قرآن کہانی ۔۔۔ اصحاب کہف


~!~قرآن کہانی~!~
اصحابِ کہف

تحریر: علی منیر فاروقی
بشکریہ: الف کتاب ویب

الحمدللہ رب العالمین و نصلی علی رسولہ الکریم ۔۔
 قرآن کریم میں جہاں ایک طرف مختلف انبیائے کرام کے قصص بہ طور دلیل درج ہیں وہیں چند ایسے گمنام کرداروں کے ایمان افروز واقعات کا ذکر بھی موجود ہے۔ جونہ صرف ہمیں فتنوں کے دور میں اپنا ایمان محفوظ رکھنے کا درس دیتے ہیں بلکہ اس کا طریقہ بھی سکھاتے ہیں۔ یہ قصہ اُن چند سربہ کف نوجوانوں کا ہے، جن کے نام ، علاقہ، محلِ وقوع اور تعداد بھی تاریخ کی کتابوں میں حتمی طور پر درج نہیں ، مگر ان کی عظمت و ہمت اور ان کے ساتھ پیش آنے والے ماورا الطبعیاتی واقعے کی گواہی تا ابد محفوظ رہے گی ۔

یہ قصہ قرآن کریم میں سورئہ کہف میں درج ہے اور حجم میں اتنا طویل نہیں مگر اپنے اندر حکمت و نصیحت کا ایک سمندر پنہاں رکھتا ہے تو آئیے پہلے اس قصے کا ایک رواں مطالعہ کر لیں پھر اس پر تدبر کی ایک چھوٹی سی کوشش کرتے ہیں۔

مستند روایات کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ قصہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع آسمانی کے بعد کا ہے۔ ابھی عیسائیت شرک کی ملاوٹ سے پاک تھی اور توحید کی دولت سے مالامال دین حنیف پر مبنی تھی۔ ایسے میں چند نوجوانوں نے مشرکانہ ظلمات کے پردوں کو چاک کرتے ہوئے حق کی آواز پر لبیک کہا اور دینِ حق کو قبول کرلیا۔ اس کے بعد انہوں نے اس دینِ حق کا پرچار شروع کیا۔ دنیا کا اصول ہے کہ جب بھی حق کی آواز بلند ہوتی ہے اسے دبانے کے لئے باطل کی قوتیں اپنا پورا زور لگاتی ہیں، چناںچہ ان نوجوانوں کو بھی انہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور بات ہوتے ہوتے حاکمِ وقت کے کانوں تک پہنچی۔ (جو چند روایات کے مطابق رومی قیصر ڈیشیس تھا اور باقی روایات کے مطابق ابراہیمی دین کی بگڑی ہوئی شکل کا پیروکار تھا) چناںچہ حاکمِ وقت نے ان لڑکوں کو حکم دیا کہ واپس لوٹ آؤ اور اپنے اس نئے دین کی ترویج فوری بند کرو ورنہ تمہیں سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔

نورِ حق کے ان پروانوں نے اپنا دین چھوڑنے کے بہ جائے یہ فیصلہ کیا کہ آبادی سے دور کسی جگہ جا کر پناہ لی جائے، چنانچہ یہ نوجوان اور ان کا کتا ایک غار میں جا کر چھپ گئے تاکہ اپنا اگلا لائحۂ عمل تیار کریں ، ایسے میں اللہ نے ان تمام پر ایک نیند طاری کر دی اور نیند بھی گھنٹوں کی نہیں بلکہ صدیوں کی! اس دوران اللہ انہیں کروٹ دلاتا رہا (تاکہ خون گردش کرتا رہے اور زخم نہ بن جائیں)اور ان کو دھوپ سے بچاتا رہا ، تین صدیوں کے بعد یہ اصحاب اپنی نیند سے بے دار ہوئے اور ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ ہم کتنی دیر سوئے ہیں ایک بولا شاید پورا دن سو لیے دوسرے نے کہا کہ نہیں اس کا بھی کچھ حصہ سوئے ہیں، اب مشورہ ہوا کہ طعام کا بندوبست کیا جائے چناںچہ ان میں سے ایک چند چاندی کے سکّے لے کر بازار جانے لگا ، جاتے وقت اس کے ساتھیوں نے اسے تلقین کی کہ پاک طعام لے کر آنا اور ہاں دیکھنا کوئی تمہیں پکڑ نہ لے ورنہ ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔

یہ نوجوان جب بستی پہنچا تو دیکھا کہ دنیا ہی بدلی ہوئی ہے بستی و بازار در و دیوار سب الگ روپ لیے ہوئے ہیں حتیٰ کہ رہن سہن بھی بدل چکا ہے اس نئے اجنبی منظر کے خوف کو دباتے ہوئے اس نوجوان نے ڈرتے ڈرتے کھانے کا سامان لیا تو لوگ صدیوں پرانے سکّے دیکھ کر بھونچکا رہ گئے ، انہوں نے ان نوجوانوں کا قصّہ سنا ہوا تھا کہ جو اپنا ایمان بچانے کے لئے شہر چھوڑ گئے تھے ۔ اس نوجوان کو بتایا گیا کہ شرک کے بادل چھٹ چکے ہیں اور اب یہاں حق کا بول بالا ہے ۔
اتفاق سے ان دنوں اس بستی میں ایک علمی بحث چھڑی ہوئی تھی کہ مرنے کے بعد کیا ہم دوبارہ جی اُٹھیں گے؟ اور آیا خدا ہمیں قیامت کے دن اسی بدن کے ساتھ زندہ کرے گا یا ہمارا کوئی اور روپ ہوگا یوں اللہ نے اس نوجوان کے صورت میں ان کے تمام سوالوں کا جواب دے دیا ۔ اب یہ تمام لوگ اس نوجوان کے ساتھ اس غار میں پہنچے جہاں اس کے باقی ساتھی موجود تھے اور وہاں ان سب کو دیکھ کر ان کا ایمان تازہ ہو گیا ۔ یہ تھے اصحابِ کہف اب اس کے بعد کچھ کہہ نہیں سکتے کہ وہ کتنا عرصہ زندہ رہے (گمان یہ ہے کہ فوری وفات پا گئے تھے
ان کی وفات کے بعد کچھ لوگ اس حق میں تھے کہ ایک دیوار کھڑی کر دی جائے اور ان کا معاملہ رب کے سپرد کیا جائے جب کہ اہلِ ثروت کی رائے کے مطابق اس جگہ پر ایک مسجد (عبادت گاہ)قائم کر دی گئی۔

یہ تھا وہ قصہ اب آئیے پہلے ان اشکالات کو رفع کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو عموماً اس قصے کے ضمن میں اٹھائے جاتے ہیں۔ نمبر ایک ان اصحاب کی تعداد کتنی تھی؟ یہ تو یقینی بات ہے کہ ان کے ساتھ ان کا کتا موجود تھا مگر ان کی اپنی تعداد کتنی تھی ؟پانچ ،چھ یا سات ؟ اہلِ علم کی رائے یہ ہے کہ ان کی تعداد سات تھی کیوںکہ قرآنی آیت میں پانچ اور چھے کے بعد کہا گیا ہے کہ یہ لوگ غیب پر تکے لگا رہے ہیں مگر سات کی تعداد کے ذکر کے بعد ایسی بات نہیں کی گئی اور پھر عیسائی تعلیمات میں ان کو سیون سلیپرز کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یعنی سات سونے والے۔ مگر یہاں قرآن کی رائے نہ دیکھنا اس موضوع کے ساتھ ظلم ہو گا۔ اللہ عزوجل نے اس آیت کا اسلوب اس قدر خوب صورت رکھا ہے کہ بحث کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی۔
 ترجمہ :

(بعض لوگ)کہیں گے کہ وہ تین تھے اور(چوتھا) ان کا کتا تھا۔ اور (بعض) کہیں گے کہ وہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا ، یہ اپنی اپنی سوچ کی باتیں ہیں ۔ اور (بعض) کہیں گے کہ وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ کہہ دو کہ میرا پروردگار ہی ان کے شمار سے خوب واقف ہے ان کو جانتے بھی ہیں تو تھوڑے ہی لوگ (جانتے ہیں) تو تم ان (کے معاملے) میں گفت گو نہ کرنا مگر سرسری سی گفت گو اور نہ ان کے بارے میں ان میں کسی سے کچھ دریافت ہی کرنا(سورۃ کہف آیت 22)


یعنی یہ بات بالکل غیر اہم ہے کہ ان اصحاب کی تعداد کتنی تھی ، ہمیں ایک نہایت حسین پیرائے میں ٹوکا جا رہا ہے کہ بہ جائے بال کی کھال نکالنے کے اصل نصیحت پر غور و خوض کرو ۔
اب آگے بڑھتے ہیں دیگر اشکال کی جانب وہ یہ کہ وہ کتنا عرصہ اس غار میں رہے؟ چوںکہ یہ سوال مشرکینِ مکہ کی جانب سے بہ طور دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا گیا تھا تو اس کا جواب اتنا یقینی دیا گیا کہ اس کی کوئی نذیر نہیں ملتی۔ کہا گیا کہ وہ اس غار میں تین سو سال رہے اور نو سال اور ۔ سننے میں نہایت عجیب معلوم ہوتا ہے کہ تین سو اور نو کا کیا مطلب ہوا؟ آیا وہ تین سو سال رہے یا تین سو نو؟ اب یہاں قرآن کی من جانب اللہ ہونے کی دلیل قائم ہوتی ہے۔ عیسائیت میں دنوں کا حساب شمسی ہوتا ہے اور اسلام میں قمری ہم یہ بات جانتے ہیں کہ قمری مہینے کے دن شمسی سے کچھ کم ہوتے ہیں۔ اب اگر دنوں کا میزان تین سو شمسی سالوں میں معلوم کریں تو وہ ٹھیک نو سال بنتا ہے یعنی وہ اصحابِ شمسی حساب سے تین سو سال سوئے اور قمری حساب سے تین سو نو سال۔ یوں اس سوال کے جواب میں کٹ حجتی کی کوئی گنجائش نہیں بچتی۔

ان دو علمی نکتوں کے بعد اب آئیے اس دقیق سوال کی جانب بڑھتے ہیں جو آج کل کے پُر فتنہ دور میں بہت سوں کو گمراہی کے دہانے کی جانب لے جا رہا ہے، وہ یہ کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ انسانی جسم اتنا عرصہ بغیر خوراک کے جی سکے ؟ یہ سوال نیا نہیں ، ایسے سوالات قرآن کے نزول سے پہلے بھی انسانیت کو گمراہ کرتے رہے ہیں مگر اب فرق صرف اتنا ہے کہ اس طوفان کا شکارنہ صرف غیر مسلم ہیں بلکہ وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے مسلمان گھرانوں میں آنکھ کھولی اور کان میں پہلی آواز اشہد ان لا الہ الااللہ کی سنی۔ یہ چوںکہ سائنس کا دور ہے اس لیے افسوس کے ساتھ آج کل ہمارا ایمان بھی سائنس سے مشروط ہوتا جا رہا ہے، ہمارا المیہ یہ ہے کہ اب ہم دین و ایمان کو بھی سائنس کی کسوٹی پر تولتے ہیں، اب میری اس بات پر ممکن ہے دقیانوسیت کی پھبتی کسی جائے یا پھر ملا اور لاؤڈ سپیکر والی مثال دی جائے مگر حق تو یہ ہے کہ اگر ہمارا ایمان اللہ کی کتاب سے زیادہ اس کی سائنسی توجیح پر ہے تو وہ ایمان باللہ نہیں ایمان بالسائنس ہوا۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ قوانین قدرت اور سائنسی حقائق بھی اللہ کے بنائے ہوئے ہیں اور اللہ ہمیں جگہ جگہ ان پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اس لیے ان کا انکار ایک انداز سے خود اللہ کا انکار ہے، مگر یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ سائنسی تھیوری ابدی نہیں ہونی چاہیے، معاملہ چاہے زمین کے سپاٹ ہونے کا ہو یا مادے کے لاینفک ہونے کا۔ ہمارے عمرانی اور علمی ارتقا کے ساتھ بہت سی ایسی تھیوریز جو کبھی ابدی حقائق سمجھی جاتی تھیں آج کی سائنس انہیں طفلانہ توجیحات گردانتی ہے۔

اب اگر قرآن کی سائنسی تشریح کر دی جائے اور بعد میں وہ تھیوری غلط ثابت ہو تو کیا معاذاللہ قرآن غلط ہو گیا؟ چناںچہ ہمارا نظریہ بہ جائے قرآن کی سائنسی توجیح کے سائنسی تھیوری کی قرآنی توجیح کا ہونا چاہیے ۔ ہمارا ایمان یہ ہونا چاہیے کہ اگر کوئی سائنسی تھیوری حق ہے تو وہ کبھی قرآن سے متصادم نہیں ہو گی اور اگر کوئی تھیوری بہ ظاہر قرآنی حقائق سے ٹکرا رہی ہے تو یا تو وہ قرآنی مقامِ متشابہات میں سے ہے جسے محکمات سمجھا جا رہا تھا یا پھر وہ تھیوری غلط ہے اس کے علاوہ کوئی تیسری راہ نہیں بچتی۔ اب ایسے میں اہلِ علم کا کام ہے کہ وہ یہ جانچیں کہ کیا قرآن کی صحیح تفسیر میں اس تھیوری کی کوئی گنجائش ہے؟ کیا یہاں کسی متشابہ آیت کی حقیقت سے پردہ تو نہیں اُٹھ رہا ؟ اور اگر ایسا نہیں تو ذہین اہلِ علم و دانش مسلمانوں کے اوپر قرآن کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ اس تھیوری کا سائنس ہی کے علوم میں رد کرنے کی کوشش کریں۔ تمہید کچھ لمبی ہو گئی مگر معاملہ نہایت نازک ہے،اس بات کو دل و دماغ میں بٹھا لینا ضروری ہے کہ قرآن سائنسی حقائق سے متصادم ہو ہی نہیں سکتا، فرق صرف توجیح کا ہو سکتا ہے۔

اب آئیے اس بات کی کچھ سائنسی توجیح سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہمارے وہ بہن بھائی جو اس طوفان میں اپنے آپ کو بے سہارا محسوس کرتے ہیں اور سائنس کی توجیحات کے بغیر ان کو اپنا ایمان خطرے میں نظر آتا ہے انہیں کچھ سہارا ملے۔ یہ اشکال کفر و الحاد کے حامی تین مواقع پر اٹھاتے ہیں ایک اصحابِ کہف کے واقعے پر دوسرا حضرت عزیر علیہ السلام کے واقعے پر اور تیسرا معراج کے واقعے پر۔ بات کچھ یوں ہے کہ انگریزوں کے دور میں جب ذہنوں پر سائنس کا غلبہ قائم ہوا تو وہ نیوٹونین دور تھا ، نیوٹن کی مادے کے بارے میں تھیوری حق سمجھی جاتی تھیں اور مادہ لاینفک سمجھا جاتا تھا یعنی نہ ہی اسے تخلیق کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی تباہ۔ سب کچھ فزکس ہی فزکس تھی، میٹافزکس(مابعدالطبیعات)سے کوئی واقف نہ تھا ایسے میں ما ورا الطبیعات قرآنی حقائق کی تشریح کیسے کی جائے؟ یہ طوفان ہندوستان کے مسلمانوں کو بہا لے جا رہا تھا، ایسے میں اہلِ ایمان دو علمی گروہوں میں بٹ گئے ایک وہ کہ جنہوں نے سنت اصحاب کہف پر عمل کرنے میں عافیت جانی اور ان سائنسی علوم سے بالکل ہی کٹ گئے (ان ہی بے چاروں پر بعد میں لاوڈ سپیکر والی پھبتی کسی گئی )اور دوسرے وہ جنہوں نے اپنے ایمان کے دفاع کی کوشش کی مگر طریقۂ کار میں چوٹ کھا گئے ۔ انہوں نے قرآن کی تفسیر کو کھینچ تان کر اس وقت کے سائنسی حقائق کے سانچے میں بٹھانے کی اپنی سی کوشش کی مگر اس سعی کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ فرشتوں ،جنات اوربہشت و دوزخ کے منکر ہو بیٹھے۔ کسی نے انہیں قدرت کے قوانین کہا تو کوئی جنوں کو انسان کی غصیلی قسم مانتا تھا کبھی معراج کو مشتبہ بتایا کہ یہ عالم خواب میں پیش آیا تھا تو کبھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بحر چاک کرنے کے معجزے کی تشریح سمندری مدو جزر سے کی۔
ایسے میں جیمزچاڈوک نے آکر اپنی تھیوری سے علم کی ایک اور دنیا سے انسانیت کو روشناس کرایا، اس نے ثابت کیا کہ مادہ لاینفک نہیں ہے ، یہ اپنے اندر اور بھی جزو رکھتا ہے ، بہ قول اقبال :
لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرّے کا دل چیریں

اور پھر آئن سٹائن نے آکر اپنی تھیوری سے دنیا میں بھونچال برپا کر دیا ، اس دور کی سائنس کو جڑ سے ہلا دینے والی اس کی تھیوریز نے دو چیزیں ثابت کیں نمبر ایک زمان و مکان الگ نہیں بلکہ ایک ہی جہت ہیں ہم تین جہتوں کا ادراک رکھتے ہیں(لمبائی ، چوڑائی اور گہرائی)۔ اس نے بتایا ایک جہت اور بھی ہے وہ ہے زمان و مکان کی جہت اور دوسرا یہ کہ وقت یکساں نہیں رہتا بلکہ یہ رفتار پرمنحصر ہے، اگر روشنی کی رفتار سے سفر کیا جائے تو مسافر کے لیے وقت کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ وقت کے بارے میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ سیل رواں نہیں ہے بلکہ لمحوں کی ایک لا متناہی سیریز ہے ،یعنی وقت کی مثال بچے کی اس کاپی کی سی ہے جس میں وہ مختلف صفحوں پر ایک کارٹون بنا کر جب تیزی سے صفحات پلٹتا ہے تو وہ کارٹون اسے چلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہ تھیوری زیرِ بحث واقعات کا تسلی بخش سائنسی ثبوت پیش کرتی ہے۔

یہ بات ہم نے سمجھ لی کہ ایک چوتھی جہت بھی ہے (اور کسے معلوم اور بھی جہتیں ہوں، جدید سائنس تو دس جہتوں کو مانتی ہے جن میں چھے سے ہم ابھی واقف نہیں) اب اگر کوئی مخلوق اس چوتھی جہت کی ہو گی تو اس کا شعور اور احساس ہمارے فہم سے کہیں بالا تر ہے ، اس کی مثال یوں لیجیے کہ انسانی کان ایک خاص فریکوئنسی میں سُن سکتے ہیں اور کتوں کے کان اس سے کہیں زیادہ تیز ہوتے ہیں چناںچہ کتوں کی سیٹی انسانوں کو سُنائی نہیں دیتی مگر کتے اس سیٹی پر فورا ًحرکت میں آتے ہیں ، اب ایسے میں تو کوئی اَڑیل ہی یہ بات کہے گا کہ سیٹی ویٹی کچھ نہیں یہ دقیانوسی بات ہے۔ ایک اور مثال پیش کرتا ہوں تصور کیجیے ایک مخلوق صرف دو جہتوں کا ادراک رکھتی ہے یعنی لمبائی اور چوڑائی کا۔ اس کے سامنے ایک دروازہ ہے اسے وہ دروازہ ایک دیوار کی مانند لگے گا۔ اب اگر وہ دروازہ کھول دیا جائے تو اسے ایسا لگے گا کہ دیوار(دروازہ)کا ایک بہت بڑا حصہ غائب ہو گیا اور ایک نئی دنیا غیب سے حاضر ہو گئی۔ چوںکہ وہ گہرائی کا ادراک نہیں رکھتی اس لیے دروازے کی موٹائی ہی اسے اب چوڑائی کے طور پر دِکھے گی اور چوڑائی چوںکہ نوے کے زاویے میں ہے اس لیے اس کی نظروں سے اوجھل ہو گی۔ ہم اگر یہ بات سمجھ لیں تو بہت ساری مشکلات کی قلعی کھلتی چلی جائے گی، چاہے وہ اس بات کا یقین ہو کہ ہمارے ساتھ کراماً کاتبین موجود ہوتے ہیں یا چاہے وہ جنات یا شیاطین کا معاملہ ہو۔ اگر کوئی مخلوق ہماری جہت کی ہے ہی نہیں تو اس کے افعال ہمارے لیے غیر مرئی اور ڈراؤنے تو ہو سکتے ہیں مگر اس کے لیے اتنے ہی آسان ہیں جتنا ہمارے لیے جادوئی طور پر کسی دو جہتی مخلوق کے سامنے دیوار (دروازہ)کو غائب کرنا ہے۔

اگر یہ مثالیں اور سائنسی تھیوریز ہمارے لیے قابلِ قبول ہیں تو ان واقعات پر انگلی اٹھانا چہ معنی دارد؟ اگر چوتھی جہت وقت کی قید سے آزاد ہے تو واقعہ معراج کی حقانیت میں شک کہاں رہ جاتا ہے؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع آسمانی پر معذرت خواہانہ توجیحات کیوں؟ حضرت عزیر علیہ السلام کے واقعے میں ان کی سو سالہ نیند کے دوران گدھا ہڈیوں کا پنجر بن گیا مگر ان کا کھانا تازہ رہا ، اور اسی طرح اصحاب کہف تین سو شمسی سال سوتے رہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ اللہ نے جو ان تمام جہتوں سے ورا ثم الورا ہے ان لوگوں کو کسی اور جہت میں ڈال دیا ہو ان کا وقت ہمارے وقت سے الگ کٹا ہو؟ ادھر دن کا کچھ حصہ گزرا ہو اور یہاں صدیاں بیت گئیں ۔ کبھی آپ نے سو کر اٹھنے کے بعد گھڑی دیکھے بغیر یہ حتمی یقین کیا کہ کتنا عرصہ سوئے؟کیا آپ پانچ منٹ کی نیند کے چکر میں کبھی دوگھنٹہ لیٹ نہیں اُٹھے؟ یہ بات ابھی آئی تھی کہ وقت بہتا نہیں تو ذرا تصور کیجیے ایک کمرے میں پانچ ٹی وی ہیں ، ہر ٹی وی پر ایک ہی فلم چل رہی ہے ایسے میں آپ اپنے دو عدد ٹی وی کو pause (ساکت)کردیں اور باقیوں کو چلنے دیں کچھ عرصے بعد ان دو کو دوبارہ play کریں تو اب کیا تمام ٹی وی پر ایک ہی منظر چل رہا ہو گا؟ نہیں نا؟ تو پھر مسئلہ کیسا؟ یہ معاملہ اللہ کے لیے اس سے کہیں زیادہ آسان ہے جتنا آپ کے لیے ریموٹ سے pause کا بٹن دبانا۔
یہ بات دوبارہ کہتا چلوں کہ یہ بات ہمارے ایمان و عقائد کا حصہ نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی ہمارا ایمان سائنسی تھیوریز کی چار دیواری میں مقید ہونا چاہیے۔ واللہ اعلم ہو سکتا ہے یہ تمام تھیوریز اور توجیحات غلط ہوں اور بات کچھ اور ہی ہو، جس کا ہمیں ابھی علم نہیں ۔ان باتوں کو یہاں درج کرنے کا مقصد صرف ان خیالات کا رد کرنا ہے جو دورِ حاضر میں مسلمانوں کو سائنس کے نام پر الحاد کے دہانے پر لا کر کھڑاکررہے ہیں۔

اب آخر میں یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس واقعے میں کیا سبق پوشیدہ ہے، ویسے تو یہ پوری سورہ ہی نہایت اہمیت کی حامل ہے اور ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں اس کی تلاوت کو اپنے معمولات کا حصہ بنانے کی تلقین بھی کی ہے اس سورہ میں چار واقعات درج ہیں کہ جو آپس میں نہایت مربوط ہیں ۔ اہل علم کی رائے میں یہ آخر الزمان میں پیش آنے والے دجالی فتنوں کی طرف نشان دہی کرتے ہیں، جس میں سے ایک فتنہ ایمان کا امتحان ہو گا، جیسے اصحابِ کہف نے اپنے ایمان کا امتحان سہا، ویسے ہی ہمیں بھی قدم قدم پر ایمان بچانا پڑتا ہے اور پڑے گا۔

ایسے میں ایمان بچانے کا طریقۂ کار کیا ہوگا؟ یہ بھی ہمیں اسی سورہ سے معلوم ہوتا ہے۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ان اصحاب کی سنت پر عمل کیا جائے ، جب فتنوں کا طوفان حد سے بڑھ جائے تو اپنے بچاؤ کے لیے پہلے اپنے آپ کو ان فتنوں سے الگ کیا جائے مگر ڈر کر نہیں بلکہ اس عزم و ارادے کے ساتھ کہ یہ میں راہ فرار نہیں ڈھونڈ رہا مگر اپنے آپ کو الگ کر کے ان فتنوں کا رد کرنے کی اور لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کی کوشش کروں گا، اس واقعے میں کہیں یہ نہیں درج کہ وہ لوگ ہمیشہ کے لیے الگ ہو گئے تھے بلکہ اشارہ تو یہ ملتا ہے کہ ان کا مقصد نئی حکمت عملی کی تلاش تھا جبھی اپنے ساتھی کو بازار بھیجتے وقت انہوں نے تلقین کی تھی کہ ایسا نہ ہو کہ تم پکڑے جاؤ اور ہم ناکام ہو جائیں ۔ صحیح احادیث میں بھی یہ بات صراحتاً درج ہے کہ ہمارے نبی ۖنے ہمیں حکم دیا تھا کہ جب دجال کا خروج ہو تو تم لوگ پہاڑوں میں چھپ جانا۔ اپنے آپ کو فتنوں سے الگ کرنے میں بہت مصلحتیں ہیں۔ انسان کے اندر اللہ نے ماحول سے اثر لینے کی صلاحیت رکھی ہے۔ اپنی بقا کی خاطر اور حیوانی جبلت کے تحت انسان جس موسم اور ماحول میں ہو، خود کو اس کے مطابق ڈھال لیتا ہے اس لیے اگر اپنے ایمان کے بارے میں خوف ہو تو عافیت اسی میں ہے کی بہ جائے فتنوں کے درمیان رہ کر ایمان کھونے کا رسک لیا جائے، اپنے آپ کو فتنے میں مبتلا کرنے والے لوگوں اور چیزوں سے حتی الامکان دور کیا جائے ۔

دوسرا طریقہ اس فتنے سے بچنے کا سورۃ کہف میں اس واقعے کے فوری بعد درج ہے ، اللہ نے آیت 28 میں فرمایا 

''اور جو لوگ صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے اور اس کی خوشنودی کے طالب ہیں۔ ان کے ساتھ صبر کرتے رہو اور تمہاری نگاہیں ان میں (گزر کر اور طرف) نہ دوڑیں کہ تم آرائشِ زندگانی دنیا کے خواستگار ہوجاؤ اور جس شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے اور اس کا کام حد سے بڑھ گیا ہے اس کا کہا نہ ماننا''  

یعنی صالحین کی صحبت اختیار کی جائے ، اللہ کی زمین وسیع ہے اور یہاں ہر وقت صالح لوگ موجود ہوتے ہیں ان کی صحبت اختیار کی جائے تاکہ فتنوں کے دور میں کوئی سہارا دینے والا ملے، اور پھر چوںکہ ماحول میں ڈھلنا انسان کی سرشت میں شامل ہے تو کیوں نہ اچھے سانچے میں ڈھلا جائے ؟ اور پھر نہ صرف یہ کہ اچھے لوگو کی صحبت اختیار کی جائے بلکہ بُروں سے بچا بھی جائے، ان سے دوری بھی اختیار کی جائے کہ کہیں یہ نہ ہو کہ خوش رہے رحمن بھی راضی رہے شیطان بھی کی بچگانہ کوشش میں انسان کہیں کا نہ رہے۔

اس فتنے سے بچنے کا تیسرا اور آخری طریقہ یہ ہے کہ قرآن سے جُڑا جائے اورآخرت کو یاد رکھا جائے جیسا آیت نمبر اُنتیس میں کہا گیا:

''اور کہہ دو کہ (لوگو)یہ قرآن تمہارے پروردگار کی طرف سے برحق ہے تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے۔ ہم نے ظالموں کے لئے دوزخ کی آگ تیار کر رکھی ہے، جس کی قناتیں ان کو گھیر رہی ہوں گی ۔''

اپنی آخری منزل یاد رہے گی تو دنیا کی بے ثباتی ہمیشہ ذہن میں رہے گی اور اعمال میں خود بہ خود بہتری آتی چلی جائے گی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہمیں اپنے پلے سے باندھ لینی چاہیے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے کہا کہ انسان کے دلوں کو زنگ لگ جاتا ہے جیسے لوہے کو زنگ لگتا ہے تو صحابہ نے پوچھا: اس کا علاج کیا ہے یا رسول اللہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کثرت سے موت کو یاد کرنا اور قرآن پڑھنا ۔اللہ ہم سب کو دورِ حاضر اور مستقبل کے تمام فتنوں سے محفوظ رکھے آمین ۔

اس تحریر میں اگر کوئی علمی اور شرعی کمی کوتاہی ہے تو اللہ مجھے معاف فرمائے اور آپ کے ذہن سے اسے حذف فرمائے۔ (آمین)

واللہ اعلم بالثواب

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں