شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 26





⚔ شمشیرِ بے نیام ⚔

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

(قسط نمبر-26)


عکرمہؓ سوچے سمجھے بغیربڑھتے گئے اور یمامہ کے قریب پہنچ گئے ۔ وہ چونکہ جذبات سے مغلوب ہو کر جا رہے تھے اس لئے احتیاط نہ کر سکے کہ دشمن دیکھ رہاہو گا،انہیں مسیلمہ کے جاسوسوں نے دیکھ لیا اور مسیلمہ کو اطلاع دی۔ ایک اور علاقے میں جہاں اونچے ٹیلے اور ٹھیکریاں تھیں،عکرمہ ؓکو مسیلمہ کے کچھ آدمی دکھائی دیئے۔ عکرمہؓ نے ان پر حملہ کر دیامگر یہ مسیلمہ کا بچھایا ہوا جال تھا۔ مسیلمہ نے وہاں خاصا لشکر چھپا رکھا تھا۔ جس نے دائیں بائیں سے عکرمہؓ کے لشکرپر حملہ کر دیا۔ عکرمہؓ اس غیر متوقع صورتِ حال میں سنبھل نہ سکے ۔ مسیلمہ کے لشکر نے انہیں سنبھلنے دیا ہی نہیں۔ عکرمہؓ کے ساتھ نامی گرامی اور تجربہ کارسالاراور کماندار تھے۔ لیکن میدان دشمن کے ہاتھ تھا۔ اس نے مسلمانوں کی کوئی چال کامیاب نہ ہونے دی۔ عکرمہؓ کو نقصان اٹھاکر پسپا ہونا پڑا۔عکرمہؓ اپنی اس شکست کو چھپا نہیں سکتے تھے۔ چھپا لیتے تو لشکر میں سے کوئی مدینہ اطلاع بھیج دیتا۔ چنانچہ عکرمہ ؓنے خلیفۃ المسلمین ؓ کو لکھ بھیجا کہ ان پر کیا گزری ہے۔خلیفہ ابو بکرؓ کو سخت غصہ آیا۔ انہوں نے عکرمہؓ کو واضح حکم دیا تھا کہ شرجیل ؓکا انتظار کریں اور اکیلے مسیلمہ کے سامنے نہ جائیں۔ مگر عکرمہؓ نے جلد بازی سے کام لیا تھا۔ ابو بکرؓ نے عکرمہؓ کو جو تحریری پیغام بھیجا تھا اس میں غصے کا اظہار اس طرح سے کیا تھاکہ عکرمہؓ کو ابنِ ابو جہل لکھنے کے بجائے ابنِ امِ عکرمہ (عکرمہ کی ماں کے بیٹے) لکھا،یہ عربوں میں رواج تھا کہ کسی کی توہین مقصود ہوتی تو اس کے باپ کے نام کے بجائے اسے اس کی ماں سے منسوب کرتے تھے۔خلیفہ المسلمین ؓنے لکھا: ’’اے ابنِ اُمِ عکرمہ! میں یہ بھی نہیں چاہتا ہوں کہ تم مدینہ آؤ۔ تمھارے یہاں آنے سے لوگوں میں مایوسی پھیلے گی ۔ مدینہ سے دور رہو۔تم اب یمامہ کا علاقہ چھوڑ دو اور حذیفہ کہ ساتھ جا ملو اور اہلِ عمان سے لڑو۔ وہاں سے فارغ ہوکر عرفجہ کی مدد کیلئے مہرہ چلے جانا،اس کے بعد یمن جاکر مہاجر بن امیہ سے جا ملنا۔ جب تک تم سالاری کے معیار پر پورے نہیں اترتے ،مجھ سے ملاقات نہ کرنا ۔میں تم سے بات تک نہیں کروں گا۔‘‘ خلیفۃ المسلمین ابو بکرؓ نے شرجیل کو پیغام بھیجا کہ وہ جہاں ہیں وہیں رہیں اور جب خالد ؓ آئیں تو اپنا لشکر ان کے ساتھ کرکے خود ان کے ماتحت ہو جائیں ۔ خالدؓ کو بتا دیا گیا تھا کہ شرجیل ؓکا لشکر بھی اُنہیں مل رہا ہے ۔ وہ خوش ہوئے کہ اب وہ مسیلمہ کا مقابلہ بہتر طریقے سے کر سکیں گے۔ اُنہیں توقع تھی کہ شرجیل کا لشکر تازہ دم ہو گا۔ مگر یہ لشکر خالد ؓکو ملا تو وہ تازہ دم نہیں تھا۔ اس میں کئی مجاہدین زخمی تھے۔’’کیا ہوا شرجیل؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔’’ندامت کے سوا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔‘‘شرجیلؓ نے کہا۔’’میں نے خلیفۃ المسلمین کی حکم عدولی کی ہے۔میرے لیے حکم تھا کہ عکرمہ کو مدد دوں، مگر میرے پہنچنے سے پہلے عکرمہ ،مسیلمہ کے لشکر سے ٹکر لے کر پسپاہو چکا تھا۔یہ ایک خبط تھا جس نے مجھ پر بھی غلبہ پالیا کہ……‘‘’’کہ ایک فتح تمہارے حساب میں لکھی جائے۔‘‘باریک بین اور دور اندیش خالدؓ نے طنزیہ لہجے میں شرجیل ؓکا جواب پورا کرتے ہوئے کہا۔ اکیلے پتھر کی کوئی طاقت نہیں ہوتی شرجیل!پتھر مل کرچٹان بنا کرتے ہیں۔ پھر اس چٹان سے جو ٹکراتا ہے وہ دوسری بار ٹکرانے کیلئے زندہ نہیں رہتا۔ خود غرضی اور ذاتی مفاد کا انجام دیکھ لیا تم نے؟ عکرمہ جیسا تجربہ کار سالار ناکام ہو چکا ہے۔ میں تم پر کرم کرتا ہوں کہ خلیفہ کو تمہاری حماقت کی خبر نہیں ہونے دوں گا۔‘‘شرجیلؓ بن حسنہ نے عکرمہؓ جیسی غلط حرکت کی تھی۔ اس نے بھی خالدؓ سے بازی لے جانے کیلئے راستے میں مسیلمہ کے لشکر سے ٹکرلی اور پسپا ہونا پڑا تھا۔ مسیلمہ کذاب دربار لگائے بیٹھا تھا۔ ٹھگنے قد والا یہ بد صورت انسان مکمل نبی بن چکا تھا۔ اس کا قبیلہ بنو حنیفہ تو اسے نبی مان ہی چکا تھا۔ دوسرے قبیلے کے لوگ جوق در جوق اس کی بیعت کیلئے آتے اور اس کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب رہتے تھے۔ لوگوں نے اس کی قوت اور کرامات دیکھ لی تھیں۔ اب اس کے پیروکاروں نے دو معجزے اور دیکھ لیے تھے۔انہوں نے مسلمانوں کے دو نامور سالاروں کو ذرا ذرا سی دیر میں میدان سے بھگا دیا تھا۔ مذہبی اور نظریاتی کے لحاظ سے تو مسلمان ریشم کی طرح نرم تھے لیکن میدانِ جنگ میں وہ فولاد سے زیادہ سخت اور بجلیوں کی طرح قہر بن جاتے تھے۔ جنگی لحاظ سے مسلمان دہشت بن گئے تھے۔ عکرمہؓ اور شرجیلؓ نے اپنی غلطی اور کج فہمی سے شکست کھائی تھی۔ لیکن بنو حنیفہ نے انہیں اپنے کذاب نبی کے معجزوں اور کرامات کے کھاتے میں لکھ دیا۔ وہ کہتا تھا کہ مسلمانوں کو مسیلمہ کے سوا کون شکست دے سکتا ہے۔’’نہار الرجال!‘‘مسیلمہ نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے اپنے دستِ راست نہار الرجال سے کہا۔’’اب ہمیں مدینہ کی طرف کوچ کی تیاری کرنی چاہیے،مسلمانوں میں اب وہ دم خم نہیں رہا۔‘‘ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ نہارالرجال بن عنفوہ وہ شخص تھا جس نے رسولِ کریمﷺ کے سائے تلے بیٹھ کر قرآن پڑھا اور مذہب پر عبور حاصل کیا تھا اور اسے مبلغ بنا کر مسیلمہ کے علاقے میں بھیجا گیا تھا۔ مگر اس پر مسیلمہ کا جادو چل گیا۔اس نے مسیلمہ کی نبوت کا پرچار شروع کر دیا۔ آیاتِ قرآنی کو توڑ موڑ کر اس نے ان لوگوں کو بھی مسیلمہ کا پیروکار بنا دیا جو اسلام قبول کر چکے تھے۔ مسیلمہ نے اسے اپنا معتمد ِ خاص بنا لیا تھا۔ یہ شراب اور نسوانی حسن کا جادو تھا ۔خود مسیلمہ جس کی شکل و صورت مکروہ سی تھی اور قد مضحکہ خیز حد تک ٹھنگنا تھا۔ عورتوں میں زیادہ مقبول تھا۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ عورتوں کیلئے اس میں ایک مخصوص کشش تھی۔ سجاع جیسی عورت جو قلوپطرہ کی طرح جنگی قوت لے کر مسیلمہ کو تہہ تیغ کرنے آئی ،صرف ایک ملاقات میں اس کی بیوی بن گئی تھی۔ یہ مسیلمہ کی جسمانی طاقت اور مقناطیسیت تھی۔

۔اب تو وہ بہت بڑی جنگی طاقت بن گیا تھا۔عکرمہؓ اور شرجیلؓ کو پسپا کرکے اس کے اپنے اور اس کے لشکر کے حوصلے بڑھ گئے تھے۔ وہ اب مدینہ پر چڑھائی کی باتیں کر رہا تھا۔ وہ دربار میں بیٹھا نہارالرجال سے کہہ رہا تھا کہ مدینہ کی طرف کوچ کی تیاری کرنی چاہیے۔ نہارالرجال کچھ کہنے بھی نہیں پایا تھا کہ مسیلمہ کو اطلاع دی گئی کہ ایک جاسوس آیا ہے۔مسیلمہ نے اسے فوراً بلالیا۔’’مسلمانوں کا لشکر آ رہا ہے۔‘‘جاسوس نے کہا۔’’تعداد دس اور پندرہ ہزار کے درمیان ہے۔‘‘ ’’تم نے جب دیکھا،یہ لشکر کہاں تھا؟‘‘مسیلمہ نے پوچھا۔’’وادیٔ حنیفہ سے کچھ دور تھا۔‘‘جاسوس نے کہا۔’’اب اور آگے آ چکا ہو گا۔‘‘ ’’ان بد بختوں کوموت وادیٔ حنیفہ میں لے آئی ہے۔‘‘مسیلمہ نے رعونت سے کہا۔’’انہیں معلوم نہیں کہ ان کا دس پندرہ ہزار کا لشکر میرے چالیس ہزار شیروں کے ہاتھوں چیرا پھاڑا جائے گا۔‘‘وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ تمام درباری احترام کیلئے اٹھے۔ وہ نہار الرجال کو ساتھ لے کر دربار سے نکل گیا۔اس نے اپنا گھوڑا تیار کرایا۔ نہار الرجال کو ساتھ لیا اور دونوں گھوڑے انہیں یمامہ سے دور لے گئے۔ وہ وادیٔ حنیفہ کی طرف جارہے تھے۔’’اس وادی سے وہ زندہ نہیں نکل سکیں گے۔‘‘راستے میں مسیلمہ نے نہارالرجال سے کہا۔’’میرے اس پھندے سے وہ واقف نہیں۔‘‘نہارالرجال نے قہقہہ لگایا اور کہا۔’’آج محمدﷺ کا اسلام وادیٔ حنیفہ میں دفن ہو جائے گا۔‘‘ وہ آدھا راستہ طے کر چکے تھے کہ آگے سے ایک گھوڑ سوار گھوڑا سر پٹ دوڑاتا آ رہا تھا۔ مسیلمہ کو دیکھ کر وہ رک گیا۔’’یانبی!‘‘گھوڑ سوار نے ہانپتی ہوئی آواز میں کہا۔’’مجاعہ بن مرارہ کو مسلمانوں نے قید کر لیا ہے۔‘‘’’مجاعہ­ کو؟‘‘مسیلمہ نے حیرت سے کہا۔’’مجاعہ کو مسلمانوں نے ……۔‘‘نہارالرجال نے ڈری ہوئی سی آواز میں کہا۔’’مجاعہ کی ٹکر کا ہمارے پاس اور کوئی سالار نہیں ۔‘‘مسیلمہ نے کہا۔’’مجاعہ کا قید ہو جانا ہمارے لئے اچھا شگون نہیں۔‘‘
مجاعہ بن مرارہ مسیلمہ کا بڑا ہی قابل اور دلیر سالار تھا۔ وہ خالدؓ سے ملتا جلتا تھا۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ خالدؓ کے مقابلے میں لڑنے اور جنگی چالیں چلنے کی اہلیت صرف مجاعہ میں تھی۔مجاعہ مسلمانوں کے ہاتھ اس طرح چڑھ گیا تھا کہ اس کے کسی قریبی رشتے دار کو بنی عامر اور بنی تمیم کے کچھ لوگوں نے قتل کر دیا تھا۔ مجاعہ نے مسیلمہ سے اجازت لی تھی کہ وہ لشکر کے چالیس سوار ساتھ لے جا کر اپنے رشتے دار کے قتل کا انتقام لے لے۔مسیلمہ اپنے اتنے قابل سالار کو مایوس نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے اسے اجازت دے دی۔ مجاعہ اپنے دشمن کی بستی میں گیا اور انتقام لے کر واپس آ رہا تھا ۔اسے معلوم نہیں تھا کہ جس علاقے کو وہ محفوظ سمجھتا تھا وہ اب محفوظ نہیں۔اس نے اپنے سواروں کو ایک جگہ آرام کیلئے روک لیا۔وہ سب اپنا فرض کامیابی سے پوراکر آئے تھے۔ گھوڑوں کی زینیں اتار کر وہ لیٹ گئے اور گہری نیند سو گئے۔ خالدؓ کا لشکر اسی طرف آ رہا تھا۔علی الصبح اس لشکر کا ہراول دستہ وہاں پہنچا جہاں مجاعہ اپنے چالیس سواروں کے ساتھ گہری نیند سویا ہوا تھا۔ ان سب کو مجاہدین نے جگایا۔ ان سے ہتھیار اور گھوڑے لے لیے اور انہیں حراست میں لے کر پیچھے خالدؓ کے پاس لے گئے۔ خالدؓ کو معلوم نہیں تھاکہ مجاعہ مسیلمہ کا بڑا قیمتی سالار ہے۔ خالدؓ اسے بھی محض سوار یا سپاہی سمجھ رہے تھے۔انہوں نے دراصل بڑا موٹا شکار پکڑا تھا۔ انہوں نے یہ تو بتا دیا کہ وہ مسیلمہ کی فوج کے آدمی ہیں لیکن مجاعہ کا رتبہ ظاہرنہ ہونے دیا۔’’کیا تم ہمارے مقابلے کیلئے آئے تھے؟‘‘خالدؓ نے ان سے پوچھا۔’’نہیں۔‘‘ایک نے جواب دیا۔’’ہمیں تو معلوم ہی نہ تھا کہ مسلمانوں کا لشکر آ رہا ہے۔ہم بنی عامر اور بنی تمیم سے اپنے ایک خون کا بدلہ لینے گئے تھے۔‘‘ ’’میں نے مان لیا۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’میں تمہاری جان بخشی کر سکتا ہوں۔اب میرے اس سوال کا جواب دو کہ تم کسے ﷲکا سچا رسول مانتے ہو اور کس پر ایمان رکھتے ہو؟‘‘ ’’بے شک مسیلمہ ﷲ کا سچا رسول ہے۔‘‘ایک سوار نے جواب دیا۔’’ﷲ کی قسم!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’تم میری توہین کر دیتے تو میں تمہیں بخش دیتا ،اپنے رسولﷺ کی توہین کو میں کس طرح برداشت کر سکتا ہوں؟‘‘ ’’تم اپنے رسول کو مانو،ہم اپنے نبی کو مانتے ہیں۔‘‘مجاعہ نے کہا۔’’اصل بات بھی یہی ہے کہ مسیلمہ رسالت میں محمد ﷺ کا برابر کا حصہ دار ہے۔‘‘’’ہم سب کا عقیدہ یہی ہے۔‘‘سواروں نے کہا۔’’ایک نبی تم میں سے ہے ۔ایک نبی ہم میں سے ہے۔‘‘ خالدؓ نے تلوار کھینچی اور ایک ہی وار سے ایک سوار کا سر اڑا دیا اور حکم دیا کہ سب کو قتل کر ڈالو۔ خالدؓ کے آدمی آگے بڑھے اور مجاعہ کو پکڑ کر اس کا سر کاٹنے کیلئے جھکا دیا۔ اسے قتل کرنے والے کی تلوار ہوا میں بلند ہوئی۔’’ہاتھ روک لو۔‘‘قیدی سواروں میں سے ایک جس کا نام ساریہ بن عامر تھا،چلایا۔’’اس آدمی کو زندہ رہنے دو ۔یہ تمہارے کام آ سکتا ہے۔‘‘تب انکشاف ہوا کہ مجاعہ بنو حنیفہ کے سرداروں میں سے ہے لیکن یہ پھر بھی نہ بتایا گیا کہ یہ سالار بھی ہے۔ خالدؓ دور اندیش تھے، کسی قبیلے کا سردار بڑا قیمتی یرغمال ہوتا ہے۔اسے کسی نہ کسی موقع پر استعمال کیا جاسکتا تھا۔ خالدؓ مجاعہ کے پاؤں میں بیڑیاں ڈلوا کر اسے اپنے خیمے میں لے گئے اور اسے اپنی بیوی لیلیٰ کے حوالے کردیا۔باقی سب کو قتل کرا دیا

مسیلمہ کے لئے مجاعہ کی گرفتاری کوئی معمولی نقصان نہیں تھا۔لیکن وادیٔ حنیفہ وہ پھندا تھا جو اس نقصان کو پورا کر سکتا تھا۔اس کے علاوہ مسیلمہ کے لشکر کی تعداد چالیس ہزار تھی اور مسلمانوں کی تعداد تیرہ ہزارتھی۔مسیلمہ کے پاس گھوڑ سواراور شتر سوار دستے زیادہ تھے۔بعض مؤرخوں نے مسیلمہ کے لشکر کی تعداد تیس ہزار لکھی ہے ۔ بہر حال تعداد چالیس ہزار سے زیادہ تھی ،کم نہ تھی۔ خالدؓ کی ایک کمزوری تو یہ تھی کہ لشکر کی تعداد خطرناک حد تک کم تھی ،دوسری کمزوری یہ کہ وہ اپنے مستقر سے بہت دور تھے جہاں کمک اور رسد کا پہنچنا ممکن نہیں تھا۔ انہیں صرف ایک سہولت حاصل تھی اس علاقے میں پانی اور جانوروں کیلئے ہرے چارے کی کمی نہیں تھی۔ وہ زرخیز کھیتوں اور باغوں کا علاقہ تھا۔ مسیلمہ کو ہرے بھرے کھیتوں اور باغوں کا غم کھا رہا تھا۔ اس نے نہارالرجال سے کہا کہ وہ ایسے انداز سے لڑنا چاہتا ہے کہ مدینہ کا لشکر بستیوں کو ،کھیتوں کو اور باغوں کو نہ اجاڑ سکے۔ تاریخوں میں لکھا ہے کہ مسیلمہ کسی قسم کے تذبذب ،اضطراب یا پریشانی میں مبتلا نہ تھا۔ وہ اس طرح سے بات کرتا تھا جیسے اسے اپنی فتح کا یقین ہو۔ وہ بڑی موزوں بنیادوں پر کھڑا بات کر رہا تھا۔ اس کا چالیس ہزار کا لشکر برتر بھی تھا اور یہ سب مسیلمہ کے نام پر جانیں قربان کرنے والے لوگ تھے۔ مسیلمہ کی نبوت کا تحفظ ان سب کیلئے جنون بن چکا تھا۔ خالدؓ پھندے میں آنے والے سالار نہیں تھے۔ مُوتہ میں وہ پھندے میں آ چکے تھے۔ یمامہ کے علاقوں سے وہ واقف نہیں تھے۔ انہوں نے دیکھ بھال اور آگے کی زمین کا جائزہ لینے کیلئے ایک پارٹی بھیج دی تھی۔رات کو اس پارٹی نے جو رپورٹ دی ،اس کے مطابق خالدؓ نے اپنا رستہ بدل دیا تاکہ حنیفہ کی وادی کے اندر سے نہ گزرنا پڑے۔وہ ذرا دور کاچکر کاٹ کر آگے نکل گئے۔مسیلمہ نے بھی دیکھ بھال کا انتظام کر رکھا تھا۔اسے اطلاع ملی کہ مدینہ والے آگے نکل گئے ہیں تو اس نے اپنا لشکر بڑی تیزی سے عقربا کے میدان میں منتقل کر دیا۔ خالدؓ کی نظر اسی میدان پر تھی لیکن دشمن پہلے پہنچ گیا تھا۔خالدؓ نے ایک جگہ دیکھ لی جو میدان سے بلند تھی ،انہوں نے وہیں اپنا لشکر روک لیا۔ وہاں سے وہ مسیلمہ کے پڑاؤ کو اچھی طرح دیکھ سکتے تھے۔ مسیلمہ نے اسی میدان کو بہتر اور موزوں سمجھا تھا۔ ایک تو اس نے اپنے لشکر کا تمام تر سازوسامان اور مال و اسباب اپنی خیمہ گاہ سے پیچھے رکھا تھا۔دوسرے یہ کہ کھیتیاں اور باغات بھی لشکر کے پیچھے تھے۔ان سب کی وہ بڑی اچھی طرح سے حفاظت کر سکتاتھا۔اس نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ خالدؓ یہاں سے آگے یمامہ کو بڑھے تو وہ ان پر عقب سے حملہ کر دے گا۔خالدؓ بھی اس صورت کو بھانپ چکے تھے کہ وہ یہاں سے آگے بڑھے تو مارے جائیں گے۔مسیلمہ نے اپنے لشکر کو تین حصوں میں تقسیم کردیا۔اس نے دائیں حصے کی قیادت نہارالرجال کو دی۔بائیں حصے کا سالار محکم بن طفیل تھا اور درمیان میں یعنی قلب میں وہ خود رہا۔اس نے اپنے بیٹے کو جس کا نام شرجیل تھا کہا کہ وہ لشکر سے خطاب کرے۔ایک شرجیل بن حسنہ خالدؓ کے لشکر کا سالار تھا۔ مسیلمہ کے بیٹے کا نام بھی شرجیل تھا۔ شرجیل گھوڑے پر سوار ہوا اور اپنے لشکر کے تینوں حصوں کے سامنے باری باری جاکر کہا۔’’اے بنو حنیفہ!آج اپنی آن اور اپنی آبرو پر مر مٹنے کا وقت آگیا ہے۔ خدا نے تمہارے نبی کو نبوت دی ہے۔ آج اپنی نبوت اور آبرو کی خاطر اس طرح لڑو کہ مسلمانوں کو پھر کبھی تمہارے سامنے آنے کی جرات نہ ہو۔ اگر تم نے پیٹھ دکھائی تو دشمن تمہاری بیویوں ،تمہاری بہنوں اور تمہاری بیٹیوں کو لونڈیاں بنا لے گااور اس زمین پر ہی جو تمہاری زمین ہے ،ان کی آبرو لوٹے گا۔

۔کیا تم یہ منظر برداشت کرلو گے؟‘‘مسیلمہ کے لشکرکو جیسے آگ لگ گئی ہو۔ وہ مسیلمہ کے نام کے نعرے لگانے لگے ۔گھوڑے کھر مارمارکر ہنہنانے لگے۔ خالدؓ اس صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار تھے کہ مسیلمہ کا لشکر ان پر فوراً حملہ کر دے گا۔نفری کی افراط کے زور پر مسیلمہ کو حملہ کر دینا چاہیے تھا لیکن مؤرخ لکھتے ہیں کہ وہ جنگ کے فن میں مہارت رکھتا تھا۔اس نے حملے میں پہل نہ کی۔ اس کا خیال تھا کہ پہلے خالدؓ حملہ کرے اور دفاع میں لڑا جائے اور جب مسلمان تھک جائیں تو دائیں بائیں سے حملے کرکے انہیں ختم کر دیا جائے۔ اس دور کی تحریریں بتاتی ہیں کہ خالدؓ مسیلمہ کی چال نہ سمجھ سکے۔ انہوں نے اپنے سالاروں سے کہا کہ مرتدین سے آمنے سامنے کی جنگ اس طرح لڑی جائے کہ اسے اپنے دستوں کو اِدھر ُادھرکرنے کی مہلت نہ ملے اور وہ دفاعی لڑائی لڑتا رہے۔ خالدؓ کو توقع تھی کہ تیرہ ہزار سے چالیس ہزار کو اسی طریقے سے شکست دی جا سکتی ہے کہ اسے کوئی چال چلنے کا موقع نہ دیا جائے۔ اس وقت کے رواج کے مطابق خالدؓ کو بھی ضرورت محسوس ہوئی کہ اپنے لشکر کا حوصلہ بڑھائیں ۔ خلیفۃ المسلمین ؓ نے خالدؓ کی مددکیلئے جو دستے بھیجے تھے ان میں قرآن کے حافظ اور خوش الحان قاری بھی خاصی تعداد میں تھے۔اس دور کے حافظِ قرآن اور قاری ماہر تیغ زن اورلڑنے والے بھی ہوتے تھے۔وہ مسجدوں میں بیٹھے رہنے والے لوگ نہیں تھے۔ اس کے علاوہ خالدؓ کے ساتھ وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے ہر میدان میں اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن کو شکستیں دی تھیں۔خالدؓ کے لشکر میں عمرؓ کے بھائی زیدؓ بن الخطاب اور ان کے بیٹے عبداﷲؓ بھی تھے۔ اس کے علاوہ ابو دجانہؓ بھی تھے جو جنگِ احد میں ان تیروں کے سامنے کھڑے ہو گئے تھے جو رسولِ کریمﷺ پر آ رہے تھے۔ انہوں نے اپنے جسم کو آپﷺ کی ڈھال بنا دیا تھا۔خلیفۃ المسلمین ؓ کے بیٹے عبدالرحمٰن بھی تھے اور ایک خاتون اُمّ ِ عمارہؓ اپنے بیٹے کے ساتھ گئی تھیں ۔ اُمّ ِ عمارہؓ جنگِ احد میں باقاعدہ لڑی تھیں۔ان کے علاوہ وحشی نام کا حبشیؓ بھی خالدؓ کے ساتھ تھا۔جس کی پھینکی ہوئی برچھی نشانے سے بال برابر ادھر ادھر نہیں ہوتی تھی۔ قبولِ اسلام سے پہلے جنگِ احد میں اسی وحشی ؓنے حمزہ ؓ کو برچھی پھینک کر شہید کیا تھا۔مجاہدین کالشکر تعداد میں تو کم تھا لیکن جوشِ جہاد اور جذبے کے لحاظ سے کمتر نہ تھا۔ خالدؓ نے خود بھی اپنے لشکر کا حوصلہ بڑھایا اور قرآن کے حافظوں اور قاریوں سے کہاکہ وہ مجاہدینِ مدینہ کو آیاتِ قرآنی سناکر بتائیں کہ وہ گھروں سے اتنی دور کس مقصد کیلئے لڑنے آئے ہیں۔قاری اپنی پر اثر آوازوں میں لشکر کو وہ آیات سنانے لگے جن میں مسلمانوں کیلئے جہاد فرض قرار دیا گیا ہے ۔ یہ سلسلہ رات بھر چلتا رہا ۔ﷲ کے سوا اور کون تھا جو ان قلیل تعداد مجاہدین اسلام کی مدد کرتا۔مؤرخین کے مطابق مجاہدین کے اس لشکر نے تمام رات عبادت اور دعاؤں میں گزار دی۔

دسمبر ۶۳۲ء کے تیسرے ہفتے کی ایک صبح طلوع ہوئی تو خالدؓ نے مسیلمہ کے لشکر پر حملے کا حکم دے دیا۔ خالدؓ نے بھی اپنے لشکرکو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔قلب کی قیادت انہوں نے اپنے پاس رکھی تھی ،ایک طرف ابو حذیفہؓ اور دوسری طرف زیدؓ بن خطاب تھے۔ مسلمان جس قہروغضب سے حملہ آور ہوئے اور جس بے جگری سے لڑے وہ دیکھ کر خالدؓ کو امید بندھ گئی کہ وہ مرتدین کے لشکر کو اکھاڑ پھینکیں گے ۔خود خالدؓ سپاہیوں کی طرح لڑ رہے تھے۔ لیکن خاصا وقت گزر جانے کے بعد بھی مسیلمہ کا لشکر جہاں تھا وہیں رہا۔ بہت سے مجاہدین پہلے ہلّے میں ہی شہید ہو گئے۔دن گزرتا جا رہا تھا۔میدانِ جنگ کا قہر بڑھتا جا رہا تھا۔ ایک شور تھا،چیخ و پکار تھی ،کربناک آہ و بکا تھی جو زمین و آسمان کوہلا رہی تھی ۔ مسیلمہ کا لشکر گھوم پھر کر لڑ رہا تھا۔ اس کی کوشش یہ تھی کہ مسلمانوں کو گھیرے میں لے لے اور مسلمانوں کا عزم یہ تھا کہ مرتدین کے اس لشکر کے قدم اکھاڑنے ہیں اور یمامہ پر قبضہ کرنا ہے۔ دونوں لشکر اپنی اپنی کوششوں میں ناکام ہو رہے تھے۔ اگر کامیاب تھا تو وہ مسیلمہ کالشکر تھا۔ مسیلمہ بہت چالاک اور ہوشیار جنگی قائد تھا۔ وہ جائزہ لیتا رہا کہ مسلمان کب تھک کر چور ہوتے ہیں ،آدھا دن گزر گیا۔ زمین خون سے لال ہوتی جا رہی تھی ۔ زخمی انسان بھاگتے دوڑتے گھوڑوں تلے کچلے جا رہے تھے ۔مسلمان اس قدر بے جگری سے لڑنے کی وجہ سے کچھ جلدی تھک گئے۔ مسیلمہ نے بھانپ لیا۔اس نے اپنے لشکر کے ایک تازہ دم حصے کو مسلمانوں پر حملے کا حکم دے دیا۔ اس کے لشکر کا یہ حصہ طوفانی موج کی طرح آیا۔ مسیلمہ نے سب کو یقین دِلارکھا تھا کہ جو اس کی نبوت کی خاطر لڑتا ہوا مرے گا وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔ خالدؓ نے تھوڑی ہی دیر بعد محسوس کرلیا کہ اس کے لشکر پر دباؤ بہت تیز ہو گیا ہے۔ خالدؓ کوئی چال سوچ ہی رہے تھے کہ مسلمانوں نے پیچھے ہٹنا شروع کردیا۔آگے والے دستے تیزی سے پیچھے ہٹے۔ پیچھے والے ان سے زیادہ تیزی سے پسپا ہوئے۔ سالاروں نے بہت شور مچایا۔  لشکر کو پکارا۔نعرے لگائے لیکن مرتدین کا دباؤ ایسے قہر کی صورت اختیار کر گیا تھا جسے مسلمان برداشت نہ کر سکے اور ان میں بد نظمی پھیل گئی۔دیکھا دیکھی مسلمان ایسی بری طرح پسپا ہوئے کہ اپنی خیمہ گاہ میں بھی نہ رکے اور دور پیچھے چلے گئے۔مسیلمہ کے لشکر نے ان کا تعاقب کیا۔احد کے میدان میں بھی مسلمانوں نے اپنے لئے ایسی ہی صورتِ حال پیداکر لی تھی اور ہزیمت اٹھائی تھی۔ یہ ان کی دوسری پسپائی تھی جو بھگدڑ کی صورت اختیار کر گئی تھی۔ مسیلمہ کا لشکر جب مسلمانوں کی خیمہ گاہ تک پہنچا تو اس نے وہاں لوٹ مار شروع کرد ی۔ وہاں انہیں روکنے والا کوئی نہ تھا۔ خالدؓ اور ان کے سالار دوڑ دوڑ کر اپنے لشکر کو روکنے کیلئے چیخ چلا رہے تھے لیکن مسلمان اپنی خیمہ گاہ سے خاصی دور جا کر رکے۔مسیلمہ کے کچھ آدمیوں کو خالدؓ کا خیمہ مل گیا۔ وہ اس میں جا گھسے۔ وہاں انہیں زیادہ مال و دولت ملنے کی توقع تھی لیکن اس خیمے میں انہیں دو اتنے قیمتی انسان مل گئے جن کی انہیں توقع نہیں تھی۔ ایک تو ان کا اپنا سردار اور سالار مجاعہ تھا جو بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھا اور اس کے ساتھ خالدؓ کی نئی بیوی لیلیٰ ام تمیم تھی جس کے حسن کے چرچے انہوں نے سن رکھے تھے لیکن اسے دیکھا کبھی نہیں تھا۔ مجاعہ کو تو انہوں نے پہچان لیا۔ لیلیٰ کے متعلق انہیں مجاعہ نے بتایا کہ یہ کون ہے۔ بیک وقت دو تین آدمی لیلیٰ کی طرف لپکے۔ وہ اسے قتل کرنا یا اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔’’رک جاؤ۔‘‘ ان کے قیدی سردار مجاعہ نے حکم دیا۔’’دشمن کے آدمیوں کے پیچھے جاؤ۔ ابھی عورتوں کے پیچھے پڑنے کا وقت نہیں ۔ میں اب اس کا نہیں یہ میری قیدی ہے۔‘‘ان کے سردار کا حکم اتنا سخت تھا کہ وہ بڑی تیزی سے خیمے سے نکل گئے ۔انہیں اتنا بھی ہوش نہ رہا کہ اپنے سردار کی بیڑیاں ہی توڑ جاتے۔’’تم نے مجھے ان آدمیوں سے کیوں بچایا ہے؟‘‘لیلیٰ نے مجاعہ سے پوچھا۔’’کیا تم مجھے اپنا مالِ غنیمت سمجھتے ہو؟ اگر تمہاری نیت یہی ہے تو کیا تمہیں یہ احساس نہیں کہ میں تمہیں قتل کر سکتی ہوں۔‘‘’’تم نے میرے ساتھ جو اچھا سلوک قید کے دوران کیا ہے میں اس کے صلے میں اپنی جان دے سکتا ہوں۔‘‘مجاعہ نے کہا۔’’خدا کی قسم! میری بیڑیاں ٹوٹ کر تمہارے پاؤں میں پڑ جائیں تو بھی میں تمہیں مالِ غنیمت یا لونڈی نہیں سمجھوں گا۔ تم نے مجھے قیدی نہیں مہمان بنا کر رکھا ہے۔‘‘ ’’میں نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’یہ مسلمانوں کی روایت ہے کہ دشمن ان کے گھر چلا جائے تو وہ اسے معزز مہمان سمجھتے ہیں۔اگر تم میرے گھر میں ہوتے تو میں تمہیں اور زیادہ آرام پہنچا سکتی تھی۔‘‘’’لیلیٰ!‘‘مجاعہ نے کہا۔’’کیا تجھے ابھی احساس نہیں ہوا کہ تمہاراخاوند شکست کھا کر بھاگ گیا ہے اور تم میرے قبضے میں ہو؟‘‘ ’’فتح اور شکست کا فیصلہ خدا کرے گا۔‘‘ لیلیٰ نے جواب دیا۔’’میرا خاوند اس سے زیادہ سخت چوٹیں برداشت کر سکتا ہے۔‘

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں