شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 29





⚔ شمشیرِ بے نیام ⚔

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

( قسط نمبر-29)



نہیں ابنِ ولید!‘‘ مجاعہ نے کہا۔’’یہ میری ایک چال تھی۔ شہر سے تمام آدمی لڑنے کیلئے چلے گئے ہیں۔ شہر میں کوئی جوان آدمی نہیں رہا تھا۔ میں اپنے قبیلے کو تباہی سے بچانا چاہتا تھا۔ میں نے تمام عورتوں،بوڑھوں اور کمسن لڑکوں کو زرہ اورسروں پر خودیں پہنائیں، اور ان کے ہاتھوں میں تیروکمان اور برچھیاں دے کر دیوارپر کھڑا کر دیا۔ میں نے خود باہر جا کر دیکھا۔ پتہ نہیں چلتا تھا کہ یہ عورتیں ،بوڑھے آدمی اور کمسن لڑکے ہیں،میں نے تجھے موقع دیا کہ دیوار پر اک نظر ڈال لے تاکہ تو اس جھانسے میں آجائے کہ یمامہ میں بہت بڑا لشکر موجود ہے ……اور تو میرے جھانسے میں آ گیا۔‘‘خالدؓ خشمگیں ہوئے ۔وہ مجاعہ کو اس دھوکے کی سزا دے سکتے تھے۔ لیکن اس عہد نامے کی خلاف ورزی انہیں گوارا نہیں تھی جس پر وہ دستخط کر چکے تھے۔’’ﷲ کی قسم!‘‘خالدؓ نے مجاعہ سے کہا۔’’تو نے مجھے دھوکا دیا ہے۔‘‘ ’’میں تجھے دھوکا دے سکتا ہوں۔‘‘مجاعہ نے کہا۔’’اپنے قبیلے کی عورتوں اور بچوں سے غداری نہیں کر سکتا ۔میں انہیں تیری تلواروں سے بچانا چاہتا تھا۔میں نے انہیں بچا لیا ہے۔‘‘’’. تو خوش قسمت ہے کہ میں مسلمان ہوں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’اسلام معاہدہ توڑنے کی اجازت نہیں دیتا۔میں صلح نامے پر دستخط کر چکا ہوں۔ ورنہ میں تمہاری ان تمام عورتوں کو لونڈیاں بنا لیتا۔‘‘’’مجھے معلوم تھا کہ تو ایسا نہیں کرے گا۔‘‘مجاعہ نے کہا۔’’لیکن ایک بات سن لے ابنِ مرارہ!‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’میں نے معاہدہ صرف یمامہ شہر کیلئے کیا ہے۔ اس میں اردگرد کے علاقے شامل نہیں۔ میں پابند ہوں کہ یمامہ کے اندر کسی جنگی مجرم کو قتل نہ کروں۔یمامہ کے باہر میں جسے سمجھوں گا کہ اسے قتل ہونا چاہیے ۔اس کے قتل سے میں گریز نہیں کروں گا۔‘‘ ارتداد کا سب سے بڑا مرکز یمامہ تھا جو خالدؓ نے اکھاڑ پھینکا اور جھوٹے نبی کو ہلاک کرکے اس کی لاش کی نمائش کی گئی۔ اس کے پیروکاروں سے کہا گیا کہ مسیلمہ کے پاس معجزوں کی طاقت ہوتی تو تمہارے چالیس ہزار سے زیادہ لشکر کا یہ حشر تیرہ ہزار آدمیوں کے ہاتھوں نہ ہوتا۔’’بنو حنیفہ! ‘‘ مسلمان یمامہ کی گلیوں میں اعلان کرتے پھر رہے تھے ۔’’عورتیں مت ڈریں۔ کسی کو لونڈی نہں بنایا جائے گا۔شہرکے اندر کسی مرد بچے یا عورت پر ہاتھ نہیں اٹھایا جائے گا۔ مسیلمہ فریب کار تھا۔ اس نے تم سب کو دھوکا دے کر تمہارے گھر اجاڑ دیئے ہیں۔‘‘یمامہ پر خوف و ہراس اور موت کی ویرانی تھی۔ عورتیں شہر سے باہر نکلنے سے ڈرتی تھیں۔ انہیں مسلمانوں سے کوئی ڈر اور خدشہ نہیں رہا تھا۔ وہ اپنے آدمیوں کی لاشیں دیکھنے سے ڈرتی تھیں ۔ وہ شہر کی دیوار پر جاکر باہر کا منظر دیکھتی تھیں۔ انہیں گِدھوں ،گیدڑوں اور بھیڑیوں کی خوفناک آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ یہ سب لاشیں کھارہے تھے۔ یمامہ اور گردونواح کے لوگوں نے اتنی قتل و غارت کبھی دیکھی نہ سنی تھی۔ یہ تو قہر نازل ہوا تھا ۔ گھر گھر ماتم ہو رہا تھا۔ اس بھیانک صورت حال میں لوگ اس غیبی قوت کے آگے سجدے کرنا چاہتے تھے جس نے ان پر قہر نازل کیا تھا ۔ مسلمانوں کی فوج میں قرآن کے حافظ اور قاری بھی تھے۔ انہوں نے لوگوں کو آیاتِ قرآنی سنا کر بتانا شروع کر دیا تھا کہ انہیں تباہ کرنے والی غیبی طاقت کیا ہے۔ 

مؤرخ لکھتے ہیں کہ بنو حنیفہ کے جو آدمی بھاگ گئے تھے۔ ان کی تعداد کم و بیش بیس ہزار تھی۔وہ یوں لا پتا ہوئے کہ ادھر ادھر چھپ گئے تھے۔ مسلمان انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لا رہے تھے ۔ وہ بھی خوفزدہ تھے، وہ نادم بھی تھے کہ انہوں نے ایک جھوٹے نبی کے ہاتھ پر بیعت کی جس نے انہیں کہا تھا کہ اسے خدا نے ایسی طاقت دی ہے کہ فتح بنو حنیفہ کی ہی ہو گی اور مسلمان تباہ ہو جائیں گے۔ انہیں تبلیغ کی یا اسلام کے تفصیلی تعارف کی ضرورت نہیں تھی۔ ان میں سے بیشتر نے ازخود اسلام قبول کرلیا۔مجاعہ بن مرارہ بنو حنیفہ کی سرداری میں مسیلمہ کذاب کا جانشین تھا ۔اس نے دیکھا کہ اس کا قبیلہ دھڑا دھڑ اسلام قبول کرتا جا رہا ہے تو اس سے اسے یہ اطمینان ہوا کہ خالدؓ کے دل میں اس کے خلاف جو خفگی تھی وہ نکل گئی ہے۔ بنو حنیفہ کے لوگ جوق در جوق خالدؓ کے پاس بیعت کیلئے آ رہے تھے۔ خالدؓ نے ان میں سے چند ایک سرکردہ افراد کا ایک وفد تیار کیا اور انہیں خلیفۃ المسلمین ؓکے ہاتھ پر بیعت کیلئے مدینہ بھیج دیا۔ خالدؓ کو یہ جنگ بہت مہنگی پڑی تھی۔قدیم تحریروں اور دیگر ذرائع سے پتا چلتا ہے کہ خالدؓ کو اتنے بڑے لشکرپر فتح حاصل کرنے کی توقع کم ہی تھی۔ انہوں نے یہ جنگ ﷲ کے بھروسے اور اپنی جنگی قابلیت کے بل بوتے پر لڑی تھی۔ان کے اعصاب تھک کر چور ہو چکے تھے۔اس جنگ کی خونریزی کا اندازہ یہ ہے کہ بنو حنیفہ کے اکیس ہزار آدمی مارے گئے تھے ۔ زخمیوں کی تعداد الگ ہے۔ اس کے مقابلے میں شہید ہونے ہونے والے مجاہدین کی تعداد ایک ہزار دو سو تھی۔ ان میں تین سو شہید قرآن کے حافظ تھے۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ جب خلیفہ ابو بکرؓ کو اطلاع ملی کہ شہیدوں میں تین سو حافظ قرآن تھے تو انہوں نے یہ سوچ کرکہ جنگوں میں قرآن کے تمام حافظ شہید ہو سکتے ہیں ،حکم دیا کہ قرآن ایک جگہ تحریر میں جمع کر لیا جائے۔ چنانچہ پہلی بار قرآن کو اس شکل میں جمع کیا گیا جو آج ہمارے سامنے ہے۔ جنگِ یمامہ کے بعد خالدؓ کی کیفیت یہ تھی کہ جسمانی اور ذہنی لحاظ سے شل ہو چکے تھے۔ لیلیٰ ان کے تھکے ماندے اعصاب سہلاتی تھی۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ کسی بھی جنگ میں مسلمانوں کا اتنا جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔اب ایک ہی بار ایک ہزار دو سو مجاہدین شہید ہو گئے تو باقی مجاہدین پر جیسے غم کے پہاڑ آ پڑے ہوں۔خالدؓ دکھ اور غم کو قبول کرنے والے نہیں تھے۔اگر وہ مرنے والوں کا ماتم کرنے بیٹھ جاتے یا دل پر غم طاری کر لیتے تو سپہ سالاری نہ کر سکتے۔انہیں آگے چل کر عراق اور شام فتح کرنا تھا۔ انہیں ارتداد کو کچل کر اسلام کو دور دور تک پھیلانا تھا۔اس لیے وہ اپنے آپ کو رنج و الم سے آزادرکھتے تھے۔’’ولید کے بیٹے! ‘‘لیلیٰ نے خالد ؓسے کہا۔’’میں تمہیں اس عظیم فتح پر ایک تحفہ دینا چاہتی ہوں۔‘‘ ’’کیا ﷲ کی خوشنودی کافی نہیں؟‘‘خالدؓ نے کہا۔’’وہ تو تمہیں مل ہی گئی ہے۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’تم ﷲ کی تلوار ہو۔ میں اس دنیا کی بات کر رہی ہوں۔تم بہت تھک گئے ہو۔‘‘’’تحفہ کیا ہے؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔’’مجاعہ بن مرارہ کی بیٹی!‘‘ لیلیٰ نے کہا۔’’تم نے اسے نہیں دیکھا۔ میں اس کے گھر گئی تھی ۔بہت خوبصورت لڑکی ہے ۔یمامہ کا ہیرا ہے۔وہ تمہیں چاہتی بھی ہے۔کہتی ہے کہ خالد عظیم انسان ہے۔جس نے ہم پر فتح پاکر بھی اعلان کیا ہے کہ کسی عورت کو لونڈی نہیں بنایا جائے گا۔ حالانکہ اسے یمامہ کی عورتوں نے دھوکا دیا تھا۔‘‘اس دور میں عربوں کے ہاں سوکن کا تصور نہیں تھا ۔خالدؓ نے مجاعہ بن مرارہ سے کہا کہ وہ اس کی بیٹی کے ساتھ شادی کرنا چاہتے ہیں۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مجاعہ اتنا حیران ہوا جیسے اس نے غلط سناہو۔’’کیا کہا تو نے ولید کے بیٹے!‘‘مجاعہ نے پوچھا۔’’میں تمہاری بیٹی کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ خالدؓ نے اپنی بات دہرائی۔’’کیا خلیفہ ابو بکر ہم دونوں سے خفا نہ ہوں گے؟‘‘مجاعہ نے کہا۔ مجاعہ کے صحیح الفاظ یہ تھے ۔کیا خلیفہ ہم دونوں کی کمر نہ توڑ ڈالیں گے؟ خالدؓ اسی بات پر اصرار کرتے رہے کہ وہ مجاعہ کی بیٹی کے ساتھ شادی کریں گے ۔آخر انہوں نے اس حسین اور جوان لڑکی کو اپنے عقد میں لے لیا۔ یہ خبر مدینہ پہنچی تو خلیفۃ المسلمین ابو بکر صدیقؓ نے خالدؓ کو خط لکھا:’’او ولید کے بیٹے!تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ شادیاں کرتے پھرتے ہو۔تمہارے خیمے کے باہر بارہ سو مسلمانوں کا خون بہہ گیا ہے۔ تم نے شہیدوں کا خون بھی خشک نہیں ہونے دیا۔‘‘ ’’یہ عمر بن خطاب کی مشورہ دیا ہوگا ہے ۔‘‘خالدؓ نے یہ خط پڑھ کر زیرِلب کہا ۔(یاد رہے کہ یہ عظیم صحابہ ؓ کی آپس کی گفتگو ہے جن کا سب کچھ ﷲ اور رسول ﷲ ﷺ پر نثار تھا۔ بعض ناعاقبت اندیش منظر پسِ منظر جانے بغیر اُن سے بد گمانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اُن کی رفعتوں کے ادراک کے لئے رگوں میں حلال خون کا ہونا شرطِ اول ہے ) یہ معاملہ سرزنش کے خط پر ہی ختم ہو گیا ۔خلیفہ ابو بکرؓ نے خالدؓ کویہ پیغام بھی بھیجا کہ وہ یمامہ کے علاقے میں رہیں اور اگلے حکم کا انتظار کریں۔خالدؓمجاعہ کی بیٹی اور لیلیٰ کو ساتھ لے کریمامہ کے قریب وادیٔ وبر میں جا خیمہ زن ہوئے۔دو ماہ بعد انہیں اگلا حکم ملا۔فروری ۶۳۳ء کے پہلے ہفتے (ذیقعد ۱۱ہجری ) کے آخری ہفتے کے ایک دن خلیفہ ابو بکر صدیقؓ سے ملنے ایک شخص آیا۔ جس نے اپنا نام مثنیٰ بن حارثہ شیبانی بتایا۔ خلیفہؓ کیلئے اور اہلِ مدینہ کیلئے وہ ایک غیر اہم بلکہ گمنام آدمی تھا۔اگر ایسا شخص کسی بادشاہ کے دربار میں جاتا تو اسے وہاں سے نکال دیا جاتا لیکن. ابو بکرؓ کسی اقلیم کے بادشاہ نہیں بلکہ شہنشاہِ دوجہاں کے خلیفہ تھے جن کے دروازے ہر کسی کیلئے بھی کھلے رہتے تھے۔ یہ شخص جب خلیفہ ابو بکر صدیقؓ کے پاس آیا ،اس وقت اس کے چہرے پر تھکن اور شب بیداری کی گہری پرچھائیاں تھیں۔کپڑوں پر گَرد تھی اور وہ قدرتی روانی سے بول بھی نہیں سکتا تھا۔ ’’کیا مجھے کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ یہ اجنبی مہمان کون ہے؟‘‘امیر المومنین ابو بکرؓ نے پوچھا۔’’یہ شخص جس نے اپنا نام مثنیٰ بن حارثہ بتایا ہے ،یہ معمولی آدمی نہیں ۔‘‘قیس بن عاصم المنقری نے جواب دیا۔’’امیرالمومنین ! اس کے یہاں آنے میں کوئی فریب نہیں۔شہرت اور عزت جو اس نے پائی ہے وہ ﷲ ہر کسی کو عطا کرے۔ہ رمز جو عراق میں فارس کا سالار ہے اور جس کی فوج کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے ،مثنیٰ بن حارثہ کا نام سن کے سوچ میں پڑ جاتا ہے۔‘‘ ’’. امیر المومنین!‘‘کسی اور نے کہا۔’’آپ کا اجنبی مہمان بحرین کے قبیلہ بکر بن وائل کا معزز فرد ہے ۔ یہ اسلام قبول کرنے والے ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے کفر اور ارتداد کی آندھیوں میں اسلام کی شمع روشن رکھی ہے اور اس نے ہمارے سالار علاء بن حضرمی کے ساتھ مل کر عراق کی سرحد کے علاقوں میں مرتدین کے خلاف لڑائیاں لڑی ہیں۔‘‘امیر المومنین ؓ کاچہرہ چمک اٹھا۔اب انہوں نے مثنیٰ بن حارثہ کو بدلی ہوئی نگاہوں سے دیکھا۔ان کے ذہن میں عربی مسلمانوں کے وہ قبائل آگئے جو ایرانیوں کے محکوم تھے۔یہ عراق کے علاقے میں آباد تھے۔یہ تھے بنو لخم ،تغلب، ایاد، نمبر اور بنو شیبان۔ایک روایت کے مطابق یہ وہ عربی باشندے تھے جنہیں پہلی جنگوں میں ایرانی جنگی قیدی بنا کر لے گئے اور انہیں دجلہ اور فرات کے ڈیلٹا کے دلدلی علاقے میں آباد کر دیا۔ ان قبائل نے ایرانیوں کا غلام ہوتے ہوئے بھی اپنے عقیدوں کو اپنے وطن کے ساتھ وابستہ رکھا۔عرب میں اسلام کو فروغ ملا تو انہوں نے بھی اسلام کو قبول کرلیا۔عراق سے سجاع جیسے چند افراد نے نبوت کے دعوے کیے تو ان محکوم عربوں نے اس ارتداد کے خلاف محاذ بنا لیا۔ ادھر مسلمان ایک ایسی جنگی طاقت بن چکے تھے جن کے سامنے مرتدین اور کفار کے متحدہ لشکر بھی نہ جم سکے۔میدانِ جنگ سے ہٹ کر مسلمان جو عقیدہ پیش کرتے تھے وہ دلوں میں اتر جاتا تھا۔اس طرح سے مسلمان عسکری اور نظریاتی لحاظ سے چھاتے جا رہے تھے۔لیکن ابھی وہ آتش پرست ایرانیوں کے خلاف ٹکر لینے کے قابل نہیں ہوئے تھے۔ ایران اس وقت کی بڑی طاقتور بادشاہی تھی جس کے طول و عرض کا حساب نہ تھا۔اس کی بادشاہی فوجی تعداد اور ہتھیاروں کے لحاظ سے بہت طاقتور تھی۔ صرف رومی تھے جنہوں نے ان سے جنگیں لڑیں اور انہیں کچھ کمزور کردیا تھا۔اس کے باوجود خلیفہ ابو بکرؓ ایران کی بادشاہی میں رسول ﷲﷺ کا پیغام پہنچانے کا تہیہ کئے ہوئے تھے۔ایرانی نہ صرف یہ کہ اسلام کو قبول کرنے پر تیار نہ تھے بلکہ وہ اسلام کامذاق اڑاتے تھے۔ اگر مسلمانوں کا کوئی ایلچی ان کے کسی علاقے کے امیر کے دربار میں چلاجاتا تو وہ اس کی بے عزتی کرتے اور بعض کو قیدمیں ڈال دیا کرتے تھے۔حکومتوں اور حکمرانوں کے انداز اور خیالات اپنے ہی ہوتے ہیں ان کے سوچنے کے انداز بھی مصلحت اور حالات کے تابع ہوتے ہیں لیکن عوام کی سوچیں ان کے جذبوں کے زیرِاثر ہوتی ہیں اور ملک و ملت کی خاطر عوام آگ اگلتے پہاڑوں کے خلاف بھی سینہ سپر ہو جاتے ہیں۔


اس دور میں عراق ایران کی بادشاہی کا ایک صوبہ تھا۔ اس کا امیر یا حاکم ہرمز تھا جو اس دور میں مانا ہوا جنگجو اورنڈر جنگی قائد تھا۔ظالم اوربدطینت اتنا کہ اس کے علاقے کے لوگ کسی کے خلاف بات کرتے تو کہتے تھے :’’وہ تو ہرمز سے بڑھ کر کمینہ اور بد فطرت ہے۔‘‘ اس کے ظلم و ستم کا زیادہ تر شکار مسلمان تھے۔ جو دجلہ اور فرات کے سنگم کے علاقے میں رہتے تھے۔ ان کے خلاف ہرمز کو یہی ایک دشمنی تھی کہ وہ اسلام کے پیروکار ہیں۔ کسی ایرانی کے ہاتھوں کسی مسلمان کا قتل ہوجانا اور کسی مسلمان عورت کا اغواء کوئی جرم نہیں تھا۔ ہندوؤں کی طرح ایرانی مسلمانوں کو تکلیف پہنچا کر،کسی بہانے ان کے گھروں کو لوٹ کر اور جلا کر خوشی محسوس کرتے تھے۔ مسلمان خوف و ہرا س میں زندگی گزار رہے تھے۔مسلمان جس علاقے میں آباد تھے۔ اس کی زمین سونا اگلتی تھی۔ اناج اور پھلوں کی پیداوار کیلئے وہ علاقہ بڑا ہی زرخیز تھا۔یہ علاقہ جو کم و بیش تین سو میل لمبا تھا۔ زرخیزی اور شادابی کے علاوہ قدرتی مناظر کی وجہ سے حسین خطہ تھا۔ حاکم عیش و عشرت کیلئے اسی علاقے میں آتے اور کچھ دن گزارکر جاتے تھے۔ اس زرخیز اور شاداب علاقے میں مسلمانوں کو آباد کرنے کا یہ مقصد نہیں تھا کہ وہ کھیتی باڑی کریں اور خوشحال رہیں بلکہ انہیں یہاں مزارعوں کی حیثیت سے رکھا گیا تھا۔ وہ زمین کا سینہ چیر کر شبانہ روز محنت اور مشقت سے اناج اور پھل اگاتے مگر اس میں سے انہیں اتنا ہی حصہ ملتا جو انہیں محض زندہ رکھنے کیلئے کافی ہوتا تھا۔



جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں