپاہیو!‘‘خالدؓ نے بڑی ہی بلند آواز میں کہا۔’’ہم نے میدان میں پیٹھ دکھا کر دشمن کیلئے ہنسی اورطعنہ زنی کا موقع پیدا کر دیا ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ تم میں سے کون بہادری سے لڑا اور کون سب سے پہلے بھاگ اٹھا……مہاجرین؟ انصار ؟ یابدو؟‘‘’’اب میں نے تمہیں اس لئے الگ الگ کر دیا ہے کہ دشمن پر فوراً جوابی حملہ کرنا ہے۔ اب دیکھیں گے کہ تم میں سے کون کتنا بہادر ہے۔ بہادری اور بزدلی کا فیصلہ طعنہ زنی سے نہیں کیا جا سکتا۔ میدان میں کچھ کر کے دکھاؤ لیکن اتحاد کو ہاتھ سے نہ جانے دینا۔ رسول ﷲﷺ نے تمہیں جس باہمی پیار کا سبق دیا تھا وہ بھول نہ جانا،تم میں سے کوئی گروہ دشمن کے دباؤ کوبرداشت نہ کرتے ہوئے پیچھے ہٹے تو دوسرے گروہ اس کی مدد کو پہنچیں۔ ہمیں دشمن پر ثابت کرنا ہے کہ مسیلمہ جھوٹا نبی ہے۔اگر ہم شکست کھا گئے تو یہ جھوٹی نبوت ہم پر مسلط ہو جائے گی،اور ہم مسیلمہ کے غلام اور ہماری عورتیں مرتدین کی لونڈیاں بن جائیں گی۔‘‘خالدؓ کے یہ الفاظ ان تیروں کی طرح کارگر ثابت ہوئے جو اپنے نشانے سے ادھر ادھر نہیں جایا کرتے۔ لشکر میں نیا جوش اور نیا ولولہ پیدا ہو گیا۔ ادھر مرتدین مجاہدین کی خیمہ گاہ لوٹ کر اورتباہ کرکے جا چکے تھے۔ ادھر سے مسلمان اشارہ ملتے ہی مسیلمہ کے لشکر کی طرف چل پڑے۔ مسیلمہ نے اپنے لشکر کو پھر حملہ روکنے کی ترتیب میں کر لیا تھا۔ جب مجاہدین ِ اسلام کا لشکر مقابلے میں پہنچا تو انصار سے ایک سردار ثابت بن قیس گھوڑے کو ایڑلگا کرلشکر کے سامنے آ گئے۔’’اے اہل ِمدینہ!‘‘ انہوں نے بلند آواز سے کہا۔’’تم ایک شرمناک مظاہرہ کر چکے ہو۔‘‘ثابت بن قیس نے دشمن کی طرف اشارہ کر کے کہا۔’’اے میرے ﷲ! جس کسی کی یہ لوگ عبادت کرتے ہیں میں اس پر لعنت بھیجتا ہوں۔‘‘انہوں نے مجاہدین کی طرف منہ کرکے کہا۔’’اے ﷲ!جو بری مثال میرے اس لشکر نے قائم کی ہے میں اس پر بھی لعنت بھیجتا ہوں۔‘‘اتنا کہہ کر ثابت بن قیسؓ نے نیام سے تلوار کھینچی اور گھوڑے کارخ دشمن کی طرف کے ایڑ لگادی۔ان کے آخری الفاظ یہ تھے۔’’دیکھو! میری تلوار دشمن کو مزہ چکھائے گی اور تمہیں ہمت اور استقلال کا نمونہ دکھائے گی۔‘‘ثابت بن قیس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اورخالدؓ نے حملے کا حکم دے دیا۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ ثابت بن قیس کی تلوار ایسی شدت اور ایسی مہارت سے چل رہی تھی کہ جو ان کے سامنے آیا وہ پھر اپنے پاؤں پر کھڑا نظر نہ آیا۔ان کے جسم کا شاید ہی کوئی حصہ رہ گیا ہو گا جہاں دشمن کی تلوار برچھی یا انی نہ لگی ہو۔ دشمن کی صفوں کے دور اندر جاکر ثابت بن قیس گرے اور شہید ہو گئے۔ اپنے لشکر کیلئے وہ واقعی ہمت اور استقلال کابے مثال نمونہ پیش کرگئے۔
محمد حسین ہیکل نے بعض مؤرخوں کے حوالے دے کر لکھا ہے کہ خالدؓ کے لشکر نے قسمیں کھالی تھیں کہ اب ان کی لاشیں ہی اٹھائی جائیں گی۔ وہ زندہ نہیں نکلیں گے۔ ایک مؤرخ نے لکھا ہے کہ انہوں نے قسم کھائی کہ ہاتھ میں ہتھیار نہ رہا ،ترکش میں تیر نہ رہا تو وہ دانتوں سے لڑیں گے۔ خالدؓ نے یہ مثال قائم کی کہ چند ایک جانباز چن کر اپنے ساتھ اس عزم سے کر لئے کہ جہاں لڑائی زیادہ خطرناک ہوگی وہاں ان جانبازوں کے ساتھ جا کودیں گے۔انہوں نے اپنے جانبازوں سے کہا۔ُ ’’تم سب میرے پیچھے رہنا۔‘‘ آگے وہ خود رہنا چاہتے تھے۔ دوبارہ لڑائی شروع ہوئی تو نئی مصیبت آن پڑی ۔آندھی آ گئی جس کا رخ مجاہدینِ اسلام کی طرف تھا۔ کچھ مؤرخ لکھتے ہیں کہ یہ صحرائی آندھی نہیں تھی بلکہ تیز ہوا تھی۔ میدانِ جنگ میں گھوڑوں اور پیادوں کی اڑاتی ہوئی گرد زمین سے اٹھتے بادلوں کی مانند تھی۔ تیز وتند ہوا کا رخ مجاہدین کی طرف تھا اس لئے مٹی اور ریت مسلمانوں کی آنکھوں میں پڑتی تھی۔ بدر میں کفار کے ساتھ ایسا ہی ہوا تھا ۔ہوا تیز ہوتی جا رہی تھی۔ کچھ مجاہدین نے زیدؓ بن خطاب سے پوچھا کہ ایسی آندھی میں وہ کیا کریں؟’’خدا کی قسم!‘‘زیدؓ بن خطاب نے گرجدار آواز میں کہا۔’’میں اپنے ﷲ سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے دشمن کو شکست دینے تک زندہ رکھے……اے اہلِ مکہ و مدینہ! آندھی سے مت ڈرو۔سروں کو ذرا جھکا کہ رکھو۔اس طرح ریت اور مٹی تمہاری آنکھوں میں نہیں پڑے گی۔پیچھے نہ ہٹ جانا۔ہمت سے کام لو۔استقلال کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔ آندھی اور طوفان تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔‘‘زیدؓ بن خطاب سالار تھے۔ انہوں نے مجاہدین کیلئے یہ مثال قائم کی کہ تلوار لہراتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ ان کے دستے ان کے پیچھے گئے۔ زیدؓ بن خطاب تلوار چلاتے ہوئے دورتک نکل گئے اور شہید ہو گئے۔ ایک اور سالار ابو حذیفہ ؓنے بھی یہی مثال قائم کی۔ وہ یہ نعرہ لگا کر دشمن پر ٹوٹ پڑے ۔’’اے اہلِ قرآن !اپنے اعمال سے قرآنِ حکیم کی ناموس کو بچاؤ۔‘‘وہ بھی مقابلے میں آنے والے ہر مرتد کو کاٹتے گئے ، زخم کھاتے گئے اور شہید ہو گئے۔ ان سالاروں نے جانیں دے کر مجاہدین کے عزم میں جان ڈال دی اور وہ آسمانی بجلیوں کی طرح دشمن پر ٹوٹ پڑنے لگے۔اس کے باوجود مسیلمہ کالشکر قائم و دائم تھا۔ خالدؓ نے میدانِ جنگ کا جائزہ لیا۔یہ ایسی جنگ تھی کہ جس میں چالیں چلنے کی ذرا سی بھی گنجائش نہیں تھی۔ یہ آمنے سامنے کی ٹکرتھی۔ اس میں صرف ذاتی شجاعت ہی کام آ سکتی تھی۔ خالدؓ نے میدانِ جنگ کا جائزہ لیتے ہوئے دیکھا کہ مسیلمہ کے محافظ اس کی حفاظت کیلئے جانیں قربان کر رہے ہیں ۔ خالدؓ کو فتح کاایک یہی طریقہ نظر آیا کہ مسیلمہ کو مار دیا جائے۔ یہ کام اتنا سہل نہیں تھا جتنی آسانی سے دماغ میں آیا تھا،لیکن خالدؓ ناممکن کو ممکن کر دکھانے کیلئے اس طرح مسیلمہ کی طرف بڑھے کہ ان کے جانبازوں نے ان کے گرد گھیرا ڈال رکھا تھا۔
جب قریب گئے تو مسیلمہ کے محافظوں نے ان پر ہلّہ بول دیا۔ خالدؓ کے قریب جو آیا وہ زندہ نہ رہا مگر مسیلمہ تک پہنچنا ممکن نظر نہیں آتا تھا۔ خالدؓ کے جانبازوں نے اپنی ترتیب بکھرنے نہ دی ۔ایک موزوں موقع دیکھ کر خالدؓ نے اپنے جانبازوں کو مل کر ہلّہ بولنے کا حکم دے دیا۔ خالدؓ خود بھی ہلّے میں شریک ہو گئے۔ کچھ محافظ پہلے ہی مر چکے تھے یا زخمی ہو کر تڑپ رہے تھے۔ خالدؓ کے جانبازوں کا ہلّہ اتنا شدید تھا کہ مسیلمہ کے محافظ بوکھلا گئے۔ میدانِ جنگ کی صورتِ حال یہ ہو گئی تھی کہ مجاہدین جو فتح یا موت کی قسمیں کھا چکے تھے وہ مرتدین پر ایک خوف بن کر چھا رہے تھے۔مسیلمہ کو اپنی حفاظت کیلئے کوئی اور محافظ نہیں مل سکتا تھا۔ مسلمانوں کے نعروں کے ساتھ آندھی کی چیخیں میدانِ جنگ کی ہولناکی میں اضافہ کر رہی تھیں۔مسیلمہ کے بچے کھچے محافظ گھبرانے لگے۔ خالدؓ کے جانبازوں نے ان کا حلقہ توڑ دیا۔’’یا نبی!‘‘ کسی محافظ نے کہا۔’’اپنا معجزہ دکھا۔‘‘’’اپنا وعدہ پوراکر ہمارے نبی!‘‘ایک اور محافظ نے کہا۔’’تیرا وعدہ فتح کا تھا۔‘‘مسیلمہ نے موت کو اپنی طرف تیزی سے بڑھتے دیکھا تو اس نے بلند آواز سے اپنے محافظوں سے کہا۔’’اپنے حسب و نسب اور اپنی ناموس کی خاطر لڑو۔‘‘اور وہ بھاگ اٹھا۔ دشمن کا قلب ٹوٹ گیا۔ پرچم غائب ہو گیا تو مرتدین میں شور اٹھا۔’’نبی میدان چھوڑ گیا ہے……رسول بھاگ گیا ہے۔‘‘اس پکار نے مرتدین کے حوصلے توڑ ڈالے اور وہ میدان سے نکلنے لگے۔ تھوڑی سی دیر میں مرتدین میدان چھوڑ گئے ،لیکن میدانِ جنگ کی کیفیت یہ تھی کہ خون ندی کی طرح ایک طرف کو بہنے لگا۔ جہاں یہ معرکہ لڑا گیا وہ تنگ سی گھاٹی تھی۔ اس کا کوئی نام نہ تھا۔ اس معرکے نے اسے ایک نام دے دیا۔ یہ تھا شعیب الدم جس کے معنی ہیں خونی گھاٹی۔دونوں لشکروں کا جانی نقصان اتنا زیادہ ہوا کہ میدان میں لاشوں کے اوپر لاشیں پڑی تھیں۔زخمی تو ہزاروں کی تعداد میں تھے۔مسیلمہ کے لشکر کا جانی نقصان اس کی تعداد کی زیادتی کی وجہ سے زیادہ تھا۔ مسلمانوں کا جانی نقصان بھی کچھ کم نہ تھا۔کئی زخمی گھوڑے بے لگام ہوکر لاشوں اور زخمیوں کو روند رہے تھے۔ انہوں نے کئی اچھے بھلے آدمیوں کو کچل ڈالا۔مسیلمہ کا لشکر جب بددل ہو کربھاگا تو مجاہدین ان کے تعاقب میں گئے۔ مسیلمہ کا ایک سالار محکم بن طفیل اپنے لشکر کو پکار رہا تھا۔’’بنو حنیفہ! باغ کے اندر چلے جاؤ۔‘‘انہیں اب باغ میں ہی پناہ مل سکتی تھی۔اس باغ کا نام حدیقۃ الرحمٰن تھا جو وسیع و عریض تھا۔ اس کے اردگرد دیوار تھی۔ مسیلمہ اس باغ میں چلا گیا تھا۔باغ میدانِ جنگ کے بالکل قریب تھا۔ مسیلمہ کے لشکر کے بچے کھچے آدمی بھی اس میدان میں داخل ہو گئے۔جب مجاہدین باغ کے قریب پہنچے تو باغ کے دروازے بند ہو چکے تھے ۔مؤرخین کے مطابق باغ میں پناہ لینے والے مرتدین کی تعداد سات ہزار تھی۔خالدؓ گھوڑا دوراتے باغ کے اردگرد گھوم گئے ۔انہیں اندر جانے کا کوئی رستہ نظر نہ آیا۔ اندر جانا ضروری تھا۔مسیلمہ کو قتل کرنا تھا کہ یہ فتنہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے۔ﷲ کے ایک مجاہد براءؓ بن مالک آگے بڑھے اور بولے۔’’مجھے اٹھا کے دیوار کے اندر پھینک دو۔ خدا کی قسم! دروازہ کھول دوں گا۔‘‘براءؓ بن مالک صحابہ کرامؓ میں خصوصی درجہ رکھتے تھے ۔
کسی نے بھی یہ گوارا نہ کیا کہ انہیں باغ کے اندر پھینک دیا جائے لیکن انہوں نے اتنا زیادہ اصرار کیا کہ دو تین مجاہدین نے انہیں اپنے کندھوں پر کھڑا کر دیااور وہ دیوار پر جاکر باغ میں کود گئے۔ باغ میں دشمن کے سات ہزار آدمی تھے اور براءؓ اکیلے۔ سات ہزار کفار میں ایک مسلمان کا کود جانا ایسے ہی تھا جیسے کوئی آتش فشاں پہاڑ کے دہانے کے اندر کود گیا ہو۔براءؓ بن مالک سراپا عشق تھے جو آتشِ نمرود میں کود گئے تھے۔انہوں نے باغ کا دروازہ اندر سے کھولنے کا بے حد خطرناک کام کسی کے حکم کے بغیر اپنے ذمے لے لیا تھا۔انہوں نے دروازے کے قریب سے دیوار پھاندی تھی۔ سات ہزار بنو حنیفہ جو باغ کے اندر چلے گئے تھے اور جنہوں نے دروازہ بند کر لیا تھا ،ابھی افراتفری کے عالم میں تھے۔انہیں معلوم تھا کہ مسلمان ان کے تعاقب میں آگئے ہیں اور انہوں نے باغ کو محاصرے میں لے لیا ہے لیکن وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کوئی مسلمان اکیلا دیوار پھاند کر اندر آنے کی جرات کر سکتا ہے۔’’وہ کون ہے؟‘‘کسی نے بڑی بلند آواز میں کہا۔’’وہ دروازہ کھول رہا ہے۔‘‘’’کاٹ دو اسے!‘‘کوئی مرتد للکارا۔’’گردن مار دو۔‘‘ایک اور للکارا۔’’پکڑ لو،مار ڈالو۔‘‘ایک شور اٹھا۔ بے شمارمرتد تلوریں اور برچھیاں تانے براءؓ بن مالک کی طرف دوڑے۔براءؓ ابھی دروازہ کھول نہیں سکے تھے ۔ انہوں نے تلوار نکالی اور بنو حنیفہ کا جو آدمی سب سے پہلے ان تک پہنچا تھا۔ اسے براءؓ کی تلوار کے بھرپور وار نے وہیں روک دیا۔وہ لڑکھراتا ہوا پیچھے ہٹا۔ براءؓ نے ایک بار پھر دروازہ کھولنے کی کوشش کی۔ وہ بروقت پیچھے کو گھومے بیک وقت دو آدمیوں نے ان پر برچھیوں کے وار کیے تھے۔ براءؓ پھرتی سے ایک طرف ہو گئے دونوں برچھیوں کی انیاں جو براءؓ کے جسم میں اترنے کیلئے آئی تھیں دروازے میں اتر گئیں۔ براءؓ نے بڑی تیزی سے تلوار چلائی اور دونوں آدمیوں کو اس وقت گھائل کر دیا جب وہ دروازے میں سے برچھیاں نکال رہے تھے۔ کئی مرتد براءؓ بن مالک پر مل کر حملہ کرتے تھے اور براءؓ دروازے کے ساتھ پیٹھ لگائے بڑی تیزی سے تلوار چلا رہے تھے ان کی زبان سے دو ہی نعرے گرجتے تھے ’’ﷲ اکبر۔۔ محمد رسول ﷲ ‘‘وہ وار روکتے وار کرتے اور دروازے کھولنے کی کوشش کرتے تھے۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ براءؓ بن مالک نے بنو حنیفہ کے بہت سے آدمیوں کو ہلاک اور زخمی کردیا اور دروازہ کھول دیا۔ بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ براءؓ بن مالک کے پیچھے چند اور مسلمان دیوار پھاند کر اندر چلے گئے تھے، جنہوں نے تیروں سے مرتدین کو دور رکھا اور براءؓ بن مالک نے دروازہ کھول دیا۔اس پر تمام مؤرخ متفق ہیں کہ سب سے پہلے براءؓ بن مالک دیوار پھاند کر اندر گئے تھے۔ دروازہ کھلتے ہی مسلمان اس طرح دروازے میں سے اندر جانے لگے جیسے نہر کا کنارا کہیں سے ٹوٹ گیا ہو۔ بہت سے مسلمان خالدؓ کے کہنے پر دیوار پر چڑھ گئے یہ سب تیر انداز تھے انہوں نے بنو حنیفہ پر تیروں کا مینہ برسا دیا۔ مسلمان جو اند رچلے گئے تھے وہ بنو حنیفہ پر قہر کی مانند ٹوٹے۔ مرتدین کا قتلِ عام ہونے لگا ۔ان کے بھاگ نکلنے کے راستے مسدود ہو چکے تھے وہ اب زندہ رہنے کیلئے لڑ رہے تھے۔ ان کا نبی خواہ جھوٹا ہی تھا ان کے ساتھ تھا۔اس کی للکار سنائی دے رہی تھی اور وہ بڑی بے جگری سے لڑ رہے تھے۔
مرتدین کی تعداد بہت زیادہ تھی جو بڑی تیزی سے کم ہوتی جا رہی تھی ۔ باغ خون سے سیراب ہو رہا تھا ۔ خالدؓ کے ذہن میں یہی ایک ارادہ تھا کہ مسیلمہ کو قتل کیا جائے ورنہ لڑائی ختم نہیں ہوگی لیکن مسیلمہ کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ مسیلمہ کذاب خالدؓ کو تو نظر نہیں آ رہا تھا ایک اور انسان تھا جس کی عقابی نگاہوں نے مسیلمہ کو دیکھ لیا تھا۔ وہ حبشی غلام وحشی ؓبن حرب تھے۔برچھی نشانے پر پھینکنے میں وحشی کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہ تھا۔ اس نے ایک بار اپنی برچھی کا کمال سب کو دکھایا تھا ۔ایک رقاصہ کے سر پر ایک کڑا جوکانچ کے اوسط سائز کا تھا اس کے بالوں کے ساتھ اس طرح باندھ دیا گیا تھا کہ کڑا اس کے سر پر کھڑا تھا۔ وہ ناچنے لگی اور وحشی برچھی لے کر چند قدم دور کھڑا ہو گیا۔ اس نے برچھی ہاتھ میں اٹھاکر تولی ،رقاصہ رقص کر رہی تھی ۔جونہی رقاصہ موزوں زاویہ پر آئی ،وحشی نے تاک کر برچھی پھینکی، برچھی رقاصہ کے سر پر کھڑے کڑے میں سے گزر گئی۔ جنگِ احد میں وحشی بن حرب نے رسول کریمﷺ کے چچا حمزہ ؓبن عبدالمطلب کو اسی طرح برچھی پھینک کر شہید کیا اور ابو سفیان کی بیوی ہند سے انعام وصول کیاتھا۔ اس وقت وحشی مسلمان نہیں ہوا تھا۔ فتحِ مکہ کے بعد اس نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ اب مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ میں وحشی ؓمسلمانوں کے لشکر میں تھا۔ باغ کے خونریز معرکے میں اس نے مسیلمہ کو دیکھ لیا تھا۔ اس نے خالدؓ کی زبان سے سن لیا تھا کہ مسیلمہ کوختم کیے بغیر لڑائی ختم نہیں ہو گی۔وحشیؓ مسیلمہ کی تلاش میں دشمن کی تلواروں اور برچھیوں سے اور اپنے ساتھیوں کے تیروں سے بچتا، لاشوں اور تڑپتے ہوئے زخمیوں سے ٹھوکریں کھاتا سارے باغ میں گھوم گیا اوراسے مسیلمہ نظر آگیا۔ مسیلمہ اپنے محافظوں کے نرغے میں تھا جو اس قدر جانبازی کامظاہرہ کر رہے تھے کہ کسی مسلمان کوقریب نہیں آنے دیتے تھے۔وحشی کو قریب جانے کی ضرورت نہیں تھی ۔ مسلمان مسیلمہ کے محافظوں کے ساتھ لڑ رہے تھے اور ان کے اردگرد وحشیؓ گھوم رہا تھا کہ مسیلمہ پر برچھی پھینکنے کا موزوں موقع اور صحیح زاویہ مل جائے۔ اسے ایک موقع مل گیا۔ لیکن اس کے راستے میں ایک خاتون اُم عمارہ ؓآ گئیں وہ بھی مسیلمہ تک پہنچنے کی سعی کر رہی تھیں ۔ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ تھیں۔ وہ مسیلمہ کے محافظوں کا حصار توڑنے کیلئے آگے بڑھیں تو ایک مرتد کی تلوار نے انہیں روک لیا ۔اُم عمارہ ؓنے اپنی تلوار سے اسے گرانے کی بہت کوشش کی لیکن مرتد کے ایک وار نے اُم عمارہ ؓکا ایک ہاتھ صاف کاٹ دیا ۔ان کے بیٹے نے تلوار کے ایک ہی وار سے اس مرتد کو مار گرایا اور یہ مجاہد اپنی ماں کو ساتھ لے گیا ۔ وحشیؓ کو موقع اور زاویہ مل گیا۔ اس نے برچھی کو ہاتھ میں تولا اور تاک کرپوری طاقت سے برچھی مسیلمہ پر پھینکی ۔ برچھی مسیلمہ کے پیٹ میں اتر گئی ۔اس کے ہاتھوں نے برچھی کو پکڑ لیا لیکن برچھی اپنا کام کر چکی تھی۔ مسیلمہ کے ہاتھوں میں برچھی کو پیٹ سے نکالنے کی سکت نہیں تھی ۔مسیلمہ گرا ،اسے مرنا ہی تھا۔ لیکن ابو دجانہؓ نے اسے تڑپ تڑپ کر مرنے کی اذیت سے اس طرح بچا لیا کہ اس کا سرتلوار کے ایک زور دار وار سے اس کے دھڑ سے الگ کر دیا۔ابو دجانہؓ مسیلمہ کی سر کٹی لاش ابھی دیکھ ہی رہے تھے کہ مسیلمہ کے ایک محافظ نے پیچھے سے اتنا سخت وار کیا کہ ابو دجانہؓ گرے پھر اٹھ نہ سکے اور شہید ہو گئے۔’’بنو حنیفہ……‘‘ ایک مرتد گلا پھاڑ کر چلایا۔’’ہمارے نبی کو ایک سیاہ فام حبشی نے مار ڈالا ہے ۔‘‘مشہور مؤرخ ابنِ ہشام نے لکھا ہے کہ باغ کے اندر معرکے کی خونریزی میں یہ آوازیں سنائی دینے لگیں ۔’’نبی مارا گیا۔ مسیلمہ قتل ہو گیا ہے۔‘‘ مسیلمہ کذاب کے قتل کا سہرا بلا شک و شبہہ وحشی ؓبن حرب کے سر ہے۔ وحشی ؓکی زندگی عجیب گزری ہے۔ بتایا جا چکا ہے کہ اس نے بالکل اسی طرح جس طرح اس نے مسیلمہ کو برچھی کھینچ کر قتل کیا تھا ،حمزہؓ کو جنگِ احد میں شہید کیا تھا۔جب مسلمانوں نے مکہ فتح کرلیا تو رسول ﷲﷺ نے مکہ کے چند لوگوں کو جنگی مجرم قرار دیا تھاان میں وحشی کا نام بھی تھا۔ اسے کسی طرح پتا چل گیا تھا کہ اسے مسلمان زندہ نہیں رہنے دیں گے وہ مکہ سے نکل گیا اور طائف میں قبیلہ ثقیف کے ہاں جا پناہ لی۔ قبیلہ ثقیف کو مسلمانوں نے جس طرح شکست دی تھی وہ بیان ہو چکا ہے ،اس قبیلے نے اسلام قبول کیا اور وحشی ؓنے بھی اسلام قبول کر لیااور بیعت کیلئے اور اپنی جان بخشی کیلئے رسولِ کریمﷺ کے حضور گیا ۔آپﷺ نے اسے کئی بر س پہلے دیکھا تھا.
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں