⚔ شمشیرِ بے نیام ⚔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
( قسط نمبر-35)
اب ایرانیوں نے اپنے آپ کو زنجیروں میں باندھ لیا تھا ۔ خالدؓ نے سوچ لیا کہ وہ کیا چال چلیں گے، اور ایرانیوں کو کس طرح لڑائیں گے۔ ہرمز نے اپنے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور دونوں فوجوں کے درمیان ایسی جگہ آ کر رک گیا جہاں زمیں کٹی پھٹی اورکہیں کہیں ٹیلے تھے۔ اس کے محافظ اس سے کچھ دور آکر رک گئے۔’’کہاں ہے خالد!‘‘ہرمز نے للکار کر کہا۔’’آ! پہلے میرا اور تیرا مقابلہ ہو جائے۔‘‘ یہ اس زمانے کا دستور تھا کہ جنگ شروع کرنے سے پہلے دونوں فوجوں کے سالار ذاتی مقابلوں کیلئے ایک دوسرے کو للکارتے تھے۔ دونوں فوجوں کے آدمی انفرادی طور پر آگے جا کر تلواروں سے بھی لڑتے تھے اور کشتی بھی کرتے تھے ۔ نتیجہ دونوں میں سے ایک کی موت ہوتا تھا۔ جنگِ سلاسل میں ہرمز نے خود آگے آ کر خالدؓ کو انفرادی مقابلے کیلئے للکارا۔ ہرمز مانا ہوا جنگجو اور بہادر آدمی تھا۔ تیغ زنی کی مہارت کے علاوہ اس کے جسم میں بہت طاقت تھی۔خالدؓ کی عمر اڑتالیس سال ہو چکی تھی۔ وہ جنگی چالوں کے ماہر تھے ۔ ان کے جسم میں اچھی خاصی طاقت تھی لیکن ہرمز زیادہ طاقتور تھا۔ اس کی للکار پر خالدؓ نے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور ہرمز کے سامنے جا رکے۔ ہرمز گھوڑے سے اترا اور خالدؓ کو گھوڑے سے اترنے کا اشارہ کیا۔ دونوں نے تلواریں نکال لیں۔ دونوں نے ایک دوسرے پر بڑھ بڑھ کر وار کیے۔ پینترے بدلے ،گھوم گھوم کر ایک دوسرے پر آئے مگر تلواریں آپس میں ہی ٹکراتی رہیں۔ پھر خالدؓ کے ہاتھوں اور پینتروں میں پھرتی آگئی۔ دونوں فوجیں شوروغل بپا کر رہی تھیں۔ہرمز محسوس کرنے لگا تھا کہ وہ خالدؓ کی تلوار سے بچ نہیں سکے گا۔ وہ تیزی سے پیچھے ہٹ گیا اور اس نے تلوارپھینک دی۔
’’تلواریں فیصلہ نہیں کر سکیں گی۔‘‘ہرمز نے کہا۔’’آخالد! ہتھیار کے بغیر آ،اور کشتی لڑ۔‘‘خالدؓ تلوار پھینک کر کشتی کیلئے آگے بڑھے اور دونوں گتھم گتھا ہو گئے۔ کشتی میں ہرمزکا پلّہ بھاری نظر آتا تھا لیکن مورخ لکھتے ہیں کہ ہرمز کی چال کچھ اور تھی اس نے اپنے محافظوں کو پہلے ہی بتا رکھا تھا کہ جب وہ خالد ؓکو اتنی مضبوطی سے پکڑ لے کہ خالدؓ ہلنے کے قابل نہ رہیں تو محافظ دونوں کو اس طرح گھیرے میں لے لیں کہ ان کی نیت اور ارادے پر شک نہ ہو۔ یعنی وہ تماشائی بنے رہیں اور ان میں سے ایک محافظ خنجر نکال کرخالد کاپیٹ چاک کر دے۔ جنگجو اس طرح دھوکا نہیں دیا کرتے تھے لیکن ہرمز کمینگی کی وجہ سے مشہور تھا۔ ہرمز کے محافظ آگے بڑھ آئے اور اپنی فوج کی طرح نعرے لگاتے نرغے کی ترتیب میں ہوتے گئے ۔وہ گھوڑوں پر سوار نہیں تھے ۔ وہ گھیرا تنگ کرتے گئے حتیٰ کے دونوں کے قریب چلے گئے ۔ خالدؓ کی توجہ بٹ گئی۔ ہرمز نے پھرتی سے خالد ؓکے دونوں بازو اس طرح جکڑ لیے کہ اس کے بازو خالد ؓکی بغلوں میں تھے ۔محافظ اور قریب آ گئے۔ ہرمز نے اپنی زبان میں محافظوں سے کچھ کہا۔ خالدؓ ا س کی زبان تو نہ سمجھ سکے ،اشارہ سمجھ گئے۔ انہوں نے خطرے کو بھانپ لیا اور جسم کی تمام تر طاقت صرف کرکے اتنی زور سے گھومے کے ہرمزکو بھی اپنے ساتھ گھمالیا۔ پھر خالدؓ ایک جگہ کھڑے گھومتے رہے۔ ہرمز کے پاؤں زمین سے اٹھ گئے۔ خالدؓ نے ہرمز کے بازواپنی بغلوں میں جکڑ لیے تھے اور اپنے ہاتھ ہرمز کی بغلوں میں لے جاکر اسے گھماتے رہے۔ اس طرح محافظوں کا دائرہ کھلتا گیا اور ان میں سے کسی کو بھی آگے بڑھ کر خالد ؓپر وارکرنے کا موقع نہیں ملا۔ لیکن خالدؓ کا یہ داؤ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا تھا۔ وہ تھک چکے تھے۔ اچانک ایک طرف سے ایک گھوڑا سرپٹ دوڑتا آیا جسے ہرمز کے محافظ نہ دیکھ سکے۔ گھوڑا محافظوں کے دائرے کو کا ٹتا گذر گیا اور تین محافظ زمین پر تڑپنے لگے۔ ان میں سے ایک کو گھوڑے نے کچل ڈالا تھا اور دو کو گھوڑ سوار کی تلوار نے کاٹ دیا تھا۔گھوڑا آگے جا کر مڑا اور پھر ہرمز کے محافظوں کی طرف آیا۔ محافظوں نے اب اس سے بچنے کی کوشش کی پھر بھی تین محافظ گرے اور تڑپنے لگے۔ باقی بھاگ گئے اور سوار اپنی فوج سے جا ملا۔ یہ سوار نوجوان قعقاعؓ بن عمرو تھا جسے خلیفہ ابو بکر صدیق ؓ نے کمک کے طور پر خالد ؓکی طرف بھیجا اور کہا تھا۔’’جس لشکر میں قعقاع جیسا جوان ہوگا وہ لشکر شکست نہیں کھائے گا۔‘‘اس سوار سے نظریں ہٹا کر سب نے خالدؓ اور ہرمزکو دیکھا۔ ہرمز پیٹھ کے بل زمین پر پڑا تھااور خالدؓ اس کی پیٹھ پر بیٹھے اس کے سینے سے اپنا خنجر نکال رہے تھے ۔ خنجر سے ہرمزکاخون ٹپک رہا تھا ، قعقاعؓ نے ہرمزکے محافظوں کی نیت بھانپ لی تھی اور کسی کے حکم کے بغیر گھوڑے کو ایڑھ لگا کر محافظوں پر جا ہلّہ بولااورخالدؓ کو بچا لیا تھا۔ خالد ؓہرمز کی لاش سے اٹھے ۔ہرمز کی ایک لاکھ درہم کی ٹوپی خالدؓ کے ہاتھ میں تھی اور اس کے خون میں لتھڑا ہوا خنجر بلند کر کے خالدؓ نے اپنی فوج کو کھلے حملے کا حکم دے دیا۔ ان کے پہلے سے دیئے ہوئے احکام کے مطابق مسلمان لشکر کے دونوں پہلو کھل گئے اور اس نے دائیں اور بائیں سے ایرانیوں پرحملہ کیا۔ ایرانی اپنے ہرمز جیسے سالار کی موت سے بد دل ہو گئے تھے لیکن اپنی روائتی شجاعت سے وہ دستبردار نہ ہوئے۔ ان کی تعداد مسلمانوں کی نسبت خاصی زیادہ تھی۔ ہتھیاروں اور گھوڑوں کے لحاظ سے بھی انہیں برتری حاصل تھی۔ وہ مسلمانوں کے مقابلے میں جم گئے۔نظر یہی آ رہا تھا کہ ایرانیوں کو شکست نہیں دی جا سکے گی یا یہ کہ انہیں شکست دینے کیلئے بے شمار جانیں قربان کرنا پڑیں گی۔
ایرانی سپاہی پانچ پانچ، سات سات،دس دس، ایک ایک زنجیر سے بندھے ہوئے تھے اورہر طرف سے آنے والے حملے روک رہے تھے ۔ خالدؓ نے انہیں تھکانے کیلئے گھوڑ سواروں کو استعمال کیا۔ گھوڑ سواروں نے پیادوں پر اس طرح حملے شروع کر دیئے کہ پیادوں کو دائیں بائیں دوڑنا پڑتا ۔ اپنے پیادوں کو بھی خالدؓ نے اسی طرح استعمال کیا۔ ایرانی پیادوں کو بھاگنا دوڑنا پڑا۔ان کے مقابلے میں مسلمان تیزی سے حرکت کر سکتے تھے۔ آخر ایرانیوں میں تھکن اور سستی کے آثار نظر آنے لگے۔ انہوں نے اپنی روایت کے مطابق جو زنجیریں باندھ رکھی تھیں، وہ ان کے پاؤں کی بیڑیاں بن گئیں۔ ہتھیاروں کی برتری وبالِ جان بن گئی،ایرانیوں کی تنظیم اور ترتیب بکھرنے لگی، ان کے قلب کی کمان تو پہلے ہی ہرمز کے مرتے ہی ختم ہوگئی تھی ۔ان کے پہلوؤں کے سالاروں قباذ اور انوشجان نے شکست یقینی دیکھی تو پسپائی کا حکم دے دیا۔ پسپا وہی ہو سکے جو زنجیروں میں بندھے نہیں تھے ۔ ان میں زیادہ گھوڑ سوار تھے ۔ قباذ اور انوشجان پہلوؤں سے اپنی فوج کی بہت سی نفری بچا کر لے گئے لیکن قلب کے ہزاروں سپاہی مسلمانوں کے ہاتھوں کٹ گئے ۔ یہ تو آتش پرستوں کا قتلِ عام تھا جوسورج غروب ہونے کے بعد تک جاری رہا۔ شام تاریک ہو گئی تو یہ خونی سلسلہ رکا۔ مسلمانوں نے ایک بڑے ہی طاقتور دشمن کو بہت بری شکست دے کر ثابت کر دیا کہ نفری کی افراط اور ہتھیاروں کی برتری سے فتح حاصل نہیں کی جا سکتی ،جذبہ لڑا کرتا ہے۔ اگلے روز مالِ غنیمت اکھٹا کیا گیا۔ خالد ؓنے اسے پانچ حصوں میں تقسیم کیا،چار حصے اپنے لشکر میں تقسیم کر دیئے اور ایک حصہ مدینہ خلیفہ ابو بکرؓ کو بھیج دیا۔ہرمز کی ایک لاکھ درہم کی ٹوپی بھی خالدؓ نے خلیفہ ؓکو بھیج دی۔ خلیفہ ؓنے یہ ٹوپی خالدؓ کو واپس بھیج دی کیونکہ ذاتی مقابلوں میں مارے جانے والے کا مالِ غنیمت جیتنے والے کا حق ہوتا ہے۔ یہ ٹوپی خالدؓ کی ملکیت تھی۔’’یہ دیکھو……باہر آؤ……دیکھو یہ کیا ہے!‘‘مدینہ کی گلیوں میں کئی آوازیں بلند ہوئیں۔ لوگ دوڑتے گھروں سے باہر آنے لگے۔ ’’جانور ہے۔‘‘’’نہیں ،خدا کی قسم! ہم نے ایسا جانور کبھی نہیں دیکھا۔‘‘ ’’یہ جانور نہیں، خدا کی عجیب مخلوق ہے۔‘‘عورتیں اور بچے بھی باہر نکل آئے۔ سب کے چہروں پر حیرت تھی۔ بچے ڈر کر پیچھے ہٹ گئے ۔جنہوں نے خدا کی اس عجیب مخلوق کو پکڑ رکھا تھا وہ ہنس رہے تھے اور وہ آدمی بھی ہنس رہا تھا جو اس عجیب مخلوق کی گردن پر بیٹھا تھا۔’’یہ کیا ہے؟ لوگ پوچھ رہے تھے۔ اسے کیا کہتے ہیں؟‘‘’’اسے ہاتھی کہتے ہیں ۔‘‘ہاتھی کے ساتھ ساتھ چلنے والے ایک آدمی نے بلند آواز سے کہا۔’’یہ جنگی جانور ہے۔ یہ ہم نے فارس والوں سے چھینا ہے۔‘‘جنگِ سلاسل میں جب ایرانی زرتشت بھاگے تھے تو یہ ہاتھی مسلمانوں کے ہاتھ آیا تھا۔ تقریباً تمام مورخین نے یہ واقعہ لکھا ہے کہ خالد ؓنے مالِ غنیمت کا جو پانچواں حصہ خلیفۃ المسلمین ابو بکرؓ کو بھیجا تھا اس میں ایک ہاتھی بھی تھا۔ مدینہ والوں نے ہاتھی کبھی نہیں دیکھا تھا ۔اس ہاتھی کو مدینہ شہر میں گھمایا پھرایا گیا۔ تو لوگ حیران ہو گئے اور بعض ڈر بھی گئے۔ وہ اسے جانور نہیں خدا کی عجیب مخلوق کہتے تھے ۔ہاتھی کے ساتھ اس کا ایرانی مہاوت بھی تھا ۔
اس ہاتھی کو چند دن مدینہ میں رکھا گیا ۔ کھانے کے سوا اس کا اور کوئی کام نہ تھا۔ مدینہ والے اس سے کام لینا جانتے بھی نہیں تھے ۔ اس کے علاوہ صرف ایک ہاتھی سے وہ کرتے بھی کیا ؟ امیر المومنینؓ نے اس کے مہاوت کو ہاتھی سمیت رہا کر دیا ، کسی بھی تاریخ میں یہ نہیں لکھا کہ یہ ہاتھی مدینہ سے کہاں چلا گیا تھا۔ دجلہ اور فرات آج بھی بہہ رہے ہیں ،ایک ہزار تین سو باون سال پہلے بھی بہہ رہے تھے ،مگر اس روانی میں اور آج کی روانی میں بہت فرق ہے۔ ساڑھے تیرہ صدیاں پہلے دجلہ اور فرات کی لہروں میں اسلام کے اولین مجاہد کے جوشیلے اور پر عزم نعروں کا ولولہ تھا ان دریاؤں کے پانیوں میں شہیدوں کا خون شامل تھا۔ شمع رسالتﷺ کے شیدائی اسلام کو دجلہ اور فرات کے کنارے کنارے دور آگے لے جا رہے تھے۔ زرتشت کی آگ کے شعلے لپک لپک کر مسلمانوں کا راستہ روکتے تھے۔ مسلمان بڑھتے ہی چلے جا رہے تھے۔ان کا بڑھنا سہل نہیں تھا ۔وہ فارسیوں کی شہنشاہی میں داخل ہو چکے تھے ،ان کی نفری اور جسموں کی تازگی کم ہوتی جا رہی تھی اور دشمن کی جنگی قوت ہیبت ناک تھی۔ کبھی یوں لگتا تھا جیسے آتش پرست فارسیوں کی جنگی طاقت مسلمانوں کے قلیل لشکرکو اپنے پیٹ میں کھینچ رہی ہے۔ اپریل ۶۳۳ء کا تیسرا اور صفر ۱۲ ہجری کا پہلا ہفتہ تھا خالد ؓ کاظمہ کے مقام پر آتش پرست ایرانیوں کو شکست دے کر آگے ایک مقام پر پہنچ گئے تھے ۔ انہوں نے دو ہی ہفتے پہلے ایرانیوں کو شکست دی تھی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمانوں نے اتنی بڑی شہنشاہیت سے ٹکرلی تھی جس کی جنگی قوت سے زمین کانپتی تھی۔ امیرالمومنین ابوبکرؓ نے کہا تھا کہ ابھی ہم اتنی بڑی طاقت سے ٹکر لینے کے قابل نہیں ہیں لیکن انہوں نے یہ بھی محسوس کر لیا تھا کہ ٹکر لینا ناگزیر ہو گیا ہے۔ ورنہ زرتشت مدینہ پر چڑھ دوڑیں گے۔ ان کے عزائم ایسے ہی تھے وہ مسلمانوں سے نفرت کرنے والے لوگ تھے اور اپنی بادشاہی میں مسلمانوں پر بہت ظلم کرتے تھے۔ امیر المومنین ؓنے خالدؓ کو یمامہ سے بلاکر زرتشتوں کے خلاف بھیجا تھا۔ خالد ؓکو رسولِ کریمﷺ نے سیف ﷲ کا خطاب عطا فرمایا تھا۔ اب خلیفہ اول ابو بکرؓ نے بھی کہا تھا ’’ ﷲ کی تلوار کے بغیر ہم فارس کی بادشاہی سے ٹکر نہیں لے سکتے ۔‘‘خالد ؓنے یہ ثابت کر دیا تھا کہ وہ ﷲ کی تلوار ہیں۔ فارس کی شہنشاہیت کی گدی مدائن میں تھی ۔فارس کا شہنشاہ اردشیر مدائن میں شہنشاہوں کی طرح تخت پر بیٹھا تھا۔ اس کی گردن ان شہنشاہوں کی طرح اکڑی ہوئی تھی جواپنے آپ کو ناقابلِ تسخیر سمجھتے تھے۔ اس کے تخت کے دائیں بائیں ایران کا حسن مچل رہا تھا۔ وہ تخت سے اٹھنے ہی لگا تھا کہ اسے اطلاع دی گئی کہ ابلہ کے محا ذ سے قاصد آیا ہے۔’’فوراً بلاؤ۔‘‘اردشیر نے شاہانہ رعونت سے کہا۔’’اس کے سوا وہ اور کیا خبر لایا ہوگا کہ ہرمز نے مسلمانوں کو کچل ڈالا ہے۔ کیا حیثیت ہے عرب کے ان بدوؤں کی۔ جنہوں نے کھجور اور جَوکے سوا کھانے کی کبھی کوئی چیز نہیں دیکھی۔‘‘
قاصد دربار میں داخل ہوا تو اس کا چہرہ اور اسکی چال بتارہی تھی کہ وہ اچھی خبر نہیں لایا۔ اس نے ایک بازو سیدھا اوپر کیا اور جھک گیا۔’’سیدھے ہو جاؤ۔‘‘اردشیر نے فاتحانہ لہجے میں کہا۔’’ ہم اچھی خبر سننے کیلئے اتنا انتظار نہیں کر سکتے ۔ کیا مسلمانوں کی عورتوں کو بھی پکڑا گیا ہے۔ بولو ،تم کیوں خاموش ہو؟‘‘ ’’زرتشت کی ہزار رحمت تختِ فارس پر!‘‘ قاصد نے دربار کے آداب کے عین مطابق کہا۔’’ شہنشاہ اردشیر کی شہنشاہیت ……‘‘’’خبر کیا لائے ہو؟‘‘اردشیر نے گرج کر پوچھا۔’’عالی مقام !ہرمز نے کمک مانگی ہے۔‘‘ قاصد نے کہا۔’’ہرمز نے ؟‘‘اردشیر چونک کر آگے کو جھکا اور ا س نے حیران ہوکر پوچھا۔’’ کمک مانگی ہے؟ کیا وہ مسلمانوں کے خلاف لڑ رہا ہے؟ کیا وہ پسپا ہو رہاہے؟ ہم نے سنا تھا کہ مسلمان لٹیروں کے ایک گروہ کے مانند ہیں۔ کیا ہوگیا ہے ہرمز کو؟ کیا اس نے سپاہ کو زنجیروں سے نہیں باندھا تھا؟ بولو۔‘‘دربار پر سناٹا طاری ہو گیا۔ جیسے وہاں کوئی بھی نہ ہو اور درودیوار چپ چاپ ہوں۔’’شہنشاہِ فارس کی شہنشاہی افق تک پہنچے۔‘‘قاصد نے کہا ۔’’زنجیریں باندھی تھیں مگر مسلمانوں نے ایسی چالیں چلیں کہ یہی زنجیریں ہماری سپاہ کے پاؤں کی بیڑیاں بن گئیں ۔‘‘ ’’مدینہ والوں کی تعداد کتنی ہے؟‘‘ ’’بہت تھوڑی شہنشاہِ فارس۔‘‘قاصد نے جواب دیا۔’’ہمارے مقابلے میں ان کی تعداد کچھ بھی نہیں تھی لیکن……‘‘ ’’دور ہو جا ہماری نظروں سے۔‘‘شہنشاہ اردشیر گرجا اور ذرا سوچ کر بولا۔’’قارن کو بلاؤ۔‘‘قارن بن قریانس ایرانی فوج کا بڑا ہی قابل اور دلیر سپاہ سالار تھا۔وہ بھی ہرمزکی طرح لاکھ درہم کا آدمی تھا اور ہرمز کی ٹوپی کی طرح ٹوپی پہنتا تھا۔ اطلاع ملتے ہی دوڑا آیا۔’’قارن!‘‘ اردشیر نے کہا۔’’کیا تم اس خبر کو سچ مان سکتے ہو کہ ہرمز نے مسلمانوں کے خلاف لڑتے ہوئے کمک مانگی ہے۔‘‘اردشیر نے درباریوں پر نگاہ دوڑائی تو تمام درباری اٹھ کھڑے ہوئے ۔سب تعظیم کوجھکے اور باہر نکل گئے ۔ اردشیر قارن کے ساتھ تنہائی میں بات کرنا چاہتا تھا۔ ’’کیا یہ قاصد مسلمانوں کا آدمی تو نہیں جو ہمیں دھوکا دینے آیا ہو۔‘‘ ’’مسلمان اتنی جرات نہیں کر سکتے۔‘‘قارن نے کہا۔’’میدانِ جنگ میں ذراسی غلطی پانسا پلٹ دیا کرتی ہے۔اگر ہرمز نے کمک مانگی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے کمک کی ضرورت ہے اور اس سے کوئی غلطی سرزد ہو گئی ہے۔‘‘
’’کیا مسلمانوں میں اتنی ہمت ہے کہ وہ ہماری فوج کو پسپا کر سکیں ؟ ‘‘اردشیر نے کہا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں