شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ حضرت خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 37

 


⚔ شمشیرِ بے نیام ⚔ 


 حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ


( قسط نمبر-37)


خالدؓ کیا تو ہماری عصمتوں کا انتقام لے گا؟‘‘ خالدؓ کو کئی عورتوں کی آوازیں سنائی دیں۔’’ہمارے جوان بیٹوں کے خون کا انتقام……انتقام……خالد انتقام……‘‘یہ ایک شور تھا ،للکار تھی اورخالدؓ اس شور سے گزرتے جا رہے تھے۔’’ہم واپس جانے کیلئے نہیں آئے۔‘‘ خالدؓ نے وہاں کے مسلمانوں سے کہا۔ ’’ہم انتقام لینے آئے ہیں۔‘‘ مسلمانوں کے ایک وفد نے خالدؓ کو بتایا کہ اس علاقے کے غیر مسلموں پر وہ بھروسہ نہ کرے۔’’یہ سب فارسیوں کے مددگار ہیں۔‘‘وفد نے خالد ؓکو بتایا۔’’مجوسیوں نے ہمیشہ ہمارے خلاف مخبری کی ہے۔ ہمارے بیٹے جب فارسی فوج کی کسی چوکی پر شب خون مارتے تھے تو مجوسی مخبری کر کے ہمارے بیٹوں کو گرفتار کرا دیتے تھے۔‘‘’’تمام عیسائیوں اور یہودیوں کو گرفتار کر لو۔‘‘خالدؓ نے حکم دیا۔’’اور مسلمانوں میں سے جو اسلامی لشکر میں آنا چاہتے ہیں ‘آجائیں۔‘‘’’وہ پہلے ہی مثنیٰ بن حارثہ کے ساتھ چلے گئے ہیں۔‘‘خالدؓ کو جواب ملا۔ فوراً ہی مجوسیوں اور دیگر غیر مسلموں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی۔ ان میں سے صرف انہیں جنگی قیدی بنایا گیا جن کے متعلق مصدقہ شہادت مل گئی کہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگی کارروائیاں کی تھیں یا مخبری کی تھی۔ نظم و نسق کیلئے اپنے کچھ آدمی کاظمہ میں چھوڑ کر خالدؓ آگے بڑھ گئے۔ اب ان کی پیش قدمی کی رفتار تیز نہیں تھی کیونکہ کسی بھی مقام پر ایرانیوں سے لڑائی کا امکان تھا۔ خالد ؓنے اپنے جاسوس جو اس علاقے کے مسلمان تھے ،آگے اور دائیں بائیں بھیج دیئے تھے۔ مثنیٰ بن حارثہ آگے ہی آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ دریائے معقل عبور کرنا چاہتا تھا لیکن دور سے اسے ایرانیوں کی خیمہ گاہ نظر آئی۔ وہ بہت بڑا لشکر تھا ۔ مثنیٰ کے پاس ڈیڑھ ہزار سے کچھ زیادہ سوارتھے۔ اتنی تھوڑی تعداد سے مثنیٰ ایرانی لشکر سے ٹکر نہیں لے سکتا تھا۔’’ہمیں یہیں سے پیچھے ہٹ جانا چاہیے۔‘‘مثنیٰ کے ایک ساتھی نے کہا۔’’یہ لشکر ہمیں گھیرے میں لے کر ختم کر سکتا ہے۔‘‘ ’’سمجھنے کی کوشش کرو۔‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’اگر ہم پیچھے ہٹے تو فارسیوں کے حوصلے بڑھ جائیں گے۔ ہمارے سپہ سالار خالد نے کہا تھا کہ پیشتر اس کے کہ فارسیوں کے دلوں سے ہماری دہشت ختم ہو جائے ہم ان پر حملے کرتے رہیں گے۔ ہمیں اپنی دہشت برقرار رکھنی ہے۔ میں آگ کے ان پجاریوں کی فوج کو یہ تاثر دوں گا کہ ہم اپنے لشکر کا ہراول دستہ ہیں۔ ہم لڑنے کیلئے بھی تیار رہیں گے۔ اگر لڑنا پڑا تو ہم ان سے وہی جنگ لڑیں گے جو ایک مدت سے لڑ رہے ہیں……ضرب لگاؤ اور بھاگو……کیا تم ایسی جنگ نہیں لڑ سکتے؟‘‘ مثنیٰ نے ایک سوار کو بلایا اور اسے کہا۔’’گھوڑے کو ایڑ لگاؤ ۔ سپہ سالار خالد بن ولید کاظمہ یا ابلہ میں ہوں گے ۔انہیں بتاؤ کہ معقل کے کنارے فارس کا ایک لشکر پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے ۔انہیں کہنا کہ میں اس لشکر کو آگے نہیں بڑھنے دوں گا اور آپ کا جلدی پہنچنا ضروری ہے۔‘‘


خالدؓ پہلے ہی کاظمہ سے چل پڑے تھے۔ انہیں گھوڑوں اور بار بردار اونٹوں کیلئے چارے اور لشکر کیلئے کھانے پینے کے سامان کی کمی نہیں تھی۔ اس علاقے کے مسلمانوں نے ہر چیز کا بندوبست کر دیا تھا۔ خالد ؓ کا رستہ کوئی اور تھا۔ وہ ابلہ سے کچھ دور کھنڈروں کے قریب سے گزر رہے تھے۔ سامنے ایک گھوڑ سوار بڑی تیز رفتار سے آ رہا تھا۔ خالدؓ نے اپنے دو محافظوں سے کہا کہ وہ آگے جا کر دیکھیں یہ کون ہے۔ محافظوں نے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور آنے والے سوار کو راستہ میں جالیا۔ اس سوار نے گھوڑا روکا نہیں۔ دونوں محافظوں نے اپنے گھوڑے اس کے پہلوؤں پر کرلئے اور اس کے ساتھ آئے۔’’مثنیٰ بن حارثہ کا پیغام لایا ہے۔‘‘دور سے ایک محافظ نے کہا۔’’فارس کا ایک تازہ دم لشکر دریائے معقل کے کنارے پڑاؤ کیے ہوئے ہے۔‘‘مثنیٰ کے قاصد نے خالد ؓکے قریب آکر رکتے ہوئے کہا۔ ’’تعداد کا اندازہ نہیں۔آپ کے اورمثنیٰ کے لشکر کی تعداد سے اس لشکر کی تعداد سات آٹھ گنا ہے۔ فارس کے بھاگے ہوئے سپاہی بھی اس لشکر میں شامل ہو گئے ہیں۔‘‘ ’’مثنیٰ کہاں ہے؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔’’فارسیوں کے سامنے۔‘‘قاصد نے کہا۔’’مثنیٰ نے حکم دیا ہے کہ کوئی عسکری پیچھے نہیں ہٹے گا اور ہم فارسیوں کو یہ تاثر دیں گے کہ ہم اپنے لشکر کا ہراول ہیں……مثنیٰ نے پیغام دیا ہے کہ جلدی پہنچیں۔‘‘خالد ؓنے اپنی فوج کی رفتار تیز کردی اور رخ ادھر کر لیا جدھر مثنیٰ بن حارثہ تھے۔ خالد ؓکی فوج مثنیٰ کے سواروں سے جاملی۔ خالد ؓنے سب سے پہلے دشمن کا جائزہ لیا۔ وہ مثنیٰ کے ساتھ ایک اونچی جگہ پر کھڑے تھے۔ دشمن جنگ کی تیاری مکمل کر چکا تھا۔’’فارسی ہمیں آمنے سامنے کی لڑائی لڑانا چاہتے ہیں۔‘‘خالدؓ نے مثنیٰ سے کہا۔’’دیکھ رہے ہو ابنِ حارثہ……انہوں نے دریا کو اپنے پیچھے رکھا ہے۔‘‘’یہ فارسی صرف آمنے سامنے کی لڑائی لڑ سکتے ہیں۔‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’مجھے ان کے ایک قیدی سے پتا چلا ہے کہ ان کے دو سالار جن کے خلاف ہم لڑے ہیں زندہ پیچھے آ گئے ہیں ۔ایک کا نام قباذ ہے اور دوسرے کا نام انوشجان۔ انہوں نے اپنے سپہ سالار کو بتایا ہوگا کہ ہمارے لڑنے کے انداز کیسے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے اپنے عقب کو ہم سے اس طرح محفوظ کر لیا ہے کہ اپنے پیچھے دریا کو رکھا ہے……زیادہ نہ سوچ ولید کے بیٹے!میں ان کے خلاف زمین کے نیچے سے لڑتا رہا ہوں۔‘‘ ’’ﷲ تجھے اپنی رحمت میں رکھے ابن ِ حارثہ!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ﷲ تمہارے ساتھ ہے ……میں نے یہ بھی دیکھ لیا ہے کہ ہم دریا پار نہیں کر سکتے۔‘‘’’ﷲ کا نام لے ابنِ ولید!‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’مجھے امید ہے کہ ہم ان کی صفیں اس طرح درہم برہم کر دیں گے کہ ہمیں ان کے پہلوؤں سے آگے نکلنے اور پیچھے سے ان پر آنے کا موقع مل جائے گا ۔ میرے سوار رک کر لڑنے والے نہیں ۔یہ گھوم پھر کر لڑنے والے ہیں۔ انہیں آگے دھکیلنے کی ضرورت نہیں۔ مشکل یہ پیش آئے گی کہ انہیں پیچھے کس طرح لایا جائے۔ فارسیوں کو دیکھ کر تو یہ شعلے بن جاتے ہیں۔ انہوں نے فارسیوں کے ہاتھوں بہت زخم کھائے ہیں۔ ابنِ ولید ! تم جانتے ہو انہوں نے کس قسم کی غلامی دیکھی ہے۔ فارس کے ان آتش پرستوں نے اس علاقے کے مسلمانوں کو انسانوں کی طرح زندہ رہنے کے حق سے محروم رکھا تھا۔‘‘


’’ہم زرتشت کی اس آگ کو سرد کر دیں گے ابنِ حارثہ! جس کی یہ عبادت کرتے ہیں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’یہ خود مانیں گے کہ عبادت کے لائق صرف ایک ﷲ ہے۔ جس کی راہ میں ہم اپنی جانیں قربان کرنے آئے ہیں……آؤ ‘میں زیادہ دیر انتظار کرنا نہیں چاہتا۔ یہ جس طرح رکے ہوئے ہیں اس سے پتا چلتا ہے کہ محتاط ہیں اور ان پر ہماری دھاک بیٹھی ہوئی ہے……تم اپنے سواروں کے ساتھ قلب میں رہو۔‘‘ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ خالدؓ نے بہت سوچا کہ کسی طرح انہیں چالیں چلنے کا موقع مل جائے لیکن ایرانیوں کا سالار قارن بن قریاس دانشمند آدمی تھا۔ اسے پتا چل گیا تھا کہ خالدؓ کس طرح لڑتا ہے۔ قارن نے اپنے شکست خوردہ سالاروں قباذ اور انوشجان کو پہلوؤں پر رکھا اور اپنے لشکر کوآگے لے آیا۔ اس لشکر کی اپنی ہی شان تھی۔ پتہ چلتا تھا کہ کسی شہنشاہ کی فوج ہے۔ ان کے قدموں کے نیچے زمین ہلتی تھی۔ ادھر یثرب کے سرفروش تھے۔ ظاہری طور پر ان کی کوئی شان نہیں تھی۔ ایرانیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کے ہتھیار بھی کمتر رکھتے تھے۔ لباس بھی یونہی سے تھے اور ان کی تعداد ایرانیوں کے مقابلے میں بہت تھوڑی تھی۔ خالدؓ نے اپنی فوج کو آگے بڑھنے کا حکم دیا تو ہزاروں قدموں کی دھمک اور گھوڑوں کے ٹاپوں کے ساتھ کلمہ طیّبہ کا ورد کوئی اور ہی تاثر پیدا کر رہا تھا۔ یہ فوج تھکی ہوئی تھی اور زرتشت تازہ دم تھے۔ دونوں فوجوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رہ گیا تو خالدؓ نے اپنی فوجوں کو روک لیا۔ مثنیٰ بن حارثہ اپنے سوار دستے کے ساتھ خالدؓ کے پیچھے تھے۔ دائیں اور بائیں پہلوؤں پر خالدؓ کے مقرر کیے ہوئے دو سالار عاصم بن عمرو اور عدی بن حاتم تھے۔اس دور کی جنگوں کے دستور کے مطابق زرتشتوں کا سپہ سالار قارن آگے آیا اور اس نے مسلمانوں کو انفرادی مقابلے کیلئے للکارا۔ ’’مدینہ کا کوئی شتربان میرے مقابلے میں آ سکتا ہے؟‘‘اس نے دونوں فوجوں کے درمیان آکر اور للکار کر کہا۔’’میرے مقابلے میں آنے والا یہ سوچ کر آئے کہ میں شہنشاہِ فارس کا سپہ سالار ہوں۔‘‘ ’’میں ہوں تیرے مقابلے میں آنے والا۔‘‘ خالدؓ نے اپنا گھوڑا آگے بڑھایا اور للکارے۔’’قارن آ اور اپنے سالار ہرمز کے قتل کا انتقام لے۔ میں ہوں اس کا قاتل۔‘‘خالدؓ ابھی قارن سے کچھ دور ہی تھے کہ خالدؓ کے عقب سے ایک گھوڑا تیزی سے آیا اور خالدؓ کے قریب سے گزر گیا۔


’’پیچھے رہ ابنِ ولید!‘‘یہ گھوڑ سوار للکارا۔’’آتش پرستوں کا یہ سالار میرا شکار ہے۔‘‘


خالدؓ نے دیکھا ۔وہ ایک مسلمان سوار معقل بن الاعشی تھا وہ پہلوانی اور تیغ زنی میں مہارت اور شہرت رکھتا تھا۔ یہ ڈسپلن کے خلاف تھا کہ کوئی سپاہی یا سوار اپنے سالار پر برتری حاصل کرنے کی کوشش کرتا لیکن وہ وقت ایسا تھا کہ بندہ و صاحب اور محتاج و غنی ایک ہو گئے تھے۔ سپاہی اور سوار جنگ کا مقصد سمجھتے تھے۔ جو جذبہ سپاہیوں میں تھا وہی سالاروں میں تھا ۔معقل بن الاعشی یہ برداشت نہ کر سکا کہ اس کا سالار ایک آتش پرست کے ہاتھوں گھائل ہو۔ خالدؓ اپنی سپاہ کے جذبے کو سمجھتے تھے ۔ وہ رک گئے۔ انہوں نے اپنے اس سوار کے جذبہ کو مارنے کی کوشش نہ کی۔ معقل کے گھوڑے کی رفتار تیز تھی۔ گھوڑا ایرانیوں کے سالار قارن بن قریاس سے آگے نکل گیا۔ معقل نے آگے جا کر گھوڑے کو موڑا اور قارن کو للکارا۔ قارن نے پہلے ہی تلوار اپنے ہاتھ میں لے رکھی تھی۔ اس کے سر پر زنجیروں والا خود تھا۔ اور اس کا اوپر کا دھڑ زرہ میں تھا۔اس کی ٹانگوں پر موٹے چمڑے کے خول چڑھے ہوئے تھے۔اس کے چہرے پر انتقام کے تاثرات کے بجائے تکبر تھا جیسے لوہے اور موٹے چمڑے کا یہ لباس اسی مسلمان کی تلوار سے بچا لے گا۔ قارن نے اپنے گھوڑے کی باگ کوجھٹکا دیا۔ دونوں کے گھوڑے ایک دوسرے کے اردگرد ایک دو چکر لگا کر آمنے سامنے آگئے۔’’اے آگ کے پوجنے والے!‘‘معقل نے بڑی بلند آواز سے کہا۔’’میں سپاہی ہوں ،سالار نہیں ہوں۔‘‘قارن کے چہرے پر رعونت کے آثار اور زیادہ نمایاں ہو گئے۔ دونوں گھوڑے ایک دوسرے کی طرف بڑھے۔ ان کے سواروں کی تلواریں بلند ہوئیں۔ پہلے وار میں تلواریں ایک دوسرے سے ٹکرائیں اور دونوں سوار پیچھے ہٹ گئے۔ گھوڑے ایک بار پھر ایک دوسرے کی طرف آئے۔ تلواریں ایک بار پھر ہوا میں ٹکرائیں۔ اس کے بعد گھوڑے پیچھے ہٹے  اور گھوم گھوم کر ایک دوسرے کی طرف آئے ۔ دونوں سوار ایک دوسرے پر وار کرتے رہے۔ آخری بار قارن نے تلوار بلند کی معقل نے وہ وار روکنے کے بجائے اس کی بغل کو ننگا دیکھا تو تلوار برچھی کی طرح اس کی بغل میں اتنی زور سے ماری کہ تلوار قارن کے جسم میں دور تک اتر گئی۔ قارن کے اسی ہاتھ میں تلوار تھی جو اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ قارن گھوڑے پر ایک طرف کو جھکا۔ معقل نے اب اس کی گردن دیکھ لی۔ جس سے قارن کے آہنی خود کی زنجیریں ہٹ کر پیچھے کو لٹک آئی تھیں۔ معقل نے پوری طاقت سے گردن پر ایسا وار کیا کہ تکبر اور رعونت سے اکڑی ہوئی گردن صاف کٹ گئی۔ مسلمانوں کے لشکر سے دادوتحسین اور ﷲ اکبر کے نعرے رعد کی طرح کڑکنے لگے۔ قارن بن قریاس کا سر زمین پر پڑا تھا۔ اس کے زنجیروں والے خود کے نیچے اس کی حیثیت کے مطابق ایک لاکھ درہم کے ہیروں والی ٹوپی تھی۔ایسی ہی ٹوپی ہرمز کے سر پر بھی تھی۔ قارن کا باقی دھڑ گھوڑے سے لڑھک گیا لیکن اس کا ایک پاؤں رکاب میں پھنس گیا ۔معقل نے قارن کے گھوڑے کو ٹھُڈا مارا۔ گھوڑاقارن کے جسم کو گھسیٹتا دونوں فوجوں کے درمیان بے لگام دوڑنے لگا۔ ایرانیوں کے لشکر پر موت کا سنّاٹا طاری تھا۔


آتش پرستوں کی صفوں سے دو گھوڑے آگے آئے۔’’کون ہے ہمارے مقابلے میں آنے والا؟‘‘ان دو میں سے ایک گھوڑ سوار للکارا۔’’ہم اپنے سپہ سالار کے خون کا انتقام لیں گے۔‘‘ ’’میں اکیلا دونوں کیلئے کافی ہوں۔‘‘خالدؓ نے دشمن کی للکار کا جواب دیا اور ایڑھ لگائی۔ انہیں للکار نے والے دونوں ایرانی سالار قباذ اور انوشجان تھے۔ اچانک خالدؓ کے عقب سے دو گھوڑے آئے۔جواس کے دائیں بائیں سے آگے نکل گئے۔ خالد ؓکو ایک للکار سنائی دی۔’’پیچھے ہو ولید کے بیٹے! ان دونوں سالاروں نے ہمارے ہاتھ دیکھے ہوئے ہیں۔ اب ہم انہیں بھاگنے کی مہلت نہیں دیں گے۔‘‘خالدؓ کے لشکر کے دوسرے سوار نے کہا۔

خالدؓ نے دیکھا یہ دونوں سوار جو اس کے قریب سے گزر کر دشمن کے مقابلے پر چلے گئے تھے اس کے لشکر کے دائیں اور بائیں پہلوؤں کے سالار عاصم بن عمرو اور عدی بن حاتم تھے۔ ان دونوں نے کپڑوں کا لباس زیب تن کر رکھا تھا اور وہ جن کے مقابلے میں گئے تھے وہ سر سے پاؤں تک لوہے میں ڈوبے ہوئے تھے ۔ مسلمان سالاروں کو اپنے ﷲ پر بھروسہ تھا اور آتش پرست اس زرہ پر یقین رکھتے تھے جو انہوں نے پہن رکھی تھی۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ تلوار کے وار کو آہن نہیں عقیدہ روکا کرتا ہے۔ دونوں طرف تجربہ کار سالار تھے۔ جو تیغ زنی کی مہارت رکھتے تھے۔ ان کی تلواریں ٹکرانے لگیں۔ مسلمانوں کی تلواریں آتش پرستوں کی زرہ کو کاٹنے سے قاصر تھیں اس لئے وہ محتاط ہو کر وار کرتے تھے تاکہ تلواروں کی دھار کو نقصان نہ پہنچے۔عاصم اور عدی اس تاک میں تھے کہ دشمن کا کوئی نازک اور غیر محفوظ جسم کاحصہ سامنے آئے تو وہ معقل کی طرح وار کریں۔ آخرکار ان دونوں نے باری باری معقل کی ہی طرح اپنے اپنے دشمن کے قریب جا کر انہیں موقع دیا کہ وہ اوپر سے تلوار کا وار کریں۔ آتش پرستوں کے سالاروں نے وہی غلطی کی جو قارن نے کی تھی۔ انہوں نے بازو اوپر کیے اور تلواریں ان کی بغلوں میں داخل ہو گئیں اور دونوں کی تلواریں گر پڑیں۔ خالدؓ نے جب دیکھا کہ زرتشتوں کا سپہ سالار مارا گیا اور اس کے بعد اس کے دونوں سالار بھی جنہیں اپنے لشکر کو منظم طریقے سے لڑانا تھا، مارے گئے ہیں تو خالدؓ نے اپنے لشکر کو حملے کا حکم دے دیا۔ ایرانیوں کے لشکر میں وہ سپاہی بھی شامل تھے جو اپنے دلوں پر مسلمانوں کی دہشت لیے ہوئے جنگِ سلاسل سے بھاگے تھے۔اب انہوں نے اپنے تین سالاروں کو مرتے دیکھا تو انکی دہشت میں اضافہ ہو گیا۔ انہوں نے یہ دہشت اپنے سارے لشکر پر حاوی کر دی۔ لشکر کاحوصلہ تو پہلے ہی مجروح ہو چکا تھا۔ یہ لشکر مقابلے کیلئے بہرحال تیار ہو گیا۔ ایرانیوں کو یہ فائدہ حاصل تھا کہ ان کے پیچھے دریا تھا جس نے ان کے عقب کو محفوظ کیا ہوا تھا۔ اس دریا کا دوسرا فائدہ انہیں یہ نظر آ رہا تھا کہ اس میں بڑی کشتیاں بندھی ہوئی تھیں جو لشکر کے ساتھ آئی تھیں۔ پسپا ہونے کیلئے ان کشتیوں نے ان کے کام آنا تھا۔ انہیں یہ ڈر بھی نہ تھا کہ مسلمان تعاقب میں آسکیں گے۔


خالدؓ کے حملے کاانداز ہلّہ بولنے والا یا اندھا دھند ٹوٹ پڑنے والا نہیں تھا۔ انہوں نے ایک ہی بار اپنے تمام دستے جنگ میں نہ جھونک دیئے۔ انہوں نے قلب کے دستوں کو باری باری آگے بھیجا اور انہیں ہدایت یہ دی کہ وہ دشمن کی صفوں کے اندر نہ جائیں بلکہ دشمن کو اپنے ساتھ آگے لانے کی کوشش کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ خالدؓ پہلوؤں کو اس طرح پھیلاتے چلے گئے کہ وہ دشمنوں پر پہلوؤں سے حملہ کر سکیں۔ دشمن کے سپہ سالار اور دو سالاروں کی لاشیں گھوڑوں کے سُموں تلے کچلی مسلی گئی تھیں۔ یہ فارس کی شہنشاہیت کا غرور تھا جو مسلمانوں کے گھوڑوں تلے کچلا جا رہا تھا۔ اس صورتِ حال میں آتش پرستوں کے حوصلے مر سکتے تھے۔ بیدار نہیں ہو سکتے تھے۔ مسلمانوں کے نعرے اور ان کی للکار ان کے پاؤں اکھاڑ رہی تھی۔’’زرتشت کے پجاریو! ﷲ کو مانو……‘‘’’ہم ہیں محمد ﷺکے شیدائی……‘‘اور ﷲ اکبر کے نعروں سے فضا کانپ رہی تھی۔ جوش وخروش تو مثنیٰ بن حارثہ کے سواروں کا تھا۔ ان کی للکار الگ تھلگ تھی۔’’اپنے غلاموں کی ضرب دیکھو۔‘‘’’آج ظالموں سے خون کا حساب لیں گے۔‘‘ ’’بلاؤ اردشیر کو……‘‘’’زرتشت کو آواز دو۔‘‘ایرانی سپاہ کے حوصلے جواب دینے لگے۔ ان کی دوسری کمزوری نے ان کے جسم توڑ دیئے۔ی ہ کمزوری ان کے ہتھیاروں کا اور زِرہ کا بوجھ تھا۔ وہ تھکن محسوس کرنے لگے۔ خالدؓ نے جو اپنی سپاہ کے ساتھ سپاہیوں کی طرح لڑ رہے تھے، بھانپ لیا کہ آتش پرست ڈھیلے پڑتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے جس شدت سے مقابلے اور جوابی حملوں کا آغاز کیا تھا۔ اس شدت میں نمایاں کمی نظر آنے لگی۔ خالدؓ نے اپنے قاصد پہلوؤں کے سالاروں عاصم بن عدی کی طرف اس حکم کے ساتھ دوڑا دیئے کہ اپنے اپنے پہلوؤں کو اور باہر لے جا کر بیک وقت دشمن کے پہلوؤں پر حملہ کریں۔ اس کے ساتھ ہی خالدؓ نے قلب کے پیچھے رکھے ہوئے محفوظ ریزرو کے دستے کو دشمن کے قلب پر حملے کا حکم دے دیا۔ ان دستوں کو جو پہلے موج در موج کے انداز سے حملے کر رہے تھے ،خالد ؓنے پیچھے ہٹا لیا تاکہ وہ جوش و خروش میں ایسی تھکن محسوس نہ کرنے لگیں جو ان کی برداشت سے باہر ہو جائے۔ ایرانی لشکر مسلمانوں کے نئے حملوں کی تاب نہ لا سکا۔ ان کا جانی نقصان بہت ہو چکا تھا۔ اب وہ بِکھرنے لگے۔ مسلمانوں نے دیکھا کہ پیچھے جو ایرانی سپاہی تھے وہ دریا کی طرف بھاگے جا رہے تھے۔ اس وقت مسلمانوں کو وہ کشتیاں دکھائی دیں جو سینکڑوں کی تعداد میں دریا کے کنارے بندھی تھیں۔’’کشتیاں توڑ دو۔‘‘ایک مسلمان کی للکار سنائی دی۔’’دشمن بھاگنے کیلئے کشتیاں ساتھ لایا ہے۔‘‘ایک اور للکار سنائی دی۔ جب یہ للکار خالدؓ تک پہنچی تو انہوں نے دائیں بائیں قاصد اس حکم کے ساتھ دوڑا دیئے کہ دشمن کے عقب میں جانے کی کوشش کرواور ان کی کشتیاں توڑ دو یا ان پر قبضہ کرلو۔ قبضہ کر لینے کی صورت میں یہ کشتیاں خالدؓ کے لشکر کے کام آ سکتی تھیں،اُنہیں بھی دریا پار کرنا تھا۔جب یہ حکم سالاروں تک اور سالاروں سے سپاہیوں تک پہنچاتو یہی ایک للکار بلند ہونے لگی۔


’’کشتیوں تک پہنچو……کشتیاں بیکار کر دو……کشتیاں پکڑ لو۔‘


اس للکار نے آتش پرستوں کا رہا سہا دم خم بھی توڑ دیا۔ زندہ بھاگ نکلنے کا ذریعہ یہی کشتیا ں تھیں جو مسلمانوں نے دیکھ لی تھیں۔ ایرانیوں نے لڑائی سے منہ موڑ کر کشتیوں کا رخ کیا۔ وہ ایک دوسرے سے پہلے کشتیوں میں سوار ہونے کیلئے دھکم پیل کرنے لگے۔ ان کی حالت ڈری ہوئی بھیڑوں کی مانند ہو گئی۔ جو ایک دوسرے کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کیا کرتی ہیں۔ ایرانی سپاہیوں نے کشتیوں پر سوار ہونے کیلئے گھوڑے چھوڑ دیئے۔ حالانکہ کشتیاں اتنی بڑی تھیں کہ ان پر گھوڑے بھی لے جائے جا سکتے تھے۔ یہ تھا وہ موقع جب مجاہدینِ اسلام کے ہاتھوں آتش پرستوں کا قتلِ عام شروع ہو گیا۔ وہ کشتیوں میں سوار ہونے کی کوشش میں کٹ رہے تھے۔ ان میں سے جوکشتیوں میں سوار ہو گئے اور رسّے کھول کر کشتیاں کنارے سے ہٹا لے گئے ،ان میں زیادہ تر مسلمانوں کے تیروں کا نشانہ بن گئے ۔ پھر بھی کچھ خوش نصیب تھے جو بچ کر نکل گئے۔ تقریباً تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اس معرکے میں تیس ہزار ایرانی فوجی مارے گئے۔ زخمیوں کی تعداد کسی نے نہیں لکھی۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ جہاں اتنی اموات ہوئیں وہاں زخمیوں کی تعداد ان کے ہی لگ بھگ ہو گی۔اس کا مطلب یہ تھا کہ شہنشاہِ فارس کی اس جنگی قوت کا بت ٹوٹ گیا تھا جسے ناقابلِ تسخیر سمجھا جاتا تھا۔ ﷲ کی تلوار نے کِسریٰ کی طاقت اور غرور پر کاری ضرب لگائی تھی جس نے مدائن میں کسریٰ کے ایوانوں کو ہلا ڈالا تھا۔ دریائے معقل کے کنارے خون میں ڈوب گئے تھے۔ میدانِ جنگ کا منظر بڑا ہی بھیانک تھا۔ دور دور تک لاشیں اور تڑپتے زخمی بکھرے نظر آتے تھے۔ زخمی گھوڑے دوڑتے پھرتے اور زخمیوں کو روندتے پھررہے تھے۔ مجاہدین ِ اسلام اپنے زخمی ساتھیوں کو اور شہیدوں کی لاشوں کو اٹھا رہے تھے۔ میدان خون سے لال ہو گیا تھا۔ خالدؓ ایک بلند جگہ پر کھڑے میدانِ جنگ کو دیکھ رہے تھے۔ ایک طرف سے ایک گھوڑ سوار گھوڑے کو سر پٹ دوڑاتا آیا۔ اس نے خالدؓ کے قریب آکر گھوڑا روکا۔ وہ مثنیٰ بن حارثہ تھے۔ گھوڑا خالدؓ کے پہلوکے ساتھ کرکے مثنیٰ گھوڑے پر ہی خالدؓ سے بغل گیر ہو گئے۔

’’ابنِ ولید!‘‘مثنیٰ نے جذبات سے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔’’میں نے آج مظلوم مسلمانوں کے خون کا انتقام لے لیا ہے۔‘‘ ’’ابھی نہیں ابنِ حارثہ!‘‘خالد ؓنے بڑے سنجیدہ لہجے میں کہا۔’’ابھی تو ابتداء ہے۔ہمارے لیے اصل خطرہ اب شروع ہوا ہے۔ کیا تم نے ان کشتیوں کی تعداد نہیں دیکھی ؟ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ یہ کشتیاں کتنی بڑی اور کتنی مضبوط تھیں؟ اور تم نے یہ بھی دیکھا ہو گا کہ فارسیوں کے پاس سازوسامان کس قدر زیادہ ہے۔ ان کے وسائل بڑے وسیع ہیں۔ ہم اپنے وطن سے بہت دورآگئے ہیں۔ہمیں اب انہی سے ہتھیار اور رسد چھین کر اپنی ضرورت پوری کرنی ہے۔ یہ کام آسان نہیں ہے ابنِ حارثہ۔ اور میرے لیے یہ بھی آسان نہیں ہے کہ میں ان دشواریوں اور محرومیوں سے گھبرا کر یہیں سے واپس چلا جاؤں۔‘‘ ’’ہم واپس نہیں جائیں گے ابنِ ولید!‘‘مثنیٰ نے پرعزم لہجے میں کہا۔’’ہمیں کسریٰ کے ایوانوں کی اینٹ سے اینٹ بجانی ہے۔ ہمیں ان آتش پرستوں پر یہ ثابت کرنا ہے کہ جھوٹے ـ’’خدا‘‘ کسی کی دستگیری نہیں کر سکتے۔‘‘


خالدؓ نے اپنے سالاروں کو بلایا۔ اس سے پہلے وہ مالِ غنیمت اکھٹا کرنے کا حکم دے چکے تھے۔’’ہماری مشکلات اب شروع ہوئی ہیں۔ خالدؓ نے اپنے سالاروں سے کہا۔’’ہم اس وقت دشمن کی سرزمین پر کھڑے ہیں ۔ یہاں کے درخت اور یہاں کے پتھر اور اس مٹی کا ذرہ ذرہ ہمارا دشمن ہے۔ یہاں کے لوگ ہمارے لیے اجنبی ہیں ۔ ان لوگوں پر فارس کی شہنشاہیت کی دہشت طاری ہے، یہ لوگ اردشیر کو فرعون سمجھتے ہیں۔ یہ بڑی مشکل سے مانیں گے کہ کوئی ایسی طاقت بھی ہے جس نے فارس کی شہنشاہیت کا بت توڑ ڈال اہے……‘‘’’میرے رفیقو! یہاں کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملائے بغیر ہم یہاں اک قدم بھی نہیں چل سکتے۔ ہم کسی سے تعاون کی بھیک نہیں مانگیں گے۔ ہم محبت سے ان کے دل موہ لینے کی کوشش کریں گے اور جس پر ہمیں ذرا سا بھی شک ہوگا کہ وہ ہمیں ظاہری طور پر یا درپردہ نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ہم اسے زندہ رہنے کے حق سے محروم کر دیں گے۔ ہم ان لوگوں کو غلام بنانے نہیں آئے۔ ہم انہیں غلامی سے اور باطل کے عقیدوں سے نجات دلانے آئے ہیں۔ جو علاقے ہم نے لے لیے ہیں ان کے انتظامی امور کی طرف فوری توجہ دینی ہے۔ یہاں مسلمان بھی آباد ہیں ۔ وہ یقینا ہمارا ساتھ دیں گے ،لیکن میرے دوستو! کسی پر صرف اس لئے اعتبار نہ کرلینا کہ وہ مسلمان ہے غلامی اتنی بری چیز ہے کہ انسانوں کی فطرت بدل ڈالتی ہے……‘‘’’یہاں کے مسلمانوں کو اعتماد میں لے کر ان سے معلوم کرنا ہے کہ شہنشاہِ فارس کے حامی کون کون ہیں؟ ان کی چھان بین کرکے ان کے درجے مقرر کرنے ہیں۔ جن پر ذرا سا بھی شک ہو اسے گرفتار کر لو اور جو غیر مسلم سچے دل سے ہمارے ساتھ تعاون کرنا چاہتا ہے اسے اسلام کی دعوت دو……میں مختلف شعبے قائم کر رہا ہوں۔ــ‘‘ خالدؓ نے مفتوحہ علاقوں کے باشندوں پر سب سے زیادہ توجہ دی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جو غیر مسلم باشندے مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لیں گے ان سے جزیہ وصول کیا جائے گا اور مسلمان انہیں اپنی پناہ میں سمجھیں گے ۔ ان کی ضروریات اور ان کی جان و مال کا تحفظ مسلمانوں کی ذمہ داری ہو گی۔ اس اعلان کے ساتھ ہی بیشتر باشندے مسلمانوں کی پناہ میں آ گئے ۔ خالدؓ نے اس علاقے سے جذیہ اور محصولات وغیرہ جمع کرنے کیلئے ایک شعبہ قائم کر دیا جس کا نگران ــ’’سوید بن مقرن‘‘ کو مقررکیا گیا ۔ دوسرا شعبہ جس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی وہ جاسوسی کا شعبہ تھا اب باقاعدہ اور ماہرانہ جاسوسی کی ضرورت تھی۔ خالدؓ نے اسی وقت اپنے جاسوس جو اسی علاقے کے رہنے والے مسلمان تھے دریائے فرات کے پاربھیج دیئے ۔جب مالِ غنیمت جمع ہو گیا تو دیکھا کہ یہ جنگِ سلاسل کی نسبت خاصا زیادہ تھا۔ خالدؓ نے اس کے پانچ حصے کیے۔ چار اپنی سپاہ میں تقسیم کرکے پانچواں حصہ مدینہ بھیج دیا۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ اس سے پہلے خالد ؓکو اتنا سنجیدہ ااور اتنا متفکر کبھی نہیں دیکھا گیا تھا جتنا وہ اب تھے۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں