قرآن کہانی ۔۔۔۔ حضرت یوسف علیہ السلام (حصہ دوم)


~!~ قرآن کہانی ~!~
حضرت یوسف علیہ السلام (حصہ دوم)
تحریر: ظل ہما عمران
بشکریہ: الف کتاب ویب

جب وہ بنیامین کو ساتھ لے کر حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچے تو انہوں نے اسے اپنے قریب جگہ دی اور پوشیدہ طور پر بتا دیا کہ آپ میرے بھائی ہیں اور حکم دیا کہ اس بات کا ذکر دوسرے بھائیوں سے مت کرنا۔

مصر کے اس وقت کے قانون کے مطابق حضرت یوسف علیہ السلام بنا کسی وجہ بنیامین کو اپنے پاس نہ رکھ سکتے تھے لیکن وہ انہیں اپنے ساتھ رکھنا چاہتے تھے۔ چناںچہ اللہ پاک کے حکم سے انہوں نے ایک تدبیر اختیار کی اور نوکروں سے کہہ کر بنا کسی کو پتا چلے اپنے پانی کا پیالہ بنیامین کے سامان میں رکھوا دیا۔ یہ خاص پیالہ تھا جس سے آپ پانی پیتے اور اسی سے ماپ کر لوگوں کو غلّہ بھی دیتے تھے۔

جب وہ روانہ ہو گئے تو ان کے پیچھے چند حکومتی افراد بھیج دیے جنہوں نے کہا کہ تم لوگ بادشاہ کا پیالہ چرا لائے ہو اور ہم تلاشی لینے آئے ہیں۔ یہ الزام سن کر وہ لوگ حیران رہ گئے اور کہا کہ خدا گواہ ہے کہ ہم اس ملک میں فساد برپا کرنے نہیں آئے اور نہ ہی چوری کی ہے۔ ہم تو قحط کی مصیبت میں گرفتار ہیں اور ہمارا مقصد صرف اناج حاصل کرنا ہے۔ تم بے شک تلاشی لو اگر کسی نے ایسی حرکت کی تو اس کے ساتھ جو چاہے سلوک کرو۔

پس انہوں نے سب کی تلاشی لی اور بنیامین کے سامان سے پیالہ ڈھونڈ نکالا اوریوں جب انہیں گرفتار کیا جانے لگا (یہ کنعان کا دستور تھا چور کو بہ طورِ سزا پاس رکھنا) تو بھائیوں نے کہا کہ ہمارے والد بڑی عمر کے شخص ہیں اور اس سے بہت پیار کرتے ہیں۔ آپ اس کے بدلے ہم میں سے کسی کو رکھ لیجئے اور اسے جانے دیں۔ تب حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا کہ میں نا انصافی کرنے والوں میں سے نہیں اور اگر میں اس کی بجائے کسی اور کو گرفتار کروں گا تو یہ ناانصافی ہو گی اور بے گناہ کو پکڑیں گے تو یہ ظلم ہو گا۔

جب وہ لوگ بنیامین کو چھڑانے میں ناکام ہو گئے تو تنہائی میں بیٹھ کر مشورہ کرنے لگے اور سب سے بڑے بھائی روبیل نے کہا کہ ہم نے اپنے والد سے پختہ اقرار لیا تھا کہ بنیامین کو واپس لائیں گے اوراب ہم عہد شکنی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی ہم یوسف کے معاملے میں والد کو دکھ پہنچا چکے ہیں اس لئے میں تو والد کے پاس ہرگز ایسے واپس نہ جاؤں گا۔ تم سب والد کے پاس واپس جاؤ اور وہ بات بتاؤ جو تم نے خود دیکھی یعنی یہ کہ اس کے سامان سے چوری کی چیز ملی ہے اور اگر انہیں ہم پر یقین نہیں تو وہ بے شک قافلے والوں سے پوچھ لیں جو اس وقت ہمارے ساتھ تھے یہ خبر مصر میں بھی مشہور ہو چکی ہے یعنی ہم بالکل سچے ہیں۔

جب وہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس پہنچے اور بنیامین کی داستان سنائی تو ان کے پرانے زخم بھی تازہ ہو گئے اور یوسف علیہ السلام کی جدائی کا دکھ بھی ستانے لگااور مسلسل رونے کی وجہ سے آپ کی بینائی جاتی رہی۔ لیکن آپ نے صبر کا دامن تھامے رکھا اور فرمایا کہ مجھے اس بات پر یقین نہیں کہ بنیامین نے چوری کی ہے کیوں کہ یہ اس کی عادت ہی نہیں ہے اور قریب ہے کہ میرا اللہ پاک میرے بیٹوں یوسف، بنیامین اور روبیل کو میرے پاس واپس لے آئے ۔

حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی والد کو بنیامین کے حالات بتانے کے کچھ عرصہ بعد پھر سے قحط سالی سے تنگ آکر حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس غلّہ مانگنے گئے اور یہ درخواست بھی کی کہ بنیامین کو ان کے حوالے کردیا جائے اور پھر کہنے لگے کہ اے عزیز! ہمارے خاندان کو تنگ دستی کا سامنا ہے اس لئے غلّہ لینے کے عوض ہم حقیر پونجی لائے ہیں جو عام طور پر قبول نہیں کی جاتی لیکن آپ رحم کرنے والوں میں سے ہیں پس ہمیں غلّے کا ماپ پورا دیجئے اور ہم پر خیرات کیجئے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کی حالت پر ترس آیا اور اس وقت انہوں نے اللہ پاک کے حکم سے اپنے بھائیوں کو اپنی پہچان کروا دی۔

بھائیوں کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ وہ سوچنے لگے کہ وہ اتنی بار حضرت یوسف علیہ اسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے لیکن ان کو پہچان کیوں نہ پائے اور تب وہ کہنے لگے کہ کیا واقعی تو یوسف ہے؟
حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا ہاں! میں وہی یوسف ہوں جس کے ساتھ تم نے بدسلوکی کی لیکن اللہ نے مجھ پر رحم فرمایا اور مجھے رہنے کے لئے اچھا ٹھکانہ مہیا کیا یہ اللہ پاک کا مجھ پر کرم ہے کہ میرے والد کو مجھ سے شدید محبت ہے۔ میں نے تمہاری ہر بدسلوکی پر صبر کیا اور اللہ پرہیزگاروں اور صبر کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔

بھائی کہنے لگے کہ اللہ پاک نے آپ کو ہم پر برتری دی ہے اور آپ کو وہ کچھ عطا کیا، جو ہمیں نہیں کیا اور یہ بھی سچ ہے کہ ہم خطاکار تھے۔ ہم اپنی کوتاہی کا اعتراف کرتے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام پاک باز دل رکھتے تھے اور کوئی انتقام نہ لینا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ نادانی کی باتیں تھیں آج تم پر کوئی ملامت نہیں اور پھر ان کے حق میں دعا کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تمہیں بخش دے کہ وہ سب مہربانوں سے بڑا مہربان ہے۔

پھر انہوں نے اپنی قمیص انہیں دیتے ہوئے فرمایا کہ اسے لے جاکر والد صاحب کی آنکھوں پر رکھیں ان کی بصارت جو ختم ہو چکی ہے وہ اللہ کے حکم سے دوبارہ مل جائے گی۔ یہ آپ کا ایک عظیم معجزہ تھا جو آپ کی نبوت کی دلیل ہے۔

پھر آپ نے اُنہیں فرمایا کہ تمام اہل و عیال مصر چلے آئیں اور آرام و سکون کی زندگی بسر کریں۔
جب قافلہ روانہ ہوا تو ایک ہوا چلی اور حضرت یوسف علیہ اسلام کی قمیص کی خوشبو حضرت یعقوب علیہ السلام تک پہنچ گئی اور وہ کہنے لگے کہ مجھے تو یوسف کی خوشبو آ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے تم سمجھو کہ بڑھاپے کی وجہ سے میری عقل میں فرق آ گیا ہے لیکن حقیقت یہی ہے جو میں کہہ رہا ہوں۔ انہیں یہ خوشبو تین دن کے فاصلے پر محسوس ہو گئی تھی ارشادِ باری تعالی ہے:
ترجمہ: ’’خوش خبری دینے والے نے پہنچ کر ان کے منہ پر وہ کرتا ڈالا تو وہ بینا ہو گئے۔‘‘(سورۂ یوسف)
حضرت یعقوب نے اپنے بیٹوں سے فرمایا کہ کیا میں تم سے نہ کہا کرتا تھا کہ میں اللہ کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ مجھے معلوم تھا مجھے یوسف ضرور ملے گا اور مجھے آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب ہو گی۔ میں اس کو ایسے حال میں دیکھوں گا جس سے مجھے خوشی ہو گی۔ بیٹے کہنے لگے: ’’ابا جان!ہمارے لئے اللہ تعالی سے بخشش مانگیے۔‘‘
والد نے ان کی درخواست قبول کرتے ہوئے فرمایا:

ترجمہ: ’’اچھا! میں جلد ہی تمہارے لئے اپنے پروردگار سے بخشش مانگوں گا، وہ بڑا بخشنے والا اور نہایت مہربانی کرنے والا ہے۔‘‘

یوں ایک طویل مدت کے بعد جب سارا گھرانہ حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچا تو انہوں نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی اور اونچے تخت پر بٹھایا اور پھر آپ کے والد، والدہ اور بھائیوں نے آپ کو سجدہ کیا جس سے آپ کی تعظیم و تکریم مقصود تھی۔ ان کی شریعت میں یہ سجدہ جائز تھا ۔

حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والد سے کہا کہ یہ میرے اسی خواب کی تعبیر ہے، جسے آپ نے مجھے پوشیدہ رکھنے کے لئے کہا تھا اور اب میرے رب نے اسے سچا کر دکھایا۔ اس نے مجھ پر احسان کیا کہ جیل کی قید سے نکال کر تخت و تاج پر لا بٹھایا۔ بے شک اس کے سب کام حکمت پر مبنی ہیں۔

حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو اخلاص کی وصیت کی جس سے مراد دین اسلام ہے، جسے انبیائے کرام علیہ السلام اللہ کی طرف سے لے کر مبعوث ہوئے۔

جب حضرت یعقوب علیہ السلام فوت ہوئے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے شاہِ مصر سے اجازت طلب کی کہ اپنے والد کی میت کو لے جا کر خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ دفن کریں اور پھر جبرون پہنچ کر انہیں اس غار میں دفن کیا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خریدا تھا۔ بھائیوں کو بھی والد کی وفات کا بہت دکھ تھا۔ آپ نے ان کی عزت افزائی کی اور انہیں اعزاز و اکرام سے اپنے ساتھ لائے اور وہ مصر میں ہی مقیم رہے۔

جب حضرت یوسف علیہ السلام کی وفات کا وقت آیا تو آپ نے وصیت کی کہ جب وہ لوگ مصر سے نکلیں تو ان کی میت کو ساتھ لے جا کر آبائے اکرام کے ساتھ دفن کریں۔ چناں چہ انہوں نے آپ کی میت کو حنوط کر کے تابوت میں رکھ لیااور بعد میں انہیں اپنے آبا ؤ اجداد کے ساتھ دفن کیا گیا۔

واللہ اعلم بالثواب

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں